بات منٹو سے شروع ہوئی تھی تو اسے ختم ہود بھائی پر نہیں ہونا تھا

بات منٹو سے شروع ہوئی تھی تو اسے ختم ہود بھائی پر نہیں ہونا تھا

بات منٹو سے شروع ہوئی تھی تو اسے ختم ہود بھائی پر نہیں ہونا تھا

(ایچ بی بلوچ)

ہر انسان پاگل ہونے سے ذرا پہلے آخری دفعہ آپے میں آنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ بات ہمارے معاشرے کی درست عکاسی نہیں کرتی۔ یہاں پر پاگل پن کے لئے کسی مہذب آپے کی کوئی گنجائش نہیں۔
بات منٹو سے شروع ہوئی تھی تو اسے ختم ہود بھائی پر نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مگر ہم شرف کے بارے میں کسی تاویل کو برداشت نہیں کرتے۔ ہم کنویں سے چھلانگ لگا کر سمندر سے نکلنے والے لوگ ہیں۔ کسی کی اوقات نہیں کہ ہمیں کنویں کے بارے کوئی یاد دہانی کرا سکے۔
ہم نے منٹو کو اخلاقی ادب کے حوالے سے اتنا کریدا کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو یہی کہتا… یہ اخلاقی کہانیاں تو تاریخ میں لکھی ہوئی ہیں… میں ادب میں عدل اور محبت کے گیت لکھتا اگر میرے سامنے جگہ جگہ بے انصافی بداخلاقی بن کر نہ ناچتی۔
ہم میں سے کچھ مہذب تعلیم یافتہ لوگوں نے منٹو کو مزید اخلاقی رگڑا دیا تو منٹو کو اپنی زندگی میں ان آنے والے دنوں کے لئے لکھنا پڑ گیا۔ ..جو سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل پیدا کئے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے اس نئے ادب کو پیدا کیا ہے۔ اس نئے ادب میں جب آپ کبھی اپنا ہی عکس دیکھتے ہیں تو جھنجھلا اٹھتے ہیں۔ حقیقت خواہ شکر میں ہی لپیٹ کر پیش کی جائے اس کی کڑواہٹ دور نہیں ہوگی۔
ایک پڑھے لکھے دوست نے ہود بھائی کے اپنے متعلقہ شعبہ تک محدود رہنے کی پوسٹ رکھ دی۔ میں نے سوچا…اس سائنس اور فزکس کا کیا فائدہ جو انسانی اعمال کے غیر انسانی رویوں کا احتجاج اور طبقاتی طور سائنسی نقصانات کا دفاع نہ کر سکے۔ سائنس کا پہلا فرض سیاست کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنا ہی ہے۔ اسے کہتے ہیں سائنس اور سیاست کا بغیر عقل کے فروغ۔
چند دن پہلے ہی ایک پڑھے لکھے دوست نے ادب کے حوالے سے سیاسی دخل اندازی سے معذرت بھری پوسٹ رکھ دی۔
فرانس کے ادیب زان کاشکو سے کسی نے پوچھا… اگر کسی جگہ ایک فن پارہ اور بچہ ہو اور وہاں اچانک آگ لگ جائے تو آپ وہاں سے کیا اٹھا لاؤ گے؟
ہم جیسے کسی پاکستانی نو دولتیئے مفکر سے یہ سوال کیا جاتا تو شاید وہ وہاں سے فن پارہ اٹھا لاتا۔
مگر زان کاشکو نے جواب دیا میں وہاں سے آگ اٹھا لاؤں گا۔

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش

پھر ایک پڑھے لکھے دوست نے…..
چلیں یہ ذکر کسی اور ٹائم کریں گے۔ بس ہماری جعفرانہ قومیت اور قومی مفکرانہ اساس کو ایک لطیفے میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ علن اور ننھے کا کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ ننھا علن کی گردن پر سوار ہوگیا۔ اور اس کے کان پر اپنے دانت گاڑ دیئے۔ جیسے جیسے ان کو چھڑانے کوئی نزدیک آتا ننھا زور سے علن کے کان کو کاٹنا شروع کردیتا۔
تنگ آکر علن نے چھڑانے والوں کو گالیاں بکنا شروع کردیں.. جو چھڑانے کے لیئے نزدیک آتا.. علن گالیاں دیتے ہوئے دوڑ لگا دیتا۔
اوئے۔
……مجھے کاٹ رہا ہے ناں. کاٹنے دو۔
…….مجھے کاٹ رہا ہے ناں۔