محمود درویش کی نظموں کے اُردو تراجم ’’جغرافیے کے معتوب‘‘: انور سن رائے

ناصرعباس نیرّ

’’جغرافیے کے معتوب‘‘ کا آغاز ایک نظمیہ پیش لفظ سے ہواہے۔اس میں انور سن رائے نے ایک تخیلی مکالمہ لکھا ہے۔اس کا نصف سے زیادہ حصہ محمود درویش سے مکالمے پر 545666_10150694718852186_1858750054_nمشتمل ہے ،اور آخری حصہ اس کتاب کے قارئین سے تخاطب پر مبنی ہے۔محموددرویش سے مکالمہ ،دراصل ان کی شاعری سے گہری شناسائی کی اس سطح تک پہنچنے کی کوشش کا مظہر ہے ،جو شخصی و نجی سطح ہوتی ہے ،اور جہاں زبان، تاریخ، جغرافیے ،تجربات،اسلوب وغیرہ کی غیریت کم سے کم رہ جاتی ہے ۔ہرچندانور سن رائے ایک حدتک یہ تاثر ابھارتے ہیں کہ وہ’ شاعری میں‘درویش سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ،یعنی وہ درویش کی نظموں کے لہجے کی لرزشوں، مافیہ کی سطحوں ،لفظوں کی لغوی و مجازی دلالتوں،اور عمومی شعری فضا وغیرہ کو محسوس کرنے کے قابل ہوئے ہیں،مگرانھیں یہ کہنے میں تامل ہے کہ وہ اس سب کو اردو میں بھی منتقل کرپائے ہیں ،جسے انھوں نے محسوس کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسی نظمیہ پیش لفظ کے آخر میں انور سن رائے قارئین سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ’’یہ نظمیں اگر تمھیں شاعری لگیں ؍تو یہ شاعری محمود درویش کی ہے ‘‘ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ’’تو سمجھ لینا ،میں ہوں ایک نااہل فرشتہ ؍جو پیغام بھول جاتا ہے یا کردیتا ہے الفاظ میں کچھ ردّ وبدل‘‘۔ان باتوں میں انکسار بھی ہے ،اور اس حقیقت کا اظہار بھی کہ محمود درویش کی شاعری کے محسوسات کو جب اردو میں منتقل کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ محسوسات ’خالص‘ نہیں رہ جاتے؛ان میں ملاوٹ ہوجاتی ہے، ردّ وبدل ہوجاتاہے،بھول چوک ہوجاتی ہے۔یہ سب نہ تو ارادی ہے ،نہ مترجم کی نارسائی ونااہلی ۔اس کا باعث خود ترجمے کا عمل ہے ۔ اگر ترجمے سے مراد اصل متن کے اس مکمل مفہوم کی ،کسی دوسری زبان میں منتقلی ہے ،جولسانی اصوات، لفظوں کی مانوس یا مسخ کی گئی نحوی ترتیب ، ہرزبان اور مصنف کی اپنی مخصوص تمثالوں اور تمثال آفرینی کے طریقوں، خاص طرح کی تلمیحوں،تشبہیوں،استعاروں، زمان ومکاں کو پیش کرنے کے مخصوص لسانی طریقوں سے متعین ہوتا ہے…تو یہ ترجمہ ممکن نہیں ۔لہٰذاخود ترجمے کے حقیقی مفہوم کو پیش نظر رکھیں توشاعری کا ترجمہ محال ہے۔اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ ایک زبان اور اس کی شاعری میں ظاہر ہونے والے شعری تجربات کے کامل اور بے خطامتبادلات،دوسری زبان میں موجود نہیں ہوتے،بلکہ ترجمہ :ایک زبان کے متن کی ،دوسری زبان میں تفہیم کا عمل ہے۔واضح رہے کہ ایک زبان کے متن کی ،اسی زبان میں تفہیم ،اور ایک زبان کے متن کی کسی دوسری زبان میں ،اور اس کے ذریعے تفہیم میں کافی فرق ہے۔ ایک زبان کے متن کو اسی کی زبان میں سمجھنے کا عمل اپنی اصل میں تشریح ہے،یا مضمر کو واضح کرنا ہے ،یعنی ایک طرح سے’ معلوم ‘کی توسیع ہے ،جب کہ کسی دوسری زبان میں سمجھنے کا عمل ،تعبیر ہے،ایک تقریباً ’نامعلوم ‘ کی ایک نئی اور اپنی طرح کی وضاحت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک ہی متن کے جتنے بھی تراجم کیے جائیں گے ،وہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے؛وہ ایک متن کی ایک سے زیادہ تعبیریں ہوں گی (یہ معروضات لکھنے سے پہلے میں نے انور سن رائے اور فاروق خالد کے محمودردرویش کے تراجم کا تقابل کیا،اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک ہی نظم مثلاً عاشق من فلسطین کے دونوں ترجمے اس قدر مختلف ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ ان کی بنیاد ایک متن پر ہے)۔ چوں کہ یہ ’تعبیریں‘ مترجم کی صلاحیت، ذوق،ترجیحات وغیرہ سے شدت سے متاثر ہوتی ہیں، اس لیے ان پر مترجم کے گویا دست خط ہوتے ہیں۔بنا بریں ترجمے کو تخلیقِ مکرر بھی کہا جاسکتا ہے۔
عام طور پر ترجمے کو اصل متن کے مقابلے میں ثانوی اور دوسرے درجے کی سرگرمی سمجھا جاتاہے ۔ اگر اس سے مراد کسی خاص مترجم کے مخصوص ترجمے کے معیارکی طرف اشارہ ہو تو یہ رائے قبول کی جاسکتی ہے،لیکن حقیقت میں ترجمہ ثانوی نہیں۔ ژاک دریدانے ۱۹۸۳ء میں ایک جاپانی دوست کے نام لکھے گئے خط میں ڈی کنسٹرکشن کے ترجمے کی بابت بڑے کام کی باتیں لکھی ہیں۔ان میں دوباتیں ایسی ہیں،جو جغرافیے کے معتوب کے ضمن میں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی تصور ،جیسے ڈی کنسٹرکشن ،کہاں تک قابلِ ترجمہ ہے؟ایک تصور …اور یہاں متن…اپنے اندر ،اپنے ترجمہ کیے جانے کی کتنی گنجائش ،اور کتنی مزاحمت رکھتا ہے؟ اسے ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک زبان میں تشکیل پانے والا (تصوراور)متن ،دوسری زبان میں نئے سرے سے آسانی سے تشکیل پاتا ہے ،یا نہیں؟یہاں اصل قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ترجمہ کرتے ہوئے ،متن کے ان مقامات کو خصوصاً نشان زد کرنا چاہیے ،جو ناقابلِ ترجمہ ہوتے ہیں۔ مختلف مترجم ،ان مقامات کو نشان زد تو کرلیتے ہیں،مگر ان سے کیسے معاملہ کرناہے، اس کا فیصلہ کرنے میں انھیں دقت ہوتی ہے۔ سہل انگار مترجم انھیں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ، جب کہ ذمہ دار اور جرأت مند مترجم انھی ناقابلِ ترجمہ مقامات کے ذریعے ،ترجمے کو تخلیقِ مکرر بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مت سمجھیے کہ وہ من مانا ترجمہ کرکے ،اصل متن کو کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں،اگر کوئی ارادتاً ایسا کرتا ہے تو اسے خیانت کے سوا کیا نام دیا جاسکتاہے۔ اصل یہ ہے کہ وہ اصل متن کے ناقابل ترجمہ مقامات کے اندر اتر کر خود اپنی زبان کی تفہیم وترسیل کے حدوددریافت کرتا ہے۔ (اسی بنا پر)دریدا نے دوسری بات یہ کہی ہے کہ ترجمہ ،اصل کے مقابلے میں نہ ثانوی ہے ،نہ ماخوذ۔وہ اصل متن کی مانند،مگر اس پر بنایا گیا ایک نیا متن ہے۔شاید اسی سے ملتی جلتی باتیں انور سن رائے صاحب کے پیش نظر رہی ہوں گی ،جس کا کچھ ذکر انھوں نے پیش لفظ میں کیا ہے ،اور مجھے یہ نظمیں بھیجتے ہوئے تاکید کی کہ انھیں ان کی نظمیں سمجھ کر پڑھا جائے۔ انھوں نے وضاحت بھی کی کہ ’’ جب میں یہ بات کہتا ہوں کہ ان نظموں کو میری نظمیں سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ میں محمود یا کسی مترجم کا حق اور مقام مارنا چاہتا ہوں،بلکہ اس کے برعکس….یہ کہہ رہاہوں کہ اردو میں جو کچھ اچھا اور ’شعری ‘ آسکاہے ،وہ محمود کا ہے ،اور جو غیر شعری اور کمزور لگتا ہے ،وہ میری وجہ سے ہے‘‘۔ انور صاحب کی آخری بات تو محض انکسار سے کہی گئی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس مجموعے کی نظموں میں جو کچھ اچھا ہے یا کمزور ،وہ 13912557_10153576638197186_593089945332085067_nانورسن رائے کی وجہ سے ہے۔
ترجمے کو مزید واضح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تخلیق اور تخلیقِ مکرر کا فرق سامنے رہے۔ محمود درویش کی عربی نظمیں تخلیق ہیں،اور یہ اردو نظمیں تخلیقِ مکرر ہیں۔ اردو نظموں میں محمود کی نظموں کا متن شامل ہے،لیکن اس طور کہ وہ اردو نظموں میں تحلیل ہوگیا ہے ،سرایت کرگیا ہے ،اور ایک حد تک گم بھی ہوگیا ہے۔ گویا جب ہم یہ نظمیں پڑھتے ہیں تو ان کے اندر ہم محمود کی نظموں کا عربی یا انگریزی متن نہیں، محمود کی نظموں کا وہ ہیولا دیکھتے ہیں ،جسے انور سن رائے کے ترجمے نے خلق کیا ہے۔ صاف لفظوں میں ،تخلیقِ مکرر میں اصل تخلیق ہیولے کی صورت باقی رہتی ہے، ایک متوازی، جداگانہ متن کے طور پر نہیں۔لہٰذا ان نظموں کو محمود درویش کی عربی نظموں یا ان کے انگریزی تراجم کے ثانوی متن یا مثنیٰ کے طور پر نہ پڑھا جائے، بلکہ ایک نئے متن کی صورت پڑھا جائے،جسے انور سن رائے نے تخلیق کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان نظموں کے موضوعات کا نقطہ ء ثقل ،محمودرویش کے بجائے ،انور سن رائے بن گیا ہے۔نقطہ ء ثقل تو محمود درویش ہی رہے گا ،لیکن اس کی اردو میں ترجمانی کا اسلوب انورسن رائے کا وضع کردہ ہے۔

انور سن رائے تمام نظموں کانثری ترجمہ کیا ہے۔وہ خود نثری نظم کے شاعر ہیں،اس لیے یہ بات ان سے اوجھل نہیں رہی ہوگی کہ نثری نظم کی طرح ،نثری ترجمہ بھی آسان نہیں ہوتا۔رواںآہنگ کے بغیرشعریت پیدا کرنا یا برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔انور سن رائے نے محمودردرویش کی نظموں کے صرف خیال،اسمائے معرفہ،جگہوں ،درختوں کے نام ،ضمائر وغیرہ کو اردو میں پیش کردینے پر اکتفا نہیں کی، بلکہ نظمیہ فضا کو بھی تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔نظمیہ فضا ایک طرف شعری تمثالوں سے اور دوسری طرف موقع محل کی مناسبت سے اختیار کیے گئے استفہامیہ،ندائیہ ،طنزیہ،انتباہی لہجے اور طرز تخاطب سے وجود میں آتی ہے۔ ایک مترجمہ نظم ،اصل نظم کے خیال یا واقعے سے پوری طرح وفادار ہوسکتی ہے،لیکن ضروری نہیں کہ وہ ایک اچھی نظم بھی بنی ہو۔ مترجمہ نظم کو ایک عمدہ نظم بھی ہونا چاہیے۔ درج ذیل مثالیں دیکھیے ،جنھیں عمدہ کہا جاسکتاہے؛ان کی عمدگی صرف خیال کی نہیں، مجموعی نظمیہ فضا کی مرہون ہے،جو سوگوار حوصلگی سے عبارت ہے۔
ماں! کیا ہم سے کوئی غلطی ہوگئی ہے
کیوں ضروری ہے کہ ہم دو بار مریں
ایک بار تو مریں زندگی میں
اور ایک بار زندگی کے بعد

بید کے جنگلو!کیا تمھیں
کیا تمھیں یاد رہے گا کہ وہ
جسے دوسری مردہ اشیا کی طرح
تمھارے اداس سایوں میں پھینکا گیا ، ایک آدمی تھا ؟
کیا تمھیں یاد رہے گا کہ میں ایک آدمی ہوں؟
(جلاوطنی سے خط)
معدوم ہوتے لفظوں کے درمیان سے گذرنے والو!
تمھاری اور سے تلوار،ہماری طرف سے خون
تمھاری اور سے فولاد
ہماری طرف سے گوشت
تمھاری طرف سے ایک اور ٹینک
ہماری طرف سے پتھر
تمھاری طرف سے آنسو گیس
ہماری طرف سے وہی آنسو اور بارش
ہم پر بھی اور تم پر بھی آسمان
ہمارے لیے بھی اور تمھارے لیے بھی ہوا
اس لیے لے لو ہمارے خون میں سے اپنا حصہ
اور چلے جاؤ
جاؤ چلے جاؤکسی رقص کی تقریب میں
ہمیں تو ابھی آبیاری کرنی ہے
پھولوں کی ،شہیدوں کی
ہمیں تو ابھی اورزندہ رہنا ہے
جہاں تک بھی ممکن ہوسکے گا
(وہ جو لفظوں کے درمیاں گزرے)
نثری ترجمے میں ایک اور دقت یہ فیصلہ کرتے ہوئے محسوس ہوتی ہے کہ کہاں بیانیہ انداز darwish1اختیار کیا جائے، کہاں حروف کا استعمال کیا جائے ،اور کہاں وقفے دیے جائیں۔یہ دقت اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ترجمہ کرتے وقت اپنی زبان میں موجوداظہار کے کئی متبادلات بہ یک وقت ذہن میں آتے ہیں؛ایک لفظ کے کئی متراد ف ومتبادل، ایک پیرایہ اظہار کے متبادل ۔ان میں کسی ایک کا انتخاب آسان نہیں ہوتا۔ایک بے محل مترداف ،کسی مصرعے کا بیڑ اغرق کرسکتا ہے ۔تاہم واضح رہے کہ یہ متبادلات بھی اسی مترجم کے ذہن میں آتے ہیں ،جس کا مطالعہ وسیع ہو،زبان پر غیر معمولی دسترس ہو، مگر اس کی نمائش کی عادت نہ ہو۔انور سن رائے نے اس دقت کا سامنا کیسے کیا ہے؟ ذرا یہ ٹکڑا دیکھ کر آپ خود فیصلہ کیجیے۔دیکھیے کہ کیسے وہ حروف، ضمائر،استفہام کے بر محل استعمال ،اور مصرعوں کے چھوٹا بڑارکھنے سے نظم کو حسین بناتے ہیں۔
تم میرے ملک کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟
اور یہ کہ کیا ہے اس کے اور میرے درمیان؟
میراملک ہے زنجیروں میں ہونے کی مسرت
ایک بوسہ جسے ڈاک سے بھیجا گیا
اور میں
اس ملک سے ،جس نے مجھے ذبح کیا
اپنی ماں کا رومال
اور اس نئی موت کا صرف ایک جواز چاہتا ہوں
(دورخزاں میں دھیمی بارش)
O
اردو کے پس نو آبادیاتی عہدکوخود اپنے تضادات سے عہدہ برا ہونے کی غرض سے مزاحمت کی مقامی اور عالمی علامتوں کی ضرورت تھی۔سنتالیس سے شروع ہونے والا یہ عہد ایک طرف برطانوی نو آبادیاتی تشکیلات کے ردّ کی کوششوں میں مصروف تھا،اور دوسری طرف،دولت مشترکہ کا حصہ تھا،اور تیسری طرف ایک نئے نو آبادیاتی نظام(دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جسے امریکا نے شروع کیا) کی گرفت میں بھی آیا ہوا تھا۔مقامی سطح پر فیض مزاحمت کی سب سے بڑی علامت بنے،اور پھر ان کے ساتھ ترکی کے ناظم حکمت، چلی کے پابلو نرودااورفلسطین کے محمود درویش۔اس فہرست میں ہسپانوی لورکا کو بھی شامل کیا جاتا رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے باہمی شخصی مراسم بھی تھے،اور وہ روسی اشتراکی تصورات سے متاثر تھے۔ دوسرے لفظوں میں سردجنگ کے دنوں میں امریکی سرمایہ داریت کے خلاف عالمی اشتراکی مزاحمت میں یہ شعرا شامل تھے۔ ان میں سے بیشتر نے جیل کاٹی اور جلاو طنی کا سامنا کیا تھا۔اردو میں فیض، ناظم ،درویش اور نروداپس نو آبادیاتی مزاحمت کی علامت بنے ہیں۔جیسا کہ اس طرح کی علامت سازی میں ہوتا ہے، بعض اہم امتیازات اور تضادات چھپ جاتے ہیں ،یا نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ایک حد تک یہ درست ہے کہ اردو میں ناظم حکمت، نرودا اور محموددرویش کی نظموں کے تراجم کی مقبولیت کا بڑا باعث مذکورہ صورتِ حال سمجھی جاسکتی ہے،لیکن ان شعرا میں بعض بنیادی نوعیت کے امتیازا ت بھی ہیں۔خاص طور پر محمود درویش کی مزاحمت ،دیگر شعرا سے مختلف ہے،جس کا ذکر ہم آگے چل کرکریں گے،اور اس خصوصی امتیاز کو اردو میں بہت کم توجہ ملی ہے۔ایک بات بہ ہر حال توجہ طلب ہے کہ مذکورہ شعرا میں سب سے زیادہ ترجمے غالباً محمود درویش کے ہوئے ہیں۔اس کی وجہ فلسطین ہے ،جہاں قبلہ اوّل ہے۔درویش کی شاعری کو امت مسلمہ کی آزادیِ فلسطین کے لیے کی جانے والی جدوجہدکا اہم حصہ سمجھا گیا ہے۔ مسلمان محمود درویش کے ساتھ ساتھ عیسائی ایڈروڈ سعید کی فلسطین کے لیے جدوجہد انھیں پاکستانی اردو ادیبوں میں غیر معمولی طور پر مقبول بناتی ہے۔
محمود درویش(۱۹۴۲ء۔۲۰۰۸ء) کی شاعری کو محبت اور جلاوطنی کی شاعری کہا گیا ہے۔اردو میں ان کی شاعری کے تراجم کرتے ہوئے ،زیادہ تر انھی نظموں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ،جن میں اپنی سرزمین سے محبت ،اور اس سے جلاوطنی کے دکھ کو پیش کیا گیا ہو۔ نظموں کے ترجمے کے اسلوب میں بھی انھی دو موضوعات سے متعلق اردو کے استعاروں کو زیادہ سے زیادہ پیش نظر رکھا جاتاہے۔ ابھی گزشتہ برس فاروق خالد نے محمود درویش کی ۷۷ نظمیں اردو میں ترجمہ کی ہیں۔کتاب کا عنوان اپنی زمین کی تلاش رکھا ہے،اور زیادہ تر فلسطین کی محبت اورفلسطین سے جلاوطنی سے متعلق نظمیں منتخب کی گئی ہیں ۔ انورسن رائے نے کتاب کا عنوان جغرافیے کے معتوب منتخب کیا ہے۔ اس عنوان میں بھی ایک حد تک درویش کی نظموں کے اسی مفہوم کو سامنے رکھا گیا ہے ،جو ایک طرح سے سٹیریوٹائپ بن چکا ہے(معتوب کے عنوان سے کتاب میں نظمیں بھی موجود ہیں۔فاروق خالد نے معتوب کی جگہ کشتہ ء ستم کی ترکیب استعمال کی ہے،جس میں شعریت ہے، مگر جو متشددانہ کرب لفظ معتوب میں ہے وہ کشتہ ء ستم میں نہیں )۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا درویش کی شاعری میں سٹریوٹائپ بننے کی طرف میلان موجود ہے ،یا ہم اردو والوں نے ابتدا ہی سے ،درویش کو سرد جنگ میں ترقی پسندی اور وطن پرستی پر مبنی مزاحمت کا نمائندہ سمجھ کر ،اس کی شاعری کو سٹیریو ٹائپ مفہوم میں مقید کردیا ہے؟مزاحمتی شاعری کے ضمن میں عام طور پر سٹریوٹائپ کا سوال دبا دیا جاتاہے،کیوں کہ مزاحمت : غیر مبہم،غیرمشتبہ ،غیر معمائی ،مانوس مزاحمتی استعاروں سے عبارت اسلوب میں ظاہر ہوتی ہے۔
انور سن رائے نے اس کتاب میں محمود درویش کی شاعری سے متعلق ،اردو میں رائج ہونے والے سٹیریو ٹائپ تصورکو بدلنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے یہ کام نظموں کے انتخاب اور ترجمے کے خصوصی انداز سے کیاہے۔ درویش کی فلسطین سے محبت غیر معمولی اور مثالی ہے،اور اس کی تحسین سب نے کی ہے،اور انور سن رائے نے بھی کئی ایسی نظمیں ترجمہ کی ہیں،جن میں یہ خصوصیت ظاہر ہوئی ہے لیکن اس پہلو کو بہت کم اجاگر کیا گیا ہے کہ درویش ،فلسطین پر صرف عرب مسلمانوں کا حق نہیں سمجھتے ۔ اسرائیل کی اشتراکی پارٹی کو دیے گئے درویش کے ایک انٹرویو کا ترجمہ ،محمد کاظم نے کوئی تین دہائیاں پہلے کیا تھا ،اور جوان کی کتاب عربی ادب میں مطالعے میں شامل ہے۔ اس انٹرویو میں درویش واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ان کا نقطہ ء نظر ہے کہ ’’ فلسطین میں یہودیوں اور عربوں دونوں کورہنے کا حق حاصل ہے‘‘۔وہ بعد میں بھی اس پر قائم رہے۔ایک طرف یہ درویش کا سیاسی نظریہ ہے ،اور دوسری طرف ان کی شاعری کا ایک اہم موضوع۔ یہ سیاسی نظریہ انھیں تشدد اختیار کرنے سے باز رکھتا ہے،اور برداشت کو فروغ دیتا ہے،نیز مکالمے کی راہ مسلسل کھلی رکھتا ہے ،اور شاعری کا موضوع بن کر ان کی زمین سے محبت کو ایک نیا رخ دیتا ہے؛اس محبت میں ’دوسرے ‘ اور ’غیر‘ کو بھی شامل کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔کچھ کچھ یہ موضوع’وہ جو لفظوں کے درمیاں گزرے‘ میں بھی آیا ہے۔ انور سن رائے نے درویش کی ایک نظم کا ترجمہ ’فوجی جو سفید سوسن کے خواب دیکھتا ہے‘کے عنوان سے کیا ہے۔ اس نظم کا ذیلی عنوان ہے:’ایک اسرائیلی فوجی سے خیالی گفتگو‘،یعنی ’دشمن فوجی ‘ سے بھی مکالمہ کیا جاسکتاہے(یہاں دہشت گرد سے بدھ کی 13654356_10153576645622186_4642020671723401989_nملاقات یاد آتی ہے جسے اردو میں آصف فرخی نے ترجمہ کیا ہے)۔ یہ نظم درویش کی شاعری کا ایک نیا رخ ،کم از کم اردو میں متعارف کرواتی ہے۔ نظم کا تھیم یہ ہے کہ نظم کا بیان کنندہ اور اسرائیلی فوجی اپنی جلد کے نیچے ایک جیسے ہیں؛دونوں کو محبوبہ؍بیوی، بیٹی ،ماں،سوسن کے پھولوں، شاخ زیتون یعنی امن سے محبت ہے۔گویا محاذ جنگ پر موجود اسرائیلی فوجی اور ایک فلسطینی مسلمان کچھ بنیادی باتیں مشترک رکھتے ہیں؛دونوں کے خواب ملتے جلتے ہیں،مگر اختیار سے محروم ہیں۔نظم میں فوج کی زندگی پر طنز بھی کیا گیا ہے۔
محمود ،میرے دوست
دکھ ایک ایسا سفید پرندہ ہے
جو میدان جنگ کے قریب بھی نہیں پھٹکتا
فوجی کے لیے دکھ گناہ ہے
وہاں تو میں صرف ایک مشین ہوتا ہوں
جو آگ اگلتی ہے
اور علاقے کو ایک ایسے سیاہ پرندے میں تبدیل کردیتی ہے
جو اڑ نہیں سکتا
(فوجی جو سوسن کے خواب دیکھتا ہے)
اور تم اب ہماری دہلیز پر کھڑے ہو
آؤ ،اندر آجاؤ،ہمارے ساتھ بیٹھو
اور عرب کافی کی چسکیاں لو
[شاید تم بھی محسوس کرنے لگو کہ تم بھی انسان ہو،جیسے ہم ہیں]
(محاصرے کے دوران)
ایک فوجی کا المیہ ہے کہ وہ یہ سب جانتے ہوئے بھی ،یہ سب کرنے پر مجبور ہے۔اسی بناپر جنگ ایک فوجی کو Dehumaniseکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔درویش اسرائیلی فوجی کے علاوہ،قید خانے اور محاصرے کے محافظ(گارڈ) سے بھی گفتگو کرتے ہیں۔ اس گفتگو سے وہ اس مشترک انسانی عنصر کو سامنے لاتے ہیں ،جو الگ الگ قومیتوں، الگ الگ مذاہب ،اورالگ الگ ذمہ داریوں کے باوجود باقی رہتا ہے۔ یہ مشترک انسانی عنصر: محبت و امن کی طلب،اور بالکل عام طرح کے معمولی احساسات ہیں ،جیسے اکتا جانا، محبوباؤں کو یاد کرنا، انتظار کرنا۔فلسطین پر(یورپی النسل) اسرائیلی قبضے ،اور فلسطینیوں کی اپنے ہی وطن سے مسلسل ومتشددانہ بے دخلی کے پس منظر میں اس ’مشترک انسانی عنصر‘ کی غیر معمولی معنویت ہے،اور درویش کو بعض نقادوں کے یہاں متنازع بھی بناتی ہے۔بہ ہر کیف یوں درویش اِس اور اُس طرف کے عام آدمی کو ایک جیسا دکھاتے ہیں۔ درویش کی ان نظموں میں ان صاحبانِ اختیار کی طرف اشارے بہت کم ہیں،جنھوں نے فلسطین کو جہنم میں تبدیل کیا۔ البتہ ان کے ٹینکوں، بندوقوں،جہازوں ،بارود سے لائی گئی تباہی کے ہولناک مناظرضرور بیان ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں درویش کی نظموں میں بعض جگہوں پر مستشرقین کی ان اساطیری تشکیلات کو ضرور موضوع بنایا ہے ،جن کے مطابق مشرق اور فلسطین کے لوگ کم ترانسانی مرتبے کے حامل ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی درویش اس مشترک انسانی عنصر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جسے مستشرقین کی اساطیری تشکیلات نے چھیا رکھا ہے۔ درج ذیل ٹکڑا، اس کتاب کے اہم ترین حصوں میں سے ایک ہے۔
چلو فرض کرلیتے ہیں کہ تم ٹھیک ہو
مان لیا کہ میں ایک سست دماغ ،بچگانہ ذہن اور نصف عقل ہوں
یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ میں کبھی گولف کا اچھا کھلاڑی نہیں بنوں گا
یاجدید ٹیکنالوجی کو سمجھ نہیں پاؤں گا
یا نہیں بن پاؤں گا پائلٹ
کیا ان باتوں سے تمھیں یہ حق حاصل ہوجاتاہے
کہ تم میری زندگی پر قابض ہوجاؤ
اگر میں کوئی اور ہوتا
اگر تم کوئی اور ہوتے
تو ہم دوست ہوسکتے تھے
ہم اعتراف کر سکتے تھے کہ ہم کتنے احمق ہیں
شائیلاک جیسے بے وقوف ،لیکن کیا
بے وقوف دل نہیں رکھتے
انھیں روزی روزگارکی ضرورت نہیں ہوتی
ان کی آنکھیں آنسوؤں سے نہیں بھرتیں؟
(محاصرے کے دوران)
ایڈورڈ سعید نے اپنی عالمانہ تحریروں میں مستشرقین کی وضع کردہ انھی اساطیری شناختوں کی ڈی کنسٹرکشن کی ہے۔فرق یہ ہے کہ سعید، تاریخ ،فلسفہ اور تنقید کی مدد سے یہ واضح کرتے ہیں کہ مشرق کی اساطیری شناختیں غیر حقیقی ہیں ،اور انھیں نو آبادیاتی عہد کے مخصوص مفادپرستانہ علم نے پیدا کیا ہے، جب کہ محمود درویش ،مستشرقین کی منطق کے اخلاقی جواز پر سوال اٹھاتے ہیں۔درویش یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ فرض کیا یہ مان لیا جائے کہ مستشرقین کی منطق کے مطابق یورپیوں کے مقابلے میں اہل مشرق کاہل اور سست دماغ کے حامل ہیں تو کیا اس سے یورپیوں کو حق حکمرانی مل جاتاہے؟ اصل یہ ہے کہ اس طرح فرض کرنے ہی سے یورپ کو مشرق پر حکمرانی کا حق ملا۔’بچگانہ ذہن، سست دماغ اور نصف عقل‘کی اسطورہ ہی تہذیب وتربیت اور تادیب کے نظام کا جواز پیدا کرتی ہے۔ اس نظم میں بھی محمود درویش مستشرق کو مخاطب کر کے کہتے ہیں اگر اس اسطورہ سے اوپر اٹھ کر دیکھا جائے تو ایک مشترکہ انسانی حماقت کا اعتراف کیا جاسکتاہے،اور یہ ایک ایسا اعتراف ہے جو بنیادی انسانی ضرورتوں جیسے روٹی روزی اور رونا ….کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔محمود درویش کو یہ احساس ہے کہ وہ اپنے معاصر شعرا کی روش سے ہٹ کر چل رہے ہیں کہ وہ ’دشمن ‘کو دکھ بھی محسوس کرتے ہیں۔’’میں ان شاعروں میں آخری ہوں؍جو اپنے دشمنوں کی پریشانیوں سے پریشان ہوتے ہیں ‘‘۔

محمود درویش کی جلاوطنی سے متعلق نظمیں ایک طرح کی نہیں ہیں۔ کچھ تو سادہ اور بیانیہ ہیں،جن میں فلسطین سے عربوں کی بے دخلی ،ان کی ماؤں کی بے حرمتی ، ان کے گھروں ،ان کے بچوں اور جوانوں کا خون کرنے جیسے واقعات پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے،مگر بعض نظمیں ’علامتی‘ بھی ہیں،اور اسی مفہوم میں علامتی ہیں جس مفہوم میں جدید عالمی نظم علامتی سمجھی جاتی ہیں،یعنی نئی اور نامانوس لفظیات کو علامت بنانا اوراساطیری حوالے لانا۔مزاحمتی شاعری کے علامتی ہونے ،اور علامتی سمجھے جانے میں کئی مشکلیں ہیں۔ علامت ،نظم کو ایک طرح کی لسانی خود مختاری دیتی ہے ۔اس کے نتیجے میں علامتی نظم اس ہدف سے دور ہوجاتی ہے ،جس کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے۔لسانی خود مختاری حاصل کرکے ،نظم اپنی وضاحت خود کرنے لگتی ہے ، اور قاری کو بڑی حد تک باہر کے سیاسی تناظر سے بے نیاز کرتی ہے۔ محمود درویش کی نظم بھی اس مشکل سے دوچار ہوتی ہے ،اور اس کے ترجمے میں انور سن رائے بھی بعض مشکلات کا سامنا کرتے ہیں،لیکن دوسری طرف درویش کی علامتی نظمیں ،ان کی شاعری سے متعلق رائج ہونے والے سٹیریوٹائپ تصور کو فسخ کرتی محسوس ہوتی ہیں۔
جغرافیے کے معتوب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ ان نظموں میں نہ صرف جلاوطنی کو ایک اہم استعارہ بنایا گیا ہے ،بلکہ شاعر وطن کی محبت سے اٹھ کر دنیا و کائنات کو دیکھنے کی آرزو بھی رکھتا ہے،اور ان کی آخری نظموں میں تو موت ایک اہم علامت بنتی ہے۔ محمود درویش سات سال کی عمر میں جب ایک رات اچانک اپنا گاؤں البروہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو انھوں نے جلاوطنی کا تجربہ کیا،یعنی اس عمر میں جب وہ اس تجربے کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے،مگر جذباتی طور پر اسے شدت سے محسوس کرسکتے تھے اور جب اگلے برس واپس آئے تو ان کا گاؤں صفحہ ء ہستی سے مٹ چکا تھا،یہ تجربہ،ان کی جنت ارضی کے عدم موجودگی یعنی Absenceکا تھا،اور اس تجربے کے پس منظر میں تشدد،بے رحمی، سفاکی شامل تھی۔ان کی نظموں میں جلاوطنی کے ساتھ ساتھ عدم موجودگی(جس کا ترجمہ انور سن رائے غیر حاضری کرتے ہیں،جس میں کسی حقیقی شے کے مٹ جانے سے پیدا ہونے والی کیفیت نہیں آسکی )بھی ایک اہم موضوع ہے۔ درویش کی جن علامتی نظموں کی طرف اوپر اشارہ ہواہے، وہ دراصل جلاوطنی اور عدم موجودگی سے Mahmoud-Darwishتحریک پاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ جلاوطنی اور عدم موجودگی کو نظم کے متن کی جلاوطنی اور عدم موجودگی میں منقلب کرتے ہیں۔ اصل میں وہ ’باہر ‘ کے سیاسی واقعے کو متن میں تحلیل کرکے،متن کے اندر ،متن کے اصولوں کے تحت اسے نیا وجود دے کر ،اسے کہیں زیادہ قابل توجہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آپ ان کی علامتی نظمیں پڑھیں تو لگے گا کہ ان نظموں کا متکلم، تصور وتجرید کو حسی وجود کے طور پر محسوس کرتاہے،عدم موجودگی جیسی تجرید کو موجودگی کی طرح محسوس کرتا ہے۔مثلاً:
ایک شاعر سے
جب غیر حاضری تمھیں چھوڑ جائے
تو تنہائی کی نعمت ڈھونڈنا
کھونے کا جوہر بن جانا
بن جانا خود اپنا موضوع
حاضری کی اعلا ترین شکل ہے غیر حاضری
(محاصرے کے دوران)
’محاصرے کے دوران‘ اور ’میورال‘ دو طویل نظمیں ہیں،اور یہی وہ نظمیں ہیں جو محمود درویش کی شاعری سے متعلق رائج ہونے والے دیگر سٹیریو ٹائپ تصورات منسوخ کرتی ہیں۔ ان نظموں میں جلاوطنی کے علاوہ علامت، طنز، پیراڈاکس، ابہام،اساطیر ،عدم موجودگی جیسے عناصر آئے ہیں جو جدید نظم کا خاصا ہیں۔ مثلاً یہ مصرعے دیکھیے،جن میں وجودی پیراڈاکس اور طنز بہ یک وقت موجودہے۔
محاصرہ تب تک اپنی گرفت تنگ رکھے گا
جب تک ہم مطلق غلامی اور اس کے فوائد کے
پوری طرح قائل نہ ہوجائیں
اور یہ اعلان نہ کرنے لگیں کہ
ہم نے انتخاب کی مکمل آزادی سے کام لیا ہے
(محاصرے کے دوران )
محمود درویش کہیں سادہ انداز میں اور کہیں علامتی انداز میں پیراڈاکس سے کام لیتے ہیں۔ظاہر ہے وہی شاعر پیراڈاکس سے کام لے سکتا ہے جو زندگی اور حقیقت کی ایک سے زیادہ ،اور اکثر باہم متضاد سطحوں کا ادراک بہ یک وقت کرسکتا ہو۔ مطلق غلامی کو محسوس کرنا ،غلامی سے آزاد ہونا ہے۔ یہ ایک پیراڈاکس ہے۔مطلق غلامی میں آدمی ،اس کی شدت ،اس کے قہر ،اس کے سب المیوں کو محسوس کرتا ہے تو اس کے جوئے کو اتار پھینکنے کے لیے ہر قدم اٹھانے پر تیار ہوجاتاہے۔ اب ذرا دیکھیے،کس طرح وہ سادہ انداز میں پیراڈاکس سے کام لیتے ہیں۔
ایک بم کہیں قریب ہی پھٹتا ہے
اور ہم کچھ کھانے پینے کے لیے ہوٹل میں داخل ہوجاتے ہیں
مجھے رامبو کی خاموشی پسند ہے
اس کے لفظوں میں افریقا بولتاہے
(بیروت)
’میورال‘ ایک غیر معمولی نظم ہے۔ ا س میں سررئیلی تیکنیک سے کام لیا گیا ہے۔ مختلف ٹکڑوں میں حقیقت اور فنتاسی ، موت اور زندگی،امن اور جنگ ، روزمرہ شعور اور اساطیر ، جیسے تضادات یک جا ہوگئے ہیں۔اس نظم میں نابینا عربی شاعرابوالعلامعری ،عناۃ،گلگامش کا اہم کردارانکیدوکا ذکر آیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر اس میں ’عدم موجودگی‘ کا تصور ہے۔
ایک کتاب کافی نہیں یہ کہنے کے لیے :
میں نے خود کو مکمل غیر حاضری میں حاضر پایا
ہر بار جب میں نے خود کو تلاش کیا،دوسروں کو پایا
اور جب میں نے انھیں تلاش کیا تو مجھے دکھائی دیا صرف اپنا اجنبی وجود
کیا میں اکیلا ہی ہوں ہجوموں کا ہجوم؟
ؑ عدم موجودگی میں خود کو پانے کا پیراڈاکس ایک سطح پر وجودی فلسفیانہ ،ایک سطح پر 538670_10150694767202186_24731302_nردتشکیلی ،اورایک سطح پر جلاوطنی سے عبارت ہے۔جس طرح مطلق غلامی،غلامی کو اس کی تمام ممکنہ، اس کی ظاہری وداخلی، اس کی حقیقی مادی اور ممکنہ تخیلی سب سطحوں پر محسوس کرنے سے عبارت ہے،اور یوں مطلق غلامی انتخاب اور اختیار بن جاتی ہے ،اسے قبول کرنا یا اسے ردّکرنا اختیاری وانتخابی معاملہ ہوجاتا ہے، اسی طرح عدم موجودگی،موجودگی کی تمام صورتوں کی کامل نفی کا تجربہ ہے،اور یہ بھی اختیاری وانتخابی بن جاتا ہے۔ردّتشکیلی سطح پر عدم موجودگی ، موجودگی کے لیے مؤثر ہوتی ہے،اور موجودگی کوSubvert کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ محموددرویش نے جب اپنے گاؤں ،اپنی جنت ارضی کے یکسر غائب ہونے کا تجربہ کیا تو وہ دراصل اپنی حقیقی صورت سے کہیں بڑھ کر ،درویش کے دل ودماغ اور تخیل میں ’موجود‘ ہوگیا؛وہ اپنی عدم موجودگی میں کہیں زیادہ موجود تھا،یہی کچھ جلاوطنی میں ہوتا ہے، جلاوطن شخص ،وطن کے کہیں زیادہ قریب ہوتا ہے۔(ویسے یہ بات ترجمے کے ضمن میں بھی کہی جاسکتی ہے،کہ اصل متن اپنی غیر موجودگی میں مؤثر ہوتاہے،اس حد تک مؤثر کہ اصل متن کوSubvert کرسکتا ہے) محمود درویش اپنی نظموں میں ردّتشکیل اور مابعد جدیدیت کے بعض نکات کا ذکربھی کرتے ہیں۔عدم موجودگی میں موجودگی کا پیراڈاکس نظم ’میورال ‘ میں مسلسل رواں رہتاہے۔ اس نظم کے بعض حصے موت کو محسوس کرکے لکھے گئے ہیں۔ موت جو جیتے جی محسوس کرنا، سانس لیتے ہوئے مکمل انہدام اور سفید ابدیت کا تجربہ ،موجودگی میں عدم موجودگی کا تجربہ ہے۔موتو قبل ان تموتو۔
کیا ہوسکتا ہوں میں موت میں موت کے بعد؟
کیا ہوسکتا ہوں میں موت میں موت سے پہلے ؟
یہ ،اور اس طرز کے دیگر مصرعوں کو درویش کی شاعری کا نقطہ ء عروج کہا جاسکتا ہے ،اور ہر نقطہ ء عروج کی طرح خاتمہ بھی۔ یہ نقطہ ء عروج ہے ،محمود درویش کی اپنی ہی دنیا سے جلاوطنی اور اپنی ہی دنیا میں جلاوطن کے طور پر زندگی بسر کرنے کے تجربے کا،اور اسی تجربے کے تمام امکانات کا خاتمہ بھی ہے۔درویش کا جلاوطنی کاتجربہ،علامت بن کر اپنی انتہا کو پاتاہے۔خود موت ،زندگی سے ابدی جلاوطنی ہے۔
امیدہے کہ اس مجموعے کو اہم نظر اس توجہ اور تحسین سے نوازیں گے،جس کا مستحق یہ ہے۔

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas