احسن اقبال کا سوال؟

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

احسن اقبال کا سوال؟

از، ملک تنویر احمد

خدا کا صد شکر ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے۔ نارووال میں ایک جلسے سے واپسی کے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملہ آور کی جانب سے کی گئی فائرنگ سے وہ گھائل ہوئے لیکن قسمت نے یاوری کی کہ ان کی جان بچ گئی۔ ان سطور کو سپرد قلم کرتے وقت کی اطلاعات کے مطابق ان کی حالت تسلی بخش ہے اور خطرے سے باہر ہے۔ احسن اقبال پر حملہ انتہائی تشویش ناک صورت حال کی جانب نشان دہی کرتا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ایک جنونی کی کاروائی ہے جو ختم نبوت ﷺ کے معاملے پر نواز لیگ کی جانب سے کی گئے حلف نامے میں ترمیم پر مشتعل تھا۔

ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے اس کی صحیح صورت حال اس واقعے کی مکمل انکوائری کے بعد ہی قوم کے سامنے آئے گا۔ احسن اقبال کو حملے کے بعد جب نارووال کے مقامی ہسپتال میں ابتدائی طبی امداد کے بعد لے جایا گیا تو ہمارے ایک دوست حسیب سرور بھی ہسپتال پہنچے۔ حسیب سرور کی احسن اقبال سے قربت ہے اور روزگار کے سلسلے میں نارووال میں ہی مقیم ہیں۔

حملے کی اطلاع ملتے ہی وہ سیدھے ہسپتال پہنچے۔ نارووال کے ہسپتال میں احسن اقبال کو تین گھنٹے تک طبی امداد دی گئی جس کے بعد انہیں لاہور روانہ کر دیا گیا۔ حسیب صاحب ان تین گھنٹوں میں ہسپتال میں ہی رہے۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے احسن اقبال سے اپنی بات چیت کو شیئر کیا ہے۔ حسیب صاحب لکھتے ہیں کہ جب احسن اقبال کو لاہور روانہ کیا جا رہا تھا تو میں نے بھی انہیں الوداع کرنے والوں میں شامل تھا۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا۔ ’’حسیب ہمارا معاشرہ کس جاہلیت کی طرف جا رہا ہے؟‘‘

احسن اقبال کو خدا صحت و تندرستی عطا فرمائے کہ تکلیف کی حالت میں بھی کیسا شان دار سوال کر گئے۔ احسن صاحب بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک زرخیز ذہن کے مالک ہیں۔ تقریر میں ملکہ رکھتے ہیں اور جاندار تحریر کے مالک ہیں۔ بات کرنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں اور مخالفین کو جواب دینے کے لئے شائستگی اور اخلاق کا قرینہ بھی رکھتے ہیں۔ دشنام طرازی ان کا شیوہ نہیں اس لیے کبھی ان کی زبان سے اخلاق سے گری ہوئی بات سننے کو نہ ملی۔

احسن اقبال صاحب کی شخصیت قابل احترام ٹھہری کہ پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں اور قوم کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں لیکن زخمی حالت میں جو سوال انہوں نے حسیب سرور سے کیا، کیا یہ سوال ماضی اور حال کے حکمرانوں سے نہیں کیا جانا چاہیے جن میں احسن اقبال بھی شامل ہیں؟ یہ سوال ان حکمرانوں اور ان کے حامیوں اور حلیفوں سے بنتا ہے جو پچھلے ستر برسوں میں اس ملک کے اقتدار و اختیار کے سر چشموں پر قابض رہے، لیکن انہوں نے اس قوم کی حالت زار کو بدلنے میں کسی بصیرت، حکمت اور تدبر سے کام نہ لیا۔

احسن اقبال پر حملہ کرنے والا ان مذہبی جذبات سے مغلوب فرد ہے جنہیں محدود مذہبی و مسلکی مفادات کی آبیاری کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ فرد ایک نہیں ہے بلکہ معاشرے میں ان گنت افراد موجود ہیں جو کسی بھی وقت اپنی مخالف رائے کو بندوق کی گولی سے اڑانے کے جذبات سے سرشار رہتے ہیں۔ یہ تنگ نظر ذہنیت معاشرے میں ایک ان دیکھی مخلوق کی طرح چار سو موجود ہے۔

احسن اقبال کے قائد محترم میاں نواز شریف تو خدا جانے کس خلائی مخلوق کی بات کرتے ہیں لیکن احسن اقبال پر حملہ کرنے والا اسی خلائی مخلوق کا ہی حصہ ہے جو معاشرے پر کسی عذاب کی طرح مسلط ہے۔ ان حکمرانوں نے اس معاشرے اور اس میں بسنے والے فرد کی کتنی تعمیرکی اس کا ثبوت چار رقصاں ننگی حیوانیت، جنونیت اور شدت پسندی سے عیاں ہے۔ جناب احسن اقبال کی جماعت اس ملک میں تین بار مرکز میں اقتدار میں رہی اور آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ اس جماعت کا وژن دو چار سٹرکوں، میٹرو ٹرین اور اورنج ٹرین سے آگے نہیں بڑھ پا رہا۔

اس معاشرے میں سڑکوں اور میٹرو ٹرینوں کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاشرے کو پہلے تو انسانوں پر مشتمل سماج تو بناؤ۔ اس میں بسنے والے فرد کی تعمیر تو کرو کہ وہ ایک مفید شہری ثابت ہو۔ اس معاشرے کا جس طرح تار و پود بکھر رہا ہے اس میں انسان نہیں بلکہ تنگ نظری و جنونیت کے وہ پتلے تیار ہو رہے ہیں جنہیں فساد، دہشت گردی اور لاقانونیت کی آگ میں ایندھن کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔

مزید ملاحظہ کیجیے: احسن اقبال جیسے انسان اور وزیر کی پاکسانیت پرستی

ریاست کے ادارے جب اس تنگ نظر سوچ کے سامنے جھک جائیں تو پھر ایسے ہی واقعات جنم لیتے ہیں جس کا سامنا احسن اقبال کو کرنا پڑا۔ زمانہ حال میں ریاست فیض آباد دھرنے پر کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمین بوس ہو گئی تو اس وقت جناب احسن اقبال ہی وزارت داخلہ کے عہدے پر براجمان تھے۔ سیاسی حکومت جب اشاروں کنایوں میں پس پردہ قوتوں پر الزام لگا کر اپنی جان خلاصی کی کوششوں میں مصروف رہے تو ایسی حکومت کا اپنی بے وقعتی کا احساس کرتے ہوئے گھر ہی رخصت ہو جانا ہی بہتر تھا۔

اس ملک میں سیاسی حکومتوں کو فقط اپنے دور اقتدار کی تکمیل کا خبط ہی سوار ہے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس ملک اور اس میں بسنے والی قوم کی تعمیر بھی ہور ہی ہے یا پھر چند گروہ انہیں ڈھور ڈنگروں کی طرح ہانکتے ہی رہیں گے۔ میاں نواز شریف آج کل اس ملک میں ووٹ کی عزت کی دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ میاں صاحب ووٹر کی بھی عزت ہوتی ہے۔ ان ووٹروں پر مشتمل قوم کی بھی کوئی عزت ہے، ان کی بھی توقعات ہیں، ان کی بھی امنگیں ہیں اور خواہشات ہیں کہ وہ ایک ایسے سماج کا حصہ ہوں جہاں کوئی جنونی، قاتل، حیوان اور دہشت گرد ان کی جانوں کے درپے نہ ہو۔

وہ معاشرے میں صحیح معنوں میں آزاد شہری ہوں جہاں ان کی سوچ اور فکر پر پہرے نہ ہوں۔ جہاں کوئی نادیدہ قوت ان کے نظریات کی بنیاد پر ان پر حملے کے لیے گھات نہ لگائے بیٹھی ہو۔ جہاں عقیدے کی بنیاد پر امتیازی برتاؤ کا چلن عام نہ ہو۔ میاں نواز شریف صاحب ! موٹروے اور میٹرو بسوں کے منصوبوں سے معاشرے ترقی نہیں کرتے۔ معاشرے فرد کی تعمیر سے پنپتے ہیں، فرد کی تعمیر کے لحاظ سے آپ کا نامہ اعمال بانجھ عورت کی گود کی طرح خالی ہے۔

فرد کی تعمیر کا بھاری پتھر آپ نہیں اٹھا سکے اور شاید اسے اٹھانا آپ کے بس میں نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے ایک رہنما کی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے اور آپ ٹھہرے فقط ایک سیاست دان جسے اگلے انتخابات جیتنے کے لیے ہر بار ایک نیا سوانگ رچانا پڑتا ہے۔