یہ وقت دعا ہی نہیں وقتِ دوا بھی ہے

ایک روزن لکھاری
وسعت اللہ خان ، صاحبِ مضمون

یہ وقت دعا ہی نہیں وقتِ دوا بھی ہے

از، وسعت اللہ خان

کہا جاتا ہے کہ شمالی کرے اور براعظم انٹارکٹیکا کے علاوہ اگر برف کا سب سے بڑا ذخیرہ روئے زمین پر ہے تو وہ ہمالیہ ، قراقرم اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلے پر ہے۔ انٹار کٹیکا سے باہر اگر کسی جگہ سب سے زیادہ گلیشییرز ہیں تو وہ یہی پہاڑی سلسلے ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقے کا عظیم بالتورو انٹارکٹیکا سے باہر حجم کے اعتبار سے سب سے بڑا گلیشیر ہے۔ ایسے دیگر بیسیوں چھوٹے بڑے گلیشیر ہیں جو چین، شمالی بھارت ، نیپال ، بھوٹان ، بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان کو آبی اعتبار سے احسان مند رکھے ہوئے ہیں۔گویا لگ بھگ چالیس فیصد عالمی آبادی انھیں تین پہاڑی سلسلوں پر جمنے والی برف کے سبب ہے۔چنانچہ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تینوں پہاڑی سلسلوں سے جڑے ممالک کے بڑے بڑے دریاؤں میں جو بھی پانی ہے اس کا ستر تا اسی فیصد یہی پہاڑ اور ان کی گود میں پلنے والے گلیشیرز مہیا کرتے ہیں اور باقی بیس فیصد بارش کا تحفہ ہے۔

انیس سو سینتالیس میں ساڑھے تین کروڑ مغربی پاکستانیوں کے لیے فی کس پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی میسر تھا۔آج آبادی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر پاکستانی کے حصے میں آنے والے پانی کی مقدار ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہے۔یعنی عالمی معیار کے اعتبار سے پاکستان آبی قحط کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔

اعداد و شمار کی بھول بھلیوں میں گھسا جائے تو اور طرح کی حیرت ہوتی ہے۔کیونکہ پاکستان کی سالانہ آبی ضروریات ایک سو دو ملین مکعب فٹ بتائی جاتی ہیں اور جو پانی دستیاب ہے وہ بظاہر ضرورت سے اب بھی زیادہ ہے یعنی ایک سو بیس تا پچیس ملین مکعب فٹ۔پھر بھی پاکستان کو آبی قحط کا شکار کیوں کہا جا رہا ہے ؟ وجہ دیوار پر لکھی ہوئی ہے۔یعنی پانی ذخیرہ کرنے اور کھیت تک ضایع کیے بغیر پہنچانے کی ناکافی صلاحیت۔

بھارت کے پاس ایک سو دن کی قومی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے مگر پاکستان کے پاس منگلا اور تربیلا کی شکل میں محض تیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں دریائی پانی بھلے کتنا ہی وافر ہو اگر ذخیرہ نہیں ہو سکتا تو کسی کام کا نہیں۔اس کے لیے نہ صرف وسائل بلکہ سیاسی ارادہ ، مضبوط و ایمان دار قوم پرست قیادت اور مستقبل بینی کی صلاحیت درکار ہے اور پاکستان میں پانی کے قحط کا بنیادی سبب انھی اوصاف کا قحط ہے۔

قحط کا دوسرا بنیادی سبب میسر پانی کے ڈھنگ سے استعمال کا ہنر نہ سیکھنا ہے۔ڈیم سے کھیت تک پہنچتے پہنچتے لگ بھگ چالیس فیصد پانی یا تو چوری ہوجاتا ہے یا خشک ہو جاتا ہے یا راستے میں ضایع ہو جاتا ہے یا خود کسان کو دستیاب پانی کفایت شعاری سے استعمال کرنے کا جدید ڈھنگ نہیں آتا اور پانی کی جو مقدار دو سے تین فصلیں پیدا کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے وہ مقدار ایک ہی فصل میں کھپا دی جاتی ہے۔حالانکہ زائد از ضرورت پانی سے کھیت سینچنے کا ذرہ برابر فائدہ ثابت نہیں ہو پایا۔

پاکستان کا شمار چونکہ ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی قیمت خاصی کم ہے لہذا مالِ مفت دل بے رحم بھی آبی فضول خرچی کو فروغ دینے پر اکساتا ہے۔اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اسرائیل کو پاکستان کے مقابلے میں زرعی ضروریات کے لیے پانچ گنا کم پانی میسر ہے۔مگر پانی کے چابکدستانہ استعمال کی ٹیکنالوجی اسرائیلی کھیت کو تین گنا زائد پیداوار دیتی ہے۔اگر پانی کا کفایت شعارانہ اور ذہین استعمال سیکھنا ہو تو اسرائیلی ماڈل بہت آگے ہے۔ویسے بھی دشمن سے بڑا اسکول کوئی نہیں ہوتا۔علم جہاں سے ملے مشترکہ میراث سمجھ کے اٹھا لینا چاہیے۔

صورتِ حال پہ سوواں درہ درجہ حرارت میں اضافے کے گلیشیرز پر پڑنے والے اثرات ہیں۔پچھلی ایک صدی کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی پاکستان کے درجہ حرارت میں لگ بھگ ایک اعشاریہ نو سنٹی گریڈ کا اوسط اضافہ ہوا ہے۔ اس خرابی کو بڑھانے میں جنگلات کی کٹائی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔میرے علم میں نہیں کہ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کا جو سیکشن شمالی علاقہ جات کے پہاڑی سلسلے سے گذرے گا اس پر اگلے پانچ سے دس برس کے دوران بے تحاشا بھاری ٹریفک سے جو آلودگی پیدا ہوگی اس کے نتیجے میں درجہ حرارت کے ممکنہ اضافے سے پہاڑی سلسلوں پر جمی برف اور گلیشیرز پر مزید کیا کیا منفی اثرات رونما ہوں گے۔اس بارے میں منصوبہ سازوں نے جانے کوئی تحقیق کی اور اس تحقیق کے نتیجے میں ماحولیاتی نقصان کو کم از کم رکھنے کے لیے کوئی تدابیر سوچی بھی یا نہیں۔مجھے اب بھی حسنِ ظن ہے۔

ماحولی ابتری کے سبب پاکستان میں سیلابوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہی چلا جا رہا ہے۔سال انیس سو بانوے ، ستانوے ، دو ہزار تین ، چھ ، دس ، بارہ ، تیرہ ، چودہ میں خیبر پختون خواہ ، پنجاب اور سندھ بڑے سیلابوں کی چپیٹ میں آئے۔ان کی شدت انیس سو تہتر اور چھہتر میں آنے والے سیلابوں سے بھی زیادہ رہی۔بالخصوص دو ہزار دس میں جو سیلاب آیا اس سے تین کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے اور پاکستان کی تیس فیصد زمین زیرِ آب آگئی۔اس ایک سیلاب سے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا اس کا احتیاطی تخمینہ بھی دس ارب ڈالر سے کم نہیں بنتا۔یعنی نقصان اٹھانا منظور ہے مگر دس ارب ڈالر کے صرفے سے دو ایسے ڈیم بنانا نامنظور جو اضافی پانی ذخیرہ کر کے معیشت کے بجائے سیلاب کی کمر توڑ سکیں۔

مگر یہ سیلاب بھی محض چند برس کے مہمان ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر درجہِ حرارت میں مسلسل اضافے کے عمل سے گلیشیرز پر غیر معمولی دباؤ بڑھتا رہا تو سیلاب در سیلاب کا سلسلہ بھی برف کم ہونے کے سبب توٹتا چلا جائے گا اور دو ہزار پچاس کے بعد پاکستان کے دریائی پانی میں اوسطاً ستائیس فیصد تک کمی ایک عام سی تبدیلی کے طور پر قبول کرنا ہو گی۔مگر تب تک پاکستان کی آبادی تیس کروڑ کا ہندسہ پار کر چکی ہوگی۔ لہذا آج جتنا فی کس پانی میسر ہے اس کی مقدار پچاس فیصد اور کم ہو جائے گی۔یوں زرعی بحران انسانی ہجرت کو جنم دے گا اور پھر یہ سلسلہ جانے کیسے اور کہاں رکے۔ ( اندازہ ہے کہ دو ہزار پچاس کے بعد کے برسوں میں پینتیس سے چالیس ملین پاکستانی اس ماحولیاتی نقلِ مکانی کے جال میں پھنس سکتے ہیں )۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو سارا الزام پاکستان جیسے آبی قحط کے شکار ممالک پر رکھنا زیادتی ہوگی۔ یہ بحران مشترکہ عالمی ذمے داری سے دیگر ممالک کے انحراف اور مقامی قیادت کی نااہلی کی پیداوار ہو گا۔اب یہ کہہ کے جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ صاحب کیا کریں۔ گیہوں کے ساتھ گھن تو پستا ہی ہے۔

اگر ’’ اب یا کبھی نہیں ’’ کے بقائی مرحلے میں بھی عالمی، علاقائی اور قومی آلکسی سے جان نہ چھڑائی گئی تو پھر آخری منظر یہ ہوگا کہ پہلے ایک ملک دوسرے سے پانی پر جنگ کر رہا ہوگا اور پھر انسان انسان سے ایک بوتل پانی پر گتھم گھتا ہوگا۔وقتِ دعا کے ساتھ ساتھ یہی وقتِ دوا بھی ہے۔ پھر بھی آپ وہی منظر دیکھنا چاہتے ہیں جو محض چند برس کی دوری پر ہے تو میں کون ہوتا ہوں بکنے جھکنے والا ؟

آپ ایک اور نیند لے لیجے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا

(جون ایلیا)