ڈاگ سنٹر

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

ڈاگ سنٹر

(ڈاکٹر عرفان شہزاد)

بھانت بھانت کے کتے بھانت بھانت کے لہجوں میں بھونک بھونک کر اپنے وجود، اپنی ذات اور نسل کی پہچان بتا رہے تھے۔ کچھ کتے ایک شانِ بے نیازی سے آنے جانے والوں پرایک آدھ اچکتی نظر ڈال لیتے اور پھر اپنا راتب کھانے میں مصروف ہو جاتے، جب کہ کچھ سستی کے مارے اپنے پنجوں پر منہ رکھے خود پر بیٹھنے والی مکھیوں کو محض بھنووٴں کی حرکت سے اڑانے پر اکتفا کرتے نظر آ رہے تھے۔ کسی ڈاگ سنٹر میں وارد ہونےکا یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا۔

ہوا یوں کہ آس پڑوس میں پڑنے والے مسلسل ڈاکوں اور چوریوں سے پریشان اور نجی محافظوں کی مشکوک وفاداریوں سے نالاں ہو کر ہم نےایک سگ پرست اور سگ شناس دوست کے مشورے سے گھر کی رکھوالی کے لیے ایک عدد اعلی نسل کا کتا رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس کےلیے ہمیں اس ڈاگ سنٹر کی زیارت کے شرف سےمشرف ہونا پڑا تھا۔ جہاں تک آس پڑوس میں ہونے والی چوریوں کا تعلق ہے تو شنید تھی کہ یہ کام کتوں کے رکھوالے، اپنےکتوں کی فروخت اور دام بڑھانے کے لیے خود کروا رہے تھے۔ کتے بہرحال اب ناگزیر ہو چکے تھے۔

حفاظت کی غرض سے تیار کیے جانے والے ان کتوں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ کئی حفاظتی حصاروں اور مراحل سے گزر کر ہم یہاں پہنچے تھے۔ اپنی شناخت پر اٹھنے والی شکی نگاہوں کی تسلی کرواتے کرواتے ہمیں بھی اپنا آپ کچھ مشکوک سا لگنے لگا تھا۔ اپنا گرتا ہوا اعتماد بمشکل اور بظاہر بحال کرتے ہوئے ہم کتوں کی فوج ظفر موج کو ملاحظہ کرنے لگے۔

کتوں کی مختلف نسلوں سے تو ہم واقف تھے نہیں،اس لیے ان کے مزاجوں سے ان کی ذات اور وفاداری کا اندازہ کرنے لگے۔ دیکھا کہ کچھ کتے کان اور دم اونچےکیے خواہ مخواہ چاک و چوبند کھڑےتھے، ہر آنے جانے والے پر غرّاتے یا خشمگین نظروں سے گھور کر دیکھتے۔ اس سے اور کچھ نہیں تو ان کی موجودگی کا احساس ضرور ہو رہا تھا ، ورنہ شاید ان پر نظرہی نہ پڑتی۔

کچھ کتے دیکھے جو عمر رسیدہ ہو چکے تھے ،مگر پھر بھی بہت اچھے ماحول میں رکھے ہوےٴ تھے۔ یہ بڑے آرام سے زبانیں لٹکائے بیٹھے تھے۔ ہر ایک آنے جانے والے کو بے التفاتی سے گھورے چلےجا تے تھے۔ کبھی کبھی کسی نو آموز کتے یا نووارد شخص پرڈانٹنے کے انداز میں بھونک بھی دیتے۔

ان کا بھاری پڑتا جسم ان کی کمزور پڑتی ٹانگوں کے لیے ایک ناگوار بوجھ بنا ہوا تھا، جسے وہ بظاہر بڑی متانت سے سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کا کوئی کام معلوم نہیں پڑ رہا تھا ۔

پوچھنے پربتایا گیا کہ ان کی بےکاری کے باوجود ان کا یہ پروٹوکول ان کی سابقہ خدمات کی بنا پر دیا گیا تھا۔ البتہ، کتوں کے نگرانوں نے یہ شکوہ کیا کہ ایک ریٹائرڈ کتے کے اخراجات اور راتب پر اٹھنے والا خرچ ایک جوان کتے کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ بہرحال، ان کا استحقاق کسی طور مجروح نہیں ہونے دیا جاتا تھا۔

ہمیں بتایا گیا کہ کتوں میں بھونکنے والے کتے کون سے ہیں اورکاٹنے والے کون سے،اور یہ کہ جو بھونکتے ہیں وہ کب کاٹ لیتے ہیں اور جو کاٹتے ہیں وہ کتنا بھونک بھی لیتے ہیں، نیز یہ بھی کہ کس وقت وہ بھونکنے کے ساتھ کاٹتے بھی ہیں اور کاٹنے کے ساتھ بھونکتے بھی ہیں۔ ہر کتے کی اوقات اور موڈ اس لحاظ سے مختلف تھے۔

ڈاگ سنٹر کے کتے باہر سے آنے والے واردین پر بہت غصہ میں دکھائی دیتے تھے۔ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ڈاگ سنٹر کی چار دیواری میں پڑے پڑے انہیں باہر کی دنیا سے زیادہ تعلق نہیں رہتا،اس لیے باہر والوں کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر پاتے، انہیں دیکھتے ہی کان، دم کھڑے کر کے بھونکنے لگتے ہیں۔

ایسا بھی ہوا کہ بھونکتے بھونکتے جوش میں آ کر گلےکی رسی کہیں ڈھیلی پڑ گئی تو کاٹ بھی لیا۔ ایسے حادثات رونما ہونے کی وجہ سے لوگ اب ڈاگ سنڑ کا رخ کم کرنے لگے تھے، تاہم، جب آنا ہی پڑتا تو خود حفاظتی اور خود شناختی کا مقدور بھر بندوبست کر کے آتے۔

کتوں کے نگرانوں نے ہمیں تربیت یافتہ کتوں کی تربیت کا مظاہرہ بھی دکھایا۔ کتے اپنے نگران کے حکم پر بلا چوں چراں عمل کرتے۔ حکم کتنی ہی بار دیا جاتا اور کتنا ہی بے تکا کیوں نہ ہوتا، وہ کر گزرتے۔ حتیٰ کہ ایک ہلکے سے اشارے پر اپنے ہی بھائیوں پر پِل پڑتے۔ یہ دیکھ کر ہم تربیت کاروں کی تحسین کیے بغیر نہ رہ سکے۔

ہمیں بتایا گیا کہ کتوں کا آپس میں ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ یہ ایک دوسرے کا پچھواڑہ سونٖگھ کر ایک دوسرے کی ذات، اوقات اور علاقے کا پتا چلا لیتے ہیں۔ وہیں یہ بھی طے کر لیتے ہیں کہ کس نے اپنی دم ٹانگوں میں دبا کر آداب بجا لانا ہے اور کس نے سر اونچا کر دوسرے سے اس کی اوقات کے مطابق سلوک کرنا ہے۔

کتوں کی مخصوص عادات کے بارے ہمیں یہ آگاہی دی گئی کہ کتے جہاں ہوتے ہیں اس علاقے کےاطراف میں مختلف جگہوں پر پیشاب کرکے اپنی سرحد قائم کر لیتے ہیں، کوئی دوسرا اگر کتا اس علاقے سے گزرے تو بلا اشتعال بھونکنا شروع کردیتے ہیں، اور اگر کھلے ہوئے ہوں تو باہر سے آئے کتے کو لڑ بھڑ کر نکال باہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن دوسرا اگرکتا زیادہ طاقت ور نکلے تو فورا سمجھوتہ کر کے اپنی اوقات درست کر لیتے ہیں، اپنی نئی حد بندی قائم کر لیتے ہیں۔

زیادہ طاقت ور کتا دیکھ کریہ منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں اور اسے گزر جانے دیتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کتے کی دم کی پوزیشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتا کس موڈ میں ہے۔

دم کھڑی ہو تو وہ غصے یا اعتماد میں ہوگا، اس حالت میں اس کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔ دم درمیان میں ہو تو کتے کی سپرٹ کم ہوتی ہے، اس حالت میں اسے کسی بھی کام کے لیے راضی کیا جا سکتا ہے، دم اگر مسلسل ہل رہی ہو تو کتا خوشامد کے موڈ میں ہے، اس حالت میں اگر اس سے کتوں والی بھی کی جائے تو برا نہیں مناتا۔

دم اگر ٹانگوں میں دبی ہو تو کتا ڈرا ہوا ہوتا ہے، اس حالت میں بهی اس کے زیادہ قریب نہیں جانا چاہیے، یہ اس وقت دفاعی نفسیات کا شکار ہوتا ہے اور آپ کو بهی خواہ مخواہ اپنا دشمن سمجھ کر کاٹ بھی سکتا ہے۔ کتا اگر اپنی ہی دم کے پیچھے گول گول گھوم رہا ہو تو سمجھ جائیے کہ کتا اپنی ذات میں مگن رہنا چاہتا ہے حتیٰ کہ کھیلنے کے لیے دوسرے شریک کار کی موجودگی بھی گوار نہیں۔

خیر، بہت تلاش و جستجو اور لیت و لعل کے بعد ایک کتا ہمیں پسند آ ہی گیا جو ڈیل ڈول کے اعتبار سے بھی کتا ہی لگتا تھا۔ زیادہ تر اسی نسل کے کتے اس ڈاگ سنٹر میں رکھے گئےتھے۔ دام چکا کر ہم اس کتے کو چمکارتے پچکارتے اور اس کے منہ لگنے سے بچتے بچاتے گھر لے آئے۔

ایک ہفتے بعد ہمارے وہ سگ پرست اور سگ شناس دوست، جو ہماری کتوں کی خریداری کے وقت شہر سے باہر تھے، ہم سے ملنے ہسپتال آےٴ۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ جس نسل کا کتا ہم لے کر آےٴ تھے وہ ایسا کتا تھا جو چوروں اور ڈاکووٴں پر تو فقط بھونکتا ہی ہے، مگر جب بھی کاٹتا ہے اپنے ہی مالک کو کاٹتا ہے۔ ان تاخیری معلومات پر ہم نے اپنے دوست کا شکریہ ادا کیا اور ایک اور انجیکشن اپنے ناف میں لگوا لیا۔