فن اپنے استعاروں پہ زندہ رہتا ہے

فن اپنے استعاروں پہ زندہ رہتا ہے
فن اپنے استعاروں پہ زندہ رہتا ہے : مصباح اور یونس ستارے نہیں، استعارے تھے

(سمیع چوہدری کرکٹ تجزیہ کار)

فن کبھی نہیں مرتا، خواہ اس کے چاہنے والے کتنے ہی کم کیوں نہ پڑ جائیں۔ فن اپنے استعاروں پہ زندہ رہتا ہے۔

لیکن جب کسی فن کے استعارے ختم ہونے لگیں، تو فن کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔

ہاکی کی مثال لیجئے۔ یہ پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ پاکستان ہاکی کے چار ورلڈ کپ جیت چکا ہے۔ لیکن پچھلی دو دہائیوں سے پاکستان ہاکی دن بدن روبہ زوال ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان میں ہاکی کے چاہنے والے ختم ہو گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان نے پچھلی دو دہائیوں میں کوئی ’فلائنگ ہارس‘ پیدا نہیں کیا۔

جس دن سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا، پاکستان نے اپنی آدھی کرکٹ اپنے ہاتھوں کھو دی۔ کچھ ہی ماہ بعد سانحہ سڈنی ٹیسٹ رونما ہو گیا۔ فکسنگ اور گروپنگ کے الزامات سر اٹھانے لگے۔ پی سی بی نے مصباح اور یونس سمیت کئی پلئیرز پہ پابندی عائد کر دی۔ کپتان محمد یوسف میڈیا کے سامنے اپنے پلئیرز کی خود غرضی کا رونا رو رہے تھے۔ اور ایک بار پھر نوے کی دہائی پاکستان کرکٹ کے سر پہ منڈلانے لگی۔

جس دن محمد عامر لارڈز میں مین آف دی سیریز کا ایوارڈ لینے کے لئے آگے بڑھے، جائلز کلارک نے انہیں ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ اس روز پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ شاید جلد ہی پاکستان کرکٹ بھی قصہ پارینہ ہو جائے گی۔ کپتان اور دو سپرسٹار فاسٹ بولر جیل جا رہے تھے، اوروں سے پوچھ گچھ ہو رہی تھی۔ اور بچی کھچی ٹیم سیریز ہار کر گھر لوٹ رہی تھی۔

کوئی ایسا امید کا چراغ دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ جو پاکستان کے اس آخری کھیل کو چند سانسیں اور دے سکے ۔ یوسف کی فارم رو بہ زوال تھی، ان کی کپتانی ان کی فارم سے کہیں زیادہ اندوہناک ثابت ہو چکی تھی۔ اور کوئی ایسا سینئر پلئیر نہیں تھا کہ جو اس ڈوبتی نیا کو سنبھالا دے سکے۔

مصباح تصویر کے کاپی رائٹ AFP

مصباح کو کپتان بنانا کوئی سوچا سمجھا فیصلہ نہیں تھا۔ یہ صرف نظریہ ضرورت کے تحت کیا گیا غیرارادی فیصلہ تھا۔ جس وقت مصباح کو کپتان مقرر کیا گیا، وسیم اکرم نے اسے پی سی بی کی غلطی قرار دیا۔ مصباح کی عمر 37 سال تھی اور اس فیصلے سے کچھ ہی روز پہلے تک تو وہ خود ریٹائرمنٹ کا سوچ رہے تھے۔

یونس خان کو بھی اسی نظریہ ضرورت کے تحت ٹیم میں واپس لایا گیا۔

ان دونوں کی صلاحیتوں اور عمر کو دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یہی امید باندھی جا سکتی تھی کہ پاکستان کرکٹ کچھ دن اور جی لے گی۔ ہوم گراونڈز ویران ہو چکے تھے، روایتی حریف بھارت پاکستان کو یکسر نظر انداز کیے بیٹھا تھا، اور کوئی حیران کن ٹیلنٹ، کوئی ابھرتا سٹار سامنے نہیں آ رہا تھا۔

ایسے میں دو بوڑھے اور کتنا چل پائیں گے؟

جس ٹیم میں مصباح اور یونس نے ڈیبیو کیا، اس کے ڈریسنگ روم میں وسیم اکرم، سعید انور، انضمام، یوسف، وقار یونس، اعجاز احمد اور معین خان جیسے سٹارز تھے۔ ٹیلنٹ، تکنیک یا سٹائل، کسی بھی اعتبار سے یہ دونوں اس ٹیم میں فٹ نہیں بیٹھتے تھے۔

یونس، مصباح تصویر کے کاپی رائٹ AFP

لیکن آج یہ جوڑی پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے سبھی بڑے ناموں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ یہ وہ کام کر چکے ہیں جو ان سے پہلے آنے والے کئی نامی گرامی لیجنڈز بھی نہ کر پائے۔ کتنے بڑے بڑے کپتان آئے، کتنے بڑے بڑے بیٹسمین آئے۔ کبھی کسی نے سوچا بھی تھا کہ مصباح الحق عمران خان سے زیادہ کامیاب کپتان ثابت ہوں گے؟ یا یونس خان صرف میانداد، انضمام اور یوسف ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کے سبھی عظیم بلے بازوں کے ریکارڈز توڑ دیں گے!

لیکن مصباح اور یونس کی کامیابی صرف ان کے اعدادوشمار ہی نہیں ہیں۔ ان کے نمبرز بلاشبہ تمام پیشروؤں سے کہیں زیادہ ہیں، لیکن ان کے کرئیرز کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کرکٹ کے تاریک ترین دور کو یادگار ترین بنا ڈالا۔ انھوں نے مسلسل سات سال صرف وقت اور حالات سے ہی نہیں، پاکستانی صحافت سے بھی مقابلہ کیا۔ تنقید کا جواب تعمیر سے دیا۔ سونے گراونڈز میں خالی سٹینڈز کے سامنے لمبی لمبی اننگز کھیلیں۔ اور محدود ترین وسائل سے بہترین نتائج پیدا کر کے دکھائے۔

ان سے پہلے پاکستان صرف ایک ہی طرح کے پیروازم سے شناسا تھا، انھوں نے پہلی بار پاکستان کو عظمت کے تصور سے روشناس کرایا۔ انھوں نے اس قوم کو کرکٹ کا فہم عطا کیا۔ انھوں نے یہ سمجھایا کہ کامیابی اور ہیرو گیری میں کیا فرق ہوتا ہے، اور کون سی چیز زیادہ ضروری ہے۔

مصباح اور یونس کا عہد پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین عہد ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے پاکستان نہ صرف پہلی بار دنیا کی بہترین ٹیم بنا، بلکہ ان کا ڈریسنگ روم بھی پاکستان کی تاریخ کا شفاف ترین ڈریسنگ روم رہا۔ ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی فکسنگ کی خبروں میں نہیں آیا۔ کبھی ڈریسنگ روم میں بلے نہیں چلے۔ کبھی اس ٹیم کے کردار پہ سوالات نہیں اٹھے۔

آنے والی نسلیں یہ سنیں گی کہ جب دنیا بھر کی کرکٹ بدل چکی تھی، دو معمر پاکستانیوں نے اپنے اپنے انداز سے ایک مرتے ہوئے فن کو زندہ رکھا۔ وہ ستارے نہیں تھے، فقط استعارے تھے۔ انھوں نے پاکستان کے آخری کھیل کو زندہ رکھا۔

اور وہ صرف کرکٹ ہی نہیں جیتے، انھوں نے عزت بھی کمائی۔

عزت!

جو پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ایک جنس نایاب تھی۔


بشکریہ: بی بی سی اردو