خلائی مخلوق اور خدائی مخلوق

Masoom Rizvi
معصوم رضوی

خلائی مخلوق اور خدائی مخلوق

از، معصوم رضوی

سیاست ایک تماشا بن چکی ہے یا بنا دی گئی ہے اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے، پہلے جوتے اچھالے گئے، سیاہی پھینکی گئی، وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ،  نیب کی جانب سے خطیر رقوم بھارت بھیجنے پر شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا لطیفہ اور ممبئی حملوں کے بارے میں نواز شریف کا بیان، بظاہر یہ سب واقعات الگ الگ ہیں مگر کہیں نہ کہیں یک جا ضرور ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ستر سال بعد بھی ہماری قیادت ملکی انتظام سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ آمریت اور جمہوریت کے درمیان ڈولتے عوام ہر مسیحا جیسا روپ دھارنے والے ہر بونے کو دیومالائی اوتار سمجھ کر منتیں، مُرادیں ماننا شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

اس وقت معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جماعت کا سیاسی گڑھ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ ن اور پنجاب پر نوازشات کے بارے میں دیگر صوبے اور جماعتیں ہمیشہ شکایات کرتی رہی ہیں، مگر اب معاملہ مختلف نظر اتا ہے۔ دیرینہ حلیف اب حریف بن چکے ہیں۔ عام تاثر ہے کہ میاں نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، یہ تاثر کتنا درست ہے اس کا اندازہ تو ہم سب اپنی اپنی سوچ سمجھ کے مطابق لگا رہے ہیں مگر اس میں بہرحال کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن بالخصوص پنجاب سے وابستہ اپنے ووٹ بینک پر یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔

ممبئی حملوں کے متعلق نواز شریف کا بیان موجودہ سیاسی تناظر میں دھماکا ثابت ہوا ہے، پہلے پہل ن لیگ کے رہنماؤں نے ڈھیلی ڈھالی وضاحتیں پیش ضرور کیں مگر نواز شریف نہ صرف اس بیان پر قائم رہے بلکہ دھڑلے سے قومی کمیشن بنانے اور ذمہ داران کو پھانسی پر لٹکانے کے مطالبے نے واضح کر دیا کہ وہ نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں بلکہ کسی طور پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں۔

ممبئی حملوں میں کیا ہوا، حقائق کہیں دھند کے پیچھے رو پوش ہیں، مگر اس متعلق تواتر کے ساتھ پرویز مشرف، اسد درانی، طارق کھوسہ کے بیانات کے حوالے ضرور سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن سیاسی میدان میں چالیس سال شہسواری اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف اتنے بھولے بہرحال نہیں کہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ ان کے اس بیان کا بھارت کس طرح فائدہ اٹھائے گا؟

اس کے باوجود کہ شریف خاندان لندن فلیٹس سمیت بے بہا جائیداد کا ثبوت دینے میں ناکام رہا ہے مگر 70 بار عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کے بعد مظلومیت  کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ کرپشن کے الزام میں کسی اور بڑی مچھلی کے خلاف کارروائی نہ ہو سکی، اس کے ساتھ ہی نواز شریف نے خلائی مخلوق کا فارمولا بھی سیاسی دانش مندی اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آزمایا ہے جو کسی طور مقبول بھی ہو چکا ہے چونکہ ان کے سیاسی حریف بھی اسی اصطلاح کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔

دوستو کیا یہ درست نہیں ہے کہ پاکستان میں ایوب خان کے ایبڈو سے لے کر آج تک احتساب کی شفافیت مشکوک رہی ہے۔ شاید اسی باعث کرپشن کے لتھڑے سیاسی راکھشش سیاسی انتقام کے نام پر دیوتا کو روپ دھارے اقتدار کے مزے لوٹتےنظر آتے ہیں۔ چار سال پہلے زرداری صاحب دلدل کی کرپشن میں ڈوبے اینٹ سے اینٹ بجاتے رضاکارانہ جلا وطن تھے آج اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ ایسی صورت میں سوال تو پیدا ہوں گے جن کا جواب کبھی نہیں ملا اور شاید نہ ہی ملے گا۔

4 ارب 90 کروڑ  ڈالرز بھارت بھیجے جانے پر نواز شریف کے خلاف تحقیقات کی پریس ریلیز خود نیب کی اہلیت اور نیت پر بڑا سوالیہ نشان اور دنیا بھر میں مذاق بن گیا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو یہ مٖفروضہ یا اسکینڈل 2016 میں پورے زور و شور سے اٹھا تھا اور پھر اسٹیٹ بینک نے باضابطہ تردید اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی تھی۔

اس حقیقت کے باوجود نیب جیسے ادارے کی جانب سے یہ حماقت ایسا بہت کچھ کہہ رہی ہے جس کو وضاحتوں اور بیانات سے نہیں دھویا جا سکتا۔  وزیر اعظم عباسی، چیئرمین نیب کو ایوان میں طلب کرنے کی بات کرتے ہیں تو سابق وزیر اعظم نواز شریف معافی اور استعفٰے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مزید دیکھیے: احسن اقبال کا سوال؟

کیا یہ مطالبات آئینی طور پر غلط ہیں مگر معذرت کے ساتھ  ہمارے یہاں آئینی اور غیر آئینی کی بحث بے معنی ہے۔ فیصلے شخصیات اور ہوا کا رخ دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عوام خلائی مخلوق کی کہانی کو سچ نہ جانیں تو کیا کریں؟

اس سے پہلے بھی بارہا عرض کر چکا ہوں کہ مقتدر حلقے پے در پے غیر منطقی فیصلوں سے نواز شریف کی مقبولیت میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے حوالے سے نہ صرف منی ٹریل فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ متضاد تقاریر اور بیانات سے معاملے کو سنگین بنانے کے بھی پوری طرح ذمہ دار ہیں، اس صورت حال میں ان کے خاندان پر کرپشن کے حوالے خاصے ٹھوس الزامات بھی موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس صف میں اکیلے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو کارروائی صرف ان کے خلاف کیوں ہو رہی ہے؟

وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ایک ایسی داستان کا آغاز ہے جس کا انجام شاید کسی کو پتہ نہیں، ن لیگ کو زک پہنچانے کے لیے مسلکی سیاست کا یہ ڈھول ریاست اور عوام کے گلے میں کیوں باندھا گیا؟ کس نے باندھا، یہ بھی دھند کے پیچھے چھپا ایک راز ہے، مگر یہ عیاں ہے کہ نفرت کے اس بیج کی فصل کو عوام کاٹیں گے۔

موجودہ سیاسی تناظر میں لگتا کچھ یوں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں ترازو کے ایک پلڑے میں اور دوسرے میں ن لیگ موجود ہے۔ اس سارے معاملے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا عمل اور نواز شریف کا رد عمل، دونوں کے اپنے اپنے مفادات کے گرد گھومتا ہے، ملک و قوم کے بارے میں صرف یہ دونوں ہی نہیں بلکہ کوئی سیاسی جماعت بھی نہیں سوچ رہی۔

شاید میں غلط ہوں مگر لگتا یوں ہے کہ کسی بھی لمحے خلائی مخلوق اور نواز شریف دوبارہ ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہو گئے تو ترازو کا توازن مختلف ہو جائے گا، اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ ایک پلڑے میں اور تمام سیاسی جماعتیں دوسرے پلڑے میں جھولتے نظر آئیں گے۔ بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت گرانے میں زرداری صاحب کا کتنا ہاتھ ہے سب کو پتا ہے، سینیٹ انتخابات میں اکثریتی جماعت کو اپوزیشن میں بٹھانے کے لیے زرداری اور عمران خان یک جا نظر آتے ہیں، اگرچہ تحریک انصاف اس کی تردید کرتی ہے مگر حقیقت حال تو یہی ہے۔

اب اگر کسی اسکرپٹ کے تحت معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے اور مخلوط حکومت بنے تو یہ صرف پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اشتراک کے بدولت ممکن ہے، کیا ن لیگ کو اقتدار سے دور رکھنے کی اور کوئی صورت ممکن ہے؟

اب آپ ہی بتائیے اس ساری داستان میں کس کے پاس وقت ہے کہ ریاست اور عوام کے معاملات پر غور کر سکے؟ عرب امریکہ اتحاد کے بعد خطے کی بدلتی صورت حال پر سوچ سکے، افغانستان اور بھارتی عداوت کو جواب دے سکے۔  پانی کی کمی کے سنگین بحران اور لوڈ شیڈنگ کا توڑ کر سکے، غربت اور بے روزگاری کے دیو کو قابو میں لائے، گرتی معشیت اور بڑھتی مہنگائی کو روک سکے، میرے پیارے سیاست دانو اگر کبھی آپ نے خدائی مخلوق کا خیال رکھا ہوتا تو آج خلائی مخلوق کی دُہائی دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ستر سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ریاست اور عوام کا معاملہ تو جون ایلیا کی زبانی کچھ یوں ہے کہ

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک

بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی