فنی تعلیم نہیں تو ہمارا ڈگری والا چائے بیچے گا کیا

معصوم رضوی

فنی تعلیم نہیں تو ہمارا ڈگری والا چائے بیچے گا کیا

از، معصوم رضوی

وطنِ عزیز میں سیاست اتنی غالب ہے کہ ریاست کہیں کھو کر رہ گئی ہے۔ جانے کیوں شطرنج کی بساط یاد آ جاتی ہے جہاں کھلاڑی دین و دنیا سے بے خبر چالوں میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ اطراف آگ بھی لگ جائے تو پتا نہیں چلتا۔

ستر سال سے جاری بازی میں کھلاڑی حکم راں، اپوزیشن اور ادارے جب کہ بساط پر غربت، جہالت اور بے روز گاری کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں لڑکھڑاتے ہم جیسے بیس کروڑ پیادے، جن کی آنکھوں میں ترقی اور خوش حالی کے سیاسی خواب سجائے گئے ہیں۔

خیر بساط پر کچھ ہل چل مچی، گھاگھ کھلاڑی پیچھے ہوئے تو نئے آنے والوں سے امیدیں بندھیں۔ شاید یہ کہنا درست ہو کہ عوام نے تحریک انصاف سے زیادہ توقعات پر عزم کپتان سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ تحریک انصاف تبدیلی کے خواب دکھا کر مسند تک پہنچی ہے اور یہ سچ ہے کہ پورا پاکستان تعبیر کا منتظر ہے۔ عزت، امن، خوش حالی، صحت، تعلیم، صاف پانی، ترقی، مضبوط معشیت، عالمی وقار اور جانے کیا کیا کچھ۔

اب تک کا احوال یہ ہے کہ الحمد للہ کپتان کو وزیر اعظم بنے ڈھائی مہینے ہو چلے ہیں مگر کچھ واضح نہیں۔ دھندلے بیانات، بہکتے خیالات اور ملگجی پالیسیاں ابھی عمل کے مرحلے سے کوسوں دور دکھائی دے رہی ہیں۔

کشکول ٹوٹنا ہے، کرپشن کا خاتمہ اور لوٹی قومی دولت کی واپسی، طبقۂِ اشرافیہ کے استحصالی نظام کو شکست دینی ہے، پچاس لاکھ مکانات بننے ہیں، نو جوانوں کے لیے ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنی ہیں، مگر ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔

سیاسی بساط پر گھاگھ کھلاڑی چالوں پر چالیں چل رہے ہیں، سیاسی غلغلے میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، جو رہی سہی کسر تھی وہ حکومت میں موجود نادان دوست حسب استطاعت اپنی اپنی آتش بیانی اور نا تجربہ کاری سے پوری کر رہے ہیں، بہ قول منیر نیازی

کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن

کج سانوں مَرَن دا شوق وی سی

اس میں کوئی شک نہیں تحریک انصاف کے انتخابی وعدے نا قابل یقین حد تک  حیران کن ہیں اور اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے بر خلاف عوام عمران خان کی ذات پر بھر پور یقین رکھتے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں نوجوان نسل کے لیے سہانے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں، مگر کیا ایسا ممکن ہے؟

تیزی سے بڑھتی آبادی میں 17 سے 30 سال تک کی عمر کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے اور ان میں صرف 4 سے 5 فیصد کالج کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔

ان میں لگ بھگ 50 فیصد آرٹس اور باقی پچاس فیصد سائنس، کامرس جب کہ صرف 4 فیصد فنی تعلیم کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 40 فیصد سے زاید ڈگری رکھنے والے نوجوان بے روز گاری کا شکار ہیں جب کہ 4 فیصد فنی تعلیم حاصل کرنے والے افراد معقول روز گار سے وابستہ ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

جی ہاں المیہ یہ ہے کہ زمانہ پہلے پوری دنیا میں فنی تعلیم خوش حالی کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ مگر پاکستان میں اب بھی صرف 4 سے 6 فیصد افراد اس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ بیش تر ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا 66 فیصد تک افراد تکنیکی شعبوں سے وابستہ ہیں۔

جرمنی، چین، جاپان، ناروے، ڈنمارک، آسٹریلیا، فرانس، ہنگری کے علاوہ بے شمار ملک فنی تعلیم کے ذریعے ترقی کی شاہراہ پر گام زن ہیں۔ جدید دنیا میں صرف شرحِ خواندگی سے کام نہیں چلے گا۔ ڈگریاں حاصل کرنے والے بے روز گاروں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال ہے جہاں شرحِ خواندگی 98 فیصد ہے مگر معاشی زبوں حالی کا شکار ہے۔ جب کہ جاپان وسائل اور شرحِ خواندگی میں کہیں پیچھے مگر معاشی میدان کا شہ سوار ہے۔

لیکن ٹھہریے پہلے یہ سمجھتے چلیں کہ فنی شعبے سے ہمارے ملک میں بھی لا تعداد لوگ وابستہ ہیں اور مہارت رکھتے ہیں مگر دنیا میں ان کی مہارت کو اس لیے تسلیم نہیں کیا جاتا کیوں کہ ان کی نہ تو با قاعدہ تربیت ہوئی اور نہ ہی کوئی ڈگری رکھتے ہیں۔

پاکستان میں فنی تعلیم کو صرف غریبوں کے لیے مناسب جانا جاتا ہے جب کہ بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے والے والدین اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں ڈاکٹر یا انجینئر کی تنخواہ 30/25 سے ہزار شروع ہوتی ہے مگر جناب معاشرے میں عزت تو ہوتی ہے۔

پاکستان میں فنی تعلیم شاید 60 کی دھائی سے وجود رکھتی ہے، ٹیکنیکل کالجز، پولی ٹینکنک انسٹیٹیوٹس موجود ہیں، جرمنی اور دیگر ملکوں کی معاونت بھی حاصل رہی مگر فنی تعلیم کا شعبہ معاشرتی اور حکومتی سطح پر اس بری طرح نظر انداز کیا گیا کہ افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

فنی و تکنیکی تعلیم کے معیار کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ آج ای ایف آئی اور جدید کار ٹیکنالوجی کے دور میں ہمارے ادارے موٹر مکینک کی تربیت 1970 ماڈل کی فوکسی یا فیٹ کے انجن پر دیتے ہیں۔ اب شاید دنیا میں فنی شعبے کی ترقی دیکھ کر کچھ ہوش آیا ہے۔ قوانین و ضوابط مرتب کیے جا رہے ہیں، ادارے تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ شاید 2008 میں نیشنل سکلز اسٹریٹیجی بنائی گئی اور 2011 میں جرمنی کی مدد سے شعبے کی تعمیر و تشکیل نو کی گئی۔

ٹیکنیکل اینڈ ووکینشنل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (ٹیوٹا) بنایا گیا ہے اور جدید فنی تعلیمی نظام پر کام شروع ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بتانا نہایت ضروری ہے کہ حسبِ روایت فنی تعلیم کے تجدید کے میدان میں بھی ہم عالمی اعتبار سے بہت اور خطے میں کافی پیچھے ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی 15 سال پیچھے ہیں۔


مزید دیکھیے:  روز گار کی مہارتیں اور ہماری تعلیم  از، عرفانہ یاسر

ہمارے تعلیمی نظام کا پیدا کردہ علم غیر نافع  از، رضوان سہیل


وجوہات پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ شب و روز جاری رہنے والے سیاسی سرکس میں بھلا اتنی فرصت کہاں کہ ریاست اور عوام کے لیے کچھ سوچا جا سکے، کوئی منصوبہ بندی کی جا سکے۔

حکم راں خواہ جمہوری ہو یا فوجی، ماشا اللہ سیاسی مفادات کے حوالے سے ایک پیج پر ہوتے ہیں۔ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل کے حوالے سے شہرت، سیالکوٹ کی سرجیکل آلات اور کھیلوں کی مصنوعات، گوجرانوالا اور وزیر آباد مشینری والے قصے اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں کیوں کہ دنیا صرف کوالٹی مصنوعات کی خریدار ہے۔

مجھے یاد ہے آٹھ، دس سال پہلے سیالکوٹ میں سرجیکل انسٹرومنٹ فیکٹری کے مالک سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے تک ان کی فیکٹری کی مصنوعات پورے یورپ جاتی تھیں مگر اب معاملہ مختلف ہے۔ مصنوعات بنتی تو فیکٹری میں ہیں مگر جرمن برانڈ کے ساتھ، کوالٹی کنٹرول اور پیکنگ کے بعد یورپ میں وہی مصنوعات پاکستان سے 10 گنا قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ اب تو شاید یہ سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہو۔

حضور فی الوقت وطنِ عزیز میں مسئلہ یہ زیرِ بحث ہے کہ سی پیک گیم چینجر ہے یا ایسٹ انڈیا کمپنی، برا نہ مانیں تو عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کا دار و مدار ہم پر ہے۔ جی ہاں، بات یہ ہے اگر ہمارے پاس جدید تربیت سے لیس مشین مکینکس، کرین آپریٹر، ہیوی وہیکلز ڈرائیورز، الیکٹریشنز، انجینئرز، ڈیجیٹل ڈیزائنرز وغیرہ موجود نہیں ہیں تو ظاہر ہے ملک میں چینی ہنر مندوں کی بہتات ہو جائے گی؛ اور ہم کھوکھوں پر چائے اور ڈھابہ ہوٹلز پر چائینز فوڈ بیچتے نظر آئیں گے۔

ایک کروڑ نوکریاں اور خوش حالی ایسا خواب نہیں جس کی تعبیر ممکن نہ ہو، فنی تعلیم و تربیت کو ترجیح دے کر تحریک انصاف حکومت ایسی تبدیلی لا سکتی ہے جو ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دے۔

اگر چِہ تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے مگر وفاقی وزارت پالیسی سازی اور ترجیحات کے حوالے سے بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ شفقت محمود فکر و دانش کے حوالے سے اہم مقام رکھتے ہیں۔ ابھی روایتی سیاست داں بھی نہیں بنے ہیں تو اگر وہ اس چیلنج کو قبول کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان آئندہ پانچ سالوں میں ایسی راہ پر گام زن ہو جائے جس کی منزل نیا پاکستان ہو۔

شطرنج کی بساط پر سیاست چلتی رہے گی مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ ریاست اور عوام ہیں تو سیاست ہے، ورنہ ہمیں شہ مات ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

انداز بیاں گر چِہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات