ملاقات

Junaid Jazib
جنید جاذب

ملاقات

کہانی از، جنید جاذب

دونوں پورا ہفتہ اتنے مصروف رہتے تھے کہ ایک ہی چھت کے نیچے ہوتے ہوئے بھی ملاقات سَرسری اور روا روی میں ہی ہوتی۔ اس ویک اینڈ پر انھوں نے کہیں باہر ملنے کا فیصلہ کیا۔

دونوں تقریباً ایک ہی وقت پر رِیزارٹ پہنچ گئے، یوں کسی کو  انتظار کی کوفت سے  گزرنا نہیں پڑا۔ شہر کی شمال مشرقی حدود سے متصل ہرے بھرے ٹّیلوں میں سے ایک پر واقع “ایرینا” نامی یہ خوب صورت ریزارٹ کم ریسٹورنٹ مصروف، لیکن نہایت شانت اور پُر سکون جگہ تھی۔

انھوں نے اوپن ایئر ایریا میں بیٹھنے کو ترجیح دی اور سلیقے سے تراشے گئے پیڑوں کے پاس ایک ٹیبل منتخب کر لیا۔ احاطے میں موجود صنوبر اور چنار کے درخت حالیہ سالوں میں لگائے گئے تھے جب کہ میپل، چیڑ اور  دوسرے قدرتی اگنے والے پیڑوں کو جگہ سمیت ریزارٹ کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔ باؤنڈری وال کے ساتھ بنی کیاریوں میں موجود پودے غالباً بَہ راہِ فروخت تھے۔

 اس نے باسکن روبن کی چاکلیٹ فلیور والی آئس کریم آرڈر کی۔ پہلا سکُوپ حلق سے اترتے ہی اسے احساس ہوا کہ برسوں بعد وہ کسی ریسٹورنٹ میں اپنی فیورٹ آئس کریم سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ وہ بھی اپنا فیورٹ مشروب کولڈ کافی پیتا رہا۔

لنچ کی بَہ جائے انھوں نے ہلکے پھلکے سنَیکس پر اکتفا کیا اور گرم جوشی سے  باتیں کرتے رہے۔ باتوں میں وقت گزرنے کااحساس ہی نہیں رہا۔ سائی کَیٹرِیسٹ کے کلینک سے یاد دہانی کے لیے فون آیا تو وہ چونکی۔ پانچ بجے اس کی اپوانٹمنٹ کنفرمڈ تھی اور ابھی تین بجنے والے تھے۔

انھوں نے ڈسکشن کا رخ فی الفور اصل مسئلے اور ملاقات کے بنیادی مقصد کی طرف موڑ دیا۔

دو گھنٹے کی بحث و تمحیص اور سنجیدہ غور و فکر کے بعد بھی بہت سی باتوں پر  اتفاقِ رائے نہ ہو سکا اور اپنی شادی ختم کرنے کے لیے وہ کسی حتمی ایگری مَنٹ پر نہ پہنچ پائے۔ طلاق کا معاملہ ایک بار پھر مزید دو ہفتے کے لیے التواء میں پڑ گیا، کیوں کہ مصروفیات کے باعث اگلے ہفتے ملنا تقریباً نا ممکن تھا۔


جنید جاذب کی کچھ دیگر تحریریں:

دیولی سٹیشن اور رات کی ٹرین مصنف (انگریزی) رسکن بونڈ، مترجم، جنید جاذب

بوجھ افسانہ از، جنید جاذب

شاید ملیریا نے میرے پاپا کو مار دیا تھا  مصنف (انگریزی) رسکن بونڈ مترجم، جُنید جاذِب


درد کی گولی

از، جنید جاذب

’مائی گاڈ…‘ اس پر جیسے آسمانی  بجلی گر گئی۔ روہانسی ہو کر بولی: ’پلیز کہہ دو کہ تم مذاق کر رہے تھے۔‘

’نہیں یہ سچائی  ہے بے بی!‘ اس کے لہجے میں مایوسی کے با وُجود متانت موجود تھی۔

’میں ملنے آتی ہوں، اگلے ہفتے۔‘

’او کے۔‘

’تم پلیز اپنا دھیان رکھو، اور ہاں دوائی لیتے رہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لَو  یُو… امُااا۔ سی یو نیکسٹ ویک۔‘

’او، سوری… میں بھول گیا بتانا… اگلے ہفتے تو مجھے کِیمو کے لیے ٹاٹا میموریل جانا ہے۔ تم اس سے پہلے آ جاؤ، یا…‘

’او آئی سی… بٹ میری ایمرجنسی ڈیوٹی چل رہی ہے اس ہفتے…‘

’او کے۔ نو اِشو۔ تم میرے واپس آنے کے بعد آ جانا… بٹ آنا ضرور بے بی… ٹیک کیئر آف یور جاب فار ناؤ۔‘

’سو سوِیٹ آف یو، مائی جان… تم واپس آ جاؤ پھر ملتے ہیں، جم کے ملتے ہیں… گَیٹ ویل سُون، لَو یُو اُمماااا!‘

’لَو یُو ٹُو‘

ایک ماہ بعدجب وہ اسے ملنے آئی تو وہ  نئی جگہ منتقل ہو چکا تھا۔

’واؤ… وٹ آ بیوٹی فُل پلیس دِس اِز… اِزنٹ اِٹ؟‘

’یس، اِٹ اِز… اچھا کیا لو گے… اور ہاں یہ کون ہیں؟ ان کا تم نے تعارف ہی نہیں کروایا؟‘

’اوہ… میں بھی نا کتنی بھلکڑ ہوں… ہی اِز مائی نیو فرینڈ‘

’نائس ٹُو میِٹ یُو‘ اس نے استقبالیہ انداز میں ہاتھ بڑھایا۔

’سَیم ہیَئر…‘

دو طرفہ مسکراہٹ بکھر گئی۔

’ڈئیر، مجھے ڈر تھا کہیں میں امتحان بھرے اس مشکل وقت میں تمھارا ساتھ دینے میں کم زور نہ پڑ جاؤں، اکیلی نہ پڑ جاؤں… بٹ ڈونٹ ورّی، اب ہم دونوں تمھارے ساتھ ہیں… یُو نِیڈ ناٹ فیِل اَلون۔ تم ہارو گے نہیں، اس بیماری کو ہراؤ گے… وی ہیو ٹُو وِن، اینڈ وی وِل‘

اسے اچانک یاد آیا کہ اس روز کی درد کی گولی لینا وہ بھول ہی گیا تھا۔