خندہ ہائے زن

خندہ ہائے زن

خندہ ہائے زن

تبصرۂِ کتاب از، قمر سبزواری

عام حالات میں ، کم از کم ہمارے مشاہدے میں تو یہ بات آئی ہے کہ جو اشیاء اور تصورات بظاہر سادہ اور سہل دکھائی دیں اُن کو “ڈیفائن” کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ آپ  خود توجہ کیجیے، آپ زندگی کو کیسے ڈیفائن کریں گے، جذبہ محبت کی وضاحت کر کے دیکھیے، حسن کو لفظوں میں بیان کر دیکھیے، بہ ظاہر سادہ نظر آنے والی خواتین کی سادگی کو بیان کرنے کا ارادہ کیجیے آپ کو مایوسی نہیں تو مشکل ضرور پیش آئے گی ۔ خیر کبھی کبھار ایسی مشکل سے پالا پڑتے تو انسان نمٹ بھی لے لیکن  ہمارے ساتھ معاملہ یہ رہا کہ کہ ہم نے ذوق بھی اُس فن کا پالا جس میں کافکا سے لے کر انتظار حسین تک سب نے طبع آزمائی تو کی لیکن افسانے کو ڈیفائن آج تک کوئی نہیں کر پایا۔

خیر یہ تمہید باندھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ جس طرح زندگی کو ڈیفائن کیے بغیر ہم جیے جا رہے تھے  اور افسانے کو سمجھے بغیر افسانے لکھے چلے جا رہے تھے اسی طرح طنز و مزاح کی تعریف سے نا واقفیت کے با وجود ہم آج تک بس اپنی حس مزاح کے سہارے ہی  طنز و مزاح سے بھی محظوظ ہوتے رہے لیکن گزشتہ دںوں جب طنز و مزاح پر مبنی ایک کتاب ” خندہ ہائے زن ” ہاتھ لگی اور اس کتاب پر تبصرہ کرنے کو جی چاہا تو سب سے پہلا سوال جو ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ ہم ہنستے کیوں ہیں، یہ حسِ مزاح آخر کیسے حظ پہنچاتی ہے اور ہم کچھ باتوں پر تو غصہ ہونے ہیں اسی نوع کی کچھ باتوں پر رو پڑتے ہیں اور بالکل اسی طرح کی کچھ دیگر باتوں پر ہنس کیوں دیتے ہیں۔


مزید دیکھیے: کلچر کے خد و خال، ڈاکٹر وزیر آغا  از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی

پیرس پر (ثقافتی) حملہ یا پیرس کے  نو آبادیاتی حملوں کی کرچیاں  از، یاسر چٹھہ


پہلے تو اپنی جبری و اختیاری سستی کی وجہ سے طبیعت اس طرف مائل نہ ہوئی  اور یہ عذر پیش کرتی رہی کہ بھلا طنز و مزاح سے لطف اندوز جو ہو پاتے ہیں کیا اتنا کافی نہیں اب اس کو سمجھنے کی کیا ضرورت ہے ، کیا سگریٹ سلگانے اور ایک پہلا گہرا کش لگانے سے پہلے تمباکو کی فصل کاشت کرنے اور سگریٹ بنانے کے عمل کو جاننا ضروری ہے، کیا جام سے لطف اندوز ہونے کے لیے انگوروں کی باغبانی اور عمل کشید کی صعوبتوں سے گزرنا ضروری ہے سو مرزا غالب کی پیروی میں طبیعت کی ایک ہی رٹ تھی کہ

غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا

لیکن پھر خیال گزرا کہ یہاں خندہ ہائے”بے جا” نہیں بَل کہ خندہ ہائے “زن” ہیں لہٰذا دماغ ہو نہ ہو کوششس تو ضرور کرنی  چاہیے۔

مزاح کی تعریف  کرتے ہوئے ہم سٹیفن لیکاک کی اس بات سے کسی حد تک اتفاق کرتے ہیں کہ “مزاح زندگی کی نا ہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فن کارانہ اظہار ہو جائے۔”  

لیکن سوال یہ ہے کہ پھر طنز کیا ہے اس سلسلے میں دائیں بائیں نظر دوڑائیں تو رونالڈ ناکس کی بات دل کو بھاتی ہے کہ مزاح نگار خرگوش کے ساتھ بھاگتا ہے جب کہ طنز نگار کتّوں کے ساتھ شکار کھیلتا ہے۔”

سو اگر درج بالا دونوں خیالات کو یک جا کر کے دیکھا جائے تو یہ مفہوم نکلا کہ  مزاح نگار زندگی کی نا ہمواریوں کا شعور حاصل کر کے اُن کا لطیف و فن کارانہ اظاہر کرتا ہے جب کہ طنز نگار سخن کا نشتر لے کر اُس بد صورتی کو درست کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

ویسے ہماری اپنی دانست میں طنز اور مزاح اسلوب کا نام ہے کیوں کہ اگر یہ ایک الگ صنف ہوتی تو دیگر اصناف یعنی افسانوں میں، ناولوں میں شاعری میں اور ڈراموں میں طنز کی کاٹ اور مزاح کی چاشنی نہ ہوتی۔  

یہ جاننے کے بعد کہ طنز و مزاح کیا ہے یہ جاننے کی خواہش پیدا ہونا بھی لازمی امر ہے کہ طنز و مزاح کیسے تخلیق کیا جاتا ہے، وہ کون سے عناصر اور کون سے صنعتیں ہیں جن کے استعمال سے کسی جملے ، کسی تحریر کسی نظم یا کسی کہانی میں طنز و مزاح کا وجود تخلیق ہوتا ہے۔ آئیں چند مثالیں دیکھتے ہیں، ایک جملہ ہے؛

گبر سنگھ کہتا ہے، تُو نے نمک کھایا ہے تو اب گولی بھی کھا۔ یہ ایک عام سا فلمی ڈائیلاگ ہے جس میں ایک ولن کا ایک رکیک سا مکالمہ ادا کیا گیا ہے۔

اب ایک اور جملہ دیکھئے، ماہر امراض قلب تو بس یہی کہتا ہے کہ آپ نے اگر زبان کے چسکے کے لیے زیادہ نمک کھایا ہے تو اب دل کی تکلیف دور کرنے کے لیے کڑوی کسیلی گولیاں بھی کھانی ہوں گی۔

یہ بھی ایک عام سا جملہ ہے جس میں خفیف سا طعنہ بھی شامل ہے۔

اب دیکھئے کہ مزاح نگار کا کام کیا ہے مزاح نگار ان دونوں جملوں کو  لے کر ایک تیسرا نیا جملہ تخلیق کرتا ہے۔

گبر سنگھ اور کارڈیالوجسٹ ایک ہی بات کہتے ہیں۔

وہ کیا؟

تُو نے نمک تو کھایا ہے، اب گولی بھی کھا۔

یہ جو اوپر ہم نے سٹیفن اور رونالڈ کے اقوال کا حوالہ  دیا ہے وہ تو بس اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے دے دیا لیکن اگر ہم خود اس  بات پر غور کریں کہ مندرجہ بالا سطور میں ایسا کیسا عمل کیا گیا ہے جس سے مزاح پیدا ہوا اور پھر ایسا کون سا رُخ اختیار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان فکاہیہ سطور نے طنز کا روپ اختیار نہیں کیا تو ہمیں علم ہو گا کہ ایک جیسا صوتی، لفظی یا ظاہری تاثر رکھنے لیکن بالکل مختلف زمان و مکان اور تقریبا متضاد معنی رکھنے والی دو باتوں کو ملا کر اُن کے مابین فرق کو صنعت مبالغہ سے مٹا دیا گیا جس سے نئی تخلیق ہونے والی بات میں مزاح کا عنصر پیدا ہوا۔

یعنی جب لفظی یا صوتی یا ظاہری مشابہت رکھنے والے لیکن اصل میں متضاد یا معکوسی تعلق رکھنے والے مظاہر کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر صنعت مبالغہ کے استعمال سے اُن کا فرق مٹا دیا جائے یا بہت زیادہ بڑھا دیا جائے تو مزاح پیدا ہوتا ہے۔ اسی مزاح کا مقصد اگر تفنن کی بجائے اصلاح یا تحقیر ہو گی تو یہ طنز بن جائے گا اور اسی کا رُخ اگر کسی فرد یا گروہ یا خطے یا زبان کی طرف ہو گا تو یہ تضحیک کہلائے گی۔ یہی مزاح لطیف تقابل سے عاری ہو گا تو پھکڑ بازی یا فحاشی کی شکل اختیار کر لے گا۔

یوسفی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ “اندرون لاہور کی بعض گلیاں اس قدر تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری جانب مرد، تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش ہی بچتی ہے۔”

یہاں بھی لطیف انداز میں صنعت مبالغہ کا استعمال کر کے  گلی کی مڈبھیڑ اور جنسی مقاربت کے فرق کو مٹا کر ہی ظرافت پیدا کی گئ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یوسفی صاحب کے اس  جملے یا طنز و مزاح کے عمومی رجحان پر غور کریں تو  اندازہ ہوتا ہے کہ اشیاء و خیالات کو ظاہر کرنا اگر جرات کا متقاضی ہے تو زندگی کی سچائیوں اور سماج کے لگے بندھے تصورات، بدیہات، ثقافتی مظاہر مروجہ مذہبی فکر کے ہتھکنڈوں ، صنفی امتیازات ، لسانی تشکیلات اور سیاسی چال بازیوں کے بین فرق کو مٹا کر مزاح پیدا کرنے کے لیے اُن کا بیان یا ظاہر کرنا ضروری ہے اور مزاح نگاری کی تخلیق کے دوران اس بے باکی کی ضرورت دوسری اصناف سخن سے قدرے زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ دوسری اصناف سخن میں علامت و تجرید تک کی گنجائش ہے جب کہ مزاح نگاری میں تو چوٹ پڑتی ہی تب ہے جب فرق ظاہر کیا جاتا ہے۔

عورت ہماری تہذیبی روایت اور مروج مذہبی بیانیہ میں پردے کا استعارہ ہے۔ اور شاید یہی وجہ رہی ہے کہ جو “شے” خود سرا سر پردہ اور ستر تصور کی جاتی رہی ہے  اُس سے سماجی بتوں کے لبادے اتارنے جیسا کام سر زد ہونے لگے اور وہ فرد و سماج، تہذیب و ثقافت، مذہب و نصاب کے افتراقات و تضادات کو بے نقاب کرنے لگے یہ   قبول کرنا خاصا مشکل رہا ہے۔

ہماری اردو تو ویسے بھی ایک شرمیلی زبان ہے۔ اگر عصمت چغتائی، رشید جہاں، واجدہ تبسم، خدیجہ مستور، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض کا  تانیثی و نسائی ادب اپنا لوہا نہ منواتا تو شاید خواتین لکھاریوں کے لیے اردو ادب کا دروازہ ہی نہ کھلتا لیکن فکشن اور شاعری میں کئی درخشاں زہرہ ستارے نظر آنے کے باوجود اردو مزاح نگاری کے آسمان پرجعفر زٹلی سے لے کر مشتاق یوسفی تک  فقط مریخ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ پطرس بخاری ہوں، ابن انشاء ہوں یا مشتاق احمد یوسفی یا آج کل میڈیا پر نظر آنے والی سیاسی پھکڑ بازی آپ کو طنز و مزاح نگاری کے گلشن میں کوئی چنبیلی کوئی نیلو فر کوئی نرگس دکھائی نہیں دے گی۔ اور اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ وہی عوامل رہے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔

اس پس منظر اور ان باتوں کو سامنے رکھ کر جب ڈاکٹر فاخرہ نورین کی کتاب خندہ ہائے زن  پر نظر ڈالی جائے تو یہ نہ صرف اہم کتاب ہے بَل کہ حیران کن بھی ہے۔

کتاب ہذا کے دیباچہ سے (کچھ ٹائپو حذف کر کے) چند جملے ملاحظہ کیجے۔

بیس پچیس دن طویل بیماری میں ہما شما تو عموما موت کو ہاتھ لگا کر لوٹتے ہیں مگر بیس دن کی اس بیماری میں ہم جیسے زندگی کو چھو کر آئے تھے۔

نقاہت ختم ہوئی تو ظرافت فقرہ فقرہ برس رہی تھی۔

زندگی میں دوسروں کے درد پر ہنسنے والا سنگ دل اور اپنے درد پر ہنسنے والا مزاح نگار بن جاتا ہے، یہ ہمیں اب جا کر معلوم ہوا تھا۔

رمضان کا مہینہ آیا تو ہم نے زندگی میں پہلی بار بچوں اور نو مسلموں کے سے خشوع و خضوع سے پورے روزے رکھے۔

عشأ کے نماز کے بعد ہم کچھ نہ کچھ لکھنے پر یوں مجبور ہو کر بیٹھ جاتے جیسے پیٹ بھر افطاری کے بعد بعض لوگ کہیں اور جا بیٹھتے ہیں۔

سہیلی شبانہ سے جب دوسری سہیلیاں پوچھتیں اسے کیا ہوا ہے؟

جواب ملتا ، اسے آرٹیکل لگے ہوئے ہیں آج کل۔

مزاح نگاروں کی تلاش میں نکلے تو ایک بھی خاتوں مزاح نگار نہ ملی۔ ہم نے عورت اور مرد کو زندگی کے ہر شعبہ میں گاڑی کے دو پہیے سمجھا ہوا تھا ، سائیکل سے لے کر ٹرالر اور ٹرین تک ہر گاڑی ایک سے زائد پہیوں کی مدد سے رواں دواں ہے لیکن مزاح نگاری کی گاڑی صرف مرد کھینچتے چلے جا رہے ہیں۔

ہمارے ہاں عورت کو ناقص العقل قرار دے کر اُسے ایک ازلی و ابدی جنگ میں ایسے جھونک دیا گیا ہے جیسے خطہ فلسطین و کشمیر کہ اُن کا ہونا ہی نزاعی رہا ہے، دوسری طرف عورتیں خود کو کامل العقل ثابت کرنے کی دھن میں ایسی مگن ، چڑ چڑی اور بد مزاج ہو جاتی ہیں کہ اپنی تو ایک طرف  دوسروں کی خامیوں اور حماقتوں پر بھی ہنسنا چھوڑ دیتی ہیں۔

کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر صلاح الدین درویش صاحب اور تقریظ جناب سعود عثمانی  صاحب کے قلم سےلکھی گئی ہے۔ جب کہ فلیپ کے لیے مختصر لیکن زود اثر تحریر جناب حمید شاہد صاحب کی طرف سے لکھی گئی ہے۔

یہ چھوٹی سی (بہ لحاظِ حجم) کتاب ایسے فکاہیہ مضامین پر مشتمل ہے  جو گہرے درد اور سنجیدہ مسائل کے جزیروں کے ارد گرد تیرتے ہیں تاکہ اُن جزیروں تک ہر ایرا غیرا نہ پہنچ پائے۔

جیسا کہ قینچی، چربی، جس گوشت کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن، چھجو کا چوبارہ، وردی وغیرہ جیسے عنوانات سے ظاہر ہے یہ فکاہیہ مضامین  روز مرہ کی زندگی کی عام سی اشیاء یا واقعات کو بہانہ بنا کر لکھے گئے ہیں اور طنز، مزاح، آہ اور واہ کا کم یا زیادہ سہی لیکن حصہ ہر مضمون میں موجود ہے۔

آخر میں کتاب ہٰذا کے آخری مضمون شائع ہونا کتاب کا سے کچھ بے رحم جملے۔

نت نئے اشقلوں سے ہماری دل چسپی شروع ہی سے رہی ہے۔ ادبی دنیا میں ادب کی کمی ہو سکتی ہے مگر اشقلے وافر مقدار میں دست یاب رہتے ہیں۔ ان کی نوعیت سنجیدہ سے سنجیدہ تر ہو سکتی ہے۔ مثلاً تازہ ترین اشقلہ جس نے ہمارے دن کا چین ہی نہیں چھینا بَل کہ  

ع اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں،

کے مصداق بہت دنوں تک راتوں کی نیند بھی اُڑائے رکھی ، نقش گر پبلی کیشن کی وہ پیشکش ہے جس میں مخاطب کا تعین کیے بغیر الہامی انداز میں یا ایھا الناس  نما خوش خبری سنائی گئی ہےـ صرف پندرہ ہزار میں کتاب چھپوائیےـ۔

مارکیٹ میں دستیاب کتب  کی سب سے زیادہ مقبول و معروف قسم تنقیدی کتب کی ہے ۔ ان کی بھی دو ذیلی اقسام ہیں پہلی قسم طبع زاد تنقیدی کتب کی ہے۔

اہل علم یہاں یہ نقطہ اٹھا سکتے ہیں کہ تنقید طبع زاد نہیں ہوتی، طبع زاد ہونا تو تخلیق کی خاصیت ہے تنقید کے لیے کسی ادب پارے کا پہلے سے موجود ہونا ضروری ہے۔ جس کے حسن و قبح کو موضوع بنایا جا سکے۔ ایسے اصحاب کے لیے فقط اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ صاحب، خلیل خان کے فاختہ اُڑانے کے دنوں کی طرح وہ زمانے بھی لد گئے جب تخلیق طبع زاد ہوا کرتی تھی۔ اب تخلیق کا محرک و محور ہوتا ہے جب کہ تنقید نقاد کی طبع اور زیادہ تر نا ساز طبع کی پیدا وار ہوتی ہے۔