ویلینٹائن ڈے: پھولوں سے نہیں، دھماکوں سے ڈر لگتا ہے

صاحب مضمون: تقی سید

(تقی سید)

ویلنٹائن ڈے کا ذکر جب بھی آتا ہے تو اکثر لوگوں کو شرم و حیاء آجاتی ہے اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے سے ہماری ثقافت کو خطرہ ہے، تو ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ ویلنٹائن ڈے ہے کیا جس سے ہماری ثقافت کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
ذرا تحقیق کی تو معلوم ہوا پھولوں کے تبادلے سے ہوا میں پھیلی ان کی خوشبو ہماری ثقافت کو کمزور کر دیتی ہے۔
پچھلے سال ویلنٹائن ڈے کے اثرات ایسے مرتب ہوے کہ ہماری ثقافت ناپید ہونے کے برابر آ پہنچی- دشمن کی اس سازش سے نمٹنے کیلئے ہمارے وزیر داخلہ نے وفاقی دارحکومت اسلام آباد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کر دی تھی اور ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ ویلنٹائن ڈے ماننے کی پابندی کے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اور اس سلسلے میں تمام تقریبات منسوخ کر دی گئیں تھیں۔
ہمارے وزیر داخلہ بھی اعلی اخلاق کے مالک ہیں جو اظہار محبت کرنے والوں سے خوفزدہ رہتے ہیں اور تکفیری دہشت گردوں سے وفاقی دارلحکومت میں ملاقاتیں کرتے ہیں۔
اب کی بار لگتا ہے اس بے حیاء دن پر با حیاء قوم میں “Say No to Valentine’s Day” کی میسج مہم چلائیں گے تاکہ ایڈز سے دوچار کرنے والی اس پر اسرار بیماری سے لوگوں کو آگاہ رکھا جا سکے۔
شاید مذہبی طبقے کے ساتھ ہاتھوں کی زنجیر بنا کر حیاء ڈے کے حق میں اظہار یکجہتی کا فریضہ بھی اداء کریں گے- تعجب ہوتا ہے ان کے اس فعل سے کہ ریاست کو کیا اختیار حاصل کہ وہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں خلل ڈالے یا تو پھر یہ جواز پیش کیا جا سکتا کہ جیٹ طیاروں سے سے پھولوں کی بمباری ملکی سلامتی کے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
پھولوں کا کاروبار نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہو یا نہ ہو مگر ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ اس کو نیشنل انٹرسٹ کے خلاف ضرور تصور کرتا ہے۔
جب بات اسلامی ثقافت پر آتی ہے تو یہ تصور یقین میں بدل میں جاتا ہے، پھر اظہار محبت سے ایسے لوگوں کو ملکی سلامتی یا نیشنل انٹرسٹ تو کیا شریعت خطرے میں پڑتی دکھائی دیتی ہے۔
یہ بات ہمیشہ عجیب لگتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسجدوں، امام بارگاہوں، گرجا گھروں، اور مندروں پر حملہ کسی شریعت پر حملہ نہیں سمجھا جاتا، چھے سال کی بچی سے بد سلوکی کر کے قتل کر دینے سے اسلامی ثقافت پر حملہ نہیں سمجھا جاتا، کم سنی کی شادی کو کوئی ظلم نہیں سمجھا جاتا، راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑنا، ان کے لباس پر کومنٹس پاس کرنے، آوازیں کسنے، غیرت کے نام قتل کرنے سے کسی کے ایمان پر حرف نہیں آتا؛ ہاں حرف آتا ہے تو جذبوں کے آزادی اظہار پر، اظہار محبت پر، نوجوان جوڑے کا پسند کی شادی کرنے پر۔
مگر چھپ کر یہ سب کرنے سے نا تو کسی کے ایمان پر حرف آتا ہے، نا ہی کسی کی ثقافت کو خطرہ لاحق ہوتاہے، اورنا ہی کسی کی غیرت شہ رگ کو آتی ہے۔
ہمارے لاء کے پروفیسر رئیس نعمان صاحب کہتے ہیں کے ہم بحثیت قوم منافق ہیں۔ “ہمارے معاشرے کے لوگ موٹر سائیکل سوار کے پیچھے بیٹھی خاتون کے لٹکتے دوپٹے کا اشارہ دینے کیلیے اپنی منزل سے دو کلومیٹر آگے تک کی ریس لگا دیتے ہیں۔ اگر ایسی ہمدردی اور خیال اپنی اپنی بہن، بیٹی کی پسند اور ناپسند کے بارے میں رکھیں تو عورتوں کے بارے میں بیمار ذہنیت زدہ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔”
بات در حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مذہبی طبقات کو مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت، فرقہ واریت پھیلانا تو قبول ہے لیکن کچھ لوگوں کا ویلنٹائن ڈے منانا قبول نہیں۔ یہ رویے کی عکاسی ہے جس کے تحت اسلام اور تہذیب کو خطرے میں قرار دے کر لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تشدد پر اکسایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ تہذیب و ثقافت پر اپنی حثیت مستحکم کر کے اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔
ان طبقات کو ریاست میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور انسانی قتل عام سے بلکل فرق نہیں پڑتا اگر فرق پڑتا ہے تو اظہار محبت، اظہار آزادی سے۔ مگر ایوانوں میں بیٹھے حکمران ہوں یا ہمارے مذہبی طبقات ہوں ان کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ اس ریاست کے لوگوں کو اب پھولوں سے نہیں صاحب دھماکوں سے ڈر لگتا ہے۔

1 Comment

Comments are closed.