راجہ گدھ بانو قدسیہ کی تحریروں کو کھا گیا

راجہ گدھ ایک شاہکار ناول
راجہ گدھ

(منزہ احتشام گوندل)

بانو قدسیہ کو میں نے پہلی بار تب پڑھا جب میں خود ابھی سالِ اول کی طالب علم تھی۔تب کچھ سمجھ میں آیا کچھ نہیں آیا۔ راجہ گدھ کے درمیان میں جو جنگل کے جانوروں کا ذکر تھا اس کی سمجھ نہ آسکی،خیر وہ عمر بھی ایسی تھی کہ اس عمر میں ایسی باتیں سمجھ نہیں آتی ہیں۔انسان کی عمر نہیں بڑھتی بلکہ اس کے تجربات بڑھتے ہیں جو بعد میں اس کی عمر یا

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

دانش کہلاتے ہیں۔تب چونکہ اتنے تجربات نہیں تھے اسی حساب سے دانش کا بھی تناسب تھا،تو راجہ گدھ نے بہت متاثر کیا۔بہت غیر معمولی لگا۔کئی دن اس کے خمار میں گذر گئے۔اکثر خیالوں میں ایک بڑا سا گدھ گھر کے جنگلے پہ بیٹھا ہوا نظر آتا مگر جونہی امی یا ابو میں سے کسی کی آمد ہوتی وہ گدھ پھُر کر کے اُڑ جاتا۔سیمی شاہ،قیوم،آفتاب،پروفیسر سہیل،بڑی رومینٹک شخصیات لگتیں۔پھر وقت نے پینترا بدلا اور میں باقاعدہ ادب کی طالب علم بن گئی۔اور ایک بار پھر راجہ گدھ سے سامنا ہو گیا۔مگر اس دفعہ میرے پاس اس ناول سے متاثر ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔کیونکہ اب چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ الگ اور جدا تھا۔
بڑا ادب کیا ہوتا ہے؟اس پہ کئی بار بحث کی جا چکی۔بڑا ادیب کون ہے؟صاف سی بات ہے جو بڑا ادب لکھتا ہے۔بڑا ادب کیسے لکھا جاتا ہے؟ یہ سوال اگرچہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔تو ہم نے طے کر لیا کہ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد بڑے ادیب تھے۔کیونکہ وہ بڑے لوگ تھے۔
اقبال نے نطشے کے بارے میں کہا تھا۔
اگر ہوتا وہ مجذوب افرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو بتلاتا مقامِ کبریاکیا ہے
انیسویں صدی کی ابتدا میں یورپ جا کے تعلیم حاصل کرنے والے ایک تاجر کے بیٹے نے ایک افرنگی مجذوب کے بارے میں یہ شعر کہنے سے قبل یہ تو نہیں سوچا ہوگا کہ آخر ایک شخص یہ کہنے پہ کیوں مجبور ہوا کہ ۔۔
خدا مر چکا ہے۔
اقبال کا خدا زندہ تھا۔ممکن ہے نطشے کا مر چکا ہو۔ممکن ہے اس کی زندگی ،اس کے تجربات ایسے رہے ہوں۔ہو سکتا ہے وہ ایسی محرومی سے گذرا ہو جہاں خدا نے اس کو سہارا نہ دیا ہو۔تو کچھ ایسی ہی کیفیت سے میں تب گذری جب میں نے دوبارہ بانو قدسیہ کو پڑھا۔بانو قدسیہ کے پاس لکھنے کا فن تھا۔وہ اپنی ذات کے دکھوں کے انخلاء کے لیے نہیں بلکہ ایک سماجی فریضے کے طور پہ لکھتی تھیں۔وہ چند دوستوں کو سنانے کے لیے نہیں بلکہ ایک پورے سماج کے لیے لکھتی تھیں۔ان کے ذہن میں کہیں بھی قاری کی فکر یا روایتی سوچ پہ ضرب لگانے کا تصور نہ ہوتا تھا بلکہ وہ جو تصورات ہزار سالوں سے سینہ بہ سینہ ہمارے دماغوں میں چلے آرہے ہیں ان کو پالش کرنے کا کام کرتی تھیں۔راجہ گدھ کے بعد میں نے مرد ابریشم پڑھا۔اس کے بعد حاصل گھاٹ اور شہر لازوال اور آباد ویرانے، سمیت ان کے اکثر ناول پڑھ ڈالے۔ان کا مشاہدہ کمال کا تھا۔ان کے پاس علم تھا۔ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تھا۔ان کے پاس بات کہنے کا بہت مختلف اور جداگانہ سلیقہ تھا۔اور ان کے ارد گرد کچھ ایسے لوگ تھے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی ایسی مسند پہ بیٹھ گئیں جس تک کسی دوسری لکھنے والی کی رسائی نہ تھی۔بانو قدسیہ نے افسانے بھی لکھے۔مگر راجہ گدھ ا ن کی باقی تمام تحریروں کو کھا گیا۔ان کا ایک افسانہ ایسا ہے کہ جس کا میں زکر کرنا چاہوں گی۔اس افسانے کا نام
،،انتر ہوت اداسی،، ہے۔یہ ایسا افسانہ ہے جو خالصتا نسائی لہجے کا ہے۔اس میں عورت کے گہرے دکھ اور کرب کچھ ایسے سترنگی چادر اوڑھ کے سامنے آتے ہیں کہ بڑے بڑوں کے پتے پگھل جائیں۔عورت جس کا سب سے بڑا اعزاز اور امتیاز ممتا ہے،جب وہ بچے کو پیٹ میں اٹھائے ہوتی ہے تو ہر کوئی اس سے پوچھتا ہے کہ یہ کس کا ہے؟آخر ایک دن وہ پھٹ پڑتی ہے اور کہتی ہے کہ کسی کا نہیں ،یہ میرا ہے۔یہ میرا بچہ ہے۔عورت کا اپنی کوکھ پر بھی اختیار نہیں۔اس کا اپنے جسم پر اختیار نہیں۔حتی کہ اپنے دماغ پر بھی اختیار نہیں،وہ کچھ ہٹ کے سوچتی ہے تو بھی پتھر کھاتی ہے۔یہ واحد افسانہ ہے جس میں بانو قدسیہ نے عورت کے دکھ کی وکالت کی ہے۔ ان کی باقی سبھی تحریریں ایک خاص نکتہء نظر کے تحت لکھی گئی لگتی ہیں۔جس میں سمجھوتے کرنے کی تعلیم،برداشت کرنے کا سبق،مٹ جانے اور فنا ہوجانے کی مشقیں نمایاں ہیں۔یہ سب اسباق بجا سہی ،میں نہیں کہتی کہ غلط ہیں۔مگر میرے پاس ان سب باتوں سے اتفاق کرنے کا جواز بھی نہیں ہے۔کیونکہ جہاں تک محبت کا سوال ہے تو یہ بذات خود ایک بہت بڑی ریاضت ہے۔جب آدمی محبت کی وادی میں قدم رکھتا ہے تو اسے خود کو تیاگنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں سوجھتا،اور وہ یہ سب کچھ کسی کے کہے بغیر بھی کرتا ہے۔اسے اس میں راحت ملتی ہے۔محبت اس کا سکون اور اس کی عبادت بن جاتی ہے۔وہ وعظ و نصیحت اور کہے سنے سے بالاتر ہوجاتا ہے۔بانو قدسیہ کے پاس یہ سہولت تھی کہ انہوں نے جس سے محبت کی وہ تمام عمر اس کے ساتھ بھی رہیں۔مگر وہ جن کے لیے اپنی مخصوص طرز کی تحریریں لکھ گئیں،ان میں سے کتنی ہیں جن کے پاس بانو قدسیہ جیسی سہولت ہے؟
سوال صرف یہ ہے۔۔

1 Comment

  1. بانو قدسیہ کا تحاریر پہ آپ کا تبصرہ آپ کی سوچ کی گہرائی ذھنی وسعت اور ادب پر آپ کی گرفت کی عکاسی کرتا ہے۔

Comments are closed.