احتساب : پی پی، ن لیگ ، پی ٹی آئی

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

احتساب : پی پی، ن لیگ ، پی ٹی آئی

از، ملک تنویر احمد

پاکستان میں عملاً ون پارٹی کی حکمرانی قائم ہو چکی ہے۔ یہ بات بظاہر عجیب لگے گی کہ یہاں تو تین بڑی پارٹیوں کی مختلف صوبوں میں حکومت ہے تو پھر ایک پارٹی کی حکمرانی کس طرح قائم ہے کیونکہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں بر سر اقتدار ہیں۔

سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد کروڑوں پاکستانیوں نے خوش کن توقعات اور امیدوں کے چراغ جلائے کہ اب تین مختلف صوبوں میں تین مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مسابقت کی دوڑ میں عوام کی فلاح و بہبود اور اپنے اپنے صوبوں کی ترقی و کامرانی میں سر دھڑ کی بازی لگائیں گی۔ ان تین صوبوں میں اپنے اپنے منشور کے تحت کیے جانے والے اعلانات پر یہ جماعتیں اس طرح عمل پیرا ہوں گی کہ اگلے انتخابات میں مرکزی سطح پر اسمبلی کی نشستیں جیتنے کے لیے اپنے نامہ اعمال میں گڈ گورننس اور ترقیاتی کاموں کے وصف سجا کر پورے ملک کے عوام کو ان کے ذریعے اپنی جانب راغب کر نے کی سعی کریں گی۔

پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کوچہ سیاست و اقتدار کے پرانے باسی ہیں جب کہ تحریک انصاف کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ایک صوبے میں حکومت قائم کر کے اپنے منشور کے تحت ایسے انقلابی، عوام دوست اور ہمہ گیر اقدامات اٹھائے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ دوبارہ سے ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔ ایسے دل فریب سپنوں سے ہم پاکستانی اپنے دلوں کو تو بہلا سکتے ہیں لیکن یہ خواب کبھی شرمندہ تعمیر نہیں ہوتے۔

سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے لے کر آج جب ہم سن دو ہزار اٹھارہ کے قومی انتخابات سے چند ماہ کے فاصلے پر ہیں ایک ایسے سراب کا اختتام ہوا جس کے تعاقب میں کروڑوں پاکستانی اپنا وقت اور توانائی ضائع کر رہے تھے۔ ہمارے جیسے سادہ لوح اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پاکستان کے تین صوبوں میں تین مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں لیکن ساڑھے چار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد یہ راز طشت ازبام ہوا کہ کہ پاکستان کے تین صوبوں میں تین مختلف سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ ایک ہی سیاسی جماعت بر سر اقتدار تھی۔

یہ خوش فہمی اپنے انجام کو پہنچی کہ پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب میں، پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اور پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں برسر اقتدار سیاسی جماعتیں ہیں۔ حقیقت اس کے قطعی الٹ ہے یہ تین سیاسی جماعتیں ایک ہی سیاسی جماعت کا پر تو ہیں اور جدھر دیکھو بس تو ہی تو ہے۔

اس دعوے کی صداقت حقائق سے آشکار ہے کہ یہ تینوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا پر تو ہی ہیں۔ پاکستان کے عوام سے کیے گئے انتخابی وعدوں، جماعتی منشوروں، لارے لپوں اور مکر و فریب کے ہتھکنڈوں کا ایک جانب رکھیے کہ انہوں نے اپنے وعدوں پر کتنا عمل کیا اور اپنے دعوؤں میں کتنے بامراد ٹھہرے اس سے قطع نظر فقط ایک شعبہ لیتے ہیں جس میں ان تینوں جماعتوں کی کارکردگی پرکھی جا سکتی ہے۔

بدعنوانی سے پاک گورننس ایک ایسا شعبہ ہے جس کے بغیر امور مملکت کو بحسن خوبی نہیں نمٹایا جا سکتا۔ گڈ گورننس کا حصول اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب امور مملکت شفافیت کے سانچے میں ڈھلے ہوں اور ہر نوع کی بد عنوانی کی بر وقت بیخ کنی کی جا سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت رو ز اول سے بیڈ گورننس کا شکار رہی، بدعنوانی اور بد انتظامی کے لاتعداد الزامات اس پر لگے لیکن یہ اپنی جگہ پر ٹس سے مس نہ ہوئی۔ سائیں قائم علی شاہ کے بعد سائیں مراد علی شاہ کے دور میں ایک خفیف سی بہتری تو محسوس کی جاسکتی ہے لیکن گڈ گورننس کا خواب یہاں پر ’ہنوز دلی دور است‘‘۔

بد عنوانی کے خلاف جب نیب نے اس صوبے میں کار روائیاں شروع کیں تو سندھ کی صوبائی حکومت نے اسے صوبائی خو دمختاری پر حملہ قرار دے کر اس کی مزاحمت کی ہر ممکن کوشش کی۔ سندھ کے صوبائی وزراء، بیوروکریٹس اور اعلیٰ افسران کے خلاف نیب کی کارروائیوں پر صوبائی حکومت سراپا احتجاج بنی اور بجائے امور مملکت میں شفافیت لانے کے سندھ کی صوبائی حکومت نے اپنا احتساب کمیشن بنانے کی تگ و دو شروع کر دی۔

پارٹی سربراہ کی جانب سے بھی صوبائی حکومت کی کوئی سرزنش نہ ہوئی کہ خدا کے بندو! اپنی گورننس بہتر کرو بجائے دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت سندھ میں نیب کی کارروائیوں پر مسرور تھی کہ پی پی کی سندھ حکومت کی خوب مٹی پلید ہو رہی ہے۔ نیب نے اب پنجاب میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں مبینہ بد عنوانیوں کے سلسلے میں کاروائی کرتے ہوئے احد چیمہ کو گرفتار کیا تو جوہاہا کار پنجا ب حکومت کی جانب سے مچائی جا رہی ہے اس کا تو عشر عشیر بھی سندھ میں دیکھنے میں نہیں آیا۔

پنجاب حکومت کی شہ پر پنجاب کی سول بیورو کریسی کا ایک حصہ ہڑتال پر چلا گیا اور پنجاب حکومت کے ترجمانوں کی جانب سے اسے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے خلاف ایک ساز ش قرار دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی پنجاب حکومت جسے اپنی شفافیت اور گڈ گورننس پر بہت ناز ہے وہ نیب کے اس ایکشن پر آتش زیر پا ہے۔ یہ نیب سندھ میں کارروائیاں کرے تو داد و تحسین کا مستحق ٹھہرے اور اگر پنجاب میں کاروائی کرے تو اس پر تنقید و تضحیک کے حملے کیے جائیں۔

اب سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں میں کوئی فرق نظر آتا ہے تو لازماً قارئین آگاہ کردیں۔ اب عمران خان کی تحریک انصاف کے زیر انتظام صوبے خیبر پختونخواہ کو ملاحظہ کر لیں۔ عمران خان کی سیاسی جماعت کی حکومت کے زیر انصرام صوبے نے تو مرکزی احتساب بیوروکو اپنی حدود میں کاروائی کرنے سے باز رکھنے کے لئے اپنا صوبائی احتساب کمیشن تشکیل کر ڈالا۔ اب یہ صوبائی احتساب کمیشن کتنا موثر طور پر کام کر رہا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزراء اپنے صوبائی وزیر اعلیٰ کو کرپٹ قرار دیتے ہیں تو وزیر اعلیٰ اپنے وزراء کو اس لقب سے نوازتے ہیں لیکن عملاً احتساب کا کوئی ہتھوڑا کسی کے سر پر نہیں برستا۔

بنک آف خیبر اسکینڈل سے لے کر بلین ٹری سونامی کے منصوبے تک بے ضابطگیوں کی ایک لمبی داستان ہے لیکن سب مجرمانہ خاموشی کی چادر تان کر سو رہے ہیں۔ اب ایسی صورت میں کون پی ٹی آئی کے سر پر گڈ گورننس کی کلغی سجائے۔ اب Natha Singh versus Prem Singh, one thing and the same thing والا لطیفہ ن لیگ اور پی پی کے بارے میں ازراہ تمسخر کہا جاتا ہے تو اس میں تازہ اضافہ پی ٹی آئی کا بھی کر دیا جائے تاکہ سند رہے اور اگلے انتخابات میں عوام کو کوئی اس نعرے سے نہ بہلا سکے کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔