فلیش کہانی: آج کی کہانی

قاسم یعقوب ، ایک روزن لکھاری
قاسم یعقوب ، صاحب مضمون

(قاسم یعقوب)

فلیش فکش یا مختصر افسانہ نگاری اُردو دنیا میں نیا افسانوی مزاج متعارف کروا رہی ہے۔مختصر افسانہ انگریزی میں کئی ایک ناموں سے جانا جاتا ہے جیسے Sudden fiction،Micro-story،Micro fiction ،Short short story ،Postcard fiction وغیرہ وغیرہ۔ عمومی طور پر شارٹ یا فلیش فکش اُس کہانی کو کہتے ہیں جو ایک ہزار لفظوں تک مشتمل ہو۔اور کم سے کم بیس لفظوں تک ہو۔ آج کل بیس لفظوں سے کم بھی کہانی لکھی جا رہی ہے۔
فلیش فکشن نے کہانی کی دنیا کوایک نیا موڑ دیا ہے۔ ایسپ کہانیاں کسے یاد نہیں۔ وہ ایسپ کہانی جس میں ایک باپ اور بیٹا ایک گدھے پر سواری کرتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ دیکھوکمزور گدھا ہے اور دونوں اوپرچڑھے ہوئے ہیں۔ بالاخر وہ کسی طرح بھی لوگوں کو مطؤن نہیں کر پاتے۔ پھر پیاسا کوا،لالچی کتا وغیرہ کیسی خوبصورت کہانیاں ہیں جو زندگی کو تشریح کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔جوادب دنیا بھر کے ادب و سماج کا حصہ بن گئی ہیں۔
کچھ اور پیچھے جائیں توالف لیلا کی کہانیاں بھی مختصر کہانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔حکایات کے ضمن میں گلستان سعدی کو بہت شہرت ملی۔حکایات کا مرکزی نکتہ تو سبق آموز بات ہوتی ہے مگر کہانی پن میں اچھی اچھی کہانیوں کو مات دیتی نظر آتی ہیں۔ ان حکایات میں قدیم معاشرت اوررسمات کو پوری توانائی سے سمیٹ دیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں ملفوظات کی ایک روایت بھی موجود ہے جس میں ایک حکمت اور دانائی کی بات کو کہانی کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ملفوظات کسی بزرگ کی یادداشتیں ہوتی ہیں جس میں عموماً سینہ بہ سینہ روایات یابزرگوں کی زبانی باتوں کو قلم بندکیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں مختصر افسانہ کافی مقبول ہُوا۔ اس کے علاوہ چیخوف، فرانز کانکا، ہمنگوے، فریٖڈک براؤن، رابرٹ شکلے وغیرہم نے بہت سی فلیش کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ہمنگوے نے جہاں اعلیٰ پائے کے ناول لکھے، وہیں مختصر کہانیوں میں بھی اعلیٰ جواہر پارے چھوڑے ہیں۔
ہمارے ہاں(اُردو میں) سو لفظوں کی کہانی بہت مقبول ہوئی ہے۔ سو لفظوں کی کہانی کو انگریزی میں Drabble کہا جاتا ہے۔ جس میں مصنف کم سے کم لفظوں میں اعلیٰ تخلیق پارہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
فلیش کہانی ہے کیا؟ اس کی جامع تعریف کیا بنے گی؟ کیا یہ وہی فکشن یا کہانی ہے جسے ایک افسانہ نگار پیش کرتا ہے؟ اور یہ افسانہ (Short story)سے کس قدر مختلف ہے؟
ان سوالوں کے لیے ہمیں فلیش فکشن کی جامع تعریف متعین کرنا ہوگی۔
’’فلیش کہانی وہ کہانی ہے جو کم سے کم الفاظ میں اپنے قصے کو بیان کرے اور اس کے ’’حاصل‘‘ میں کوئی بصیرت افروز بات، کوئی انکشاف یا جذباتی انجام سامنے آئے، نیز اس میں افسانے کی طرح بیانیے(Narration)کا سہارا نہ لیا گیا ہو‘‘
فلیش کہانی کی تعریف کو مندرجہ ذیل نکات میں زیادہ تفصیل سے سمیٹا جا سکتا ہے:
۱۔ فلیش کہانی میں قصہ ہونا لازمی ہے ۔اس کا انحصار قصے پر ہے۔قصے یا واقعے کے بغیر فلیش فکش تصور نہیں جاتا۔تجریدی، علامتی اور تصوراتی کہانیاں بھی فلیش فکشن بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر درحقیقت وہ افسانہ نگاری (Short story)کی ہی ایک شکل ہے فلیش فکشن نہیں۔
۱۔ فلیش کہانی میں وضاحت یا تفصیلی بیانیے(Description)سے اجتناب کیا جاتا ہے۔مگر یہی تفصیلی بیانیہ(Description)افسانے کی جان ہوتا ہے۔ فلیش کہانی میں کہانی قصے کے ضروری امور بیان کرنے کے علاوہ کسی قسم کی تفصیل کو غیر ضروری جانتاہے۔فلیش کہانی میں قصہ یا کہانی شروع ہوتے ہی اپنے انجام کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتی ہے اور جلدی جلدی اپنے منطقی نکتے کو بیان کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔اپنے واقعے یا قصے کی عدم تکمیلیت اُسے بیس لفظوں سے ہزار لفظوں تک بڑھا دیتی ہے مگر قصے میں بیانیہ تفصیلات یعنی Descriptionممنوع عمل تصور کیا جاتا ہے۔
۳۔ حکمت آموز باتیں یا حکایات کی وہ شکلیں جن میں کہانی پن نہیں، وہ فلیش کہانی تصور نہیں کیا جا تا۔
۴۔ فلیش کہانی کی بہت سی اقسام ہیں۔ سب سے جاندار قسم جذباتی انجام سے دوچار کہانیاں ہیں۔ جذباتی انجام ایک قسم کا شاعرانہ تجربہ ہوتا ہے جو بیک وقت شعری اور افسانوی جذبات سے گندھ کے کہانی کو پُر اثر بناتا ہے۔ حکمت یا سبق آموز کہانیاں فلیش فکشن کا وہ روپ ہے جسے جدید فلیش کہانی میں پرانا (Out Dated)تصور کیا جا رہا ہے۔
۵۔ فلیش کہانی میں ایک انجام کا ہونا ضروری ہے۔ ایساا نجام جو کسی انکشاف یا جذباتیت کے گہرے اثرات چھوڑے۔ محض واقعہ یا قصے کا بیان جس میں کسی بصیرت یا انکشاف کا سامنا نہ ہو، فلیش کہانی نہیں بن سکتا۔
اُردو میں سعادت حسن منٹو کی سیاہ حاشیے میں کہانی کا فلیش انداز ملتا ہے مگر ایسا نہیں کہ منٹو کی تمام کہانیاں اسی فلیش فکشن کی تعریف پر پورا اترتی ہوں۔اسی طرح جوگندر پال، سے لے کر منشا یاد اور رشید امجد تک تقریباً ہر بڑے چھوٹے افسانہ نگار نے فلیش فکشن کو لکھا ہے مگر بہت سی کہانیاں فلیش فکشن کی تعریف پر پورا نہیں اترتی۔ محض چند سو لفظوں کی کہانی لکھ لینا فلیش فکشن نہیں ہوتا۔
البتہ اُردو دنیا میں مبشر علی زیدی صاحب نے کمال محنت سے فلیش فکشن کو افسانے کی صنف کے مقابل لا کھڑا کیا ہے انھوں نے پے در پے چار کتابیں اسی ایک صنف میں پیش کی ہیں اور بعض کہانیاں تو اس پائے کی ہیں کہ اُن کا شمار اچھے افسانے کے مقابل کیا جا سکتا ہے۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔