کیا ہم واقعی حالتِ جنگ میں ہیں؟

کیا ہم واقعی حالتِ جنگ میں ہیں؟

از، اورنگ زیب نیازی

ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔جمہوریت کو خطرہ ہے۔جمہوریت پٹری سے اتر جائے گی۔یہ اور اس نوع کے چند اور گھسے پٹے جملے سنتے سنتے ہماری اور ہم سے بعد آنے والی نسل کے(اور شاید ہم سے پہلے کی نسلوں کے بھی)اعصاب چٹخ گئے ہیں۔اب تو خواب میں بھی ان لفظوں کی گونج سنائی دیتی ہے تو چیخ مار کے اُٹھ بیٹھتے ہیں۔یہ ملک کب سے نازک دور سے گزر رہا ہے؟ہم کب سے حالت جنگ میں ہیں؟جمہوریت کو کب سے خطرہ لاحق ہے؟پاکستان کی مختصر سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر آسانی سے ان تمام سوالوں کے جواب فراہم کر سکتی ہے۔وطن عزیز کی عمر ستر سال ہونے کو آئی ہے۔اگر ہم ان ستر سالوں کو سات انفرادی دہائیوں میں تقسیم کر یں اورتفصیل میں جائے بغیرہر دہائی کے چیدہ چیدہ واقعات کا ایک اجمالی جائزہ لیں تو صورت حال واضح ہو جاتی ہے:
پہلی دہائی(بہ شمول ابتدائی تین سال):اثاثوں کی تقسیم،انتقال آبادی،مہاجرین کی آباد کاری،پہلی پاک بھارت جنگ،کشمیر پر بھارتی قبضہ،لیاقت علی خان کا قتل،پہلی دستورساز اسمبلی کی ناکامیاں،تحلیل،سکندر مرزا کا مارشل لاء،عدالتی جنگ،مرزا کی معزولی،اقتدار پر جنرل ایوب خان کا قبضہ۔
دوسری دہائی:۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ،انتخابات کا اعلان۔ایوب مخالف تحریکیں،ہڑتالیں،ہنگامے،ایوب خان کا استعفا،جنرل یحیٰ خان کا مارشل لاء،الیکشن
تیسری دہائی:عوامی لیگ کی اکثریت،اُدھر تم ادھر ہم کا نعرہ،ڈھاکہ جانے والوں کو ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی،شیخ مجیب کے چھے نکات،مکتی باہنی،جنگ،نوے ہزار قیدی،سرنڈر،سقوطِ ڈھاکہ،پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی تقرری،انتخابات،دھاندلی کا شور،آئین کی معطلی،ضیاء الحق کا مارشل لاء،بھٹو کی پھانسی۔
چوتھی دہائی:افغانستان پر روسی قبضے کے اثرات،افغان جہاد،مرد مومن مرد حق،ہیروئن،کلاشنکوف کلچر،شوریٰ کریسی کی کوششیں،ریفرنڈم،۵۸۔ٹو۔بی کے تحت جونیجو حکومت کی برطرفی،ضیاء الحق کے طیارے کو حادثہ،بے نظیر حکومت،کرپشن کے الزامات،بر طرفی،ایجنسیوں کی طرف سے سیاست دانوں میں پیسوں کی تقسیم۔
پانچویں دہائی:ہارس ٹریڈنگ اور چھانگا مانگا سیاست کی بنیاد،الیکشن،نواز حکومت،کرپشن،برطرفی،سپریم کورٹ پر حملہ،الیکشن،بے نظیر حکومت،کرپشن،برطرفی،الیکشن،نواز حکومت،کرپشن،معزولی،پرویز مشرف مارشل لاء،کارگل جنگ۔
چھٹی دہائی:۱۱؍۹،طالبان،خود کش دھماکے،سوات آپریشن،چیف جسٹس کی معطلی،وکلا تحریک،ایمر جنسی،لانگ مارچ،توانائی کا بحران،مہنگائی کا طوفان،سوئس حکومت کو خط۔
ساتویں دہائی:الیکشن،دھاندلی،لانگ مارچ،دھرنے،ماڈل ٹاؤن میں قتل عام،سانحہء پشاور،آپریشن ضرب عضب،پاناما لیکس۔۔۔۔(جاری ہے) آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
اس اجمالی خاکے سے ثابت ہوا کی پاکستان اپنے روز اول سے ہی نازک دور سے گزر رہا ہے،روز اول سے ہی حالت جنگ میں ہے۔رہی بات جمہوریت اور پٹری کی تو بھئی کون سی جمہوریت اور کون سی پٹری؟؟؟یہ کس رنگ کی چڑیا کا نام ہے؟کہیں سمندر پار پائی جاتی ہو گی یہاں تو اس کا نشان تک نہیں۔جمہوریت نہیں ،جمہوریت کی ایک بھونڈی سی نقل ہے،اور نقل بھی ایسی کہ اس میں اصل کا شائبہ تک نہیں۔الیکشن بازی ہے،ہر دو چار سال بعد ڈھول تماشے،بھنگڑے،فائرنگ،جھگڑے،بینر،پوسٹر،بریانی،آوے ای آوے کے لشکارے،جاوے ای جاوے کے نعرے،پانچ سات قتل،بریکنگ نیوز،دھاندلی کا شور،گو گو،رو رو۔۔۔۔اور پھر وہی دائرے کا چکر۔۔۔یار لوگ اپنی دانش کے انبار سے دلیل اُٹھا لاتے ہیں کہ جمہوری عمل کو چلنے دیں اسی طرح بہتری آئے گی۔۔ہم آپ کی بات سے ایک سو نہیں ایک ہزار فی صد متفق ہیں لیکن حقیقی جمہوریت تو لائیں،یہ الیکشن بازی کا ڈرامہ تو اگلے سو سال تک بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں لا سکتا۔۔۔۔منزل شمال کی طرف ہو تو جنوب کی طرف دو سو کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے دوڑنے کا فائدہ؟کیا چائے کے کپ میں بار بار نمک ملانے سے وہ میٹھی ہو جائے گی؟۔۔۔پہلے ایک ٹی وی چینل اور چند اخبارات ہوتے تھے۔اب بیسیوں چینلز اور اخبارات ہیں،سوشل میڈیا نے الگ قیامت ڈھائی ہے۔دانش ور کھمبیوں کی طرح اُگ آئے ہیں،منڈی لگی ہے،چورن بِک رہا ہے،گاڑیاں،بنگلے،بنک بیلنس بن رہا ہے،پرائیڈ آف پرفارمنس مل رہے ہیں،جن کو اچھی قیمت مل گئی وہ موج میں ہیں،شاہ رنگیلا کو نیلسن منڈیلا ثانی اور ابراہیم ذوق کو سارتر ثابت کرنے پر تلے ہیں۔۔باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں،قیمت بڑھا رہے ہیں،اگلی بار وہ ادھر اور یہ اُدھر ہوں گے۔۔سو ان کی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیں۔۔سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے درست بتایا تھا کہ مسلم ممالک میں جمہوریت کے پروان چڑھنے کے امکانات بہت کم ہیں۔اس نے تو وجہ بھی بتا دی تھی۔دہراتے ہوئے اپنا تو قلم جلتا ہے۔یوں کہ لیتے ہیں کہ بھئی مذہب بہت ارفع چیز ہے،مذہب کا مقام بہت بلند ہے،اسے سیاست میں مت گھسیٹیں۔ریاستیں بھی بنتی بگڑتی رہتی ہیں،مذہب قائم رہے گا لہٰذا مذہب کو ریاست سے الگ رکھیں۔پہلے اپنی تہذیب اور ثقافت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کریں،پھر اس مٹی میں جمہوریت کا پودا لگائیں،یقیناََ بہت پھلے پھولے گا۔سیاست سے آگے بھی جہاں اور ہیں۔ادب،آرٹ۔معیشت اور سائنس کی دنیا بھی ہے۔
سوہمارے بعد آنے والی نسل کے پیارے بچو!یہ نازک دور اور حالت جنگ معلوم نہیں کب تک رہے ؟شاید آپ کے بوڑھے ہو جانے تک،شاید اس سے بھی بعد تک۔۔اس لیے پریشان ہونا چھوڑیں،جینا شروع کریں۔کچھ نہیں ہونے والا۔یہ چمن یوں ہی رہے گا اور۔۔۔۔ضمیر انکل زیادہ ستائیں تو انھیں نیند کی پانچ سات گولیاں اکٹھی کھلاکر سلا دیں اور تماشا دیکھیں کہ:
تماشا ہو رہا ہے
اور تماشائی نہیں ہیں
سب تماشا ہیں
ہجومِ بے پنہ ہے
بے بصر اور بے سماعت
بس مداری بولتا ہے
یہ مداری سامری ہے
سامری کے ہاتھ میں اک ڈگڈی ہے
ڈگڈی کی تال پر سب ناچتے ہیں
صاحبانِ علم و دانش
زاہدانِ شہر بھی۔۔۔