اہل علم و ہنر صحافی اور ادیب و شاعر

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

اہل علم و ہنر صحافی اور ادیب و شاعر

از، ایک روزن رپورٹس

کیا ملک کے اہلِ علم و ہنر صحافی اور ادیب و شاعر، ناول نگار و تنقید نگار  گلوبل سطح کے معاملات کو دُرُست سَمت میں سمجھ رہے ہیں اور اپنی تخلیقات میں ان وجوہ کو زیرِ بحث لا رہے ہیں؟ 

ابتدائیہ از، نعیم بیگ:  

[یہ 2019 کی چھوٹی] عید [کا دن] ہے۔ حسبِ معمول دن بھر ٹیلی فون کالز، محلے والوں اور رشتہ داروں سے میل ملاپ کرتے کرتے دن بیت گیا۔ شام کو فرصت ملی تو دوستوں سے رابطہ ہوا۔ فرخ ندیم سے فون پر غیر رسمی گفتگو ہوئی، جو قہقہوں سے نکلتی ہوئی سنجیدہ ادب کی طرف مُڑ گئی۔ بات یوں شروع ہوئی کہ فرخ نے کہا، آپ کا ناول پڑھ لیا ہے۔ 

میں نے پوچھا کیسا لگا؟ جوب میں فرخ کہنے لگا، کمال یہ ہے کہ اپنی لوکیل میں رہتے ہوئے اس دھائی کے ناولوں میں یہ نیا پن سامنے آیا ہے کہ اردو ناولز بیک وقت مقامیت، بین الاقوامیت اور ریجنل مسائل کو مخاطب کر رہے ہیں۔ یہاں مخاطبے سے مراد مکالمے کے احاطے میں لانا ہے۔ 

کہانیوں سے باہر نکلتی ہوئی ادیب کی گہری تنقیدی نظر تخلیق کے جہاں آباد ہی نہیں کر رہی، بَل کہ اسلوبیاتی اور بیانیہ کی سطح پر نئے رنگ سامنے لا رہی ہے۔ میں نے پوچھا، ڈئیوس، علی اور دیا کے علاوہ آپ کسے ریفر کر رہے ہیں۔ کہنے لگا ابھی زیف سید کا گل مینہ پڑھا ہے۔ کل اقبال خورشید کے ناول تکون کی چوتھی جہت پڑھا۔ میں نے عرض کی، ابھی میں نے چار درویش اور ایک کچھوا پر مضمون لکھا ہے، وہ بھی مقامیت سے باہر نکل کر آیا ہے۔ میڈیا اور سیاسی کرداروں کو احاطے میں لاتا ہے۔ کہنے لگے۔ ساسا پڑھیں، بھاگ بھری پڑھیں۔ چینی جو میٹھی نہ تھی دیکھیں۔ میں نے کہا، جی دیکھ چکا ہوں۔ اس کے علاوہ یہاں سید کاشف رضا نے بیانیہ میں نیا لسانی تجربہ کیا ہے، وہ بَہ یَک وقت تین راویوں سے ناول لکھواتا ہے۔ 

مختصراً ہم دیر گئے تک اکیسیویں صدی کی دوسری دھائی میں ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہونے اردو ناولز میں جو کچھ نیا پن سامنے آ رہا ہے، پر گفتگو کرتے رہے۔ کچھ اور اردو و انگریزی ادب سے بھی ناولز تھے، جنھیں ہم گفتگو میں لائے۔ گفتگو ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کی ملکی، ریجنل اور بین الاقوامی سطح پر کہیں نیچے ایک tremor (زلزلہ) چھپا ہوا ہے، جو کسی وقت بھی زمینوں کو پھاڑ دینے کی سَکت رکھتا ہے جسے صرف اہلِ علم و دانش و ادیب ہی محسوس کر رہے ہیں۔ 

فون ختم ہوا اور میں نے کھانے کے بعد کراچی کے کامریڈ پارس جان کی نئی کتاب، لبرل ازم پر مارکسی تنقید جو مطالعہ کے لیے میز پر دھری تھی، ورق گردانی کے لیے اٹھا لی۔ اس کے پہلے باب کو دیکھا تو حیرت یہ ہوئی کہ وہی بات جو ہم دونوں چند گھنٹے پہلے کر رہے تھے، پارس جان نے پہلے باب کو انھی چند سطروں سے اوپن کیا۔ اقتباس درج ذیل ہے: 

“اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ دنیا کو جھنجھوڑ دینے کے بعد اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے۔ جب یہ شروع ہوا تھا تو اسے ایک بالکل مختلف دنیا کا سامنا تھا، مگر جب یہ ختم ہو گا تو کوئی اور ہی دنیا چھوڑ کر جائے گا۔ جدید تاریخ میں شاید ہی ایسے دس سال رہے رہے ہوں گے۔ یہ جو آخری دو سال ابھی باقی ہیں، یہ بھی اپنے دامن میں پتا نہیں کیا کچھ سمیٹے ہوئے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پورے وُثُوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان دو سالوں میں بھی حیران کُن اور غیر متوقع واقعات رُو نُما ہوں گے۔ آئندہ مُؤرّخ ان دس سالوں سے پہلے اور ان دس سالوں کے بعد کی دنیا کے بیچ خطِ امتیاز کھینچنے پر مجبور ہوں گے۔ ایسا نہیں کہ اس سے قبل کبھی پے در پے تحریکیں اور انقلابات دیکھنے میں نہیں آئے، مگر بہ یَک وقت انقلابی تحریکیں، جنگیں، خانہ جنگیاں، proxies، اتبے بڑے پیمانے پر ہجرتیں، طویل ترین معاشی بحران، غربت اور دولت کا بہ یَک وقت ارتکاز ،یہ سب وہ عوامل ہیں، جن کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر سماج کی بنیادوں میں ایسی لرزش پہلے کبھی دیکھی نہ گئی۔ …” 

خوشی ہوئی کہ ملک کے اہلِ علم و ہُنر صحافی اور ادیب و شاعر، ناول نگار و تنقید نگار بڑی حد تک گلوبل سطح کے معاملات کو درست سمت میں سمجھ رہے ہیں اور اپنی تخلیقات میں ان وُجُوہ کو زیرِ بحث لا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ریاض توحیدی (ادیب و دانش ور، مقیمِ کشمیر، بھارت):

بے شک اردو فکشن (ناول/افسانہ)اب اسلوب اور موضوع کے پیشِ نظر مُقامیت سے نکل کر بین الاقوامی رجحانات اور موضوعات کو بھی ماہرانہ انداز سے اپنے دامن میں سمیٹ رہا ہے۔ جس کا ثبوت مذکورہ ناولوں کے علاوہ کئی اور ناول اور افسانے ہیں۔ یہ رجحان بہ ہر حال اردو فکشن کی ارتقاء اور فکشن نگاروں کی تخلیقی پرواز کا ایک اہم تاریخی کار نامہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور جس میں نعیم بیگ صاحب کا تخلیقی جوہر (creative essence) نمایاں مقام کی حامل ہy۔ علاوہ ازیں اردو فکشن میں جو سائنسی اور روحانی مسائل و موضوعات پر ارتکاز کرنے کی شروعات ہوئی ہے، جس کا ثبوت جی حسین کا ناول، آدمِ ثانی ہے یہ بھی ایک اہم تخلیقی پہل قرار دی جا سکتی ہے۔ دانش ورانہ گفتگو کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ مجھ جیسا عام قاری بھی کچھ نہ کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات بھی بیان کرسکتا ہے۔

نعیم بیگ (ڈاکٹر ریاض توحیدی سے مخاطب ہوتے ہیں):

جی شکریہ ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب میں سمجھتا ہوں کہ آج کا  سنجیدہ ادیب کل کے ادیب سے کہیں بہتر لکھ رہا ہے۔ تاہم تاریخ کے اوراق میں کسے جگہ ملتی ہے یہ وقت اور فن پارہ خود طے کرتے ہیں۔ 

جی۔ حسین (نعیم بیگ سے کسی ضمنی موضوع پر مخاطب ہوتے ہیں):

تھوڑی لمبی کہانی ہے۔ ایک دوست بچوں کی کتب کے ناشر ہیں۔ زبر دستی مسوّدہ لے گئے کہ وہ خود پرنٹ کریں گے۔ بس مت پوچھیے، ان سے ناول کی بپ جائے کوئی ڈائجسٹ نما چیز چھپ گئی۔ نا سنہ اشاعت شائع ہوا، نہ ہی قیمت، نہ ہی خود پبلشر کا نام۔ ایک صفحہ الٹ پرنٹ ہو گیا۔ خاموشی سے اٹھا کر لے آیا۔ دوستوں میں مفت بانٹ دیا۔ کچھ کاپیاں ہنوز پڑی ہیں۔ اب خیال ہے کہ دوسرا ایڈیشن پوری توجہ سے کسی ماہر پبلشر سے چھپواؤں گا۔

ارشد محمود (ابتدائی پوسٹ کے کسی نکتے پر اپنی تشریحی رائے دیتے ہیں):

اس گلوب پر رہنے والا ہر ذی روح ایک ہی نظام سے جڑا ہے۔ اس کی بقا و فنا باہم مربوط ہے۔ اس بات کا احساس لطیف سطح پر انسان نے intellectually کر لیا ہے۔ یہ شاعر ادیب اسی لطیف احساس کو اجاگر کرتے ہیں۔ تاہم انسانی کی مادہ پرستی اسے بحر و بر سے نکل کر کائنات کی وسعتوں میں بھٹکانے پھر رہی ہے۔

منظور قریشی (آپ مقیمِ لاہور ادیب و دانش ور ہیں۔ ابتدائی پوسٹ کے کسی پہلو پر اپنا نکتۂِ نظر پیش کرتے ہیں):

تہذیب وہی ارتقا کرتی ہے جس کی زبان جدید عصری علوم پر دست رس رکھتی ہو اور عقل و منطق، سائنس و فلسفہ، تحقیق اور ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہو۔ عصرِ حاضر میں انگریزی گلوبل لینگویج کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ مغربی ثقافت کے زیرِ اثر روس، چین، جاپان، آسٹریلیا،افریقہ اور تمام مشرقی ممالک میں بود و باش ٹرانسپورٹ، ٹیلی ویژن، موبائل فونز، فیشن فاسٹ فوڈ، جیکٹ، جینز مرد و خواتین کا یکساں کلچر بن چکا ہے۔ 

عرب دنیا اور ایران کے پاس وسائل ہیں۔ عرب سپرنگ (Arab Spring) میں جنگوں کا تجربہ کر چکے ہیں اور یمن میں اب بھی کر رہے ہیں، لیکن پس ماندہ علوم کے ساتھ مستقبل میں جہاں بانی کے امکانات کیا ہیں یہ منطق سے زیادہ معجزے کا سوال ہے۔

ارشد محمود (منظور قریشی کے نکتہ کی مزید شرح و ترمیم اور اضافہ کرتے ہیں):

یقیناً تہذیب وہی ارتقا کرتی ہے جس کی زبان عصری علوم پر دست رس رکھتی ہو۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تہذیبیں اوجِ کمال پر پہنچ کر نا بود بھی ہوئی ہیں۔ 

ایران یا عرب دنیا کی جہاں بانی کا تو دور تک امکان نہیں تاہم چائنہ اکنامک پاور بن کر سامنے آیا ہے، اور اگر امریکہ کو اس میدان میں شکست دینے میں کامیاب ہو گیا تو پھر گلوبل ویلج کی ہیئت شاید یک سَر مختلف ہو۔

منظر نقوی (آپ پروفیسر، ادیب، شاعر اور دانش ور ہیں، راول پنڈی میں مقیم ہیں۔ کلیدی بحث کے سفارشاتی حصے recommendatory part پر اپنے عدمِ اتفاق کو بیان دیتے ہوئے ادبی میلوں کو بیچ لاتے ہیں):

فرخ ندیم سے مکالمے کی جھلک اچھی لگی۔ مگر تحریر سے اندازہ ہوا فرخ اپنی بات [کرتے رہے] اور آپ اپنی؟ خیر فون پر اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔ اردو ادب میں گزشتہ پانچ چھ سال میں تین یا چار ناول اچھے آئے ہیں (شاید ایک زیادہ ہو گیا ہے) باقی سب trash مال ہے۔ ہمسائے کی خبر نہیں اور بات بین الاقوامی والا معاملہ ہے۔ ہر پانچ کا گروہ اپنی اپنی لسٹ بنائے بیٹھا ہے۔ ادبی میلے ٹھiلے رُو نُمائیاں کر سکتے ییں۔ شاعری، افسانہ اور ناول کو بڑا نہیں بنا سکتے۔ اچھا لکھاری بھی بعض اوقات برا لکھ دیتا ہے۔ وہ کسی کی صورتِ حال ہی کیوں نہ ہو۔

ارشد محمود (بہ ظاہر منظر نقوی کے بیان کے جزو سے متفق ہوتے کہتے ہیں):

بہت خوب کہا سر! جو بھی زبان و ادب تاریخی ارتقا کا ساتھ دے گا دوام اسی کو ہے کہ یہاں survival of the fittest کا قانون چلتا ہے۔ 

تاریخی ارتقاء لازم و نا گزیر، تاہم یہ کہنا قبل اَز وقت ہو گا کہ کون سی زبان مستقبل میں گلوبل ویلج کی زبان بنتی ہے۔ ایک طرف تیسری دنیا کی کم زور ثقافتیں اور زبانیں مغربی ثقافت و انگریزی زبان سے تیزی سے replace ہو رہی ہیں، تو دوسری طرف کچھ علاقائی ثقافتیں اور زبانیں جیسے چینی ثقافت و زبان، ایرانی ثقافت و فارسی زبان اور کسی حد تک عربی survival کے لیے مزاحمت کر رہی ہیں۔ پھر روس بھی مزاحم ہے۔  

سو آنے والی دو تین دھائیوں میں ارتقاء کے ذریعے تو نہیں، شاید وسائل پر جنگ میں بَر تری پانے والی ثقافت و زبان prevail کر جائے۔

منظور قریشی (تاریخی ارتقاء اور اس کی بھٹی میں ڈَلتے آتے ادب کے، علاوہ دیگراں، آپسی سخت و ترش تعلق کو ڈیجیٹل عصریت digital contemporaneity کے آلات و لوازم یا platforms سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں):

تاریخی ارتقاء میں ہر دور کی ایک روح ہوتی ہے جسے روحِ عصر کہتے ہیں۔ جیسے قبائلی دور بادشاہتوں کا دور جمہوریتوں کا دور اور اب فکری آزادی کا دور۔ 

انٹرنیٹ کی آمد اور تلخ حقائق کا سامنا ایک نیا انسان تخلیق کر رہا ہے جو گلوبل سوچ رکھتا ہے، اور اس دور کی روح و رہنما عقل و منطق ہے۔ 

جو بھی زبان و ادب اس روح کا ساتھ دے گا زندہ رہے گا۔ باقی کتابیں اساطیری ادب کے شیلف پر رکھ دی جائیں گی کہ تاریخ کا لائبریرین قصہ گل بکاؤلی سے نسیم حجازی تک یہی کرتا آ رہا ہے۔

احمد اقبال (آپ سینئر ادیب و دانش ور ہیں، اور حالیہ مقیم راول پنڈی ہیں۔ تاریخی ارتقاء کے ضمنی موضوع پر چل نکلی گفتگو میں اپنا اردو فکشن اور ادب سے اردو زبان کو مرکزِ نگاہ بنا کر اپنا فکری حصہ ڈالتے ہوئے کہتے ہیں):

کیا خیال ہے سو پچاس برس بعد نہیں صرف دس بیس برس بعد کتنے ناول ادب عالیہ میں اپنا حوالہ رکھیں گے؟ جب کہ خود اردو زبان کے لیے ایک اور صدی کی زندگی بالکل غیر یقینی ہے؛ اور نصف صدی بعد اس کی حیثیت ایک بولی سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں اتفاق کروں گا، بہت کم سہی، لیکن ایسا نہ ہو۔ اس کے امکانات کو یَک سَر نظر انداز کرنا غلط ہو گا۔ 

محمد عاطف علیم (محمد عاطف علیم انتہائی شُستہ اور مہین کہانی کار، اردو زبان میں فکش کو عصری موضوعات سے جوڑنے والے، شعورِ عصر اور ادراکِ مستقبل رکھنے والے ناول نگار ہیں، جن کی جھلک ان کی ایک روزن پر ڈیجیٹلی شائع شدہ کہانیوں اور ان کے دو ناولوں، مشکپوری کی ملکہ اور گرد باد میں جا بَہ جا موجود ہے۔ ان کے ذیلی تبصرے کا سیاق خود مترشح، self-explanatory ہے):

اقبال بھائی نے لسانی حوالے سے اردو ادب سے زیادہ اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں بات کی ہے۔ اب چُوں کہ پنجابی زبان کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی زبان کا مستقبل کم از کم دو باتوں پر منحصر ہوتا ہے: 

اوّل، یہ کہ افراد کے جن گروہوں سے اس زبان کا تعلق ہے خود ان میں تخلیقی روَیّوں کا کیا احوال ہے؟، ان گروہوں کی علمی بنیاد کتنی مضبوط ہے؟ اور، وہ ان کی زبان میں کس حد تک منعکس ہو رہی ہے؟

دوم، یہ کہ وہ گروہ خود اپنی زبان کی کس حد تک حفاظت کر رہے ہیں، اور اسے اپنی اگلی نسلوں کو کس صورت اور شکل میں منتقل کر رہے ہیں، یا، کرنے میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ 

اگر ان دو عوامل [اور ان کے پیش آمدہ تحتی و ذیلی سوالات] کو پیشِ نظر رکھا جائے تو احمد اقبال بھائی کے خدشات یک سَر بے جا نہیں ہیں بَل کہ یہ خدشات بہت جان دار دکھائی دیتے ہیں۔

۔۔۔ رہی بات یہ کہ آپ دونوں حضرات جن ناولوں کو قابلِ بحث سمجھ کر ان کی ستائش کرتے رہے، تو فرخ ندیم تو خیر پروفیسر آدمی ہے، اور پروفیسر لوگ بادشاہ ہوتے ہیں، لابیاں بنائے بغیر رہ ہی نہیں سکتے، لیکن مجھے آپ کے ذوقِ مطالعہ پر بھی شک ہو گیا ہے۔ اس بات کی مجھ سے وضاحت نہ مانگیے گا۔

[توقفی نعلامات کے بعد درج بات عاطف علیم نے، گو کہ، الگ تبصرے کی صورت میں کی جو کہ ان کے پہلے تبصرے (comment) کے عین بعد پیش کیا گیا۔ اس میں آپ کلیدی بحث میں نعیم بیگ اور فرخ ندیم کی ٹیلی فونک گفتگو میں محُولہ، اور کلیدی بحث میں مندرجہ، ناولوں کی بابت اپنی رائے دیتے ہیں، جس میں کسی حد تک good humour کی کمی واقعی ہونے کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ بَہ ہر کیف، اسے بَہ وجوہ، تدوینی حذف میں نہیں لایا گیا۔]

نعیم بیگ (عاطف علیم کی اٹھائے نکتے پر بات کرتے ہوئے):

ارے واہ عاطف صاحب، آپ کہہ بھی گئے اور پتلی گلی سے نکل بھی گئے (مسکراہٹ کا emoji)؛ ایسا نہیں ہے۔ بہت سے دوسرے ناول زیرِ بحث آئے، جس میں آپ کا ناول بھی شامل ہے اور دیگر دوستوں کے ناول بھی۔ ہم اِس دھائی میں لکھے جانے والے سبھی ناولوں پر بات کر رہے تھے۔ تاہم اب سب کے نام لکھنا اس مختصر اظہاریہ میں ممکن نہ تھا۔ اس موضوع پر ایک مکمل کتاب لکھے جانے کا طے ہو گیا ہے۔ میرے اِس جملے پر غور کیجیے، “مختصراً ہم دیر گئے تک اکیسویں صدی کی دوسری دھائی میں ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہونے اردو ناولز میں جو کچھ نیا پن سامنے آ رہا ہے، پر گفتگو کرتے رہے۔”

عاطف علیم (نعیم بیگ سے ضمنیات پر مخاطب ہوتے ہوئے):

آپ مجھے اسی لیے اتنے اچھے لگتے ہیں کہ آپ کو دل رکھنا خوب آتا ہے۔ لیکن میں اپنی ذات کی یا اپنے لکھے کی بات، بہ ہر حال، نہیں کر رہا تھا۔ بہت کچھ اور تھا جو میرے ذہن میں تھا اور مجھ سے ما وَرا تھا۔

نعیم بیگ (عاطف علیم کی بات کی وضاحت کرتے ہوئے):

آپ کی محبت ہے جو یوں کہہ رہے ہے، میں نے قطعاً دل رکھنے کو یہ بات نہ کی ہے۔ کم از کم میں تو آپ کا دل سے مداح ہوں۔ آپ کے ذہن میں اگر کچھ اور تھا تو کسی  وقت ملاقات رکھیں۔ لاہور میں ہوں تو حکم کریں ملاقات ہوتی ہے۔

نعیم بیگ (احمد اقبال کے بحث کو لسانی جہت سے چلانے پر نعیم بیگ ان سے تشریح کی درخواست کرتے ہوئے):

احمد اقبال بھائی، یہ ایک نئی جِہت ہے جس طرف آپ نے اشارہ  کیا ہے۔ سارا ادب تو ادبِ عالیہ نہیں کہا جا سکتا تاہم ان امکانات کو یک سَر مسترد بھی نہیں کر سکتے۔ اردو ادب کی ارتقائی صورتِ حال مَثبت نہیں ہے۔ اَز راہِ کرم آپ اپنے استدلال کو مزید واضح کریں۔ کن بنیادوں پر آپ اردو کے لسانی مستقبل کو مخدوش سمجھ رہے ہیں۔ ہم آپ سینئرز کو سننا چاہتے ہیں۔

صفدر نوید زیدی (آپ ناول نگار ہیں اور حال مقیم ہالینڈ ہیں۔ اوپر افتتاحی بات میں آپ کے ناول بھاگ بھری کا حوالہ موجود ہے۔ صفدر نوید زیدی، احمد اقبال کی جانب سے بحث کا رخ لسان و زبان کی جانب کرنے کے بعد ادب کی زبان کے سہل بنائے جانے کی بابت نقطۂِ نظر پیش کرتے ہوئے): 

سینئر ادیبوں کے سامنے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے کہوں گا کہ ادبِ عالیہ اک عجیب سی اشرافیہ زدہ اصطلاح ہے۔ پاکستان جس خطے میں  بنا ہے وہاں کے اکثر لوگوں کی زبان اردو نہیں ہے۔ میری ناقص رائے میں اردو میں لکھنے ولے ادیبوں کو عالیہ وغیرہ کا خیال جھٹک کر اک ایسی عام فہم زبان میں ادب تخلیق کرنا چاہیے جو اک سندھی، بلوچ، پشتون، پنجابی، سرائیکی، براہوی، دری، کشمیری بولنے والے کے حلق سے بھی اتر سکے۔

نعیم بیگ (صفدر نوید زیدی کے اٹھائے ایک نکتے پر وضاحت کرتے ہوئے):

زیدی بھائی ادبِ عالیہ کی اصطلاح ہماری بنائی ہوئی نہیں۔ یہ بات نقادوں سے پوچھیں ہم تو خود اس بے جان اصطلاح کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔


عرضِ مدیر:

اوپر کی سطروں میں پچھلے دنوں عید الفطر کے موقع پر، نعیم بیگ، (مقیمِ لاہور، کہانی کار، انگریزی اور اردو کے ناول نگار،) کی فیس بک پروفائل پر ہونے والے ایک مکالمہ کی تدوین شدہ صورت پیش کی گئی ہے۔ [], () کے اندر کے الفاظ و جملے مدیر ایک روزن کے ہیں، مکالمے کے الفاظ کے املاء کو ایک اسلوبی تختی کے تحت خود اپنے تئیں مجوزہ معیاری تختی (style sheet) پر مرتب کیا گیا ہے، جس سے کسی قاری کا اتفاق و عدم اتفاق صرف ان کی مختاری کا حوالہ ہو سکتا ہے۔ 

اوہر پیش کردہ اصل مکالمے میں سے کچھ آراء کو جو، “بہت عمدہ”، “بہت خوب” جیسے ابلاغ توڑیے (communication breakers) قسم کے تبصرے شامل نہیں کیے گئے۔ کچھ سہو کا بھی امکان ہے، گو کہ اسے مکالمے کو اپنے attention span اور میسر ارتکازِ ذہنی کے تحت بہت سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔

اس مکالمے کا تتَمہ (conclusion) لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ ہر پڑھنے والا اپنے نتائج خود نکالنے میں بالکل آزاد ہے۔ ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ہر خیال، فکری زاویہ، نقد و جرح کا عنوان و عنوان نما ایک بیج جیسا ہوتا ہے۔ اس بیج کی البتہ کچھ ایسی خصوصیت ہے کہ اس سماعت و نظر کی حاجت ہوتی ہے۔ 

ان شرائط کی موجودگی میں کبھی نا کبھی کسی نا کسی لمحے کونپل نکال لیتا ہے۔ بھلے اسے پرانی اونچی عمارت کی پرانی اینٹوں کے اندر تھوڑی سے مٹی سمیٹنے کو مل جائے۔ اس آئیڈیا بیج (idea seed) کو سورج روشنی بھی دے دیتا ہے، اور یہ آب اور ہوا بھی میسر کر لیتا ہے۔ لیکن سماعت و نظر کی ایک بار درخواست ضرور کرتا ہے۔ سو، پڑھیے، سنیے، سوچیے۔ اور زندہ رہیے۔ اپنے نتائج خود اخذ کیجیے۔