لندن سکول آف اکنامکس اور پاکستان کی جمہوریت ، معیشت اور خارجہ پالیسی

Iftikhar Bhutta
افتخار بھٹہ

لندن سکول آف اکنامکس اور پاکستان کی جمہوریت ، معیشت اور خارجہ پالیسی

از،  افتخار بھٹہ

گزشتہ دنوں برطانیہ کے معتبر تعلیمی ادارے لندن اسکول آف اکنامکس میں ایشین ڈیولپمنٹ سو سائٹی کے زیر اہتمام پاکستان میں در پیش مختلف نوعیت کے ایشوز جس میں جمہوریت ، معیشت اور خارجہ پالیسی نمایا ں ہیں ان کے حوالے سے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سنیٹر شیری رحمان نے خارجہ پالیسی جبکہ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر مفتاح اسما عیل نے پاکستانی معیشت اور ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنما قمر زمان کائرہ نے سول ملٹری تعلقات کی روشنی میں پاکستان کے جمہوری اداروں کو کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ لندن واپسی سے فوراًبعد قمر زمان کائرہ سے سیمینار میں پیش ہونے والی گزارشات اور اظہار خیال کے حوالہ سے سوالات و جوابات کا موقع ملا۔ زیادہ تر گفتگو قمر زمان کائرہ کی تقریر کے حوالے سے ہوئی اس سے آپ اختلاف بھی کر سکتے ہیں مگر مجموعی طور پر یہ تمام تر گفتگو حقائق پر مبنی تھی جس میں پاکستان میں جمہوری سفر اور سول ملٹری تعلقات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیا گیا۔

پاکستان کے قیام کے نظریہ کے حوالے سے مختلف آراء موجود ہیں ترقی پسند راہنماؤں کے بقول یہ مسلم کمیونٹی کے حقوق کے مسائل کا مسئلہ تھا کہ وہ کس طرح ہندو اکثریت کی جبریت سے آزاد ہو کر زندگی گزار سکتے ہیں مگر بعض لوگوں نے اس کو مذہبی تناظر میں لیا اور اسلام کو نظریہ پاکستان کی بنیاد قرار دیا کہ یاد رہے جب نئی ریاست کا نام پاکستان تجویز ہوا تو اس میں پنجاب ، سندھ، بلوچستان، سرحد، کشمیر،وغیرہ شامل تھے جبکہ مشرقی پاکستان کا ذکر نہیں تھا حالانکہ اس صوبے نے سب سے پہلے پاکستان کے حوالے سے قرار داد منظور کی تھی جمہوری ادارے پاکستان میں قیام سے ہی بحرانی کیفیات سے دو چار رہے ہیں۔

ہماری اسمبلی قیام پاکستان کے نو سال بعد 1956میں بمشکل ملک کے بنیادی ڈھانچے آئین کو بنانے میں کامیاب ہوئی مگر اس کو جلد ہی ختم کر دیا گیا اور نہ ہی اس کے تحت انتخابات کا انعقاد ہو سکا تھا 1958میں صدر ایوب نے اسکندر مرزا کو بر طرف کر کے مارشل لاء لگا دیا جبکہ وہ وزیر دفاع کی پوسٹ پر تعینات تھا بعد میں ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا جس کو Tricker tape reception کا نام دیا گیا جس کا مقصد امریکہ کا پاکستان کو روس کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ تھا ایوب خان نے پارلیمانی نظام کی جگہ بنیادی جمہورتوں کا نظام قائم کر کے اشرافیاء کی جمہوریت قائم کی جس میں عوام کو براہ راست ووٹ دینے کا حق نہیں تھا بلکہ80 ہزار بی ڈی ممبر قوم کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے تھے۔

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخاب جیتنے کے لیے ہر قسم کی دھاندلی اور ظلم و ستم ڈھایا گیا ایبڈو کے ذریعے سیاستدانوں کو میدان سیاست سے باہر نکال دیا گیا 1956 تک جمہوریت کے غیر مستحکم ہونے کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ڈالی گئی اس ساری صورتحال کی وجہ یہ تھی کہ فوج کے علاوہ پاکستان میں کوئی مستحکم اور منظم ادارہ نہیں تھا جس طرح اسکندر مرزا کو وزیر دفاع کو جنرل ایوب خان نے معزول کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

ہمیں یہ بھی بات یاد رکھنی چاہیے کہ بر صغیر کی برٹش آرمی میں33فیصد نفری پنجاب سے تھی چنانچہ فوج کو بطور ادارہ قیام پاکستان کے بعد مختلف سیاسی اور ریاستی امور پر بالا دستی حاصل رہی اس نے سول اداروں کی سیلاب،اور دیگر قدرتی آفات میں بھرپور مدد کی اور اب بھی پاکستانی فوج نہ نظر آنے والے دشمن کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہے افواج پاکستان کی مدد حاصل کرنا سول ایڈ منسٹریشن اور حکومتوں کی مجبوری رہا ہے جبکہ سول حکومتوں اور سیاستدانوں کو ان تمام کمزوریوں اور نا اہلیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

ان سے یورپی معیار کی جمہوریت اخلاقیات اور روایات کو قائم کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کے جمہوری ارتقاء کا تجزیہ کریں تو یہاں پر تین طرز کے ادوار رہے ہیں جس میں پہلی اشرافیہ کی جمہوریت تھی جس میں عوام کا کوئی کردار نہیں تھا کیونکہ علاقائی پاور گروپس فوج کے ساتھ ملک کر حکومت کرتے رہے ہیں جس کی مثال جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا عہد ہے جو کہ آٹھویں ترمیم کی موجودگی میں کنٹرول قسم کی جمہوریت تھی اس ترمیم کے تحت چار مختلف حکومتیں بھی معزول کر دی گئیں جنرل ضیاء الحق کے عہد میں جہاد افغانستان کے بعد نئی نظریاتی صف بندیوں کا آغاز ہوا جس میں عوامی حقوق اور روشن خیال کی حوالے سے کیا ہوا کام جو کہ جمہوری سماج کی بنیاد ہوتا ہے تباہ کر دیا گیا۔ اور اس سیاسی خلاء کو غیر نظریاتی تجارتی کاروباری اور مذہبی فرقہ وارنہ گروپوں کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس کے بعد ملک میں جس قیادت کو ابھارا گیا اس کا انسانی حقوق اور روشن خیالی سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کی مثال فاٹا ہے یہاں پر جہاد افغانستان کے بعدخوانین کی جگہ فرقہ وارانہ انتہا پسند جہادی تنظیموں نے لے لی اور آج اُن کے حامی گروہ فاٹا کے پختونخواہ یا وفاق میں انضمام کے خلاف ہیں 1988سے1999 تک یہاں پر ما تحت شراکتی جمہوریت قائم رہی جس میں سویلین منتخب قیادتوں کے اہم امور میں کردار کو محدود کر دیا گیا کبھی بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا احتساب کے نام پر انتقام لیا گیا جنرل پرویز مشرف بھی آٹھویں ترمیم کی موجودگی میں مضبوط ترین صدر تھا اور احتساب کے نام پر بلیک میلنگ کر کے مختلف پارٹیوں سے منتخب ہونے والے افراد کو اپنے ساتھ ملا کر نیم پارلیمانی جمہوریت اختیار کی یہ بھی شراکتی جمہوریت کا دور تھا۔

2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے آئین کو پارلیمانی وفاقی روح کے تحت بحال کرنے کی کوشش کی نیشنل فنانس اجلاس کا اجراء ہوا صوبائی خود مختاری کے مسائل حل ہوئے جس سے بلوچستان میں چلنے والی علیحدگی پسند تحریکیں کمزور ہوئیں پختون خواہ کے لوگوں کو صوبے کی نام کی تبدیلی سے اپنی شناخت کا احساس ہوا اقتدار کی منتقلی کا آئینی طریقہ طے ہوا الیکشن کمیشن کو خود مختار بنانے کی کوشش کی گئی مگر اتنے پچیدہ آئینی اور قانونی مسائل حل کرنے کے باوجود پیپلزپارٹی کی کاوشوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔

2013 کے انتخاب جس فضا میں ہوئے وہاں پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابات میں دہشت گردی کے خوف اور دھمکیوں کے تناظر میں سر گرمیوں کو محدود کر دیا گیا جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن آزادنہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی اُن پر کوئی خود کش حملہ یا دہشت گردی کی واردات ہوئی یہی وجہ ہے انتخابات میں سر گرم تحریک نہ چلانے کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور دیگر ترقی پسند جماعتوں کا ووٹر متحرک نہ ہو سکا اوران کا جماعتوں کے ساتھ رابطہ کمزور ہوا آج ہمیں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے بعض اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کرتی ہوئی ایسی جماعت دکھائی دے رہی ہے جو کہ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔

اگر اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کوئی قومی نظریاتی یا آئینی مفادات کے لیے تضادات نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد اپنی نا تکمیل ذاتی خواہشات کا حصول ہے حکومت میں رہتے ہوئے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا تاثر پاکستانی سیاسی بحران کی نئی جہت ہے بہر صورت پاکستان کے سیاسی نظام میں ہر ادارے کا کردار ہے باہمی شراکت اور متوازن رویوں سے ہی جمہوریت کو عوام کے مفاد کی خاطر مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور سیاسی خاندانی مقامی صوبائی اور وفاقی اجارہ داریوں سے آزادی کی صورت نکل سکتی ہے تا کہ یہاں پر جمہوریت کا نظام عوام کے ذریعے اور عوام کی خاطر قائم کیا جا سکے۔