ٹامس ہابس، Thomas Hobbes کی حالتِ فطرت اور جنوبی ایشیاء

Naseer Ahmed
نصیر احمد

ٹامس ہابس، Thomas Hobbes کی حالتِ فطرت اور جنوبی ایشیاء 

از، نصیر احمد 

سیاسی تِھئیری میں عمرانی معاہدے یا معاشرتی میثاق کی بہت اہمیت ہے۔ معاشرتی میثاق کے نظریوں میں ایک تصوراتی تجربے کی بھی کافی اہمیت ہے جسے حالتِ فطرت کہا جاتا ہے۔ یہ حالتِ فطرت انتشار، بد امنی، افراتفری اور نراجیت کا باعث بن جاتی ہے جن کی چارہ گَری ایک معاشرتی میثاق کے ذریعے کی جاتی ہے جو کہ کچھ سیاسی فلسفیوں کے لیے حکومت کی اساس ہے۔

برطانوی  فلسفی ٹامَس ہابس، Thomas Hobbes معاشرتی میثاق کے اولین نظریہ سازوں میں شمار ہوتے ہیں اور فلسفیوں میں بڑے لائق فائق سمجھتے جاتے ہیں۔ اپنے نظریے کے حق میں ان کے پاس اچھا مقدمہ اور دلائل بھی موجود ہیں۔

انھوں نے اپنی زندگی میں ایام کی تلخی، سیاسی بے امنی اور بہت سارے آلام کا سامنا کیا جن میں سترھویں صدی کی برطانوی خانہ جنگی اور اس کے نتائج ان پر بہت گَراں گزرے۔

اس خانہ جنگی میں بادشاہ سلامت چارلز اوّل کا سر تن سے جدا ہو گیا، اور شاہ پسندوں اور جمہوریہ کے حامیوں کے درمیان جنگوں کا ایک سلسلہ سالوں تک جاری رہا جس میں لاکھوں جانوں کا زیاں ہوا۔ شاہ پسند ہارے تو ان پر ظلم و ستم اور جمہوریہ لارڈ کروم ویل کی آمریت بن گئی؛ اور جب شاہ پسند جیتے تو جمہوریہ کے حامیوں کے لیے زندگی مشکل ہو گئی۔

ٹامس ہابس شاہ پسند تھے، لیکن جب ضرورت پڑی تو لارڈ کروم ویل سے بھی عہد و پیمان باندھ لیے؛ جب شاہ چارلز دوم کی واپسی ہوئی تو ان کے اتالیق بھی بن گئے۔ شاہ چارلز دوم کی نگاہوں میں ان کی حیثیت ایک ریچھ کی تھی جس پر حملہ آور ہونے کے لیے وہ اپنے کتوں (درباریوں) کو اکساتے رہتے تھے۔ ہابس کے نجی طور پر کافر ہونے کی بہت شہرت تھی جس کی وجہ سے ان پر لوگوں کو حملہ آور ہونے میں آسانی بھی رہتی تھی۔

لیکن کیس ان کا مقتدروں کے حق میں تھا اس لیے سرکار دربار میں ان کو برداشت کر لیا جاتا تھا۔ انسانی نفسیات کے ان کے تجزیوں اور حالتِ فطرت کے تصوراتی تجربے سے ان کے ہر قسم کے مقتدر کے لیے تسلیم و رضا کے رویوں کی تفہیم بھی ہو جاتی ہے۔

بس ان کے زمانے کے حالات اور ان کے رجحانات کے آمیزے سے ان کے فلسفے کی تشکیل ہوئی۔ انھیں خود بھی کچھ احساس تھا اور وہ کہتے بھی تھے کہ وہ تو خوف کے جڑواں ہیں۔ انسانی نفسیاتی اور معاشرتی میثاق کی اساس حالت فطرت کے بارے میں ان کے خیالات کچھ یوں ہیں۔

‘ان کی نفسیات یاس زدہ ہے۔ جان دار محض ذاتی بقاء کے قوانین کے ہی پابند ہیں؛ اور ان کے افعال کی وجوہات ذاتی مفادات اور طاقت کی تلاش میں ہی ہوتی ہیں۔ انسان داری اور دوسروں کی بھلائی نہ صرف ایک برا تصور ہے بل کہ نا ممکن بھی۔ لاکھ غیر اخلاقی کہتے رہیں، مگر انانیت شہر کی اکلوتی نوٹنکی ہے۔’

اسی طرح وہ اچھائی برائی کو انفرادی ترجیح ہی سمجھتے ہیں جو کہ درد سے دوری اور لطف کی تلاش کے لیے تراشی جاتی ہیں۔

درد سے دوری اور خوشی کی تلاش ایک اچھی تفہیم ہے جس پر انسانی فلاح کے چند فلسفے استوار ہیں لیکن ہابس کے ہاں یہ جستجو اور گریز خود غرضی سے ہی بندھے رہتے ہیں۔ ہابس کی یہ نفسیاتی انانیت چھینا جھپٹی، اٹھائی گیری اور قبضہ گیری کے نفسیاتی پسِ منظر میں دھنسی رہتی ہے۔

ان کے خیال میں ‘ہم  معاشرت بَہ راہِ معاشرت خواہاں نہیں ہوتے بل کہ معاشرے سے ملنے والے فوائد اور اعزازات کے تعاقب میں ہوتے ہیں’ اور یہ اعزازات اور فوائد دوسروں پر جبر کرنے، یا انھیں اپنا غلام بنانے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔

پھر معاشرے میں محدود وسائل کی جنگ ہوتی ہے اور یہ جنگ ہر کوئی ہر کسی سے لڑتا ہے۔ اور یہ جنگ وہی جیتتا ہوتا ہے جو طاقت ور ہوتا ہے۔

یہ نفسیات ہابس کو حالتِ فطرت کے تصوراتی تجربے کی طرف لے جاتی ہے جس میں ‘زندگی مختصر، وحشیانہ اور بھدی ہوتی ہے (اس طرح کی زندگی جیسی زلف تراشی بھی ہوتی ہے۔) اور اس زندگی میں افراد ایک دوسرے کو اپنے فائدے کے لیے ضرر پہچانے کے آرزو مند بھی ہوتے ہیں اور ضرر پہنچانے کے لیے تیار بھی۔

جو بہت زیادہ جارِح ہوتے ہیں ان میں ضرر رسانی کی یہ آرزو عظمت کی جستجو کی وجہ سے آتی ہے، اور جو سمجھ دار ہوتے ہیں وہ اپنے دفاع کے لیے ضرر پہنچانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ لیکن ہابس کے خیال میں ضرر رسانی کی زیادہ تر وجوہات محدود وسائل کے لیے کش مکش میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہابس کی اس حالتِ فطرت میں  حقوق، قانون اور اخلاقیات کی کوئی اتنی اہمیت نہیں۔

دیکھا جائے تو ہابس کی اس حالتِ فطرت کے تصوراتی تجربے سے کہیں زیادہ تاریک جنوبی ایشیاء کی حقیقت ہے۔ کہیں نسل کُشی جاری ہے، کہیں تیاریاں ہو رہی ہیں، کہیں نسل کُشی ہو چکی ہے۔

ایسی رُسوم اور ایسے قوانین بھی اس خطے میں موجود ہیں جن میں انسانیت کے خاتمے پر اصرار ہے اور اگر خاتمہ ممکن نہیں تو غلامی پر اصرار ہے اور اس سب کو نیکی سمجھنے کی نَخوَت بھی موجود ہے۔

ہابس اپنی اس حالتِ فطرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد امنی کا حل ایک ایسے مقتدر یا مقتدروں کی ایک کونسل میں ڈھونڈتے ہیں جسے ایک معاہدے کے ذریعے مکمل اقتدار سونپ دیا جائے؛ اور اس مقتدر کی رضا ہی قانون ہو اور اس مقتدر کا احتساب بھی نہ ہو سکے کہ یہ اختیارات انتشار کے ستم زدہ اپنی رضا سے مقتدر کو سونپتے ہیں۔

معاہدے کی رضا کے سلسلے میں بھی ہابس کو جبر اور دباؤ پر کچھ خاص اعتراض نہیں۔ بس ایک کم زور سا عہد ہونا چاہیے۔

ہابس کی مرکز نگاہ امن کے قیام پر ہے اور اس امن کے لیے وہ مقتدر کو لا محدود اختیارات دیتے ہیں جن کے مطابق معاہدہ سازوں کے کوئی مذہبی اور انسانی حقوق نہیں ہوتے اور نہ ان کی کوئی سیاسی شناختیں ہوتی ہیں۔

اس مقتدر کے سلسلے میں ہابس تضادات کا شکار ہو جاتے ہیں جیسے خوفِ خدا کے زیرِ اثر یہ مقتدر امن و آشتی کے بعد ایک بہتر زندگی کی ضمانت بھی دے گا جس میں افراد کے لیے مسرت کے کچھ پہلو ہوں گے، جیسے ذاتی ملکیت وغیرہ وغیرہ لیکن مقتدر جب چاہے جو چاہے چھین سکتا ہے کہ اگر مقتدر کو یہ قوت نہیں حاصل ہو گی تو انتشار اور افراتفری کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

بد توفیقی سے ایسے مقتدر بھی جنوبی ایشیاء کی حقیقت بنے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں معاہدے کی پاس کی بناوٹیں بھی نہیں ہیں۔ ہابس کے ایک نقاد کہتے ہیں کہ پارسائی کتنی ہی پُر خلوص کیوں نہ ہو جائے لیکن خنزیرنی کے کانوں سے ریشمی بٹوے نہیں بن سکتے۔

جنوبی ایشیاء کے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہابس جیسے پیر دانا پر اور بھی اعتراضات بنتے ہیں۔ ہابس چُوں کہ انسانی فطرت کے منفی پہلووں سے بندھے ہوئے ہیں اس لیے وہ انسانی آزادی اور اوصاف کے امکانات یک سر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایک ہی بات پر نگاہ ٹِکائے رکھنے کی وجہ سے ان کے سیاسی نظریات ایسے اقتدار کے خواہاں ہیں جس کا مقصد امن کے نام پر یکتائی ہو۔

ایسے ہو نہیں سکتا اور ابھی تک ایسا کرنے کی ہر کوشش ہابس کی حالتِ فطرت سے بھی زیادہ بد امن اور پُر انتشار نراجیت باعث بن جاتی ہے۔ جس سے نکلنے کے لیے ہابس کا مقتدر پُر کشش لگنے لگتا ہے جس کی وجہ سے ایک زشتی دائرہ سا بن جاتا ہے اور معاملات بد سے بد تر ہوتے رہتے ہیں۔

ہابس کے زمانے میں ہی جان لاک نے حالتِ فطرت کا ایک تصوراتی تجربہ کیا جس کی اساس انسانی نفسیات کے مَثبت پہلووں پر ہے اور ان کے نتائج جمہوریت، قانون، اخلاقیات اور انسانی فلاح کے حوالے سے بہتر رُو نما ہوئے۔

لیکن انسانی فطرت اور نفسیات کے بارے میں ہابس جیسی یاس انگیزی اور احتساب سے ما وَراء اقتدار کی کشش تو موجود ہے، موجود رہے گی۔

ہابس کے بعد تو اس نا امیدی کے بارے میں رومانوی دروغ گوئی کا آغاز ہو گیا، جس میں گروہ کے بارے میں رومانوی رجائیت کا پرچار کیا جاتا رہا لیکن فرد کے بارے میں نا امیدی ان خیالات کی بنیاد رہی؛ اور فرد کی اچھائی برائی گروہ کے فرد پر مکمل اختیارات کے حوالے سے ناپی جانے لگی۔

ان سب نظریات کے نتیجے میں کاملیت پرست سیاست کے فروغ ہوئے جس کے ہٹلر اور سٹالن جیسے شخصیات کے اعمال میں تباہ کن نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ثقافتی نظاموں میں بھی گروہوں کے بارے میں یہ رومانوی دروغ گوئی دیکھی جا سکتی ہے اور نتائج اس کے بھی تباہ کن ہیں۔

بدی کے اس دائرے سے نکلنے کے لیے جنوبی ایشیاء کے زندگی کے بارے میں بنیادی تصورات کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے جو ہابس کی حالتِ فطرت سے بھی بد تر حقیقت کے ذمے دار ہیں اور بعد میں کاملیت پرستی کی آمد کے بعد اور اس کے موجودہ زمانے میں فروغ کے بعد بد ترین ہوتے جا رہے ہیں۔

کسی شاعر کے بارے میں کبھی ہم نے کہا تھا کہ ان کی شاعری تو جیسے چوراہا ہے جس میں بدی مختلف راستوں سے آ کر اکٹھی ہو جاتی ہے لوگ بس پارسائی کی بناوٹوں سے منسلک جذباتیت کے اسیر ہیں۔

اب تو یہ پورا خطہ ہی بدی کا نظریاتی گودام بن گیا ہے جس میں بدی کا تیار کردہ ہر نظریہ بدی کا محافظ بن گیا ہے۔

لیکن انسانوں میں دوسرے انسانوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر فائدہ پہنچانے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے جس میں محبت، خوشی، لطف، فطانت، خلاقی، احساس اور خوش گوار ماحول جیسی وجوہات بھی اہم ہوتی ہیں۔ کبھی اس طرح کے اوصاف کچھ مقبول ہو گئے تو یہ بدی کا یہ دیرینہ و پارینہ دائرہ بھی ٹوٹنے لگے گا۔

ابھی تو لیکن گفتگو ہی شروع نہیں ہوئی؛ اور خطے میں مقتدر ہابس جیسی نام نہاد عہد سازی کے بھی بَہ غیر ہی مکمل اقتدار میں اضافے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر کسی کی ہر کسی کے خلاف جنگ جاری ہے۔ ہابس کے معاشرتی میثاق کے بھی نتائج یہی ہوتے ہیں۔

بات اب جان لاک کی ہی کرنی ہو گی۔

حوالہ جات

ڈونلڈ پامر، لکنگ ایٹ فلاسفی، میکگرا ہل، 2006

مائیکل جے وائٹ، پولیٹیکل فلاسفی، این ہسٹوریکل انٹروڈکشن، ون ورلڈ پبلی کیشنز،2003