اپنا شہر

بلال مختار

اپنا شہر

کہانی از، بلال مختار

بچے سکول چھوڑنے کے بعد میں سیدھا گھر لوٹ آئی تھی اور شام ڈھلے طلباء کو آن لائن کورسسز کروانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔یہ ایسی ہی اک عام سے بہاؤ میں بہتی دوپہر کا ذکر تھا۔گھر میں مکمل تاریکی چھائی ہوئی تھی اور میں اپنے مطالعہ کے کمرے میں بیٹھی نئے سمسٹر کا کورسُ بُن رہی تھی۔آج عام دوپہروں سے ہٹ کرگاڑیوں کا شور بھی کم سننے کو مل رہا تھا۔کمرہ کیا تھا بس اک پلندہ سا تھا، چاروں اطراف کتابوں کا انبار تھا اور بہت سے ادھورے صفحات منہ چڑا رہے تھے۔ دیواریں تک میرے ہفتہ وار اوقات اور مصروفیات سے بھرے ہوئے تھے۔ اکثر میں ہنس بھی دیتی کہ کوئی جاننے والا میرے اس خاص کمرہ تک پہنچ آیا تو وہ کیا سوچے گا۔اتنا بکھرا بکھرا سا سامان،چپکنے والا نوٹس دروازے سے ایسے لپٹے تھے کہ جیسے بھاگنے کی حتی الامکان کوشش میں ہوں مگر ناکام رہے۔ دراز ادھ کھلے کچھ کہتے ہوئے جیسے توجہ کے طالب ہوں۔کمپیوٹر چوبیس گھنٹے آن اور آن لائن بھی رہتا۔

یہ میرا برقی طریق سے تدریس کا تیسرا سال تھا۔ گھر بیٹھے مالی ضروریات بآسانی پوری ہوتی رہتیں۔بچوں کو سویرے سکول چھوڑے دیتی ، سہہ پہر تک ان کی واپسی ہوتی تو پھر بچوں کی کُل کائنات پَر پھیلائے میرے سامنے روبرو ہوتی۔ ان کے ساتھ مل کر ہوم ورک مکمل کرنا، باغ میں کھیل کھیلنا اور شام کو بہترین سا کھانا بنانا اور خوب سیر ہو کر ٹی وی دیکھنا۔

دیکھا جائے تو باہر کی دنیا سے دو طریقوں سے خبریں مجھ تک پہنچ پاتیں۔اک شام کو ٹیلی وژن دیکھنا اور دوسرا میرے ننھیال بچے اخبار بن کر آتے۔رابیل کی عمر نو سال جب کہ ارحم پانچویں سال میں تھا۔ارحم کی دوسری سالگرہ ہی افتخار سے طلاق کا دن بھی تھا۔جب دونوں بچے سکول سے لوٹتے تو انہیں یونیفارم تبدیل کرواتے ہوئے دن بھر کی مصروفیات پوچھا کرتی۔ ارحم تو یس ماما،نو ماما کہتا ہوا بات کو سمیٹ دیتا۔ دوسری طرف رابیل سے اک سوال کے جواب میں پورے کا پورا تھیسس پیش کر دیا جاتا۔

’’ماما! وہ اپنی مس رومیسا نہیں ہے ناں! وہی گھنگھریالے بالوں والی۔ و ہ آج بہت کم میک اپ کر کے آئی تھیں۔ سرخی تک مکمل کناروں کو چھو نہیں سکی تھی۔ ہم نے پوچھا تو مس نے ڈانٹ دیا۔ سبق یاد کرنے کے دوران شانی نے جواب نہیں دیا تو انہوں نے خوب سنائیں۔۔۔‘‘

رابیل کی طویل داستان سنتے ہوئے میں تب تک ارحم کے کپڑے بدل دیتی اور میز پہ کھانا چُن لیا ہوتا ۔ میری یہی عام سی روٹین گزشتہ تین سالوں سے چلی آ رہی تھی۔طلاق کے بعد باہر کی دنیا سے کافی حد تک رابطے منقطع کر چکی تھی۔اول اول تو فون بجتے رہتے اور میں اُوں آں کرتی رہتی۔ آہستہ آہستہ میرے قریبی دائرے میں آباد احباب بھی دور ہوتے چلے گئے اور میں اک طرح سے مکمل گوشہ نشینی میں ڈوب چکی تھی۔ہفتہ کے ہفتہ بازار سے راشن پانی ایک ساتھ لے کر چلی آتی۔ جو کچھ منصوبہ بندی سے ہٹ کے رہ جاتا تو ڈائری میں درج کرتی جاتی تاوقت یہ کہ اک اور ہفتہ زندگی کے دروازہ پہ دستک دے رہا ہوتا۔

میں نے اپنے کمرے میں مکمل طور پہ مدغم ہوجانے کے بعد کافی کا مگ اک طرف رکھا اور معمول کے مطابق ای میلز سے شروعات کیں۔سب سے اوپر طلباء کے گزشتہ سمسٹر پہ طلباء کے تبصروں کا لنک بھیجا گیا تھا۔جامعہ کی ویب سائٹ پہ جاتے ہی میں نے باترتیب تبصروں پہ نظریں پھیرنا شروع کردیں۔ مگر یہ سرسری دیکھنا زیادہ طویل ثابت نہ ہو سکا۔ اک طالبعلم نے تبصرہ دیا ہوا تھا:

’’کورس کے ساتھ ساتھ مس نازنیں کو بھی اپ گریڈ کیا جائے۔ لفظ اپ گریڈ کو بڑا اور واضح انداز میں ٹائپ کیا گیا تھا۔ ‘‘

اک اور نے لکھا تھا:

’’میں جب بھی مس نازنیں کی جماعت میں شامل ہوتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کس قدیم مصر کی گلیوں میں چہل قدمی کر رہی ہوں۔ مجھے تاریخ سے دلچسپی تھی مگر اب لفظ تاریخ سے بھی دل بھرا بھرا سا رہنے لگا ہے۔‘‘

مجھے پے در پے دھچکے لگے،میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اک زمانہ میں کالج میں بہترین استانی کا ایوارڈ جیتنے کا اعزاز سجانے والی یوں تبصروں کی زد میں تھی۔ پھر میں نے تیسرے تبصرے پہ کلک کیا کہ ہر کلاس میں کچھ منفی سوچیں ضرور ہوتی ہیں اور بیک وقت سب ہی طلباء کو اپنا گرویدہ بنانا ناممکن سا امر معلوم ہوتا ہے۔آئندہ تبصرہ جات عمومی سے خانہ پوری والے تھے۔اک اور کچھ ہلا دینے والا محسوس ہوا،لکھا تھا:

’’مس اچھا پڑھاتی ہیں مگر ان کا لباس انتہائی پرانا اور گھسا پٹا سا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صدیوں سے لباس تبدیل نہیں کیا گیا۔ ‘‘ اس کے آگے بزور ہنسنے والی ایموجی ڈالی گئی تھیں۔ مزید لکھا تھا:

’’وہ جب بھی کرسی سے اٹھ کر کوئی کتاب اٹھانے کے واسطہ حرکت کرتی ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کرسی نامکمل سی ہوگی ہو۔ لباس پہ بے تحاشا شکنیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اک عرصہ سے استری نہیں کی گئی۔‘‘

یہ پڑھتے ہی میں ٹھک ٹھکا سا گئی۔اب میں اپنے لباس پہ بغور دیکھ رہی تھی۔ کمپیوٹر اسکرین سے ہٹ کر آئینہ دیکھا تو مرجھایا ہوا سا چہرہ نظر آیا۔ آنکھوں کے ارد گرد ہلکے سے بنے ہوئے تھے۔ جیسے جیسے میں اپنے آپ پہ غور کرتی چلی گئی میرے اندر کا اعتماد مزید پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔کچھ ہی سمے بعد میں نے سبھی تبصرے پڑھ ڈالتے اور ایسے نکتہ نظر سے غور کرنے لگی جیسے بھیگی بلی اپنے مالک کے سامنے اپنے تمام تر خامیوں سن رہی ہو۔ اسے لگ رہا ہوکہ جو مالک کہہ رہا وہ سچ ہے۔اس نے جو جو سوچا تھا وہ اس کی دماغ کا فتور تھا۔ حقیقت صرف وہی ہے جو اسے گوش گزار کی جا رہی ہے۔

کیا دنیا میں ایسا بھی کوئی کونہ ہے جو مجھے ان تمام انسانوں سے دور لے جائے۔مجھے شدید قسم کی گراوٹ کا احساس لمحہ بہ لمحہ چڑھان چڑھتا معلوم ہو رہا تھا۔ جہاں بس دو وقت کھانے کو ملے اور کچھ رہنے کو گھر ہو اور بس۔

مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کس نہج پہ سوچ رہی ہوں۔میری منزل کس رخ پہ ہے؟ بس عجیب عجیب سے خیالات دل و دماغ میں جالے بنتے چلے گئے۔پر کچھ تھا جو مجھے ان سبھی منفی تجربات سے گزر جانے کے باوجود بھی روکے جا رہا تھا۔

میں باورچی خانہ میں چلی گئی۔کیوں چلی گئی، کچھ پتہ نہیں۔ واپس آئی اورملحقہ باتھ روم میں چکر کاٹنے لگی۔دو منٹ کے بعد میں دوسری دفعہ دانت صاف کر رہی تھی۔ حالانکہ صبح سویرے اک دفعہ برش کر چکی تھی۔چند منٹوں کے بعد میں نے مزید غور کیا تو میں چھت پہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ اندھیرے میں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی اور جو تھوڑی بہت روشن دانوں سے پہنچ رہی تھی وہ دیوار پہ دیکھنے میں معاونت کر رہی تھی۔ چھت کا دروازہ کھولنے کے بعد میں دوسری چھت پہ چکر کاٹنے لگی۔اب اک دوسرے گھر کے دروازے سے باہر نکل رہی تھی۔ کچھ دیر بعد تک گلی کے نکڑ تک جانے کے بعد احساس ہو اکہ مجھے تو یاد ہی نہیں کہ میرا اپنا گھر کون سا ہے۔ میں واپس پلٹی اور گلی کے دوسرے کونے تک بغور چلتی چلی گئی۔ اس دوران سارے سالوں کے طعنے،منفی احساسات،تہمتیں اور بہت کچھ یکجا ہوتے جارہے تھے۔ آوازیں کا شور کہیں نہیں تھا بس جسم کی اندرونی تہہ پہ خیالات بہت سی مکڑیوں کی صورت میں جالے بنتے جا رہے تھے۔

گلی کے اس کونے تک پہنچنے کے بعد بھی اپنا گھر نہیں پہچان رہی تھی۔گماں گزرا شاید دوسری گلی میں میرا گھر ہے۔ اس طرف آہستہ آہستہ چلتی گئی۔دماغ پہ عجیب سا بوجھ سوار ہو گیا تھا۔ اچانک دل میں عجیب سا خیال کودا۔میرے گھر کے باہر پلیٹ پہ میرا نام ہو گا مگر میرا نام کیا تھا؟

اف خدایا، یہ مجھے کیا ہو گیا، یہ میں کس طرف چلتی جا رہی ہوں۔ میں اک طرف رک سی گئی اور سوچنے لگی میرا نام میرے کارڈز یا کسی کاغذ پہ لکھا ہوا ہو گا۔ جیب ٹٹولے مگر ندارد۔ دو مختلف رنگوں کے قلم تھے اور بس۔ان رنگوں کے نام کیا تھا؟

او میرے اللہ، یہ مجھے کیا ہو گا۔مجھے اپنا سارا پتہ بھولتا جا رہا تھا۔جتنا یاد کرنے کی کوشش کرتی جا رہی تھی،اتنا ہی بھولتی جا رہی تھی۔مزید خوف کی تہہ دماغ پہ تیرنے سی لگی۔میں نے سوچنا چھوڑ دیا۔پر مجھے گھر جانا،کیوں گھر جانا؟ اک اور سوال آواز وارد ہوئی۔کیوں،یہ تو مجھے نہیں پتہ۔پھر اک ترتیب لڑائی کے ہر گزرنے والے کے چہرے پہ بغور دیکھی جاتی تانکہ کوئی مجھے پہچان سکے۔ شاید میرا نام لے لے یا شاید مجھے گھر چھوڑ آئے۔ مجھے بہت عجیب سا محسوس ہو رہا تھا مگر اس کے سوا چارہ نہیں رہا۔

شام ڈھلنے لگی تھے اور میں شاہراہ کے اک طرف چلتی جا رہی تھی۔اتنے میں اک گاڑی میرے آگے آ کر رکی اور نوجوان نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا:

’’ایکسکیوز می! کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟ آپ کدھر جا رہی ہیں؟‘‘

میں کچھ دیر کو سوچنے لگی کہ مجھے کہاں جانا ہے۔اسی دوران مجھے نوجوان کی آواز سنائی دی :

’’آئیں! میں آپ کو لاری اڈے تک چھوڑ آتا ہوں۔ شاید آپ دوسرے شہر سے آئی ہیں۔‘‘

میں مسافر سیٹ پہ بیٹھ گئی، ہمارے درمیاں کچھ بات نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد اس نے مجھے سڑک کے اک کنارے اتار ااور اشارتا بتایا :

’’محترمہ! آپ کو وہاں پہ اندرون اور بیرون شہر کی گاڑیاں مل جائیں گی۔‘

یہ اک ایسا لمحہ تھا کہ مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا بس اک پریشر تھا جو مجھے چاروں اطراف سے بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ مجھے کچھ تو کرنا ہے،مجھے شاید کہیں جانا ہے۔ وہ ڈرائیور بھی کچھ ایسا ہی کہہ رہا تھا۔شاید یہ دوسرا شہر ہے۔ پر میرا شہر کہاں پہ ہے؟

اتنے میں اک نوجوان بہت سی آوازوں میں سے میرے قریب آتا ہوا کسی شہر کا نام پکارنے لگا۔ شاید وہ کنڈکٹر تھا،اس نے ایسا کہا جیسے مجھے لگا میں بھی اسی شہر کو جا رہی ہوں۔ شکر تھا کہ ابھی تک کنڈکٹر ٹکٹ کاٹنے کو قریب نہیں آیا تھا۔ کچھ دیر بعد میں گاڑی میں سوار اپنے شہر کو جا رہی تھی۔ہاں مجھے اپنا کھویا ہوا شہر مل گیا تھا۔