کھلکھلاتا بوُدھ* عطاء الحق قاسمی کاشخصی خاکہ (حصہ اول)

(عرفان جاوید)

(* ایک خوش گوار، کھلکھلاتا، شفیق اور فربہہ اساطیری کردار جو چینی روایات میں، بچوں میں گھرا، صدیوں سے اطمینان اور مسرت کی علامت کے طور پر چلا آرہا ہے۔)

الحمراہال لاہور میں مجلسِ اقبا ل کی جانب سے تقریب کااہتمام تھا۔نوے کی دہائی تھی۔غلام حیدر وائیں صاحب وزیرِاعلیٰ پنجاب تقریب کی صدارت کررہے تھے۔چوں کہ وہ بہت بنیادی hqdefaultسطح سے ترقی کرتے ہوئے وزارت اعلیٰ کے عہدے پرمتمکن ہوئے تھے اس لیے رسمی تعلیم کے چند ہی مراحل طے کرپائے تھے۔ ان کے وزیروں میں تو ایک وزیر ایسے بھی تھے جن کے متعلق مشہور ہے کہ ایک فائل اُن کے سامنے لائی گئی تو اُنھوں نے اپنے سیکریٹری سے پوچھا ۔’’ مجھے کیا لکھنا ہے؟‘‘اُس نے کہا کہ بس آپ اِس پر “Seen”یعنی ’’پڑھ /دیکھ لیا‘‘ لکھ دیجیے۔انھوں نے اس پر سنجیدگی سے خوش خط انداز میں ’’س‘‘ لکھا اور فائل لوٹا دی۔
رسمی انداز کی تقاریر جاری تھیں۔تقریب کا ماحول بوجھل تھا اور حاضرین جماہیاں لے رہے تھے۔اتنے میں سٹیج سیکریٹری نے اعلان کیا کہ عطاء الحق قاسمی صاحب اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔سلک کی سنہری قمیص اور کلف والی سفید شلوار میں ملبوس قاسمی صاحب اسٹیج پرآئے اورانھوں نے تقریر کاآغاز ایک واقعے سے کیا۔
ایک صاحب کا اکلوتا بیٹا قتل کے کسی جھوٹے کیس میں گرفتار ہوا اور جیل چلا گیا۔مقدمے کی کارروائی بھی شروع ہوگئی۔اُن صاحب نے انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنے بیٹے کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کردیے۔اِس دوران مقدمے کی کارروائی نے سنجیدہ رخ اختیار کرلیا۔اپنے بیٹے کی پھانسی کے اندیشے میں مبتلا باپ نے پینل کے ایک جج کو سفارش کروائی کہ وہ ساری زندگی کے لیے اُس کا مقروض
رہے گا اگراُس کے بیٹے کو عمر قید کی سزا دے دی جائے۔ مقدمے کا فیصلہ ہوا تو بیٹے کو عمر قید کی سزا سُنا دی گئی۔
چند روز بعد کسی تقریب میں باپ کی ملاقات جج سے ہوئی تو آنکھوں میں احسان کے آنسوبھرے وہ جج کا انتہائی شکر گزار ہوا۔جج نے ہم دردانہ انداز میں باپ کا کندھے کو تھپتھپایا اور بولا۔’’وہ تو آپ کی خواہش پر میں نے ناخلف کو عمر قید کی سزا پر جیل بھیج دیا وگرنہ دوسرے جج تو اسے برَی کرنا چاہتے تھے۔‘‘
قاسمی صاحب نے یہ واقعہ ختم کیا تو پورا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا اور وائیں صاحب، جو گلاس منہ سے لگائے پانی پی رہے تھے، کواچھوآگیااوراُن کی قمیص چھینٹوں سے بھیگ گئی۔ پس اس کے بعد قاسمی صاحب کی تقریر کے شگفتہ ذومعنی اور پرُمعنی جملوں کی پھوار برستی رہی اور وہ جان محفل ٹھیرے۔ تقریر ختم کرکے وہ باہر کی جانب روانہ ہوئے تو قریباً آدھا ہال خالی ہوگیا۔
یہ میرا قاسمی صاحب سے پہلا سامنا تھا۔
عطاء الحق قاسمی،صفِ اوّل کے کالم نگار،شاعر،مدیراورسفرنامہ نگار کے قدموں کے نشان 1943سے امرتسر،وزیرآباد،لاہورماڈل ٹاؤن ،اچھرے سے ہوتے ہوئے نہر کنارے نئی بستیوں میں جانکلتے ہیں۔
اُردوکے معروف ابتدائی سفرنامے’’شوقِ آوارگی‘‘ سے اُبھرنے والے تخلیقی وفورنے کہیں نوائے وقت اور جنگ کے کالموں اور بین الاقوامی مشاعروں میں ظہور کیا تو کہیں ’’معاصر‘‘ ایسے موقر ادبی جریدے کی ادارت میں کیتھارسس پایا۔ایم اے او کالج کی تدریس سے روزگار کا سورج طلوع ہو کر ناروے کی سفارت اور سرکاری اداروں کی سربراہی کے مناصب پردمکا۔
شاعری ،صحافت اور سیاحت کی رنگین گلیوں کے مکانوں کے جھروکوں سے جھانکتی دل کش نازنینوں،چنچل مہہ جبینوں اور طرح دارحسیناؤں کو نظر انداز کرکے گھر والوں کی پسند سے بیاہ کیا۔شرط فقط اتنی رکھی ’’لڑکی قبول صورت ، تعلیم یافتہ اور خاندانی ہو۔‘‘
ایک زمانے میں نوائے وقت لاہور کے سنجیدہ حلقوں میں مقبول ترین روزنامہ تھا۔ کالم نگاروں کی ایک کہکشاں اخبار میں جلوہ افروز ہوتی تھی۔مجیب الرحمان شامی ،نذیر ناجی اور عطاء الحق قاسمی کے علاوہ اے حمید، م ش اور دیگر نمایاں تخلیق کار ۔میرے بچپن میں ہمارے آبائی گھر میں بھی نوائے وقت اہلِ خانہ بہت ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے ۔ اُردو اِملا اور زبان کی درستی کے لیے بچوں کو خاص تلقین کی جاتی کہ اس کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ ایسے میں جہاں بیشتر کالموں کا رنگ سیاسی ہوتا اوریہ کالم بچوں کے غیر سیاسی ذہن کے لیے اجنبی ٹھیرتے، وہیں کبھی کبھار عطاء الحق قاسمی کا فکاہیہ کالم ظرافت و شگفتگی کا دلچسپ و رنگین امتزاج ہوتا۔داداجی اور نانا جی یہ کالم خصوصی توجہ اور غور سے پڑھا کرتے ۔ اے حمید اور عطاء الحق قاسمی کی تحریریں کو پڑھ کرامرتسر سے ہجرت کرکے آنے والے داداجی تو اکثر فرمایاکرتے ۔’’ایک امبرسری ہی اتناذہین ہوسکتا ہے۔‘‘
یقیناًان کالموں میں کشمیری چائے کی نمکین مہک اور باقر خوانیوں کی خستگی اورپہاڑی پھلوں کے مُربّوں کی مخصوص قدرتی مٹھاس ہوتی تھی۔
بہت برسوں بعد عطاء الحق قاسمی صاحب سے ملاقات ایک دلچسپ اتفاق کا نتیجہ تھی۔
میاں نواز شریف کی حکومت گرا کر مارشل لا نافذ کردیا گیا تھا۔ہرطرف جہاں ایک خوف کا عالم تھا، وہیں جمہوری حلقوں میں اضطراب پایا جاتا تھا۔بہت سے کالم نگار مرغ بادنما کے مانند اپنا رخ بدل کر ابن الوقتوں کی صف میں کھڑے ہوچکے تھے۔یہ نیا معاملہ نہ تھا بلکہ قلم کے سوداگر الفاظ کی گٹھڑی کندھوں پر ڈالے پھرتے تھے اور اِن میں اکثر حالات کے مطابق بازارِ حیات میں دکان سجا کر مطلوبہ سودا بیچنے میں مشغول ہوجاتے۔یہ ایسے بچے جمورے تھے جو اپنے مداری کے اشارے پر مرد، عورت یہاں تک کہ ہیجڑے کاکردار بھی بخوبی نبھالیتے تھے۔ان پر بعد میں ایک صاحب نے ’’کالم نگاروں کی قلابازیاں‘‘ نامی کتاب بھی لکھی جس میں بارہ اکتوبر سے پہلے اور بعد کے کالم نقل کرکے ضیافتِ طبع اور عبرت کا انتظام کیا گیا۔
اِن سب ابن الوقتوں میں عطاء الحق قاسمی ایک ایسا شخص تھا جو مخالف اسباب کے باوجود اپنے نظریے اور سیاسی فکر پر ڈٹا ہوا تھا۔اس کی سوچ سے اختلاف تو کیا جاسکتا تھا مگر اُس کی استقامت اور باضمیری قابلِ رشک تھی۔
ایک روز میں ایک دوست کے ہم راہ چائے پر لاہور کے ایک ہوٹل میں گیا۔وہیں قاسمی صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ قریبی میز پر کھانا کھانے میں مشغول تھے۔اُن کو وہاں دیکھ کر مسرت کی ایک کیفیت نے مجھے آن لیا اور میں نے ویٹر کو بلا کر ایک پرچی تھما دی جس پر اُن کے کردارکی مضبوطی سراہی گئی تھی ۔ پرچی پڑھ کے قاسمی صاحب کچھ ہی دیر میں ہماری میز پرآگئے۔
تعارف ابتدائی مراحل میں تھا۔ احمدندیم قاسمی صاحب سے میرے تعلق اورخود اُن کے اپنے رسالے ’’معاصر‘‘ میں چھپنے والی میری چند تحریروں کے حوالے سے مجھے پہچان کروہ بہت تپاک سے ملے۔وہ کافی دیر پرُجوش گفتگو کرتے رہے اورپھر اُٹھ کر واپس اپنی میز پر چلے گئے۔جاتے ہوئے غلطی سے میرے دوست کی گولڈلیف کی ڈبیا ساتھ لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہ اپنی میز پر پڑی گولڈلیف کی دوڈبیوں کوغور سے گھوررہے ہیں۔ہماری نظریں ملیں تو وہ مسکرائے اور دوست کی ڈبیا واپس کرنے آئے اورپنجابی میں بولے۔’’عرفان ،میرے رسالے کے دفترآنا۔‘‘اوردوبارہ ایک بھرپور معانقہ کرکے لوٹ گئے۔
یہ ہماری درجنوں ملاقاتوں کا نقطۂ آغازتھا۔
ان کی ہمہ جہت شخصیت کے بہت سے پہلو قابلِ ذکر ہیں۔
مشہور امریکی ادیب اور فقرہ باز مارک ٹوئن سے ایک جملہ منسوب ہے جس کا مقامی محاورے میں مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایک متاثر کن فن پارہ پڑھ کر اُس کے ادیب سے ملاقات یوں ہی ہے جیسے مٹن کی کسی عمدہ لذیذ ڈش کو کھانے کے بعد آپ کی ملاقات بکرے سے کروادی جائے۔
اس تصور کے برعکس قاسمی صاحب کے ظرافت اور برجستگی سے بھرپور کالم پڑھ کر اُن سے ملنے کا تجربہ ایسا ہی ہے جیسے کسی مور کے انڈے کو دریافت کرکے آپ کی ملاقات اُس بہار رنگ،خوش ادا اور مُرقعؤ رعنائی مور سے ہوجائے۔
وہ اپنی تحریروں سے کہیں بڑھ کر زندہ دل، حاضر جواب اورحساس اِنسان ہیں۔
قاسمی صاحب کی ذات جس ایک محور کے گرد گھومتی ہے، وہ اُن کے مرحوم والد ہیں۔ایک مرتبہ میں اُن کے ساتھ ’معاصر‘ کے وارث روڈ والے دفترمیں کھانے کی مصروفیت سے نمٹے تو ٹی وی چینل ’’جیو‘‘ کی ٹیم پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ ‘‘ریکارڈ کرنے آگئی۔قاسمی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں اُن کے ہم راہ بیٹے یاسر کے ہاں چلوں تو میں نے اسے اُن کی مصروفیت میں بے جامداخلت گردانتے ہوئے اجازت چاہی۔بعد میں پروگرام چلا تودیکھاوہ اپنے والد کی قبر پر اشک بار ہو گئے۔اس وقت اُن کی اشک باری کا درد کچھ میں ہی محسوس کرسکتا تھا۔کیوں کہ بے شمار ملاقاتوں میں انھوں نے اپنے والد کا تذکرہ والہانہ انداز میں کیا تھا۔
والد اور بچپن کے تذکرے سے ایک ننھا سا ،گھنگھریالے بالوں والا بچہ میرے پردۂ تصور پر اُبھر آتا ہے۔یہ بچہ کئی بیٹیوں اور ایک بیٹے کے بعد ایک تعویز کی برکت سے پیدا ہوا تھا۔ اس امر کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا کہ شنیدہے بعد میں جس کسی کو بھی ایک صوفی بزرگ کا عطاکردہ وہ تعویز دیا گیا، اس کی نرینہ اولاد کی خواہش پوری ہوئی۔سب سے چھوٹا ہونے کے ناطے وہ گھنگھریالے بالوں اورگوری چٹی رنگت والا بچہ باپ کا لاڈلاٹھیرا۔باپ مذہبی رجحان والا درویش صفت آدمی تھا۔قناعت اس کی گھٹی میں اس طرح ڈال دی گئی تھی کہ بہت بعد میں تقسیم کے بعد اُسے مالِ غیر سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تواُس نے ٹھکرا دیا۔
اس دور کے وزیر آباد میں وقت نیم خوابیدگی کے عالم میں سستا رہا تھا۔چھوٹا سا پرُسکون شہر چند محلوں پر مشتمل تھااور محلے ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی حویلیوں، مکانوں، دکانوں اور تھڑوں کے بیچ سے گزرتی گلیوں اور سڑکوں کے پرُپیچ وگنجلک سلسلوں کاجال تھا۔ان گلیوں میں طرح طرح کے رنگین کردار زندگی بسرکرتے تھے۔چوں کہ خواہشات و ضروریات کم اور ذہن رسا کی پہنچ محدود تھی چناں چہ وہ چند محلے اور گلیاں ساکنانِ شہر کی کُل کائنات تھیں۔گرم دوپہروں میں وہ بچہ اپنے مکان کی چھت پر چڑھ آتا اورکبھی نیچے کپڑا رنگتے رنگ سازوں اور مرچیں کوٹتی عورتیں تکا کرتا اور کبھی نیلے کانچ آسمان پر تیرتی سیاہ چیلوں اور اٹھکیلیاں کرتی رنگین پتنگیں معصومانہ اشتیاق سے دیکھا کرتا۔شاموں میں لوہے کاراڈ تھامے ایک پہیے کو جسے ’’ریڑھا‘‘ کہتے تھے گلیوں میں دوڑاتا پھرتا تھایا پٹھوگرم کھیلا کرتا تھا۔یہاں تک کہ کھانے کے لیے ماں کی آواز اسے گھر کے اور بلا لیتی۔
دوپہر کوکھانے میں آٹے میں گندھے نمک والی روٹی کے ساتھ خربوزے دیے جاتے ، رات کو سبزی میں مٹھی بھر گوشت ڈال کر پکا لیا جاتا۔سردیوں میں سما وارمیں اُبلتی نمکین کشمیری چائے چلتی رہتی۔
جب کبھی تفریح کا ارادہ بندھتا تو ساراخاندان چناب کا رُخ کرتا جہاں وہ اپنے باپ کی پیٹھ پربیٹھ کر تیراکی اور غسل کا لطف لیتا۔
وزیرآباد کی سنسان گلیوں میں آج بھی اس کی آواز گونج رہی ہے۔
چناب میں آج بھی ایک تنومند باپ اپنے گھنگھریالے بالوں والے بچے کو پیٹھ پربٹھائے تیر رہا ہے اور بچہ کھلکھلا کر اتنا ہنس رہا ہے کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
قاسمی صاحب کی آنکھوں میں آنسو جھلملاتے تھے۔
’’ہم لوگ متوسط پاکستانی گھرانے کا نمونہ تھے لیکن ہم غریب نہیں تھے کیوں کہ ہمارے گھر میں گوشت پکتا تھا۔میری ماں اپنے حصے کی بوٹی آنے والے کسی بھی مہمان کے لیے رکھ لیتی تھی اور خود ہنڈیا کو روٹی سے پونچھ کر کھا لیتی تھی۔یہ میری ماں کی عظمت یا پھر ہماری محرومی کا احوال تھا۔میری ماں چوں کہ بیمار رہتی تھی اس لیے اباجی مجھے نہلاتے تھے اور جب تک میں آٹھویں جماعت میں چلا گیا ،وہ مجھے نہلاتے رہے۔‘‘
ایک بات میں نے قاسمی صاحب سے آج تک نہیں پوچھی کہ اُن کے اباجی کوآخری غسل کس نے دیا تھا۔میں قصداً اس موضوع پر اُن سے بات نہیں کرتا ،مبادا وہ رنجیدہ ہوجائیں۔جب اُن کی رگوں میں رینگتے خون میں وہ حدت باقی نہیں، جذبات کی شدت آج بھی اُن کے اندر دھمال ڈالتی ہے۔
یہ عجیب آدمی ہے،جب عشق کرتا ہے تو شدید کرتا ہے اور نفرت کرتا ہے تو بھی اُس کی سرخ تپش اس کے گالوں پر کشمیر کی لال شاموں کی طرح اُترآتی ہے۔
آخری عمر تک ان کے والد ان کے ساتھ رہے۔کبھی ناراض ہو کر گھر سے چلے جاتے کہ بڑی بہن کے ہاں جارہے ہیں لیکن شام تک لوٹ آتے۔
ایک مرتبہ واپس نہ لوٹے۔سب رشتے داروں کو فون کیے۔سب نے بتایا کہ اُن کے ہاں نہیں ہیں۔گھبرا کر تھانے میں فون کیے، کوئی اطلاع نہ تھی۔ ہسپتالوں میں جانچ کی تو میو ہسپتال سے پتا چلا کہ اس حلیے کی ایک لاش لائی گئی ہے۔
’’وہ دن میری یادداشت میں آج بھی برُی طرح دھڑکتا ہے۔میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا مردہ خانے میں داخل ہوا۔زندگی میں پہلی مرتبہ بیت القضا میں داخل ہواتھا۔عجب دہشت ناک ماحول تھا۔ایک جانب لاشیں کھڑی تو دوسری جانب لیٹی تھیں۔مجھے مطلوبہ لاش تک لے جایا گیا۔اُس مردہ شخص نے دھوتی پہنی تھی جب کہ ابا جی دھوتی نہیں پہنتے تھے۔ چناں چہ کچھ حوصلہ ہوا اور میں گھر لوٹ آیا۔‘‘
ساری رات جاگتے گزری۔صبح فجر کے وقت دستک ہوئی۔
دروازہ کھولا تو اباجی سامنے کھڑے تھے۔میں رو پڑا اوراُن سے لپٹ گیا۔انھوں نے بتایا کہ وہ بارش کی وجہ سے رات کو بڑی ہمشیرہ کے ہاں رُک گئے تھے۔پھر مجھے دِلاسا دیتے ہوئے بولے۔’’مجھے یہ تو پتا چل گیا کہ تُم مجھ سے محبت کرتے ہو۔‘‘عطاصاحب نے مجھے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا۔’’اب بھلا محبت جانچنے کا یہ کوئی طریقہ تھا جو اباجی نے ایجاد کیا۔‘‘
ایک روز قاسمی صاحب سگریٹ کی راکھ ،راکھ دان میں جھاڑتے ہوئے دھیمی آواز میں بولے۔
’’جب اباجی فوت ہوئے تو مجھے بہت مدت تک ان کی موت کا یقین نہ آیا۔بہت دنوں تک میں اس واہمے کا شکار رہا کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور ابا جی وہ سامنے سے اپنی مخصوص چال چلتے ہوئے آئیں گے اور مجھ سے کہیں گے’کیا بات ہے، بڑے دنوں سے اخبار میں تمھاری خرافات نہیں چھپیں‘ اور میں مسکرا دوں گا۔‘‘
وہ کافی دیر خاموش رہے۔ یہاں تک کہ اُن کے دفتر کی میز پرپڑی لیمپ کی پیلی روشنی اُن کی آنکھوں میں جھلملانے لگی۔
’’ابا جی اپنی وفات کے بعد دس سال تک روزانہ رات کو متواتر میرے خواب میں آتے رہے۔دس سال تک ہر رات۔پھر جب میں اس سانحے سے جذباتی طور پر سمجھوتا کرنے کے کچھ قابل ہوا تو اس ملاقات میں وقفے آنے لگے۔‘‘بولتے بولتے وہ چونک گئے۔
’’عجیب بات ہے ۔بہت دن ہوگئے اباجی سے خواب میں ملاقات ہی نہیں ہوئی۔‘‘
’’جذباتی ‘‘ کا لفظ اُن کی شخصیت کا موزوں احاطہ کرتا ہے۔وہ اپنے تعلقات میں بہت جذباتی ہیں۔ کسی سے اُن کی جذباتی وابستگی قائم ہوجاتی ہے تو اُس شخص کے ساتھ وہ جی جان سے ہوجاتے ہیں اورنکتہ چینیوں کے حوالے سے زود رنج ہیں۔بعض اوقات احباب کو خاصاناراض بھی کردیتے ہیں۔
ادب میں احمد ندیم قاسمی سے وابستگی ہوئی تو انتہا تک گئے۔ ان کے حاسدین کے لیے دل میں کچھ ایسا بال آیا کہ آج تک دور نہیں ہوا۔
ڈاکٹر وزیرآغا اور احمد ندیم قاسمی دونوں ادب کی قابلِ قدر شخصیات ہیں۔ان میں کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی تو ڈاکٹر صاحب پر لطیف انداز میں چوٹ کر ڈالی۔ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں لکھا۔’’ڈاکٹروزیرآغاکی سب سے بڑی خدمت اُن کے وہ باغات ہیں جن کے کینواورمالٹے بے مثال ہیں۔‘‘یہاں عطا صاحب کا اشارہ سرگودھا میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے کینو،مالٹے کے باغات کی جانب تھا۔
منصورہ احمد ،احمدندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی تھیں۔ کچھ ندیم صاحب کی سر پرستانہ محبت اور کچھ افتادِ طبع کے باعث اُن کا لب ولہجہ اور رویہ بعض اوقات ندیم صاحب کے رفقاء کے ساتھ بے باک ہوجاتا تھا۔اس رویے نے جہاں پروین شاکر جیسی نفیس خاتون کو آب دیدہ کردیا، وہیں اختر حسین جعفری جیسے عمدہ شاعر اور مرنجاں مرنج شخص کو بھی دکھی کردیا۔اسی طرح منصورہ نے عطا ء الحق قاسمی کو بھی اِس حد تک زچ کردیا کہ وہ اس سے قطع کلامی پرمجبور ہوگئے۔
احمدندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعدمنصورہ تنہا رہ گئیں۔وہ سب لوگ جو ندیم صاحب کی وجہ سے اُنھیں رعایت دیتے تھے ،پیچھے ہٹنے لگے۔یہاں تک کہ وہ بیمار پڑگئیں۔اسی بیماری میں اُنھوں نے اپنے اشاعتی ادارے ’اساطیر‘ کا دفتر اتفاقاً عطاصاحب کے دفتر کے برابر میں منتقل کردیا۔
میں جب عطاء صاحب کے ہاں جاتا تو منصورہ کی مزاج پرُسی کے لیے اُن کے ہاں بھی چلا جاتا۔ چند ایک مرتبہ جب میں نے عطا صاحب سے اُن کا تذکرہ کیا توخاموش رہے، بالآخر دکھی لہجے میں بول پڑے۔’’میں کیا کروں مجھ سے منافقت نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادب میں میرے آئیڈیل احمدندیم قاسمی سے آخری دنوں میں رفقاء کو علیحدہ کرنے میں منصورہ نے ناقابلِ معافی کردار ادا کیا ہے۔‘‘
منصورہ کی وفات کے بعد کہنے لگے۔’’اگر صرف موت کی وجہ سے کسی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں تو پھر یزید کی بھی معافی کا جواز بنتا ہے۔‘‘
جب یہی جذباتی وابستگی سیاست میں آئی تو درمیان کا رستہ اختیار نہ کیا بلکہ کھل کر حمایت اور مخالفت کی۔ بیشتر وقت اپوزیشن کا ساتھ دیا۔بھٹو کی حکومت میں اس کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کی، ضیا کے ناقدین میں شامل رہے اور جب مشرف کا طوطی بول رہا تھا تو ببانگِ دہل اس کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ نواز شریف کا تو اُن کی جلاوطنی کے دور میں بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی وابستگی مستقل رہی اور حالات کی قیدی نہ بنی۔
ایک مرتبہ بہت دکھ میں کہنے لگے کہ پہلے وضع داری کا زمانہ تھا۔کبھی سیاسی مخالفت کی وجہ سے ذاتی نوعیت کے رکیک حملے نہ ہوتے تھے۔ہرذی شعور اِنسان کے سیاسی نظریات اوروابستگیاں ہوتی ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سیاسی رائے سے اختلاف رکھنے والے دشنام طرازی سے باز نہیں آتے۔ایک روز ایک خاتون جواُن کے ایک دوست کی بیگم تھیں اورایک مخصوص سیاسی جماعت سے ہم دردی رکھتی تھیں ، کہنے لگیں۔’’قاسمی صاحب آپ کب تک اُس مخصوص سیاسی راہ نما کی چمچہ گیری کرتے رہیں گے۔‘‘
اس پر قاسمی صاحب نے برجستہ جواب دیا۔’’بھابی !ہم دونوں میں یہ قدر تو مشترک ہے ۔ہم دونوں چمچہ گیر ہیں۔ آپ ایک جماعت کی تو میں دوسری جماعت کا۔‘‘
اس حوالے سے اُنھوں نے 1970ء کی دہائی کا ایک واقعہ سُنایا۔ایک مرتبہ اُن کا اسکوٹر چوری ہوگیا تو انھوں نے اس کے حوالے سے چورکے نام ایک کالم لکھ ڈالا۔اسی کالم کے تسلسل میں کئی کالم نگاروں نے کالم لکھے جن میں پیپلزپارٹی کے ترجمان ’’مساوات‘‘کے ایک کالم نگارسہیل ظفربھی تھے۔چند روز بعد چور ان کا اسکوٹر واپس چھوڑگیا جس پر انھوں نے کالم لکھا’’شکریہ چور صاحب‘‘اوراس میں لکھا کہ نہ معلوم کس کالم نگار کے کالم سے متاثر ہو کر چور کو رحم آیا اور اس نے چوری شدہ اسکوٹر واپس لوٹا دیا البتہ پیپلزپارٹی پرلطیف چوٹ کرتے ہوئے لکھا کہ گمانِ غالب یہی ہے کہ ’’مساوات‘‘ کے کالم کو ’’پارٹی کا حکم‘‘ سمجھتے ہوئے چورنے اسکوٹرواپس کیا ہے۔چند روز بعد سہیل ظفرسے ملاقات ہوئی تو وہ ہنستے ہوئے ان کے گلے لگ گئے اور بولے’’شرارت تو تم پر ختم ہے لیکن بھئی تم نے جملہ بہت شان دار لکھا تھا۔‘‘
ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ایک مرتبہ رات کو میں نے قاسمی صاحب کو فون کیا اور کسی حوالے سے کوئی بات معلوم کرنا چاہی۔ وہ غالباً کہیں مصروف تھے، بات مختصر کرکے فون بند کردیا۔ چوں کہ معلومات بہت ضروری نہ تھیں، فقط ایک سرسری حوالے کے لیے درکار تھیں، میں انھیں نظر انداز کرکے سوگیا۔
اگلے روز چھٹی تھی سو میں آرام سے سو کراُٹھا۔ موبائل پر دیکھا تو علی الصبح سے ان کی تین چار کالیں آچکی تھیں ۔کچھ پریشان ہو کر میں نے فون ملایا تو انھوں نے دوسری گھنٹی ہی پر فون اُٹھا لیا۔
فون اُٹھانے کے بعد رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد گزشتہ رات میری جانب سے پوچھی گئی بات کا بہت تسلی اور وضاحت سے جواب دیا۔ جب میں نے کہا کہ یہ بات اتنی اہم نہ تھی تو پنجابی میں بولے۔’’عرفان ! شام کو میں کہیں مہمانوں کے مصروف تھا ،چناں چہ آپ کی بات کا تفصیلی جواب نہ دے پایا۔ رات کو بستر پر لیٹا تو خیال آیا کہ میری مصروفیت کو آپ نے بے اعتنائی پر محمول نہ کرلیا ہو۔صبح اُٹھتے ہی میں نے پہلا کام یہ کیا کہ آپ کو فون کیا۔مجھے امید ہے کہ آپ مطمئن ہوگئے ہوں گے۔‘‘
میرے اور قاسمی صاحب کے ذاتی تعلق کی مالا میں ایسے واقعات کے کئی رنگین منکے پروئے ہوئے ہیں۔
ہماری ملاقاتیں بے شمار جگہوں اور مقامات پر محیط ہیں۔اُن کا گھر،معاصر کا دفتر،لاہوراور کراچی کے ہوٹل ہوں یا میرا گھر ،ہر جگہ اُن کی ذات کانقش موجودہے۔
ان تمام مقامات میں میری سب سے زیادہ جذباتی وابستگی ’’معاصر ‘‘کے دفتر سے ہے۔یہ دفتر نہیں، ایک چھوٹا سا گھر ہے۔داخل ہوتے ہی سامنے استقبالی میز پر خاتون سیکریٹری بیٹھی ملے گی، ساتھ میں چھوٹا سا باورچی خانہ ہے۔استقبالی کمرے کے ساتھ را ہ داری جیساکمرا ہے۔ کھانے کی میز سجی ہے۔یہ کمرا اُن کے صدر کمرے میں کھلتا ہے۔کمرے میں ایک جانب ٹی وی ہے اور سامنے ایک میز کے پیچھے کھلی سرخ و سپید رنگت اور مسکراتے چہرے والے قاسمی صاحب کسی کتاب پر جھکے یا فون پر قہقہہ بار گفتگو کرتے نظر آئیں گے۔وہ ان چند رونقی لوگوں میں سے ہیں جن کے وجود سے ایک پھیکے خاموش کمرے میں زندگی کی رَو دوڑجاتی ہے۔ کمرے کے پہلو میں ایک اور کمرا ہے جہاں قیلولے کے لیے ایک آرام دہ بستر بچھاہے اور چند کپڑے ٹنگے ہوتے ہیں۔ اس آرام کمرے سے وابستہ ایک غسل خانہ ہے۔ان کا دفتر گویا ایک مکمل یونٹ ہے۔
اس دفتر سے میری بے شماریادوں کا ایک سلسلہ ہے۔اسی میز کے گرد کرسیوں پر میری مِنی بھائی سے لے کر احمد فراز تک جانے کتنے نابغۂ روزگار لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ نہ جانے کتنے اجنبی شہروں اورقصبوں کے لوگوں سے ملاہوں جواُن سے ملنے چلے آتے ہیں۔
میں اور قاسمی صاحب وہاں تنہا ہوتے ہیں تویوں کہیے، تکلف کے سبھی لباس اُتار کر ایسی ایسی دیویاں ہمارے بیچ اترتی اور گدگداتی ہیں کہ قہقہوں کی رنگین پھوار سے سبھی درودیوار دیوالی رنگ ہوجاتے ہیں۔نہ جانے اُن کی ذات میں کیا اپنائیت اور بے ساختگی ہے کہ سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کے اندر سے بھی ظرافت کود کر باہر آجاتی ہے۔
ابھی وہ کسی سے فون پر گفتگو کررہے ہیں کہ مجھے دیکھ کر فون پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں۔’’ذرا انتظار کرنا پڑے گا، تبادلۂ منافقت جاری ہے۔‘‘
ایک روزمیں نے اُن سے کہا کہ پرانے وقتوں میں لوگ داناؤں اور جہاں دیدہ لوگوں سے نصیحت کی فرمایش کرتے تھے، تو کیاآپ مجھے کوئی نصیحت کریں گے۔یہ سن کر انھوں نے آنکھیں موند لیں اور انتہائی سنجیدگی سے سوچنے لگے۔کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں اور فرمایا۔’’ میری صرف ایک نصیحت ہے اور وہ یہ کہ کبھی کسی کو نصیحت نہ کرنا‘‘
خوش خوراک اور کھانے کا عمدہ ذوق بھی رکھتے ہیں۔اعلیٰ ریستورانوں کے ولائتی کھانوں پر عمدہ پکے ہوئے دیسی پکوانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہماری ایک روایت چلی آرہی ہے۔اکثر دوپہر میں جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو نیلا گنبد پرواقع غلام رسول کے مٹن چنے یا دیسی مرغ کے ساتھ تیار ہوئے مرغ چنوں کا کھانا کھاتے ہیں۔منہ میں گھل جانے والے ذائقہ دار مٹن چنے، خستہ نمکین لذیذ نان اُن کے دفتر میں منگوا لیے جاتے ہیں اور گرما گرم، کھانے کی میز پر سجا دیے جاتے ہیں جہاں کتری گئی پیاز اور دہی کے کھٹے رائتے کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔دفترمیں کوئی مہمان موجود ہواتووہ بھی بھرپور رغبت سے شاملِ طعام ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ بقول اُن کے بندہ’نکونک‘ہوجاتا ہے۔کبھی کھانے کا پروگرام پہلے سے طے شدہ ہو تو وہ اپنے گھر سے کشمش،کھوئے، دیسی باداموں اور دیگر میوہ جات میں رچا ذائقہ دار زردہ لے آتے ہیں جو کھانے کے بعد گرم کرکے پیش کیا جاتا ہے۔بعد میں الائچی والی چائے کے ساتھ وہ گولڈلیف سلگا لیتے ہیں اور میں نیم غنودگی میں اجازت چاہتا ہوں۔
اگرکبھی زبان کا ذائقہ بدلنا ہوتو چوبرجی کے ساتھ واقع خان بابا کے ہوٹل کامخصوص عمدہ بھُناہوا مٹن،کریلے گوشت،دیسی گھی میں بگھاری دال یا سوندھی خوشبو والا دیگی پلاؤ منگوا لیا جاتا ہے۔اس میز پر بہت سے لوگوں کا کُفر ٹوٹا ہے۔ہندوستان سے آئے ہوئے اُن کے مہمان ہندو ادیب کا منہ ایسے عمدہ کھانے کو دیکھ کر یوں پانی سے بھرآیا کہ اُس نے اپنے دھرم کو کچھ دیر کے لیے بالائے طاق رکھ کر کچھ ایسے چاؤ سے گوشت کھایا کہ کفر کافی دیر تک ٹوٹتا رہا۔
اس کے علاوہ اُن کے گھر میں سردیوں کی کہرآلود راتوں میں اعلیٰ درجے کے میوہ جات سے تو کئی مرتبہ لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے ۔کھانے کے معاملے میں ان کا اصول ہے کہ بہت ہو اور عمدہ ہو۔ کھانے سے زیادہ وہ کھلانے پریقین رکھتے ہیں۔
ایک روز میں ان کے ساتھ کراچی کے ایک ریستوران میں بیٹھا تھا کہ ایک حسین خاتون ہمارے سامنے سے گزری۔میں نے خاتون کے حُسن کو سراہا ’’ماشاء اللہ‘‘۔ اس پرانھوں نے بے اختیار میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور بولے ۔’’انشاء اللہ کہو، عرفان بھائی انشا ء اللہ۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ تاسف سے سنانے لگے کہ کس طرح غلط فہمی اِنسان کو منزل کے قریب پہنچ کر بھی اس سے محروم کردیتی ہے۔
’’اوائلِ جوانی کی بات ہے۔جہاں گردی کا خبط سوار تھا۔سو میں پھرتا پھراتا ترکی جانکلا۔استنبول میں ایک ترکی لڑکی سے کچھ ایسی بات بنی کہ بات گفتگو کی حدود سے نکل کر آگے تک چلی گئی۔سو وہ اگلے روزہوٹل میں ملنے آئی اور اس نے وہاں ایک کمراکرائے پرلے لیا۔
رات کچھ بیت گئی تو میں دبے پاؤں اپنے کمرے سے باہر نکلا۔سامنے ہوٹل کا ایک نوجوان ملازم کرسی میز ڈالے بیٹھا تھا اور متوقع نظروں سے میرے کمرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔لگتا تھا کہ اُس کم بخت کی قومی غیرت کچھ غلط وقت پر جاگ گئی تھی۔ ہم دونوں کی نظریں ملیں۔اوردیرتلک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔پھر میں اپنے کمرے میں واپس چلا گیا۔
رات کا پچھلا پہر گزر گیا اور اب تک گزرا انتظار کا ہر منٹ مجھ پر بہت بھاری گزرا تھا، دبے قدموں پھر کمرے سے باہر نکلا۔وہ ظالم نہ صرف جاگ رہا تھا بلکہ ٹکٹکی باندھے میرے کمرے کی جانب گھور رہا تھا۔چناں چہ میں اُسی طرح دبے پاؤں واپس کمرے میں جاکر سوگیا۔
صبح ناشتے کے وقت میں کمرے سے نکلا تو باہر وہی ترکی نوجوان اور میری تازہ شناسا لڑکی ترکی زبان میں کچھ تکرار کررہے تھے۔مجھے دیکھ کر وہ نوجوان میری جانب اشارہ کرکے اپنی زبان میں کچھ اونچی آواز میں بولنے لگا۔اُس کی گفتگو سن کر لڑکی کی آنکھیں بھرآئیں اور وہ پیر پٹختی ہوئی میرے قریب آئی اور بولی ۔ ’’تمھارے اندر غیرت کی ذرہ برابر بھی رمق نہیں۔اس بندے نے تمھارے سامنے میرے لیے نہ جانے کون کون سے مغلظات بکے ہیں مگر تم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔کوئی ترک نوجوان ہوتا تو اس کے دانت توڑ ڈالتا۔میں تم سے کسی بھی طرح کا تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔‘‘
اس پر میں نے مسکینی سے قسم کھائی کہ مجھے تو ترکی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا۔ پھر بھی میں اس کے دانت توڑنے کی کوشش کرسکتا ہوں لیکن وہ لڑکی غصے میں پھنکتی مجھے اور اُس نوجوان کو برُا بھلا کہتی وہاں سے چلی گئی اور میں بے بسی سے اُسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔‘‘
صنفِ مخالف کی جانب متوجہ ہونا ایک فطری جذبہ ہے، اس موضوع پر کئی مرتبہ بات ہوئی۔جس پر انھوں نے ہمیشہ دو ٹوک اور بلا لگی لپٹی بات کی۔
’’عورت کا حُسن حسِ لطیف کے مالک کس مرد کو متاثر نہیں کرتا۔حُسن دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک جمالیاتی، نظروں کو خیرہ کردینے والا اور دوسرا خوابیدہ مردانہ احساسات کو بیدار کرنے والی برہنہ کشش۔کچھ ہی وقفے بعد کسی نہ کسی ایسی خاتون سے سامنا ہوجاتا ہے جس کا حُسن آج بھی مبہوت کردیتا ہے۔جب میں ایم اے او کالج میں پڑھاتاتھا ،تو انار کلی میں ایک ایسی حسین خاتون سے سامنا ہوگیا کہ میں دنیا و مافیہاسے بے گانہ دیکھتا رہ گیا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ ایک انگریزی کے پروفیسر کی بیوی تھی۔جب وہ پروفیسر ناراض ہوا کہ میں اس کی بیوی کو تاک رہا تھا، تو مجھے اپنے اس والہانہ پن پربہت غصہ آیا اورشرمندگی بہت ہوئی ۔اسی طرح پروین شاکر کی پوری شخصیت خوب صورت تھی۔اس کے حسن میں ملکوتی تقدس تھا۔‘‘
ایک روز بتانے لگے۔
’’میں جوانی میں اس احساسِ کم تری کا شکار تھا کہ شاید میں قبول صورت بھی نہیں۔اسی لیے جب کوئی لڑکی میری جانب متوجہ ہوتی تھی تو میں اسے اپنی غلط فہمی پر محمول کرتا تھا۔ابھی چند سال پہلے مجھے میرے ایک پرانے دوست نے عہدِ گزشتہ کی ایک لڑکی کے بارے میں بتایا کہ وہ مجھے پسند کرتی تھی اور میرے قریب آنا چاہتی تھی۔تب مجھے یاد آیا کہ میں اسے کسی اور نظر سے دیکھتا تھا۔اگر کبھی مجھے اس کی جانب سے اس طرح کا اشارہ ملا بھی تومیں نے اسے اپنی ذہنی اختراع جانا اور ایک احساسِ شرمندگی کے ساتھ غلط فہمی سمجھتے ہوئے جھٹک دیا۔چندروز پہلے کی بات ہے کہ جی سی یونی ورسٹی میں ایک پرانی کلاس فیلو سے ملاقات ہوگئی۔وہ اب تک بڑھاپے میں داخل ہوچکی تھی۔اُس نے ملاقات کے دوران انکشاف کیا کہ اُس دور میں وہ مجھے پسند کرتی تھی۔اُس کی بات سن کر پہلے تو میں نے اُس کے سفید ہوتے بال دیکھے، پھر اپنے اوپر نظر دوڑائی اور بولا۔ ’’ایہہ دسن دا ہُن کی فیدہ(یہ بات بتانے کا اب کیا فائدہ)‘‘
یہ کہتے ہوئے قاسمی صاحب نے بھرپورقہقہہ لگایا۔
اسی طرح ایک روز ہم فکری مغالطوں پر گفتگو کررہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم بحیثیت قوم ایک تصورقائم کرکے اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ہمارے ہاں مشرقی پاک دامنی کا ایک غلط العام نظریہ جڑپکڑچکا ہے۔
’’جس طرح ایک عورت کی فراخ دلی کا سن کر مرد اس کی جانب بے اختیار رُخ کرتے ہیں اسی طرح ایک بدنام مرد کی جانب خواتین خودبخود متوجہ ہوجاتی ہیں۔‘‘
قاسمی صاحب نے یہ بات کی تو میرے ذہن میں معروف بھارتی خوشونت سنگھ کا چہرہ نمایاں ہوگیا۔خوشونت سنگھ نے کہیں لکھا ہے کہ اپنے جوانی کے دنوں میں بھارتی مصورہ امرتا شیر گل کی دریا دلی اور فیاضی کا چر چا سن کر وہ خوب تیار ہوکراُس سے ملنے گئے۔امرتا نے بہت عزت سے ان کو اپنے ہاں بٹھایا اورگفتگو کرتی رہی۔اُدھرمصورہ کی گفتگو جاری تھی،اِدھر خوشونت سنگھ کا ذہن کہیں اور بھٹک رہاتھا۔وہ اس انتظار میں تھے کہ ابھی امرتا شیر گل آتش دان کے سامنے بے لباس ہو کر خوشونت سنگھ کو دعوت گناہ دے گی ۔
یہاں تک کہ گفتگو ادب،صحافت اورمصوری سے ہوتی ہوئی اختتام پذیر ہوئی۔ملاقات کا وقت بھی پورا ہوا۔خوشونت سنگھ امرتا شیرگل کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔اوروہ سادگی سے خوشونت سنگھ کو۔
کچھ دیربعد انھوں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو گالی بکی اور باہر آکر امرتا شیرگل کی پاک دامنی کا اعلان کردیا۔
اسی طرح مغربی ممالک کے نوبالغ لڑکے لڑکیوں کے نفسیات دان اس گتھی کی نفسیاتی توجیہہ تلاش کررہے ہیں جس کے باعث بگڑے ہوئے لڑکے لڑکیوں کو اپنی جانب جلد ہی مبذول کرلیتے ہیں۔جب کہ اس کے برعکس محنتی اور لائق لڑکے اُنھیں دیکھ کر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔ نہ جانے یہ کیا رمزہے جو لاابالی اوربدنام مرد کی جانب عورت کو جلد راغب کردیتا ہے۔
اس موقع پر انھوں نے ایک واقعہ سُنایا۔’’ہم لوگ ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہتے تھے۔میری عمر اُس وقت تیرہ چودہ برس کی ہوگی۔ ماڈل ٹاؤن سے میری بہت حسین یادیں وابستہ ہیں۔وہاں کی خاموش سہ پہریں، گھنے چھتناور درخت اور ان کے بیچ میں لیٹی تارکول کی سیاہ سڑکیں جہاں یادیں سرسبزدرختوں پرکوئل کی طرح کوکتی ہیں وہیں اس دور کے دوست، متفرق مزاجوں کے رنگا رنگ دوست، اپنی انوکھی شناخت لیے بہت یادآتے ہیں۔
انھی دوستوں میں ایک معصوم اور سیدھا سادا دوست ہمارے گھر کے قریب میں واقع کوٹھی کے ایک حصے میں رہتا تھا۔اسی کوٹھی کا مالک اہل خانہ کے ہم راہ دوسرے وسیع حصے میں رہتا تھا۔مالک کے اہل خانہ میں اُس کی ایک بیٹی بھی تھی۔لڑکی درویش منش اور اللہ والی تھی۔ بیشتر وقت عبادت اور وظائف میں گزارتی تھی ، بعض اوقات قرب وجوارکے لوگ دعا کے لیے بھی اُس تک آجاتے تھے۔
جولائی کا مہینہ تھا، میں اپنے گھر میں تھا کہ میرا وہی دوست مجھ سے ملنے آیا۔اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ میں نے اضطراب کی وجہ پوچھی تو اُس نے انکشاف کیا کہ وہ کوٹھی کے ایک گوشے میں کھڑا تھا۔مالک اور اس کے دیگر اہل خانہ کہیں گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکی کہیں سے آگئی۔ اُس نے دوست کو دیکھ کر اس کے گرد بازو حمائل کردیے اور اُسے بے طرح چومنا شروع کردیا۔دوست سٹ پٹا گیا اور بقول اس کے بہت مشکل سے اپنی ’’عزت‘‘بچا کر وہاں سے بھاگا۔‘‘
بہت پہلے قاسمی صاحب نے اعترافِ سادگی اور معصومیت کرتے ہوئے مجھے شریکِ راز کیا تھا کہ انھوں نے کبھی کسی خاتون کی جانب قدم نہیں بڑھایا بلکہ ہمیشہ خواتین ہی ان کی جانب جذبۂ آمادگی سے بڑھتی رہیں،بلکہ کچھ مواقع پر وہ چند قدم پیچھے ہی ہٹتے رہے ہیں۔
ہماری گفتگو کئی مرتبہ ان موضوعات کی جانب بھی رخ کرگئی جن پر زندہ اور صحت مند معاشروں میں مباحث عام ہیں لیکن یہاں اُن کا تذکرہ نامناسب سمجھا جاتا ہے۔
’’قحبہ خانے معاشرے کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔انسانی فطرت بے مہارہے،بھٹک جاتی ہے۔ فاسد مواد کے اخراج کا انتظام نہ کیا جائے تویہ خون میں پھیل کر بیماری کا باعث بن جاتا ہے ۔اسی طرح قحبہ خانے معاشرے کے فاسد مواد کے اخراج کے لیے ضروری ہیں۔یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہمارے معاشرے میں جسم فروشی کی وبامخصوص علاقوں سے نکل کر عام گلی محلوں میں پھیل گئی ہے۔اِسے مخصوص کردینے سے جہاں فطرت کے اصولوں سے سمجھوتے کا سامان ہوتا ہے،وہاں باقاعدہ کلینیکل چیک اَپ سے بیماریوں کا تدارک ہوتا ہے۔منٹو نے بجا طور پر اس صدیوں پرانے ادارے کو معاشرے کا ٹائلٹ کہا ہے۔‘‘
ایک روز میں پوچھ بیٹھا ،منٹو کہتا تھا کہ ہر اِنسان اپنے سینے میں ضرور ایک راز لے کر قبر میں جاتا ہے تو کیاوہ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
وہ کچھ دیر سوچتے رہے پھر گویا ہوئے۔’’میں اس بات سے کُلی طور پر اتفاق کرتا ہوں۔میرے سینے میں بھی ایک ایسا راز ہے جو میرے سوا کسی کو معلوم نہیں۔میں اسے قبر میں ساتھ لے کر جاؤں گا۔‘‘کچھ دیر توقف کرکے گویا ہوئے۔’’البتہ ایک اور بات ہے جس کا اظہار کردینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں ایک ناپختہ عمر کا لڑکا تھا۔ہم لوگ وزیرآباد میں رہتے تھے۔گرمیوں کی دوپہروں میں گھر والے سوجاتے تو میں کبھی تو گھر کے اندر کھیل کود میں مشغول رہتا اور کبھی باہر محلے میں نکل جاتا۔‘‘
یہاں پہنچ کر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی ۔گویا تذبذب کا شکار ہوگئے ہوں پھرسوچ بھرے انداز میں میری جانب دیکھا ۔’’اسے کبھی لکھوگے تو نہیں؟‘‘
’’ارادہ تو ہے۔‘‘
’’اچھا کوئی حرج نہیں۔اِنسانی فطرت کا یہ پہلو بھی سامنے آنا چاہیے۔‘‘
اس کے بعد کہانی کا سراتھام لیا۔
’’ایک روز میں گھر کے پچھلے حصے میں کھیل کود میں گم تھا۔اس حصے میں گھر کا ناکارہ کاٹھ کباڑ، رضائیاں، بکسے اور دیگر سامان رکھا جاتا تھا۔باہر لُوچل رہی تھی اور گلی میں ہُو کا عالم تھا۔اتنے میں ہماری گھریلو ملازمہ وہاں آگئی۔وہ بھی میرے ساتھ کھیلنے لگی۔کھیلتے کھیلتے یکایک وہ مجھ سے لپٹ گئی۔میں گھبرا گیا۔ایک، دس، بارہ برس کے بچے کی کیا سمجھ ہوتی ہے۔مجھے گھبرایا ہوا دیکھ کر اُس نے مجھے دلاسا دیا اور ایک تنہا گوشے میں لے گئی۔‘‘
قاسمی صاحب نے میری جانب دیکھا تو میں اُنھیں غور سے دیکھ رہا تھا۔وہ کچھ جھینپ سے گئے اور بات مکمل کی۔
’’اس واقعے کے بعد میں جب بھی اُس ملازمہ کو دیکھتا ،گھبرا کر دور بھاگ جاتا ۔اس واقعے کا منفی اثر زائل ہونے میں کئی برس لگ گئے۔‘‘
ایک واقعہ میں نے کچھ عرصے پہلے سن رکھا تھا۔میں نے اُن سے اس کی تصدیق چاہی۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہم جنس پرست شاعر افتخار نسیم (افتی نسیم) شکاگو سے تعلق رکھتا تھا۔اُسے امریکا کے کسی مشاعرے میں مدعوکیا گیا۔قاسمی صاحب سمیت پاکستان سے بھی کئی شعرا اس مشاعرے میں مدعو تھے۔
جس ہوٹل میں قیام تھا ،وہاں ایک کمرے میں دو افراد کوٹھیرانے کا انتظام تھا۔اتفاقاً جس کمرے میں قاسمی صاحب کو ٹھیرنا تھا، اس میں ان کا رفیق افتی نسیم تھا۔ کاؤنٹر پر یہ انکشاف ہوا تو قاسمی صاحب نے کمرے میں ٹھیرنے سے معذرت کرلی۔افتی قریب ہی کھڑا تھا۔اُس نے جب یہ دیکھا توہم دردانہ لہجے میں قاسمی صاحب کی بارعب شخصیت دیکھتے ہوئے اُن سے مخاطب ہوا۔’’میں گے ضرورآں پر فکر نہ کرو انھا نہیں‘‘(میں ہم جنس پرست ضرور ہوں مگر اندھا نہیں)۔
قاسمی صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے صحتِ واقعہ کی بھرپور تردید کی اوراصل حقائق بیان کیے۔
’’میں شکاگو گیا ہواتھا، وہاں ایک جگہ افتخار نسیم سمیت چالیس پچاس کے قریب لوگ مدعو تھے۔ کسی نے بتایا کہ گزشتہ رات افتخار نسیم زنانہ لباس میں محفل میں آگیا تھا۔یہ سن کر میں نے محفل سے رخصت کی اجازت لی اور اپنے کمرے میں آکر سردرد کی دوا کھا کر سوگیا۔میں ایسے لوگ ناپسند نہیں کرتا۔غالباً یہ ذہنی کج روی اور جینیاتی ترکیب کے غلام ہوتے ہیں۔اسی لیے ہم دردی کے قابل ہیں۔ میں ان کے جنسیاتی فلسفے سے کُلی اختلاف کرتا ہوں اور ان کے لیے میرے دل میں افسوس اور رحم کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
ناسٹیلجا، ایامِ گزشتہ سے رومانوی وابستگی اُن کی شخصیت کا ایک بہت نمایاں پہلو ہے۔وہ عام زندگی گزارتے ہوئے ایک دم ماضی کے دھندلکوں میں کھوجاتے ہیں۔ بچپن اور جوانی کی اِن سرسبزپہاڑی چوٹیوں پر چھائے وقت کے روئی کے گالوں جیسے بادلوں کے اندر سے ایک بچے کے کھیلنے کی معصوم آوازیں آتی ہیں۔
امرتسر کی دھندلی گلیوں میں تانگے میں جتے گھوڑے کی ٹاپیں ہیں، وزیرآباد کی ایک مسجد سے صبحِ ازل کہ ہر صبح، صبح ازل کاپرتو ہے‘ کے وقت بلند ہوتی اذان کی میٹھی مدھر آواز ہے، ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پر دوڑتے نیلے لمبریٹا اسکوٹر کی پھٹ پھٹ کا شور ہے، چوڑیوں کے چھنکنے اورمترنم نسوانی قہقہوں کی جل ترنگ سنائی دیتی ہے۔
امریکا کے ایک ہوٹل میں ہندو سکھ دوستوں کا ہلا گلا ہے،اور ایک قبرستان کی خاموشی میں صدائے اشہداللہ ہے۔ماضی ان کی گفتگو،کالموں اور دیگر تخلیقی کاموں میں یوں ورود کرجاتا ہے جیسے گئی چاندنی راتوں کو قراقرم کی منجمد آئینہ جھیلوں پر پریاں اُتراکرتی ہیں۔
ایک روز کہنے لگے کہ لمحۂ موجود کے گزرنے کا اس لیے بھی انتظار کرتاہوں کہ آیندہ دن اِسے ماضی کا وقت جان کر اس کی یاد سے محظوظ ہوؤں۔
ان کا ناسٹیلجیا لوگوں کی بہ نسبت مخصوص ادوار اور جگہوں سے وابستہ ہے۔وگرنہ ابھی تو ان کے بیشتر دوست بساطِ حیات پر اپنے قدموں کی چالیں چلتے ہیں۔پرانے دوستوں سے ان کے وہ پہلے سے مراسم نظر نہیں آتے۔ایک روز اس کی توجیہہ میں ایک واقعہ سنایا۔
افسانہ نگار منشا یاد ایک مرتبہ اُس دور کے مشہور تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کے پاس گئے۔منشایاد کی جوانی کا زمانہ تھا ، نسیم حجازی صاحب پیری کی چٹان پربیٹھے تھے۔ منشا یاد نے اُن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ انھیں اپنے حلقۂ یاراں میں شامل ہونے کا اعزاز بخش دیں۔اس پر حجازی صاحب کہنے لگے۔’’برخوردار! یہ عمر نئی دوستیاں بنانے کی نہیں،بلکہ پرانی دوستیوں پر نظرثانی کرنے کی ہوتی ہے۔‘‘
یہ واقعہ سنا کر اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پرکہنے لگے کہ بچپن کے دوستوں سے تب تک دوستی بھرپورانداز میں قائم رہتی ہے جب تک ذہنی سطح ایک رہے یا دلچسپی کاشعبہ اور سلسلۂ روزگار ایک ہو۔
اس کے بعد بتانے لگے کہ جب کبھی ان کی اپنے بچپن کے دوستوں سے ملاقات ہو تو کچھ ہی دیر بعد کرنے کو کوئی بات نہیں رہتی۔ان سے محبت اور اپنائیت کا ایک تعلق تو قائم رہتا ہے مگر دوستی میں وہ پہلے سادم باقی نہیں رہتا۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ انسان کسی مخصوص ذہنی سطح پر پہنچ چکا ہوتا ہے جب کہ دوست کسی دوسری سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔رجحانات اور خیالات کا تفاوت مسلسل رابطے میں موہوم سی رکاوٹ سے کچھ بڑھ کرہی ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ایک روز کہنے لگے کہ مرد اور عورت کی دوستی تادیر نہیں چلتی۔یہ تعلق کی کسی نہج پر رومان کا رنگ اختیار کرلیتی ہے یا اس پر دوستی سے ہٹ کر دیگر عوامل اثر انداز ہوجاتے ہیں۔
احمدندیم قاسمی سے ان کا عقیدت کا تعلق رہا تو ادیبوں میں مستنصر حسین تارڑ، نجیب احمد، خالد احمد اور امجد اسلام امجد سے ادب کے باعث دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ امجد اسلام امجد اوراُن کی دوستی ضرب المثل بن گئی۔آپس میں کچھ ایسا سر تال ملا کہ جہاں اکٹھے ہوتے، ہنسوں کی جوڑی کہلاتے۔اتنا ہنستے اور ہنساتے کہ یونس بٹ کو لکھنا پڑا کہ یہ دونوں ہستیاں جس محفل میں اکٹھی ہوجائیں وہاں پران کی پرُمزاح نوک جھونک کی وجہ سے سکہ بند اور پیشہ ورجگت بازوں کی آمدنی کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں۔
ایک شام ہم دونوں کراچی میں سمندر کے اندر تک چلے جاتے ایک دِل کش ریستوران میں بیٹھے تھے۔ سمندر کی لہروں پرچھوٹی کشتیوں کی روشنیوں کی جھلملاہٹ اور چاند کی روپہلی چاندنی میں نیچی پرواز کرتے سفید پرندے اسے ایک خوب صورت شام بنا رہے تھے۔ابھی کھانے میں دیر تھی چناں چہ اِدھر اُدھر کی گپ شپ جاری تھی کہ سمندر کی جانب دیکھتے ہوئے وہ گویاہوئے ’’مجھے سمندر میں سفر یا سیر کرنے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ڈوب جاؤں گا۔ ایک مرتبہ میں چند دوستوں کے ساتھ ایک کشتی میں تھا کہ بیچ سمندر وہ ہچکولے کھانے لگی۔میں خوف زدہ ہوگیا۔میرا ایک دوست قہقہہ لگاتے ہوئے بولا’مجھے تو تیرنا آتا ہے،البتہ تم سب ڈوب جاؤگے۔‘یہ سن کرمیں نے اُس بدبخت کو جواب دیا۔
ڈوبوگے تو تم بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اِدھر ہی ڈوب جائیں گے اور تم کوئی ایک کلومیٹر دُورجاکر ڈوب جاؤگے۔‘‘
ہچکولوں پربات چل نکلی تو ایک اور واقعہ سنانے لگے’’ایک مرتبہ میں اور گل زار وفا چودھری فوکر جہاز میں سفر کررہے تھے کہ اچانک فلائٹ ناہموارہوگئی اور جہاز ہچکولے کھانے لگا۔یہ جھٹکے اتنے بڑھے کہ لوگوں نے باآوازِ بلنددعائیں پڑھناشروع کردیں۔جہاز نے چند ایک غوطے لیے تو گل زار اونچی آواز میں مجھ سے مذاق کرنے لگا اور ہم دونوں قہقہے لگانے لگے۔وہ کہنے لگا’یار نیچے ہریالی دیکھو۔کم ازکم ہماری قبریں پرُفضا سبزہ زار میں بنیں گی۔‘ وہ بولتا جاتا اور ہم قہقہے لگاتے جاتے۔ اتنے میں ہم نے اِردگرد دیکھا تو لوگ ہمیں خشمگیں نظروں سے گھور رہے تھے اور زیرِلب یقیناًبرُابھلا کہہ رہے تھے۔پچھلی نشستوں سے تو چند ایک مسافروں نے باقاعدہ بکواس بھی کی۔ خداخدا کرکے جہاز بخیریت لینڈ کرگیا۔‘‘
’’ماشا اللہ وہ تو آپ کو دیکھ کرہی نظر آرہا ہے کہ جہاز بخیریت لینڈکرگیا‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اصل بات تو اِس کے بعد ہے۔‘‘قاسمی صاحب نے گویا گفتگو میں تجسّس پھونک دیا۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ اِس موضوع پر میں نے کالم لکھا اوراس میں یہ سارا واقعہ مزاحیہ انداز میں لکھ کر آخر میں لکھا کہ اُس فلائٹ کے تمام مسافروں میں درحقیقت تب سے زیادہ خوف زدہ ہم دونوں تھے۔ہم فقط اپنے خوف کو لطیفے سنا رہے تھے۔‘‘
اس بات سے قاسمی صاحب کی انسانی تحت الشعورپرگہری نظر یوں نمایاں ہوکر دِکھنے لگی جس طرح سمندر پر پرواز کرتے بگلوں کو زیرِ آب مچھلیاں نظر آجاتی ہیں۔
اسی طرح اپنے ایک فنکشن میں جب ایک صاحب نے اُن سے پوچھا کہ انھوں نے اتنے سفر کیے ’’شوقِ آوارگی‘‘ جیسا اور سفرنامہ کیوں نہیں لکھتے تو بولے ’’سیاحت تو آج بھی کرتا ہوں مگر اب مجھ میں ’’حیرت‘‘ ختم ہوگئی ہے۔ یہ حیرت ہی ہے جو شوق کو ہوا اور نظر کو تازگی دیتی ہے۔‘‘
بچے کی حیرت ہی اُس کی استاد ہوتی ہے۔حیرت کی موت کا اس سے بہتراورکیا تذکرہ ہوسکتاہے۔
اپنے ایک اوردوست منی بھائی مرحوم کو بہت یاد کرتے ہیں۔
منی بھائی اور ان کی بیگم ہیوسٹن امریکاکے ایک بڑے گھر میں رہتے تھے۔ قاسمی صاحب اس گھر میں ان کے مہمان ہوئے تو منی بھائی نے ان کو اپنے گھر کا ایک کمرا دکھایا۔کمرے میں بچوں کے کھیلنے کا سامان بہت سلیقے سے دھرا تھا اور درودیوار کو بچوں کے مخصوص انداز سے رنگا اور سجایا گیا تھا۔بچے قاسمی صاحب کونظر نہ آئے تھے چناں چہ بچوں کا پوچھ بیٹھے کہ وہ کہاں ہیں۔
اِس پرمنی بھائی خاموش ہوگئے۔
قاسمی صاحب نے دوبارہ پوچھا تومنی بھائی نے دھیمی آوازمیں کہاکہ اولادکی نعمت سے محروم ہیں اوراولاد کا کوئی امکان نہیں۔پس یہ کمرا اُن کی اس حسرت کی علامت ہے کہ اگراُن کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ اس کمرے میں رونق لگائے رکھتی۔اس کے بعد شعر پڑھا۔
ہر گھر میں اِک ایسا کونا ہوتا ہے
جس میں چھپ کے ہم کو رونا ہوتا ہے
_قاسمی صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں سے عام واقف کاربھی آگاہ نہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں مذہب اور معاشرتی حوالے سے روشن خیالی اور کشادگی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
ان کی اپنی ولادت تعویز کا نتیجہ تھی۔چناں چہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ضعیف العتقادی نہیں تو اس امر کی کیا توجیح ہوسکتی ہے۔ اِس پر کہنے لگے کہ آج بھی بہت سے واقعات ماورائے عقل ہیں اور انسانی سائنسی جستجو چوں کہ ابھی مقامِ کامل تک نہیں پہنچی اس لیے ان کے اسرار جان نہیں پائی۔مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ان کے ایک دوست نے کہا’’ بسم اللہ پڑھ کر بھڑکو پکڑلو، وہ ڈنک نہیں مارے گی۔میں نے ایسا ہی کیا اور اس ظالم نے ایسا ڈنک مارا کہ میری چیخ نکل گئی۔‘‘
پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے ہاں روایت ہے کہ جب کسی کا دمِ آخر میں ہوتا ہے تو اس موقع پر اس کے سرھانے سورۃ یٰسین پڑھی جاتی ہے تاکہ اس کی مشکل آسان ہو، مگر وہ اسے اپنی موت کا خفیہ اشارہ سمجھ لیتا ہے۔جس کے نتیجے میں وہ دل چھوڑبیٹھتا ہے اور انتقال فرماجاتا ہے ۔پھر ہنس کر کہنے لگے۔’’ ہمارے ہاں ننانوے فی صد اموات سورۃ یٰسین کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے ہم لوگ ایک زندگی بخش آیت سے موت کا کام لیتے ہیں۔‘‘
جب ان کے برادرِ بزرگ ضیاء الحق قاسمی صاحب کا انتقال ہوا تو یہ کراچی آئے۔تب میں نے ان کو رنجیدگی کے اندوہ سمندر میں ایسا غوطہ زن دیکھا کہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
بعد ازاں ایک روز میرے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔وہ شام ایک امانت ہے۔پس اس میں خیانت ممکن نہیں۔البتہ اس اشارے میں غالباً کوئی مضائقہ نہیں کہ اس سانحے کے بعد سے رنجیدگی اکثر ان کو اپنے نم حلقے میں لے لیتی ہے۔اب رنجیدہ کردینے والی غزلیں،یہاں تک کہ فلمی گانے بھی نہیں سن سکتے۔
نابغۂ روزگار مزاحیہ اداکار چارلی چپلن کا یہ قول معروف ہوا۔’’مجھے بارش میں چلنا اس لیے اچھا لگتا ہے کہ اس طرح میری آنکھوں سے بہتے آنسو دنیا کو نظر نہیں آتے۔‘‘چارلی دنیا کو ہنسا کر تھک جاتا تھا اور گھر لوٹ آتا تھا تو ساری ساری رات اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھا رہتا تھا، وہی ماں جس نے غربت اور شدید تنگی میں اپنے بیٹے کو محبت اور محنت سے پالا تھا، مگر اب جب بیٹا کام یاب اور معروف ہوگیا تو ایک دماغی عارضے کے باعث اُسے پہچان نہیں سکتی تھی۔

 

(جاری ہے)