خون روتی وادئ کشمیر

(رابعہ احسن)
کوہِ ہمالیہ کے سلسلوں کے درمیاں واقع جنت نذیر وادئ کشمیرجو اپنی قدرتی خوبصورتی اور شفاف حسن کی بنا پر پوری دنیا میں اپنا الگ اور نمایاں مقام رکهتی ہے۔ مگر 1947 سے لیکر آج تک بهارتی افواج کی سفاکی، جارحیت اور قتل و غارت گری نے روئے زمیں پر واقع اس جنت کو دن رات دوزخ بنا کے رکها ہوا ہے۔ بهارتی حکومت کی یہ ڈهٹائی کہ اس نےجموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ مانتے ہوئے خطے پر اپنی افواج کو زبردستی مسلط کر رکها ہے جو کہ کشمیریوں کو انسان تک نہیں سمجهتے اور ان کے ساتهه جانوروں سے بهی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ وہاں پر مقیم مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ ان کی جانیں، مال، عزتیں، گهر بار کچھ بهی تو محفوظ نہیں۔ نہتے کشمیریوں کے ساتھ ایذارسانی کی جاتی ہے۔ ان کو تکلیفیں اور اذیتیں دے دے کر شہید کیا جاتا ہے۔ کشمیر بهارت کا اٹوٹ انگ ہے یا نہیں مگر پاکستانیوں کی دکهتی رگ ضرور ہے۔ اس لئے جب بهی کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کی جاتی ہے ہر پاکستانی حقیقی معنوں میں خون کے آنسو روتا ہے۔
تاریخ بھی چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کشمیرپاکستان کا حصہ ہے۔ آج بهی جموں وکشمیر بهارت کی وہ واحد ریاست ہے جہاں پر کثیرتعداد مسلمانوں کی ہے۔ 1941 میں ہونے والی مردم شماری میں بھی وہاں % 77 مسلم آبادی موجودتهی۔ مگر مہاراجہ ہری سنگهه  سیکولر کشمیریوں کی سب سے بڑی بدقسمتی تهی۔ جس نے 1947 میں پاکستانی مجاہدین کے خلاف بهارت سے مدد طلب کی اور اس طرح اکتوبر 1947 میں بهارتی افواج کو کشمیر میں داخل ہونے کا رستہ دکهایا اور تقسیم کے بعد کشمیر کیلئے کی جانے والی یہ پہلی جنگ 1948 کے اختتام پر ختم ہوئی۔ بهارت نے چالاکی دکهاتے ہوئے سلامتی کونسل سے اپیل کردی جس کے نتیجے میں  سلامتی کونسل نے پاکستان اور بهارت کو اپنی اپنی افواج پاکستان سے نکالنے کی قراداد منظور کی اور بهارت کو اپنی فوج کا کچهه حصہ کشمیر میں چهوڑنے کا کہا تاکہ لاء اینڈ کی صورتحال کو برقرار رکها جائے یونائٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان نے 1948 میں خطے کے تین دورے کئے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر مفاہمت کی کوئی راہ نکالی جائے انڈیا اس بات اڑا رہا کہ پاکستان پہلے اپنی فوج نکالے اور پاکستان کو یہ خوف تها کہ اگر اس نے اپنی افواج نکال لیں تو بهارت اپنی بات سے مکر جائے گا کیونکہ بهارتی حکومت پر اعتبار جو نہتھا اور وقت نےبھی یہی بات ثابت کی۔ کوئی مفاہمت وجود میں نہ آسکی اور مسئلہءکشمیر جوں کا توں برقرار رہا کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت کبهی نہ مل سکا کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں وہ کوئی الحاق چاہتے بھی ہیں یا آزاد سٹیٹ کے طور اپنی خود مختار گورنمنٹ قائم کرنا چاہتے ہیں اقوام متحدہ کی کسی بھی قرارداد پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ حتی’کہ بهارتی حکومت نے تو یہ تک اعلان کردیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس مسئلے کے حل کیلئے بے معنی ہیں اور اس مسئلے کو اب شملہ معاہدہ 1972 اور اعلان لاہور 1999 کے تحت حل کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی مفاہمت کی کوششوں کی پے درپے ناکامیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ 2010 میں اقوام متحدہ نے مسئلہءجموں کشمیر کو اپنی غیر حل شدہ بین القوامی مسائل کی فہرست میں سے خارج کر دیا۔ بقول بهارت کے جموں و کشمیر میں جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث اقوام متحدہ کی قراردادیں بے مقصد ہیں۔ بهارت کی ہر ممکنہ کوشش یہی رہی کہ وہ کشمیر کو بهارت کا حصہ قرار دے سکے اسی لئے 1951 اور 2014 میں ہونے والے اسمبلیوں کے الیکشنز کے نتیجوں سے وہ یہی ثابت کرتا آرہا ہے کہ کشمیری عوام کو بهارتی حکومت پر کتنا بھروسا ہے۔ ادهر پاکستانی حکومت اور عوام اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت ہر حال میں دیا جانا چاہئیے 1946 میں بهارت میں برٹش کیبینٹ مشن نے اس بات کی خاص نشاندہی کی تهی کہ جموں و کشمیر جو کہ تقسیم پاک و ہند کے وقت ایک شاہی ریاست تھا اور مکمل طور پر ایک خود مختار علاقہ تھا لہزا اس وقت سے ہی کشمیریوں کے پاس خود ارادیت کا ہر اختیار موجود تھا اور اس حق خود ارادیت کو جنرل اسمبلی کی قرارداد1514 (1960) اورقرارداد2625(1970) نے بھی ثابت کیا لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ کشمیریوں کی اندرونی جدوجہداور بین القوامی سلامتی کے اداروں کی طرف سے کی جانے والی تمام قراردادوں اور پاکستان کی طرف سے ہر طرح کی امداد کے باوجود کشمیریوں کو ان کے حق سے محروم رکها گیا۔
دوقومی ںظریےکے تحت بھی جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ قراد دیا گیا کیونکہ اس وقت بھی وہاں  کثیر تعداد مسلمانوں کی ہی تهی جو کہ آج بھی ہے کشمیر ایک خودمختار ریاست ہے جس کا تقسیم پاک و ہند کے وقت پاکستان سے الحاق کیا گیا تها۔ مگر آج تک نہ تو کشمیریوں کو آزادی اور خود مختاری مل سکی اور نہ اس خطے کو پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ الٹا اپنے ہی وطن میں کشمیریوں کی زندگیوں کو عذاب بنادیا گیا۔ آزادی کی بجائے انهیں غلامی سے نوازا گیا اور آزادی کی شمع کو بجهانے  کیلئے ان کے گهروں پر دن رات قیامتیں ڈهائی جاتی ہیں۔ بچوں، جوانوں،بوڑهوں پر تشدد، عورتوں اور لڑکیوں کے ساتهه زیادتی، گهروں میں لوگوں کو زندہ جلانا معصوم طلباءوطالبات پر فائرنگ، بامبنگ، شیلنگ غرضیکہ ظلم کی ہر انتہاکو کشمیریوں کا مقدر بنادیا گیا۔ مگر آزادی کے یہ متوالے لڑتے رہے آزادی کیلئے جانیںبھی دیتے رہےغازیوں اور شہیدوں کی یہ سرزمیں، چنار پهولوں کی یہ حسین ترین وادی کبهی تو آزادی کی روشنی سے منور ہوگی حکومت پاکستان، بین القوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کروانا ہوگا۔ حالیہ برهان ظفروانی کی شہادت نے ایک بار پهر جموں وآزاد کشمیر سمیت ہر پاکستانی اور پوری دنیا کے ہرذی روح انسان کے دلوں کو جهنجهوڑ کے رکھ دیا ہے کہ آخر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور انسانیت کی حددرجہ پامالی کی یہ داستاں آخر کب اپنےانجام کو پہنچے گی؟69  سالوں سے ظلم، تشدد اور جبر کی آگ میں جلتے ہوئے کشمیریوں کیلئے آزادی کی روشن صبح کب طلوع ہوگی؟