آج کا اُردو افسانہ : ابوالکلام قاسمی اور محمد حمید شاہد کا مکالمہ

یہ فکشن سے مخصوص دانش سے مالا مال ہے

آج کا اُردو افسانہ : ابوالکلام قاسمی اور محمد حمید شاہد کا مکالمہ
محمد حمید شاہد اور ابوالکلام قاسمی

آج کا اُردو افسانہ :  ابوالکلام قاسمی اور محمد حمید شاہد کا مکالمہ

نوٹ: (افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد محمد حمید شاہد  کو علی گڑھ ، ہندوستان سے چھپنے والےادبی جریدے “امروز”  کے مدیر اور ممتاز نقادابوالکلام قاسمی کی جانب سے فکشن پر مکالمہ کے لیے ایک سوال نامہ بھیجا گیا ۔ ای میل کے ذریعے ہونے والے  اس مکالمے کا کچھ حصہ امروز میں شائع ہو چکا ہے ، جب کہ مکمل مکالمہ ،جو اردو افسانے کی صورت حال کو سمجھنے میں یقیناً معاون ہو گا، ایک روزن پر فراہم کیا جارہا ہے۔ )  مدیر


“محترم ابوالکلام قاسمی صاحب!
آداب : آپ نے ای میل کے ذریعے جو سوال نامہ بھیجا ہے ، اس کے ساتھ ہی ایک خط میں اس سوال نامہ کی تمہید بھی موصول ہوئی ہے یہ عبارت ایسی ہے کہ سوال نامے سے پہلے اس نے ساری توجہ کھینچ رکھی ہے۔ اس مختصر سی عبارت میں آپ کے اپنے تنقیدی فیصلے بھی موجود ہیں۔ ایک ذہین ناقدہونے کے ناتے آپ نے ہمیں ایک خاص فضا میں رہ کر اپنے چھ سوالا ت کے مقابل کیا ہے، تو یوں ہے کہ اب یہ محض چھ سوالات نہیں رہے ہیں۔ اس میں کیا مضائقہ ہے کہ آپ نے ہمارے لیے جو فضا بندی کی ، پہلے ایک نظر اس پر ڈال لی جائے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ
” اُردو میں فکشن لکھنے کی روایت ماضی میں بہت دور تک نہیں جاتی۔”
آپ نے جو کہا بہ ظاہر درست لگتا ہے ، مگر ایک لحاظ سے یہ درست نہیں بھی ہے۔ جی ، ایک بیان ایک ہی وقت میں درست اور نادرست ہو سکتا ہے ، ایسا یہاں بھی ہوا ہے۔ دیکھیے کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ منشی پریم چند نے وہ جو۱۹۰۷ء میں کہانی لکھی تھی ’’روٹی رانی‘‘ ، یا پھر اس سے بھی پہلے علامہ راشد الخیری نے ایک خط کی صورت میں ۱۹۰۳ء میں ایک کہانی لکھ دی تھی ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ یہی اردو افسانے کے اولین نمونے تھے ، لہٰذا حساب لگا کر دیکھ لیجئے ہماری روایت لگ بھگ سو سوا سو سال بنتی ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔ یہیں میرادھیان نجانے کیوں رجب علی بیگ سرور کی کتاب ’’ فسانہ عجائب ‘‘کی طرف چلا گیا ہے حالاں کہ کلیم الدین احمد نے یہ تک کہہ رکھا ہے کہ زندہ ادب میں اس کتاب کی کوئی گنجائش نہیں۔ چلئے مان لیایہ کتاب مر گئی ہے اور کلیم الدین احمد ہی کے مطابق اب اس کی اہمیت اگر کوئی ہے تو محض تاریخی ہے مگرکیا اردو نثر نے اس سے کوئی اثر قبول نہیں کیا ؟، بجا کہ مقفٰی ، مسجع اور دقیق نثر آئندہ جاکر فکشن میں چلنے والی نہ تھی مگر کیا ، فکشن نے اس نثر سے کچھ حاصل نہ کیا۔ یہ جو داستان کا اس کتاب میں مختلف کرداروں میں راست مکالمے کا قرینہ ہے، منظر نگاری کو قصے کا حصہ بنایا گیا ہے ، رنگ رنگ کے کردار تراشے گئے ہیں اور قصے کو مربوط کرنے کے لیے اسی نثر میں اختصار قرینہ ہوا کیا یہ بعد میں ہمارے ہاں پھینک دینے والی چیزیں ہو گئی تھیں ؟ وہ کتاب جسے حضرت غالب نے بھی صاحب کتاب کے سامنے ’’اجی لا حول ولا قوۃ ‘‘ پڑھ کر کہا تھا’’اس میں لطف زبان کہاں‘ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔ ‘‘ آپ اس کتاب کو بھی اردو فکشن کی روایت کے ماضی سے کاٹ کر الگ نہیں کر سکتے۔ یہی قصہ ’’ سب رس‘‘ کا ہے، جو ملاوجہی کی طبع زاد نہ سہی، اسے اُردو کی ترقی یافتہ نثر کی اولیں کتاب کہا گیا، تو کیااسے اُردو فکشن کے ماضی سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے ، اسے بھی، اور اس میں مہاپُرانوں‘ اُپ پرانوں اور تانتروں نے جو حصہ ڈالا اور جس کے سبب شُکنتلا‘ ساوتری‘ رَمنا‘ اِشما‘اُما اوردُرگا جیسے کرداروں کی چھب اور للک جھلک بھی اُردو اَفسانے کی روایت کا حصہ ہو گئی ہے کیا اس سب کو اردو فکشن کے ماضی سے منہا کر دیا جائے۔ اور یہ جو اردو افسانے کی اب صورت بنی ہے کیا اس میں اس ماضی کا کوئی حصہ نہیں۔یہیں غالب کو ایک بار پھر یادکرلینے میں کیا قباحت ہے ، جی غالب کو، اور انہیں ان کی غزل یا سرور صاحب کے حوالے سے کہی ہوئی بات کے لیے نہیں ‘فکشن نگاروں کے مزاج متعین کرنے کے حوالے یاد کرتے ہیں۔ وہ جوڈاکٹر مسعودرضا خاکی نے اپنی کتاب ’’ اُردو اَفسانے کا اِرتقاء‘‘ میں یہ کہا تھا کہ اگر مرزا غالب کے خطوط نہ ہوتے تو اُردو کے جدید مختصر اَفسانہ میں کچھ خامیاں رہ جاتیں ، تو کیا یہ درست نہ کہا تھا۔ تو بھائی وہ جو میں نے آپ کے بیان کو ایک حوالے سے نادرست کہا، اسی پہلو کو مدنظر رکھ کر کہا ہے۔
لیجئے اب آپ کے دوسرے نقطے کی طرف آتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
“محض سو سال سے زیادہ عرصے میں اُردو فکشن کا منظر نامہ کچھ زیادہ مایوس کن بھی نہیں ہے۔”
مجھے آپ کے اس بیان سے کلی اتفاق ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہو رہی ہے کہ آپ فکشن کی اصطلاح کو یہاں اُردو کے تناظر میں رکھ کر دیکھ رہے ہیں یہی سبب ہے کہ آپ کا جملہ پڑھتے ہی ہمارا دھیان پہلے مر حلے میں افسانے کی طرف جاتا ہے اور پھر ناول کی جانب۔ میں نے جب اپنی کتاب’’اردو افسانہ:صورت ومعنی‘‘ میں یہ کہا تھا کہ ،اُردو فکشن کے مجموعی تجربے کو سامنے رکھ کردیکھا جائے تو مختصر اَفسانہ ہویا طویل مختصر اَفسانہ‘ ناولٹ ہو یا ناول فی الاصل اَفسانے ہی کی ذیل میں شمار کیے جانے چاہئیں۔ ہمارے ہاں اَفسانے نے ایک صدی کے عرصے میں کئی صدیوں کی مسافت طے کی ہے اور فکشن کی کوئی بھی فرع ہو اَفسانے کی مستحکم ہو چکی رَوایت سے اس کا بچ نکلنا محال ہوتا ہے۔ اسی بیان میں چھپا اردو افسانے کے کامیاب سفر کی جانب اشارہ ہے اور مجھے یقین ہے ایسا آپ نے اس صنف کے بڑی تعداد میں کامیاب فن پاروں کو سامنے رکھ کر نتیجہ اخذ کیا ہوگاکہ واقعی اس صنف کا دامن ایسے شاندار افسانوں سے مالا مال ہے جو اردو میں اور اسی فضا میں تخلیق ہو سکتے تھے۔ اگلا نقطہ جو آپ نے ہمیں ذہن نشین کرانا چاہا وہ یوں ہے:۔’’ تخلیقی ادب محض تنقیدی مفروضوں اور ادبی رجحانات اور تحریکات کے بل بوتے پربہت اعلی درجے کے نمونے پیش نہیں کر سکتا۔‘‘ اور یہ کہ ’’جینوین فنکار یا اس کا فن پارہ نہ کسی نظریے کا اسیر ہوتا ہے اور نہ محض ادبی رجحان کے بل بوتے پر آگے بڑھتا ہے۔‘‘
یہاں بھی آپ سے اختلاف ممکن ہے۔ جو آپ نے فرمایا اس پر دِل ٹھکتا ہے۔آپ کا یہ جملہ پڑھ کر مجھے وہ باتیں یاد آ گئی جو میں وقتاً فوقتاً دہراتا رہا ہوں کہ میرے نزدیک یہی راستہ تخلیقی عمل کو مرغوب ہے۔ آپ نے تنقیدی مفروضوں کی اصطلاح خوب استعمال کی۔ ان تنقیدی مفروضوں کا شاخسانہ ہے کہ تخلیقی عمل کی راہ میں رخنے ڈالنے کے لیے ادبی رجحانات اور تحریکوں کوغیر ضروری اہمیت دی جاتی رہی۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ایک حقیقی تخلیق کار اَپنے باطن میں کائنات کی سی وسعت لیے ہوتا ہے۔ وہ لفظ کے بھیتر میں موجزن معنی کے طلسم اور جمال کے بہتے دھاروں پر قدرت رکھتا ہے۔ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ لطف‘ تاثیر ‘گہرائی‘ گیرائی اور تعبیر کی تکثیر ایک جملے کی تقدیر کیسے بن سکتے ہیں۔ وہ زندگی کو دیکھتا ہے اور زندگی کے جوہر کو بھی۔ وہ کائنات پر نظر رکھتا ہے اور اَبدیت کے کنگروں کو بھی چھونے کا حوصلہ مند ہوتا ہے۔ وہ اَپنے اندر الفاظ‘ سوچوں‘ اَندیشوں‘ جذبوں کو سنبھال کر رکھنے اور اُنہیں اَپنے تخلیقی وجود کا حِصّہ بنا لینے کی للک اور قرینہ رکھتا ہے۔ بہتر قوت مشاہدہ‘مسلسل مطالعہ ‘زندگی سے گہرا ربط‘ لکھتے رہنے کی عادت اورلکھے ہوئے مواد میں سے مشقی حصوں کوالگ کرنے اور رد کرنے کا حوصلہ اچھے فن کار کے تخلیقی خواصِ خمسہ ہیں۔ میں یہ بھی کہتا آیا ہوں کہ تخلیق کے دورانیے میں فرد کا ذاتی جوہر مقدم رہتا ہے اس کارزار میں وہ اکیلا ہی اترا ہوتا ہے۔ فرد کی فکری اساس سوچنے سمجھنے کی راہ تو متعین کر سکتی ہے مگر تخلیقی عمل شروع ہونے پر جو راستہ اختیار کرتا ہے اس میں باقی چیزیں اور خارجی سہارے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی تحریک‘ کوئی نعرے لگانے والا ‘کوئی طے شدہ راستہ ساتھ نہیں ہوتا۔ اگر ایسے میں اپنے اندر بپا تخلیقی عمل سے وفادار ہونے کی بجائے دوسروں کے ساتھ نعرے لگانے کا راستہ اختیار کیا جائے تو تخلیق کے نفیس اور پراسرار عمل میں رخنے پڑنے لگتے ہیں۔ تحریکوں سے ہم پہلے بھی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ تاہم ایسی تحریکوں میں بھی باصلاحیت لکھنے والے جب جب تخلیقی عمل کی پراسراریت سے جڑے ہیں متوجہ کرتے گئے ہیں۔ تحریکیں اپنے عروج کے زمانے میں لکھنے والوں کے لیے ایک راہ متعین کردیتی ہے۔ ایسا کرنے سے نقصان ہوتا ہے کہ بہت کچھ فیشن کے طور پر لکھا جانے لگتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے والے کی اپنی فکر ہونی چاہئے ضرور ہونی چاہئے ،اس کاہم فکر لوگوں سے ربط ضبط بھی ہونا چاہیے مگر فن پارہ تخلیق کرتے ہوئے اسے اکیلا ہی ہونا چاہیے۔ آپ کی تمہیدی گفتگو کا وہ حصہ بھی اہم ہے جس میں درج ذیل قضیے نشان زد ہوئے ہیں :
’’اردو افسانے میں دو تین دہائیوں تک اسلوب ،بیان اور زبان کے تجربے کیے گئے اورادھردوتین دہائیوں میں ماضی میں درآمدہ موضوعاتی اور اسلوبیاتی رویوں میں سے محض ان کو تسلیم کیا گیا جو فکشن کے فن کے لیے لازمی طور پر کارآمد تھے۔‘‘
میں اندازاہ لگا سکتا ہوں کہ اول الذکر دوتین دہائیاں ، جن میں اسلوب، بیان اور زبان کے تجربے ہوئے یقیناً وہی ماضی ہے جس میں درآمدہ موضوعاتی اور اسلوبیاتی رویے پروان چڑھانے کے جتن ہوتے رہے ہیں۔ جی اگر میں آپ کا اشارہ درست درست سمجھا ہوں تویہاں آپ کے ذہن میں علامت کار اور تجرید نگار ہیں جن کا ایک زمانے میں خوب خوب چرچا رہا بلکہ ایک زمانے میں ساری عظمت کا حق دار یہی اسلوب،بیان اور زبان کے تجربے افسانے کے حصے میں آتا تھا اوروہ افسانہ جو ماجرے کو اور کہانی پن کو تکریم دیتا تھا اسے کاٹ پیٹ کر پرے دھکیلتا ،کسی فلسفیانہ جھونک میں کہیں اور نہیں نکل جایا کرتا تھا اپنے آپ کو مربوط رکھتا تھا، وہ انتظار حسین کے الفاظ میں ’’بے چارا اور غریب سا‘‘ لگتا تھا ؛ کہہ لیجیے بے توقیرا۔ مجھے یاد ہے ’بے چارا اور غریب سا ‘ کے الفاظ انتظار حسین نے منشایاد کے لیے منعقدہ ، ایک تقریب میں کہے تھے۔ تب وہ اسی تجربے والی فضا میں بھی کہانی سے وابستہ رہنے والے منشایاد کی کہانی پر بات کر رہے تھے جو اس فضا میں غیریبانہ سی شے دکھتی تھی۔ مجھے یاد ہے اس تقریب میں انتظار حسین نے شمس الرحمن فاروقی کے اس زمانے کو بھی یاد کیا تھا ،جب وہ تجریدی اور علامتی افسانے کو جدیدیت کا نشان بنا کر پیش کر رہے تھے اور ہندوستان سے لے کر پاکستان تک، اسی کی دھوم تھی اور بڑا بڑا نقاد اسی کا کشتہ تھا۔انتظار حسین نے بہت لطف لے لے کر اسی تقریب میں جو جملے کہے، وہ میں ہو بہ ہو یہاں نقل کررہا ہوں؛ ’’شمس الرحمن فاروقی جو ہمارے عہد کے سب سے بڑے نقاد ہیں انہوں نے کہا کہ انور سجادجدید افسانے کا معمار اعظم ہے۔جدید افسانے سے ان کی مراد تجریدی افسانہ تھا لیکن نقاد کسی کا ہو کر نہیں رہتا تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے انور سجاد کے افسانے اور ظفر اقبال کی رطب و یابس کو چھوڑ کر داستان امیر حمزہ میں زقند لگائی اور اس میں غرق ہو گئے۔ اب ہمیں وہ انور سجاد کے بارے میں کوئی روشنی نہیں دکھا رہے بلکہ وہ ہمیں داستان امیر حمزہ کے بارے میں بتا رہے ہیں۔حالاں کہ انور سجاد کا افسانہ خود ایک داستان امیر حمزہ ہے۔۔۔تو ہوائیں بہت تیز چل رہی تھیں۔ ‘‘ خیر انتظار حسین اورانورسجاد سے ایسے جملوں کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا اب تو انتظار حسین نہ رہے اور انور سجاد شدید علیل ہیں مگر ماننا ہو گا کہ علامتی اور تجریدی افسانے کی ہوا بہت تیز چلی تھی، مگر جب گزر گئی تو ناقدین ہی اسے کوس رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے قاری نے افسانے سے منہ موڑ لیا تھا۔ خیر ، اب جب کہ فکشن کی اپنی زبان الگ شناخت بنا چکی ہے اور شاعری کی زبان افسانے میں لگ بھگ متروک ہو گئی ہے‘فاروقی صاحب بھی افسانہ اور ناول کے تخلیقی کلاوے میں آچکے ہیں ، انورسجاد جیسے باصلاحیت اَفسانہ نگاروں کے بارے میں ایک آدھ چٹپٹا جملہ کہہ کر آگے بڑھ جانا زیادتی ہوگا، بات وہی درست ہے جو آپ نے کی ، یہی کہ اسلوب ،بیان اور زبان کے تجربوں میں سے محض ان کو تسلیم کیا گیا جو فکشن کے فن کے لیے لازمی طور پر کارآمد تھے اور کارآمد ہیں۔
ایک آدھ بات آپ کے اس موقف کے بارے میں، جو آپ کو علامت نگاروں کے بعد کے زمانے میں لکھے جانے والے افسانے پرکچھ تحفظات رکھنے پر اکساتا ہے۔اور آپ کا موقف میں نے جس جملے سے اخذ کیا وہ یہاں مقتبس کرتا ہوں:
’’۔ شاید اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہو کہ ادھر کئی برسوں میں افسانہ نگاری کے ماحول پر اضمحلال طاری ہے۔ یا تو بہت چونکانے والے فنکار سامنے نہیں آرہے ہیں یا پھر زیادہ تر پرانے لوگ اپنے آپ کو دہرا رہے ہیں۔‘‘
یہ جو آپ نے دو جملوں تین باتیں فرمائی ہیں ، انہیں پڑھ کر میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کی تشویش ’افسانہ نگاری کے ماحول پر طاری کئی برسوں کے اضمحلال‘ پر ہے یا اس پر کہ’ بہت چونکانے والے فنکار سامنے نہیں آرہے‘ یا پھر’ زیادہ تر پرانے لوگ اپنے آپ کو دہرا رہے ہیں۔‘ میں یہ تو مانتا ہوں کہ وہ ہنگامہ جو علامت نگاری اور تجرید کاری کے نام پر اٹھایا گیا تھا اس میں بہت کچھ لکھا جارہا تھا ، کچی پکی تحریروں کے ڈھیر لگائے جارہے تھے اور تماشا یہ کہ ان بجھارتوں میں من پسند معنی ڈالنے کے لیے بڑی سنجیدگی سے تنقیدی مباحث اُٹھائے جارہے تھے، وہ ہنگامہ علامت نگاروں کے اوب کر بیٹھ رہنے کے ساتھ ہی ختم گیا تو ایسا سناٹا ہوا کہ لگتا تھا کچھ نہیں ہو رہا سب مضمحل ہو کر بیٹھ رہے ہیں۔
آپ کے باقاعدہ سوالات کی ضمن میں اپنی گزارشات بھی درج لیے دیتا ہوں۔بہت احترام کے ساتھ۔محمد حمید شاہد ‘‘
ابوالکلام قاسمی:معاصر فکشن کی عمومی صورت حال پر اپنے تاثرات بیان فرمائیے۔
محمد حمید شاہد:معاصر فکشن کی عمومی صورت حال پر آپ کے سوال کا یہ جواب کہ ’’اچھی ہے‘‘، ’’اچھی نہیں ہے‘‘یقیناً نہیں کہہ سکتا۔ ادب کی صورت حال کو اس طرح کے جوابات سے آنکا ہی نہیں جا سکتا۔پوچھا جا سکتا ہے پھر کیسے جانیں گے کہ اس باب میں کیا ہورہا ہے۔ فکشن کی عمومی صورت حال کا یہ سوال اپنے آپ میں دو طرح کی وضاحتیں طلب کر رہا ہے ایک مقدار کے اعتبار سے اور دوسرا قدر کے معاملے میں۔ حال ہی میں کراچی آرٹس کونسل والوں کی عالمی اردو کانفرنس میں بات کرنے کو میرے لیے لگ بھگ آپ ہی کے سوال کو جیسے موضوع بنا لیا گیا تھا، جو اس باب میں وہاں گزراشات تھیں ،جی چاہتا ہے یہاں بھی دہرا دوں مگر ابھی تک میں آپ کے چونکانے والے جملے میں اٹکا ہوا ہوں۔ پہلے یہ سن لیجیے کہ ان چونکانے والے فن کاروں کا ایک وتیرہ یہ رہا تھا کہ وہ ایک گروہ کی صورت اختیار کرلیتے اور تخلیقی فضا سے باہر ایک ایسے رجحان کی فضا تشکیل کرلیتے تھے کہ خوب ہنگامہ نظر آتا تھا۔ مجھے یاد آتا ہے ،غالباً ۱۹۸۲ء میں آپ کے ہاں حیدر آباد میں ’’جدید فکر و عصری رجحانات ‘‘ کے موضوع پر ایک سہ روزہ سیمینار منعقد ہوا جس کے مقالات اخترحسن ،مغنی تبسم اور قدیر زمان نے مرتب کرکے کتاب بنالی تھی۔ مجھے یہ کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اس سیمینار کے ایک اہم مقرر ڈاکٹر جی ایس کلکرنی کے الفاظ یہاں دہرانے کو جی کرتا ہے۔ انہوں نے آج سے لگ بھگ ۳۵ سال پہلے کہا تھا’’جدید فکر بذات خود ایک تمدنی سامراجی تصور ہے ‘‘ آگے چل کر وہ یہ بھی لکھتے ہیں ’’سب سے بڑی اور سب سے خطرناک محکومیت تہذیبی محکومیت ہے۔ معاشی اور سیاسی محکومیت میں ہم صرف اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں لیکن تہذیبی محکومیت میں ہم نہ صرف آقا کا ، بلکہ اپنے آپ کا اسی انداز سے ادراک کرتے ہیں جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم کریں۔انتہا یہ ہے کہ آزادی کا مفہوم بھی ہمارے لیے تقریباً وہی ہوتا ہے جو آقا ہمارے لیے متعین کرتا ہے۔‘‘ڈاکٹر کلکرنی کی باتیں بہت دلچسپ اور چشم کشاہیں ، جی چاہتا ہے کہ اس میں سے کچھ اور مقتبس کروں مگر اس خوف سے کہ بات آپ کے سوال سے برگشتہ ہوکر کہیں اور نہ لڑھک جائے ، مجھے یہ کہناہے کہ چونکانے اور ایک رجحان بنالینے جیسی باتیں دراصل ہماری ہاں ایسے ہی ذہنوں کی عطا ہیں جو ڈاکٹر کلکرنی کے ہاں لائق مذمت ٹھہرتے ہیں۔خیر اس کا کیا کیا جائے کہ ہمیں بات ڈھنگ سے سمجھنے کے لیے پہلے اس صورت حال کو دیکھنا ہی پڑے گا جس نے ہمیں خوب خوب چونکایا۔ علامتی اور تجریدی افسانے کی ہوا بہت تیز چلی تھی،پھر جب گزر گئی تو ناقدین ہی اُسے کوس رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے قاری نے افسانے سے منہ موڑ لیا تھا۔تو یوں ہے کہ جدیدیت کے تحت علامتی افسانے کا چلن ایک رجحان تھا ، وقت نے کروٹ بدلی تو یہ رجحان بھی باسی ہو گیا۔ اسی سے پہلے ترقی پسندوں کے ساتھ بھی یہ ہو چکا تھا۔ رجحان میں یہی خرابی ہوتی ہے کہ وہ پرانا ہو جایا کرتا ہے۔ جب کہ تخلیقی عمل اسے ادب مانتا ہے جوجتنا قدیم ہو اتنے ہی بھید بھنوراس کا حصہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ معاصر فکشن نے پہلا کام تو یہی کیا کہ اس نے رجحان کی زنجیر سے اپنے آپ کو آزاد کیا۔ کی بات یہ ہے کہ فکشن نے یہ ہمت والا کام ایسے زمانے میں کیا کہ جب ہمارے ہاں تنقید جدیدیت کی مدحِ مسلسل کے بعد مابعد جدیدیت اور مابعدِ مابعد جدیدیت کو سمجھنے سمجھانے میں یوں منہمک ہو گئی تھی کہ تخلیق پاروں کو پرکھنا ان کی تعبیر کرنا ، اور تعیین قدر کا کار منصبی ،کار فضول ہو گیا تھا۔ سو ایسے میں فکشن پر بات ہی نہیں ہو رہی تھی۔ خیر یہ بھی تنقید کا ایک رجحان تھا اور اب لگتا ہے کہ اس کا زور ٹوٹ رہا ہے اور تخلیق پاروں اور تخلیق کاروں پر بات کرنے کا سلسلہ ایک بار پھر سے چل نکلا ہے۔ صاحب، اسے ایک جملہ معترضہ جانیے کہ اب مجھے نئی تنقید لکھنے والوں سے ویسی شکایت نہیں رہی جیسی ڈاکٹر کلکرنی کوجدیدیت سے تھی اور جس کے اصول بھی اُن کی نظر میں سامراجی ہو گئے تھے،جی ایسے اصول جو دانش وروں کی عقل بھی ہتھیا لیا کرتے ہیں ، کہ اب تونمایاں ترین تنقید لکھنے والے خود اپنے تخلیقی وفور کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ صاحب ،میرا اِشارہ اُردو دنیا کے سب سے محترم اور بزرگ نقادجناب شمس الرحمن فاروقی کی طرف ہے، جنہوں نے ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ اور’’قبض زماں‘‘ جیسے ناول اور ’’ سوار اور دوسرے افسانے‘‘ تخلیق کئے اور ہمارے ہم عصروں میں سب سے فعال ناقد اور بجا طور پر پوری توجہ کھینچ لینے والے نئی تنقید کے شارح ناصر عباس نیر کی طرف بھی، جن کا حال ہی میں افسانوں کا مجموعہ’’خاک کی مہک‘‘ منظر عام پر آیا ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں کے ہاں تخلیقی مزاج بالکل الگ الگ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی جو کل تک انتظار حسین کے لفظوں میں’ جدیدیت کے زیر اثر علامتی اور تجریدی افسانے کا کشتہ تھے‘ اور ایک زمانے تک اسی کا جھنڈا بلند کرتے رہے، جب انہیں تخلیقی عمل نے گرفتار کیا توان کا فکشن تہذیبی مرقع ہو گیا۔سو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں فاروقی صاحب کا فکشن کسی ٹرینڈ یا رجحان کے ماتحت نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے ایک بھیڑ ویسا ہی لکھنے کو نکل کھڑی ہو جیسا کہ علامت نگاری کے زمانے میں ہوا تھا۔ناصر عباس نیر کے ہاں بالکل دوسری صورت ہے۔ بہ قول مسعود اشعر،ان کے افسانے ایک سوچنے سمجھنے اور انسانی نفسیات اور انسانی رشتوں پر تنقیدی بصیرت رکھنے والے نقاد کے افسانے ہیں ‘۔گویا ان کے ہاں ایسا نہیں ہے جیسا فاروقی صاحب کے ہاں ہوا۔ یہ اپنے تنقیدی شعورکے ساتھ تخلیقیت کی گرفت میں آئے ہیں۔ آپ ان کی کہانیوں کے مجموعے کو جوں جوں پڑھتے آگے بڑھیں گے تو یہ آپ پر کھلتا چلا جائے گا کہ کسی رجحان کے تحت لکھے ہوئے فن پارے نہیں ہیں، یہ ان کے اندر سے پھوٹے ہیں تب ہی تو یہ مختلف ہو گئے ہیں۔اپنے اپنے تخلیقی عمل سے وفاداری ، یہ وہ پہلا قرینہ ہے جو میرے ہم عصروں نے ’رجحان ‘ کی غلامی سے بدل لیا ہے۔ معاصرافسانے کی صورت حال کا ذکر ہو رہا ہے، اور فوری طور پر اسے آنکنے کے دو پیمانے ہو سکتے ہیں ،ایک مقدار، کہ صاحب لکھا جا رہا ہے تو کتنا اور دوسر اپنی قدر کے تعیین کے اعتبار سے ، کہ اس کا موازنہ پچھلے زمانوں سے کریں تویہ کہیں لائق اعتنا ٹھہرپائے گا بھی یا نہیں۔ تو یوں ہے کہ لکھنے والے اور فکشن لکھنے کی تاہنگ میں کچھ نہ کچھ لکھتے چلے جانے والے اس زمانے میں بھی بہت ہیں ، اتنے کہ گزر چکے زمانوں میں، ایک ہی وقت میں لکھنے والوں سے کیا کم ہوں گے۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ ایک ہی وقت میں تین پیڑھیوں کے لوگ مسلسل لکھ رہے ہیں۔ وہ جنہوں نے گزشتہ صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں نام کمایا اور تب سے اب تک مسلسل لکھ رہے ہیں؛ ان میں اکرام اللہ، رشید امجد ، اسدمحمدخاں، خالدہ حسین ، مسعود اشعر، زاہدہ حنا،مرزا حامد بیگ، مرزا اطہر بیگ ، مظہرالاسلام، مستنصر حسین تارڑ، سمیع آہوجہ،نجم الحسن رضوی،احمدجاوید جیسے لائق توجہ لکھنے والے شامل ہیں۔ دوسری پیڑھی ان تخلیق کاروں کی ہے جو آٹھویں ، نویں اور دسویں دہائی میں سامنے آئی۔اس میں ایک لمبی فہرست ہے۔ یوں تو اپنے فکشن کی پہچان اس زمانے میں کرانے والوں میں شمس الرحمن فاروقی ، نیر مسعود اور فہمیدہ ریاض جیسے تخلیق کاروں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ فکشن لکھنے کی جانب ذرا تاخیر سے آئے مگر اپنی بزرگی کے اعتبار سے پہلی پیڑھی میں شامل ہونے والے ہیں۔ عصری منظر نامے میں وہ نسل جو آزادی یا تقسیم کے ہنگاموں کے گزر جانے کے بعد پیدا ہوئی اور آٹھویں دہائی کے بعد اردو فکشن کے منظر نامے پر طلوع ہوئی ان میں اُدھر سید اشرف سے لے کر خالد جاوید، مشرف عالم ذوقی، طارق چھتاری تک ، اور ادھرہمارے ہاں اسلم سراج الدین ، کہ جن کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوا سے لے کرنیلوفر اقبال،، آصف فرخی،محمد الیاس،انور زاہدی، اے خیام، طاہرہ اقبال،آغا گل، حامد سراج ، اخلاق احمد،ابدال بیلا،امجد طفیل، نیلم احمد بشیر، عرفان جاوید، اجمل اعجاز، عاصم بٹ، خالد فتح محمد،عاطف علیم تک کے تخلیق کار شامل ہیں،مجھے بھی اس قطار میں رکھ لیجئے اور انہی میں نعیم بیگ اور عرفان احمد عرفی کو بھی شامل کیجئے کہ جن کے افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں بیتا اورڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر وحید احمد کو بھی کہ ایک افسانے اور ناول لکھ رہی ہیں اور دوسری نے شاعری میں نام کما نے کے بعد اوپر تلے دو ناول دے دئیے، کہ عمر کے اعتبار سے یہ سب اسی پیڑھی کے لوگ ہیں۔ تیسری پیڑھی، جو فکشن لکھنے میں مگن ہے اور توجہ پا رہی ہے، وہ ان کے بعد ادبی منظر نامے پر طلوع ہوئی ہے۔ جی میری مرادلیاقت علی،آمنہ مفتی،غافر شہزاد، رفاقت حیات،ابرار مجیب، احمد جواد،ظفر سید، اقبال خورشید،فرخ ندیم، ابن مسافر،عثمان عالم،رابعہ الربا سے لے کر احمد اعجاز،سید محسن علی، عابدہ تقی، لبابہ عباس، فاطمہ عثمان،فارحہ ارشد،مایامریم اور یعقوب شاہ غرشین تک لکھنے والوں کی ایک بڑی تعدادسے ہے۔ انہی میں سو لفظوں کی کہانی کو شہرت کی بلندیاں عطا کرنے والے مبشرعلی زیدی کو بھی شامل کر لیجئے، میں نے اپنے تئیں حساب لگا کر دیکھا ،یہ جو راست افسانے کی طرف آئے، جنہوں نے تنقید سے قدرے نامطمئن ہو کر اپنا تخلیقی دریچہ کھولا، جو شاعری میں نام کماچکنے کے بعد فکشن کی طرف آئے، یہ جو فکشن کواخبار کی خبر اور کالم کی طرح عام آدمی تک پہنچانے والے رہے ، جی تینوں پیڑھیوں کے یہ لوگ تعدادمیں ڈیڑھ سو سے اوپر ہو جاتے ہیں۔ کہہ لیجئے یہ لگ بھگ ویسا ہی ہنگامہ ہے جیسا کبھی ترقی پسندوں کے زمانے میں تھایا علامت نگاروں اور تجرید کاروں کے ہاں بپا تھا مگر اس سارے شور شرابے میں سے جو چیز منہا ہوگئی ہے، وہ ہے، افسانے کا محض ایک غالب رجحان کا ہونا ، ایک ہی جیسے اسلوب میں لکھتے چلے جانے کا جنون ، ایک خاص اسلوب کے لیے رطب اللسان تنقیدی مضامین کا ڈھیر۔اچھا برا ، سب جیسا لکھ رہے ہیں اپنا لکھ رہے ہیں۔ ابوالکلام قاسمی:آج کے اردو افسانے میں آپ کو ایسی کون سی تحریریں نظر آتی ہیں،جن سے کسی مختلف رجحان کے امکانات کی توقع کی جاسکتی ہے؟
محمد حمید شاہد:آپ کا یہ سوال بھی پہلے سوال سے جڑا ہوا ہے۔ ’’مختلف رجحان کے امکانات‘‘ اور ہمارے ہاں اگر فکشن میں کوئی خرابی آئی ہے تو اسی رجحان والی وبا سے آئی ہے۔ دیکھیے ، علامت نگاروں کے ہنگامے اور رجحان کی بابت اسی عہد کے ایک نمایاں ترین افسانہ نگار منشایاد کا کہا بھی سن لیجئے، انہوں نے یہ بات میری کتاب ’’جنم جہنم‘‘کی تقریب میں کہی تھی ، اور جب منشایاد کی تحریرچھپی تو خالدہ حسین کا شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ جو منشایاد نے کہا اس کا خلاصہ دو لفظی ایک سوال تھا :’’ بچا کیا؟‘‘ اور ہاں اس سوال نے ایک نہ ایک روز اٹھنا ہی ہوتا ہے کہ’ بچا کیا ؟‘، منشایاد نے علامت نگاروں میں سے چند نام گنوائے تھے جن کے ہاں ایک یا دو کہانیاں بچ رہی تھیں اور میں کسی خوش فہمی میں نہیں ہوں کہ معاصر افسانے کا نصیب اس سے مختلف ہونے والا ہے۔ تاہم یہ جو اس عہد کے لکھنے والے اپنے اپنے تخلیقی عمل کے ساتھ کہانی لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اسی کا انہیں یہ ثمر ملا ہے کہ ان کے حصے میں کئی ایسی کہانیاں آئی ہیں جو بہر حال پہلے نہیں لکھی جا سکتی تھیں۔’’اُس کا نام کیا تھا؟‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ ، ’’بگل والا‘‘ ،’’ جھنوں کوچٹھی ملی‘‘،’’ لکڑ بھگا ہنسا‘‘، ’’زحال مسکیں مکن تغافل‘‘ ’’فزکس کیمسٹری الجبرا‘‘،’’بن کے رہے گا‘‘،’’بودلو‘‘،’’ سمندر کی چوری‘‘، ’’فورسیپس‘‘، ’’برف ‘‘،’’ گھنٹی‘‘ ، ’’آنٹی‘‘،’’خالی ہاتھ‘‘ ، ’’تفریح کی ایک دوپہر‘‘ ، ’’قید سے بھاگتے ہوئے‘‘ ، ’’مچھلیاں شکار کرتی ہیں‘‘ ،’’یہ جو عورت ہے‘‘ ،’’خاک کی مہک‘‘ ،’’چریا ملک‘‘اور ان جیسے دوسرے سب افسانے پڑھ جائیں ، آپ کو خودہی یقین آ جائے گا کہ یہ معاصر افسانے کسی مخصوص رجحان میں لکھے ہوئے، یاچونکانے کے لیے لکھے ہوئے افسانے نہیں ہیں۔ انہیں اگرچہ تنقید کی وہ ٹیک ٹلا بھی میسر نہیں ہے جو ماضی میں علامت نگاروں کے’درجات‘ بلند کرتی رہی ، اس کے باوجود یہ زندہ رہنے اور اگلے زمانوں میں جست لگانے کی سکت رکھنے والے افسانے ہیں۔ تو یوں ہے کہ تحریکیں مر گئیں ، تحریکوں کی بپا کی گئی مخصوص فضا اور رجحانات کا رَپھڑ بھی موجود نہیں مگرافسانہ ہے۔ ایسا افسانہ، جوچونکاتا نہیں ہے، کسی رجحان ساز کی تقلید میں لکھا ہوا نہ کسی فیشن کا فیضان۔ کہ یہ توتخلیق کار کے اپنے تخلیقی وفور کی عطا ہے۔ پھرایسا ہے کہ ان میں افسانوں میں کہانی مربوط ہے اورکہانی کی اپنی دانش متن کے بھیتر سے چھلک چھلک پڑتی ہے۔جب ایک کہانی اپنے لطیف اور گتھے ہوئے بیانیے میں اپنی دانش رکھتی ہو تواس میں حیرت انگیز طور پر فکشن کا جادو بولنے لگتاہے۔ اوریہ تخلیقیت کی عطا ہے کہ آج کااُردو افسانہ فکشن سے مخصوص دانش اور اثر انگیزی کے وصف سے مالا مال ہے۔
ابوالکلام قاسمی: کہا جاتا ہے کہ صورت حال اور تیز رفتارترقی اور تبدیلیوں کے نتیجے میں اردو میں بھی موضوعات کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔اس مفروضے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہیں۔
محمد حمید شاہد: میں پہلے بہت خوش ہوا تھا کہ صاحب ہمارے عہد کے افسانے کے حوالے سے آپ نے موضوعات کا تنوع دیکھ لیا ،جو ہم سے پہلوں کے ہاں اس لیے ممکن نہ ہو پایا تھا کہ وہ بہر حال ایک رجحان کے تحت لکھتے ہوئے ایسے موضوعات کو چھوڑتے چلے جاتے تھے جو ایک خاص اسلوب میں ڈھل نہ سکتے تھے۔ لیکن میری یہ خوشی اگلے ہی لمحے آپ کے سوال کے دوسرے حصے میں موجود’’ مفروضے‘‘ کے لفظ نے اُچک لی۔ صاحب ، جن افسانوں کا میں اوپر حوالہ دے آیا ہوں ، انہیں دیکھ لیجیے آپ کو موضوعات کے تنوع والی بات حقیقت بن کر ملے گی اور ایسا اس لیے ہو پایا ہے کہ ہم عصر افسانہ ، کسی رجحان کا پابند ہونے کی بہ جائے خالص تخلیقی عمل سے جڑا ہے۔آج کا افسانہ نگار یہ جانتا ہے کہ ہر موضوع کے ساتھ افسانے کے عناصر ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ یہی بات افسانے کو تخلیق کے مرتبے پر فائز کرتی ہے۔ ہر کامیاب کہانی میں ہیئت اور مواد کا الگ امتزاج بنتا ہے۔ زبان اور ماحول کی صورت ہر بار جدا ہو جاتی ہے۔ کہیں تفصیل نگاری حسن بن کر آتی ہے اور کہیں جزیات نگاری۔ بعض اوقات ان دونوں سے اجتناب کہانی کو نکھار دیتا ہے۔ کہیں آپ مو ضوع کو احساس کی سطح پر برتتے ہیں اور کہیں احساس کا لطیف اور پراسرار بہاؤ ہی کہانی کا تقاضہ ہو جاتا ہے۔ آپ کو ایسے بھی افسانے مل جائیں گے جہاں واقعات وقت کے بہاؤ کے ساتھ تیر رہے ہوتے ہیں اور ایسے بھی جن میں وقت پلٹے کھاتا رہتا ہے اور واقعات اپنی ترتیب ازسر نو مرتب کرتے ہیں۔ آپ کی نظر میں بہت سے کامیاب افسانے ہوں گے جن میں باقاعدہ ایک پلاٹ ہوتا ہے اور میری نظر کے سامنے ایسے افسانوں کی قطار لگی ہوئی ہے جن میں سرے سے پلاٹ ہے ہی نہیں۔ کہیں کہانی مکمل ہونے کے بعد ایک شاہکار علامت کا روپ دھار لیتی ہے اور کہیں علامتوں کی بھرمار اسے بوجھل بنا دیتی ہے۔ تو یوں ہے میرے بھائی کہ ہمارے عہد کے افسانے میں موضوعات کی رنگا رنگی آپ کو اس لیے نظر آتی ہے کہ یہاں کسی ایک رجحان سے وابستہ ہو جانے کو خود پر لازم نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج کا ہرلائق توجہ افسانہ مکمل ہو جانے کے بعد اس بات کا اعلان ضرور کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا تعلق انسانی صورت حال اور اس سے جڑے ہوئے موضوعات سے ہے۔ اچھا یہی سبب ہے کہ ہمارے اس زمانے میں زبان کو بنا بنا کر نہیں لکھاجارہا یہ کہانی کے مجموعی مزاج کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ کہانی جذبوں سے زیادہ احساس کی سطح کو چھوتی ہے اور یہ کہ کہانی وقت کے کسی خاص مقام پر سہم کر رک نہیں جاتی اگلے زمانوں میں جست لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ابوالکلام قاسمی: آپ اپنے لکھے ہوئے فکشن کو ایک غیر جانب دار قاری کے نقطہ نظر سے کیسے دیکھتے ہیں۔کیا آپ اپنی تحریروں کی بازیافت کی زحمت گوارا کرسکتے ہیں؟
محمد حمید شاہد:آپ نے بھی خوب کہی۔ صاحب ! کیا اپنے بارے میں غیر جانب دارقاری کا رویہ برتنا ممکن ہے؟کیا کوئی لکھنے والا یوں غیر جانب دار رہ سکتا ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ میں لاکھ نیک نیتی سے ایسا کرنا چاہوں گا تو بھی یہ محض ایک حیلہ ہوگا۔ میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر میں آج سے پیشتر اپنی خامیاں اور کجیاں غیر جانب داری سے آنک چکا ہوتا تو کیا میں انہیں اپنے وجود سے جھاڑ جھٹک کر الگ نہ ہو گیا ہوتا۔ میرے ہاں وہ خرابیاں جو آپ دیکھ سکتے ہیں میں نہیں دیکھ سکتا ہوں ، مجھے اس باب میں کسی نہ کسی آئینے کی ضرورت ہوگی ورنہ تو میں اتنا بے بس ہوں کہ اپنی ناک کا بانسہ بھی نہ دیکھ پاؤں گا۔ تو یوں ہے صاحب کہ اس باب میں جانب داری چلے گی ، میں نے اپنے تئیں پورے اخلاص کے ساتھ تخلیقی عمل سے جڑ کر فکشن لکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایک جھوٹا اور منافق آدمی ویسا فکشن لکھ ہی نہیں سکتا جو پڑھنے والے کے وجود کے اندر اترتا چلا جائے۔ شاید یہی سبب ہے کہ میرے محترم انتظار حسین نے مجھے نئے افسانے کی ابرو کہہ کر میرا حوصلہ بڑھایا تو ممتاز مفتی کو میری سچائیوں میں رنگ رس اور خلوص ایک ساتھ نظر آیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی اگر میرے افسانوں کو لمحہ رواں کی معاشرتی ،ثقافتی اور تہذیبی زندگی کی تاریخ کا درجہ دیتے تھے توڈاکٹر اسلم فرخی کے بہ قول میرے افسانے خوب صورت ہمہ جہتی انداز اور فکر کا آئینہ دار تھے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کا کہنا تھا کہ میں اپنی کہانیوں میں ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کا خوگر بھی دکھتا ہوں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی نظر آتا ہوں اور عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتا ہوں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔اچھا دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے ایسی آرا نے حوصلہ دیا ہے کہ میں آگے بڑھوں اور نت نئے تجربے کرتا جاؤں۔ ہمارے عصر کے ذہین نقاد ناصر عباس نیر، جو اب عمدہ افسانہ نگار بھی ہیں ، کا میرے ہاں ہونے والے تجربات کی بابت فیصلہ ہے کہ خود شعوریت سے جہاں میرے افسانوں میں متن در متن یاFrame Narrativeکی صورت پیدا ہوئی ہے ‘ وہاں یہ افسانے نئی قسم کی حقیقت نگاری کے مظہر بھی بن گئے ہیں۔ ان ہی کے مطابق’’برشور‘‘ ’’لوتھ‘‘’’تکلے کا گھاؤ‘‘’’ موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ‘‘ اور ’’مرگ زار‘‘میری نو حقیقت پسندی کی عمدہ مثالیں ہو گئی ہیں۔ ہمارے سب سے محترم اور فعال نقاد اور فکشن نگار شمس الرحمن فاروقی کی کہی ہوئی بات کا ذرا طویل ٹکڑا مقتبس کر نا چاہوں گا ، ان کے مطابق:’’ محمد حمید شاہد اپنے افسانوں میں ایک نہایت ذی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر پیچیدگی کے با وجود (مثلاً ان کا ناول[مٹی آدم کھاتی ہے] ، اور ’’شب خون‘‘ ۳۹۲تا۹۹۲ میں مطبوعہ ان کا افسانہ ’’بدن برزخ‘‘) ان کے بیانیہ میں یہ وصف ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے، حالانکہ جدید افسانے میں افسانہ نگار بالکل تنہا اپنی بات کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ (اسی بات کو باختن (Bakhtin)نے یوں کہا تھا کہ فکشن نگار سے بڑھ کر دنیا میں کوئی تنہا نہیں، کیونکہ اسے کچھ نہیں معلوم کہ اس کاافسانہ کون پڑھ رہا ہے اور کوئی اسے پڑھ بھی رہا ہے کہ نہیں۔) اسی وجہ سے جدید افسانہ نگار اپنے قاری کے لئے کتابی وجود تو رکھتا ہے لیکن زندہ وجود نہیں رکھتا۔ محمد حمید شاہد اس مخمصے سے نکلنا چاہتے ہیں اورشاید اسی لئے وہ اپنے بیانیے میں قصہ گوئی ، یا کسی واقع شدہ بات کے بارے میں ہمیں مطلع کرنے کا انداز جگہ جگہ اختیار کرتے ہیں۔محمد حمید شاہد کی دوسری بڑی صفت ان کے موضوعات کا تنوع ہے۔اس لحاظ سے وہ منشا یادسے کچھ کچھ مشابہ لگتے ہیں لیکن محمد حمید شاہد کے سروکار سماجی سے زیادہ سیاسی ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے ماحولیاتی افسانوں میں بھی کچھ سیاسی پہلوپیدا کر لیتے ہیں۔۔۔اسے محمد حمید شاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگار گو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔‘‘ اپنی تحریروں کی بازیافت کا سوچا تو یہ سب باتیں یاد آگئی ہیں۔ بتاتا چلوں کہ میرے افسانوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں ؛’’بند آنکھوں سے پرے‘‘، ’’جنم جہنم‘‘، ’’مرگ زار‘‘ اور’’ آدمی‘‘۔ یہ جو آخری والی کتاب ’’آدمی ‘‘ ہے آپ کے ہاں میرے محبوب فکشن نگار سید محمد اشرف کو ملتی ہے ، تو ایک دلچسپ خط میں اس پر یوں بات کرتے ہیں:’’ان کہانیوں کو پڑھ کر آدمی پریشان ہو سکتا ہے۔۔۔ ہوا۔ لفظ سنوارنے والے کو داد دے سکتا ہے۔۔۔دی۔ مسلسل نئے پن۔۔۔ تکرارکی حد تک نئے پن کو محسوس کرکے دنگ ہو سکتا ہے۔۔۔وہ بھی ہوا ‘‘سارا خط مزے کا ہے ، اور چوں کہ میرے افسانوں کی خوب خوب تعریف چل رہی ہے تو نفس بھی خوب پھول کرکُپا ہو رہا ہے۔ خیر، آپ نے خود موقع فراہم کیا ہے ، تو اس کا گناہ ثواب بھی آپ کے سر۔ ہاں، بتاتا چلوں کہ میرے افسانوں کا ایک انتخاب ڈاکٹر توصیف تبسم نے کیا تھا جو سینئر ادیب ہیں ،بہت خوب صورت شاعر ہیں اور نہایت اعلی ادبی ذوق کے مالک ہیں۔ انہوں نے جو انتخاب کیا، اُس کا نام تھا ’’محمد حمید شاہد کے پچاس افسانے‘‘۔ایک اور انتخاب آپ کے ہاں کے نوجوان نقاد محمد غالب نشتر نے ’’دہشت میں محبت‘‘ کے نام سے کیا جس میں ایسے افسانے لکھے گئے جو نائن الیون کے تناظر میں انسانی صورت حال کا نوحہ ہو گئے ہیں۔ اس میں کچھ وہ افسانے بھی شامل ہیں، جو پہلی کتابوں کا حصہ نہیں تھے، یا بعد میں لکھے گئے تھے۔ لیجیے جو کام آپ نے مجھے کرنے کو کہا تھاوہ میں نے خود کرنے کی بجائے چالاکی سے اردو کے بڑے لکھنے والوں کی مدد سے سر انجام دے لیاہے۔
ابوالکلام قاسمی:۔آپ مشہور اور مقبول ترین اصطلاحات بیانیہ اور کہانی پن کی بازیافت کے سلسلے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد:۔فکشن میں بیانیہ ہی ہے جو ایک واقعہ کو کہانی اور کہانی کو افسانہ بناتا ہے ، جی بیان نہیں بیانیہ۔ کون نہیں جانتا کہ فکشن میں کہانی کا تصور کہانی کے عمومی تصور سے یکسر مختلف ہو جاتا ہے۔ جسے میں نے کہانی کا عمومی تصور کہا ہے اُسے آپ نان فکشن کی ذیل میں رَکھ سکتے ہیں۔ دیکھئے کوئی بھی وقوعہ خبر بن کر ایک اخبار میں چھپنے سے پہلے اُس تخلیقی عمل سے دوچار نہیں ہوتا جس کا اِمکان فکشن کے اندر ہوتا ہے۔ میں نے یہاں ’’اِمکان‘‘ کا لفظ جان بوجھ کر اِستعمال کیا ہے اور اِس کا سبب یہ ہے کہ ایک خبر عین مین ایک مکمل کہانی ہوسکتی ہے یا پھر اسی خبر کو کہانی کا جزو بھی بنایا جا سکتا ہے تا ہم یادرکھا جانا چاہییے کہ فکشن پارے کی مجموعی فضا میں اُس کی جُون بدل جاتی ہے۔ یہاں پہنچتے ہی خبر کی طرح ضبط تحریر میں لایا گیا واقعہ وقت اور حقیقت کومٹھی میں کر لیتا ہے۔ وقت اورحقیقت کی قید سے میری مراد لگ بھگ وہی ہے جو راجندر سنگھ بیدی کے نزدیک اس کی تھی۔ اُس نے اَپنا تخلیقی تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:’’ جب کوئی واقعہ مشاہدے میں آتا ہے تو میں اُسے مِن و عن بیان کر دینے کی کوشش نہیں کرتا ‘ بلکہ حقیقت اور تخیل کے اِمتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اُسے احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں‘‘ بیدی نے ایک اور کتاب کے دِیباچے میں دُنیا کو پرانے فلسفیوں کے تخیل کی طرح مانتے ہوئے کہا تھا کہ ہم شروع اور آخر کے انداز میں سوچنے والے اِس تخیل کی با بت دُھندلا سا تصور تو باندھ سکتے ہیں‘ اِس کی گہرائی کو نہیں پاسکتے۔ اِسی خیال کے زیرِاَثر جس میں ’’عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے ‘‘اُس نے فکشن کے واقعہ کو افسانوی سازش کہا تھا۔ تو صاحب یوں ہے کہ فکشن کی کہانی کا واقعہ بظاہرعام واقعہ ہو کر بھی عام نہیں رہتا اِس کی کیمسٹری بدل جاتی ہے، تو اس کی کیمسٹری بدل دینے کا معجزہ یہ بیانیہ ہی دکھایا کرتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’اردو افسانہ:صورت و معنیٰ‘‘ میں فاروقی صاحب کے اس ضمن کے مباحث پر بات کی ہے ، وہی یہاں دہرا نے کی اجازت چاہوں گا۔ فاروقی صاحب نے بیانیہ کے باب میں ایک اصول متعین کرتے ہوئے جو لکھا پہلے وہ دیکھ لیں :’’ ۔۔۔وُہ بیان جس میں کسی قسم کی تبدیلی کا ذِکر ہو (اسے )‘ eventیعنی واقعہ کہا جائے گا۔ ‘‘اور اب ان مثالوں کو دیکھیں جنہیں واقعہ کہا گیا ہے :’’ ۱۔ اُس نے دَروازہ کھول دیا۔ ۲۔ دروازہ کھلتے ہی کتا اَندر آگیا۔ ۳۔ کتا اُس کو کا ٹنے دَوڑا۔ ۴۔ وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ‘‘ فاروقی کی نظر میں جن بیانات سے واقعہ قائم نہیں ہوتا وہ یہ ہیں: ’’۱۔ کتے بھونکتے ہیں۔ ۲۔ اِنسان کتوں سے ڈرتا ہے۔ ۳۔ ہر کتے کے جبڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ ۴۔ کتے کے نوکدار دانتوں کو داندانِ کلبی کہا جاتا ہے‘‘
اوپر کے چاروں بیانات جنہیں فاروقی صاحب نے دلچسپ تو تسلیم کیا ہے مگر ان سے واقعے کے قیام کے امکانات کو رد کیا ہے ‘ عمومی واقعے اور فکشن کے واقعے میں حدِ فاصل قائم نہ کرنے کا شاخسانہ ہیں۔ ایک لمحے کو تصور باندھیے کہ کتوں کے بارے میں یہ معلومات کہانی میں محض کتے کے حوالے سے نہیں آرہی ہیں۔ کہانی ایک ایسے مسلح آدمی کی بیان ہورہی ہے جو آدمیت کے منصب کو جھٹک چکا ہے۔ اَب آپ دیکھیں گے کہ اُوپر کے سارے بیانات سے واقعہ قائم ہونے لگا ہے۔ آدمیت کے منصب کو جھٹکنے والا آدمی بول رہا ہے اور قاری ایک کتے کو بھونکتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ آدمی کے سامنے سہمے ہوئے لو گ گم سم کھڑے ہیں جبکہ پڑھنے ولاایک کتے کے منھ سے ٹپکتی دہشت کی جھاگ کا تصور باندھ رہا ہے۔ مسلح آدمی کے اسلحے پر قاری کی نظر پڑتی ہے تو وہ تصور میں ایسے کتے کو لاتا ہے جس کے جبڑے مضبوط ہیں۔ مسلح آدمی کے تیز دھار خنجر کا کوئی بھی نام ہو مگر قاری کتے کے داندانِ کلبی کا تصور باندھتا ہے ۔۔۔ تو صاحب ایک آدمی عین چار جملوں میں چیرتا پھاڑتا کتا ہو گیا اور آپ کہتے ہے کہ کوئی واقعہ قائم نہیں ہوا ؟ واقعہ یہ ہے کہ ہر جملے کے ساتھ ہی قاری کے ذہن میں اس آدمی کے بارے میں تصور تبدیل ہوتا رہا ہے۔ یوں چار واقعات باہم مل کر ایک ایسی کہانی بناتے ہیں جو اِحساس کی سطح پر تو حرکی ہے مگر خارج میں فقط بیان ہے۔یہ بیانیہ ہی ہوتا ہے جو متن کی باطنی ترکیب اور ترتیب کو حرکی بناتا ہے۔ اب رہا کہانی پن کا مسئلہ، تو یوں ہے صاحب فکشن اور کہانی پن تو ایک دوسرے میں گتھے ہوئے تھے ، یوں پیوست تھے کہ انہیں الگ الگ کرنا ممکن نہ تھا ، مگر یہ ’’کارنامہ‘‘ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں علامت نگاروں اور تجرید کاروں نے سر انجام دیا اور افسانے کو انشائیہ بنا ڈالا تھا پھر جب وہ ایسی تحریریں لکھنے سے خود ہی اوب گئے کہ جنہیں پڑھنے کو کوئی قاری نہ تھا توسجدہ سہو کیا اور کہا کہ لو جی ، افسانے میں کہانی واپس آگئی ہے‘‘ مجھے یوں لگتا ہے ہمارے علامت نگاروں اور تجرید کاروں سے کہیں زیادہ معاملہ فہم تو پریم چند تھے جن کا کہنا تھا ’’موجودہ افسانے کا بنیادی نقطہ ہی ذہنی اتار چڑھاؤ ہے۔واقعات اور کردار تو اس نفسیاتی حقیقت کی تصدیق کے لیے ضروری ہیں ‘‘ خیر وقت گزرا ہے تو اب یوں ہے کہ وہ جو نفسیاتی حقیقت کے لیے ضروری کہانی پن پر ’پریم چندی افسانے‘ کی پھبتی کستے تھے، کہانی لکھنے کے تخلیقی عمل سے وابستہ ہوئے ہیں تو اس میں پوری تہذیب کو زندہ کر لیا ہے اور وہ جو ذہنی کیفیت اور اتارچڑھاؤ کی ہنڈیا چڑھانے کو ہی افسانہ سمجھتے تھے، واقعاتی تصدیق کے قائل نہ تھے ،کہانی کی واپسی کی خبر دے رہے ہیں۔یہ فکشن کے حق میں بہت اچھا ہوا ہے کہ اب کہانی پن کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے اور اس باب میں افسانے کی’’ اُمت کا اجماع‘‘ ہو گیا ہے کہ فکشن میں کہانی پن اس کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے۔
ابوالکلام قاسمی:۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی تک اردو فکشن کی تنقید بالغ نظر نہیں ہو سکی ہے۔ ناول یا افسانے کے بارے میں جو تنقیدی مضمون لکھے جاتے ہیں ان میں عموماًشاعری کے پرکھنے کے پیمانوں پر فکشن کو بھی جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
محمد حمید شاہد:۔صاحب ،جو لوگ ایسا کہتے ہیں ان کی بات پرے پھینک دینے کے لائق نہیں ہے اور مجھے بھی ایسے لوگوں کی قطار میں شامل سمجھیے۔میں نے کہیں لکھا تھا کہ غالب کی نثر کی تقلید میں اردو نثر نے اپنے آپ کو بدل لیا تھا ،جس طرح شاعری بن بن کر کی جاتی ہے اور مصرع مصرع بنا بنا کرلکھا جاتا ہے ، ایسی ہی واردات نثر کے باب میں ہوتی رہی ،مگرتب سے اس کا سلسلہ موقوف ہوا جب سے دساوری تخلیقات تراجم کی صورت میں اردو کا حصہ ہونے لگی تھیں۔اور ہاں غالب کی نثر والی بات کی بابت یہ وضاحت کیے دیتا ہوں کہ یہ وقوعہ ایکا ایکی نہیں ہو گیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں درباری زبان فارسی تھی اوردربارمیں ہی ہماری اردو غزل کی پرداخت ہوئی مگر یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ دربار سے باہر کھلی فضا میں اور لوگوں کے بیچ جو اردو زبان متشکل ہو رہی تھی وہ غزل کی بجائے نثر کے لیے موزوں تھی۔ غیر مقامی تاجروں اورسیاحوں کے ہندوستان کے مقامی لوگوں سے میل جول نے ایک ایسی زبان کے لیے راہ ہم وار کر دی تھی جس میں قصہ کہانی کا فطری عمل زندگی کو سمجھنے کا قرینہ ہوا۔ صوفی ‘سنت ‘فقیر سب اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ انہیں اپنی بات شاعری میں کرنا ہوتی تو بھی اسے کہانی بنا لیا کرتے تھے۔ جب صوفیا اور بھگتی تحریک کے شعراء اخلاص اور محبت کی کہانی کہہ رہے تھے تو لگ بھگ یہ چلن ہو چلا تھا کہ انسان‘ اس کی تخلیق اور کائنات کے حوالے سے اگر کوئی بنیادی اور بڑی بات کہنی ہوتی تو چاہے اسے منظوم ہی کیوں نہ کرنا پڑتاکہانی سے مدد لی جاتی تھی‘ ورنہ شاعری کے رموز و علائم تو درباروں سے وابستہ شاعروں کے ہاں مرتب ہو رہے تھے۔لگ بھگ یہی وہ زمانہ بنتا ہے جب اردو ادب میں تنقیدکے پیمانوں اور پرکھ پرچول کے ضوابط کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ مجھے خیال سا گزرتا ہے کہ اردو ادب کی تنقید کی ابتدا ہی خرابیوں سے ہوئی جس نے آگے چل کر جن رویوں کی طرح ڈالی وہ فکشن کے حق میں بہتر تو کیا ثابت ہوتے قابل قبول بھی نہیں رہے۔ اردو میں تنقید کا چلن فارسی شعراء کے تذکروں کی تقلید سے ہوا۔ بجا کہ ان تذکروں میں کئی خوبیاں تھیں اور ان سے تنقید کے ابتدائی اصول بھی نکل آتے ہیں مگر وہ خرابیاں جو ان کے بعد اردو تنقید میں راہ پاگئیں وہ مجھے کھٹکتی ہیں۔ ان خرابیوں میں پہلی خرابی تو یہ ہے کہ ہم نثر کو بھی شاعری کے حوالے سے سمجھنے کی علت کا شکار ہو گئے ہیں۔ میرتقی میر نے اپنے تذکرے میں شاہ مبارک کے اس جسمانی عیب پر‘ کہ اس کی ایک آنکھ نہیں تھی‘ آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ اب ہماری تنقید کا منصب فن پارے پر کم بات کرنااور فن کار کی شخصی کجیوں کو خوب خوب اچھالناٹھہرا ہے۔ میرتقی میر نے اپنے عہد کے کئی قابل ذکر شعرا کو اس لیے تذکرہ بدر کر دیا تھا کہ اس کی اُن سے بنتی نہ تھی۔ محمد حسین آزاد نے بھی اپنے معروف تذکرے ’’آبِ حیات‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں مومن جیسے اہم شاعرکو نظر انداز کرکے اور اپنے استاد ذوق کو غالب سے بھی اہم شاعر سُجھا کر لگ بھگ اِسی چلن کو ہوا دی تھی۔ حیف کہ یہی وتیرہ بعد کے زمانے میں ہمارے ناقدین نے اپنا لیا۔ اس باب میں سامنے کی مثال ایک سرکاری ادبی ادارے کا افسانے کی روایت کے حوالے سے مرتب ہونے والی ایسی ضخیم کتاب کا چھاپنا ہے جس میں سے کئی اہم افسانہ نگاروں کو قصداًغائب کردیا گیا تھا۔ طرفگی ملاحظہ ہو کہ بعد میں ایک نجی ادارے سے اسی مرتب کی اسی نوعیت کی ایک اور کتاب چھپی تویہی غائب ہونے والے ‘ تعلقات بہتر بنالینے کی وجہ سے کتاب کا حصہ ہو گئے تھے اور اس بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔ وضاحت کیوں کی جاتی کہ اس بار کچھ ا ور اہم لکھنے والوں کو کتاب باہر ہونا تھا۔ صاحب ‘یہ جو ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیادپر ادبی فیصلے کرنے کا چلن ہو چلا ہے میں اسے ادبی بددیانتی سمجھتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس طرز عمل نے فکشن کی تنقید کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ایک اور خرابی جو فکشن کی تنقید میں در آئی ہے وہ یہ ہے کہ تخلیقی معیاروں پر فن پارے کی قدر قائم کرنے کی بجائے اسے کسی اور حوالے سے دیکھنے کے چلن ہو چلا ہے۔ اس نے اردو افسانے کی تاریخ مسخ کرکے رکھ دی ہے۔ صرف افسانے ہی کی نہیں خود ادب کی تاریخ بھی۔ اور یہ میں یوں کہہ رہا ہوں کہ اسی عادت نے ہمیں اصناف سے اصناف بھڑانے کی طرف مایل کیے رکھا ہے۔ کہیں دور کیوں جائیں ہمارے شمس الرحمن فاروقی بھی شاعری کے مقابلے میں نثر کو نیچا دکھانے کے جتن کرتے رہے ہیں۔ جس طرح میں اصناف کے درمیان اس طرح کی درجہ بندی کی ساری کوششوں کو کار لاحاصل سمجھتا ہوں با لکل اسی طرح میرا یقین ہے کہ صرف اور محض خارجی رویوں اور محرکات کی وجہ سے افسانہ نگاروں کی درجہ بندی کا غدر مچا دینا بھی قطعاً معقول بات نہ ہوگی۔ لازم ہے کہ ہم ہر فن پارے کو اس کے اپنے ادبی معیاروں پر جانچیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں ،کون سے معیار؟ کیا ادبی معیار مستقل طور پر متعین کیے جاسکتے ہیں ؟ یہ دوسرا سوال ہے جو پہلے سوال سے خود بخودچھلک پڑتا ہے۔ میرا اس باب میں جواب ’’ہاں‘‘ بھی ہے اور ’’نہیں ‘‘بھی۔ ہاں ‘ یوں کہ کسی تحریر کے لیے اس کا’’ تخلیق پارہ ‘‘ ہونا ہی اس کے ادب پارہ ہونے کی بنیادی شرط ہے اور یہ مشقت سے نہیں بلکہ ایک تخلیقی عمل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایک تخلیق کار کے ہاں تخلیقی عمل کس طرح کام کرتا ہے اور اس کے بھید کیا ہیں‘ اس پر میں ’’تخلیق کے اسرار‘‘ کے عنوان سے ایک الگ مضمون میں کچھ باتیں کہہ آیا ہوں لہٰذا انہیں یہاں دہراؤں گا نہیں۔ ویسے بھی وہ باتیں تخلیق کاروں کے ہاں تخلیقی عمل کی شناخت کے حوالے سے تھیں جب کہ آپ کا سوال افسانے کی قدر کی تعیین کے باب میں ہے۔ میں نے کہیں اور اس پر بھی مفصل بات کی ہے ، مجھے یاد ہے، تب میں نے وارث علوی کووہاں سے مقتبس کیا تھا جہاں انہوں نے افسانے کے مطالعے کے لیے کچھ پہلووں کو نشان زد کیا تھا، مثلاً یہی کہ ’’کہانی‘پلاٹ‘کردار‘تمثیل‘علامات‘اساطیر‘تیکنیک‘ تھیم‘ امیج‘استعارہ‘ مرقع‘ تصویرگری‘ منظر نگاری‘ مقام‘ماحول‘فضا‘قدرتی اور تہذیبی پس منظر‘ موزونیت‘ آہنگ‘ تضاد‘ تصادم‘ معروضیت‘ ڈرامائیت‘ لب ولہجہ ‘اسلوب‘ بیانیہ ‘لسانی ساخت‘ نقطہ نظر‘ جمالیاتی فاصلہ‘ طنز‘ ظرافتirony ‘ المیہ‘ طربیہ‘ نفسیاتی فلسفیانہ سماجی اخلاقی ڈائی منشن اور پھر موضوعات کے ان گنت ذیلی مباحث اور نکات‘‘، یہ فہرست آپ ان کے مضمون ’’افسانے کی تشریح :چند مسائل ‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ افسانے کے مطالعے کے لیے جو نسخہ وارث علوی نے افسانے کے ناقدین کے لیے تجویز کیا تھا ‘ جب افسانے کی تعبیر کا معاملہ آیا تو وہ خود بھی اس پر کامل یقین نہیں رکھ پائے کیوں کہ بقول ان کے تعبیر’’ ایک خود سر ‘ خود پسندمغرور حسینہ ہے۔‘‘ ویسے بھی یہ فہرست یوں بوجھل لگتی ہے کہ اس میں بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کے بغیر بھی افسانہ مکمل ہو جاتا ہے۔ مثلاً دیکھئے جس کہانی کی بات وارث علوی نے کی ہے ایک عرصہ تک اس کے بغیر کام چلایا جاتا رہا۔ اس سے پہلے تھیم اورپلاٹ کو عسکری نے اپنے افسانوں سے منہا کرکے دکھا دیا تھا۔کتنی کہانیوں میں تمثیل کاری ہوتی ہے؟ یا انہیں اساطیر سے جوڑا جاتا ہے؟؟۔ علامت کا معاملہ دل چسپ ہے۔ سچ پوچھیں تو ہر کامیاب کہانی مکمل ہونے کے بعد علامت کا فریضہ ہی تو سرانجام دے رہی ہوتی ہے۔ علامت کا وہ تصور جو ساٹھ اور ستر کے عشروں میں پروپیگنڈے کے زیر اثر ہر کہیں اچھالا جاتا رہا‘ اب تک مردود ہو چکاہے۔ میرا خیال ہے اور آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے کہ امیج‘استعارہ‘ مرقع اورتصویرگری جیسے مباحث شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے تو مرکز میں رہتے ہیں افسانوں کو جانچتے ہوئے انہیں حاشیے پر جانا ہی ہوتا ہے۔دیکھا جائے توافسانے کی تشریح ہو یا تعبیر ‘ان دونوں کامعاملہ مواد سے ہوتا ہے یا پھر ان لسانی اور تیکنیکی حیلوں سے جنہیں کام میں لا کر مواد کوترتیب دیا جاتا ہے۔ اس سارے بکھیڑے میں تخلیقی عمل کس نہج پر کام کر رہا ہوتا ہے‘ افسانے کے شارحین اور مفسرین کو اس سے کچھ زیاہ واسطہ نہیں رہتا۔ یہیں اس غیر ادبی طرز عمل کی نشان دہی بھی ہو جانی چاہیے جس کے زیر اثر تخلیقات کے تجزیاتی مطالعات کا چلن ہو چلا ہے۔ تجزیاتی مطالعہ بنیادی طور پر کسی بھی فن پارے کے اجزاء کو الگ الگ کرکے دیکھنے کا نام ہے۔ ایسے میں تخلیقی عمل کا بھید ‘جو فی الاصل کسی بھی تحریر کو فن پارہ بناتا ہے اور اس کے اندر موجودOrganic unity کو تشکیل دیتا ہے‘ تجزیہ کار کی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اس طرح کے تجزیاتی مطالعے بھی افسانے کی قدر قائم کرنے کے لیے کام میں نہیں لائے جا سکتے۔ اردو افسانے کے ناقد کے لیے ان سارے رخنوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اسے وہ ساری رکاوٹیں اور مشکلات اُلانگھنا ہوں گی جو ہمارے ہر فن مولا قسم کے ناقدین نے خوب خوب جتن کرکے یہاں وہاں پھیلا رکھی ہیں۔ مثلا دیکھیے کہ وزیر آغا نے ایک زمانے میں افسانے کے تین ادوار قائم کیے تھے۔ ایک میں کچھ افسانہ نگاروں کو جھونکا ‘ دوسرے اور تیسرے میں کچھ اور کو۔ تین اجتماعی قبریں بنانے کے بعد کی ایک کی تختی پر’’ تخئلی افسانہ‘‘ لکھا دوسری تختی پر’’نفسیاتی اور ارضی رجحان والی حقیقت نگاری‘‘ جب کہ تیسری پرپہلے دو ’’رجحانات کے امتزاج ‘‘کی عبارت لکھی‘ آخرمیں تجریدی افسانے کے ذریعے دور جدید کے آدمی کی طلب پورا ہونے کی نوید سنائی اوریوں افسانے کی تنقید کا فریضہ اداہو گیا۔ شمس الرحمن فاروقی نے ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ کے نام پر افسانے کی صنف پر ایسا مقدمہ قائم کیا کہ فکشن لکھ لکھ کر کفارہ ادا کرنے کے باوجود ابھی تک اپنے کہے کی وضاحتیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ خیر اس کے باوجود کئی حوالوں سے فاروقی صاحب میرے لیے بہت اہم ہیں بطورخاص جہاں جہاں وہ افسانے کی بنیادوں اور اصولوں کو زیر بحث لاتے ہیں بہت کچھ سجھاتے چلے جاتے ہیں۔ ان سے پہلے حسن عسکری تھے۔ انہیں افسانہ لکھنا آتا تھا اور فکشن پر لکھنا بھی مگر وہ بہت جلد فکشن لکھنے اور فکشن پر لکھنے سے اوب گئے تھے۔ یہ صلاحیتوں والے ایسے لوگ ہیں جو مجھے یقین ہے کہ فکشن کی تنقید کے باب میں بہت کچھ کر سکتے تھے مگر ان کی اپنی اپنی ترجیحات رہیں۔ باقی تو اکثر کے ہاں تنقید یوں لکھی جاتی ہے جیسے وہ جوتی پر کاجل پاڑنے چلے ہوں۔ آپ نے اپنے سوال میں درست درست خرابی کو آنکا ہے۔ اِس باب کے رَخنے شمار کرنے بیٹھیں تو بات ہیئت کے مطلق خادموں ‘رومانویت کو ہی حرفِ ادب سمجھنے والے نازک خیالوں‘ ترقی پسندی کے نام پر شدّت پسندی کو رواج دینے والوں‘عقل کوتخلیقی بھید کے مقابل لاکھڑا کرنے والے جدیدیوں سے ہوتی ہوئی مابعد کے تنبے پر معنی کے بکھراؤ کا پکا راگ اَلاپنے والے گویوں تک پھیلے چلی جاتی ہے۔ جی ‘مجھے اَب کہہ لینے دیجئے کہ افسانہ لکھتے ہوئے یا پھر بعد ازاں اُسے اَدب پارہ تسلیم کرتے ہوئے ان سارے معیاروں کو نئے سرے سے دیکھنا ہو گاکہ ساری خرابی اِسی تنقیدی دھول دھپے کا شاخسانہ ہے جس کا نقشہ میں اوپر کھینچ آیا ہوں یا پھراس تنقیدی گھوٹے کی کارن جو اردو ادب کے پروفیسرحضرات اپنے طالب علموں کوپلا رٹا کر انہیں کند ذہن بنائے چلے جانے کے لیے ہردم نوٹس کی صورت تیار رکھا کرتے ہیں۔
آخر میں محترم ابوالکلام قاسمی بھائی آپ کا شکریہ، کہ آپ نے اپنے اہم سوالات کے ذریعے مجھے اپنی بات کہنے پر اُکسایا۔ میں سمجھتا ہوں یہی وہ سوالات ہیں، ہم عصر فکشن کو سمجھنے کے لیے، جن پر سنجیدگی سے مکالمہ ہونا چاہیے۔