تبدیلی کے ابدی اصول اور ہمارے رویے

تبدیلی کے ابدی اصول اور ہمارے رویے

از، عرفان شہزاد

تبدیلی کا عمل ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایک ذات فنا ہو کر دوسری کو جنم دیتی ہے۔ رات کے وجود سے دن کا پیدا ہونا، بیج کے فنا ہونے پر درخت کو بقا ملنا، ستاروں کے ٹوٹنے سے نئے ستاروں کا وجود میں آنا، پہاڑوں کی برف کا  پانی کے جھرنوں میں بدلنا، گھٹن کا دم توڑ کر بارش کو جنم دینا، عناصر کا وجود کھو کر مرکبات کو زندگی بخشنا، عورت کے احساسات کا بچے کی پیدائش سے ماں کی ممتا میں بدلنا۔

ان تمام تبدیلیوں کے پیچھے قدرت کی ایک خاص سوچ کار فرما ہے، قدرت اپنی اس سوچ سے انسانیت کے لیے کچھ نتائج پیدا کرنا چاہتی ہے۔ جب وہ سوچ عمل میں ڈھلتی  ہے تو یہ تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے وقوع پذیر ہونے کے عمل پر غور کیا جائے تو ہر تبدیلی میں مختلف قوتیں کسی خاص قانون کے تحت مربوط ہوتی نظر آتی ہیں۔ جیسے سورج اور چاند کی توانائیاں اور زمین کی گردش ملتے ہیں تو دن رات کا ظہور ہوتا ہے، بیج کی طاقت زمین کے اجزاء پانی کی قوت ہوا اور روشنی کی توانائیاں مربوط ہوں تو پودا پرورش پاتا ہے، بڑے فلکیاتی اجسام توانائیوں کے ملاپ سے طبیعاتی قوانین کے تحت چھوٹے اجسام میں تبدیل ہوتے ہیں، برف کا وجود سورج کی حدت پہاڑوں کی بلندی اور زمین کی کشش سے پانی کے جھرنے جاری ہیں، پانی ہوا سورج اور زمین کی قوتیں ایک خاص قانون کے تحت منظم ہوتی ہیں تو آسمان سے پانی برستا ہے، عناصر کسی کیمیائی قانون کے تحت مخصوص دباؤ اور توانائی کی موجودگی میں خود کو  یکجا کریں تو نیا مرکب جنم لیتا ہے، عورت کی قوت کا مختلف منظم جسمانی پروسیسز کے ذریعے مرد کی قوت کے اشتراک سے ایک نئے وجود کو زندگی دینا۔

غور کیا جائے تو کائنات میں وقوع پذیر ہونے والی یہ تبدیلیاں پکار پکار کرہر سوچنے والےذہن کو اپنے ابدی اصولوں سے آشنا کروانا چاہتیں ہیں کہ “ہر تبدیلی مخصوص نتائج کے اعتبار سے ایک مرکزی سوچ پر مبنی ہوتی ہے، ایک جیسی سوچ رکھنے والی قوتیں کسی قانون کے تحت منظم ہو کرتبدیلی کی مطلوبہ قیمت ادا کر تی ہیں تو مخصوص نتائج پیدا ہوتے ہیں۔”

انسانی سوسائٹی میں بھی جو تبدیلیاں آتی ہیں، خواہ وہ مثبت ہو یا منفی،  وہ انہی اصولوں کے تحت آتی ہیں۔ سوسائٹی کی قوتیں بھی  ایک سوچ کے ساتھ منظم ہوتی ہیں اور اس سوچ پر عمل پیرا ہوکر اس کی مخصوص قیمت  ادا کرتی ہیں تو مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتی ہیں۔  اگر قیمت ادا کیے بغیر اس عمل کو چھوڑ دیا جائے تو سوسائٹی مطلوبہ نتائج سے محروم رہتی ہے۔

آئیے اسی  تناظر میں اپنے معاشرے میں پائی جانے والی قوتوں،  سوچوں اور ان سوچوں کے نتیجے میں۔ جو عمل سامنےآتا ہے ان کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ مجموعی طور ہمارے معاشرے کو تین بڑی قوتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

حکمران طبقہ  (سرمایہ دار، جاگیردار، ملڑی اور سول بیوروکریسی)

نام نہاد مذہبی اور دانشور طبقہ

عوامی طبقہ

وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک ملک کی قیادت سرمایہ دار، جاگیردار، ملڑی اور سول بیوروکریسی کے ہاتھ میں رہی ہے- ملک کی نومولودیت سے موجودہ دور تک یہ عناصر، قومی سوچ سے عاری، بیرونی طاقتوں اور اپنے گروہی مفادات کی حصول کے لئیے  منظم رہتے ہوئے مسلسل عمل پیرا ہیں،  اس لیے آج انہتر سال گزرنے کے بعد بھی یہی قوتیں برسراقتدار ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہوئے  گروہی سوچ اور بیرونی ڈکٹیشن غالب رہتی ہے جس سے عوام کی مجموعی  حالت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دوسرا  طبقہ نام نہاد مذہبی علماء اور مغرب پرست دانشوروں پر مشتمل ہے۔ جو قیام پاکستان سے آج تک بیرونی طاقتوں کے مفادات کے حصول کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔  یہ دونوں عناصر ہمیشہ سے سوسائٹی میں پائے جانے والے دونوں ذہنوں، مذہب سے جذباتی وابستگی اور لبرلز، کے لیے الگ الگ بوتلوں میں انتہا پسندی اور انفرادیت کی ایک جیسی شراب تیار کرتے آئے ہیں۔

ملک کے با صلاحیت  نوجوان کو  ہمیشہ نئی بوتلوں میں پرانی شراب پلائی جاتی رہی ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان طبقہ نشے میں مد ہوش نعروں پر چلنے والی سیاست کا قائل رہا ہے جو کہ معاشرے میں  کوئی بھی مثبت تبدیلی پیدا کرنے سے قاصر ہے  اور وطن عزیز پر انہی عناصر  کی حکومت ہے جن کے ساتھ عالمی طاقتوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔


مزید دیکھیے: علیحدگی پسند تحریکوں کے برپا ہونے کی بنیادی وجہ

مزید دیکھیے: نظریہ قومیت کو خیر باد کہنے کا وقت


آمریت کی ضرورت ہوتی ہے تو ان عناصر کے ذریعے آمریت کے حق میں راہ ہموار کی جاتی ہے،  مفادات جنگ سے وابستہ ہوں تو نام نہاد جہاد کروا کر ملکی نوجوانوں کو  “جنت” کے پاسپورٹ جاری کیے جاتے ہیں اور جب جمہوریت سے مطلب نکلتا نظر آئے  تو جمہوریت کے نام پر الیکٹڈ آمریت مسلط کر دی جاتی ہے جس کا جمہوری رویوں سے دور دور کا بھی  تعلق نہیں ہوتا۔

یہ دونوں طبقے گٹھ جوڑ  کے ذریعے وطن عزیز پر فرسودہ سسٹم کی شکل میں مسلط سامراجی اورگروہی سوچ کا تحفظ کرتے ہیں۔ جس سے سوسائٹی میں منفی تبدیلیاں  رونما ہو رہی ہیں۔ جہالت جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل رہی ہے، غربت قہقہے لگاتی ہوئی انسانیت کا منہ چڑا رہی ہے، ملکی وقار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، نوجوان بے مقصدیت کا شکار ہیں، مذہب فروشی رواج پا رہی ہے،  فکری انتشار سوسائٹی کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے، غرض یہ کہ بوسیدہ سسٹم بُری طرح سوسائٹی کو متاثر کیئے ہوئے ہے۔

تیسرا طبقہ عوام ہے جس کی کوئی اجتماعی سوچ  بننے نہیں دی جاتی تاکہ وہ بحیثیت قوم   اپنے مجموعی مسائل کو حل کرنے کے شعور سے محروم رہےاور حکمران طبقہ اپنے اور عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفط کرتا رہے۔

ایسے میں ہمارے ملک میں جب کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو نوجوان وقتی طور پر سوشل میڈیا پر سٹیٹس دیتا ہے، مشہور شخصیات ٹویٹس کرتی ہیں، دانشور اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں، سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست چمکاتی ہیں، نام نہاد مذہبی رہنما اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ سب وقتی طور پر ہوتا ہے اور پھر معاشرہ اپنی پرانی ڈگر پر۔ کبھی بھی سوسائٹی کو زوال سے نکالنے کے لئے کوئی اجتماعی سوچ نہیں بنائی جاتی،  بحیثیت قوم اس سوچ کو جیا نہیں جاتا اور نہ ہی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیئے اس تبدیلی کی قیمت ادا کرنے کے لئے خود کو تیار کیا جاتا ہے۔

وقتی سوچ کا پیدا ہونا اور اس کے فیس بک سٹیٹس اور ٹویٹس میں تبدیل ہونے سے سوسائٹی میں تبدیلی کا خواہش مند ہونا اوراپنی زمہ داری بس یہیں تک سمجھنا، ذہنی عیاشی تو ہو سکتی ہے لیکن اس طرح کبھی بھی معاشروں میں تبدیلیاں نہیں آیا کرتیں۔

دوسری طرف اگر مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی سوچ ہے بھی تو وہ این جی اوز بنا کر سسٹم سے پیدا شدہ جملہ مسائل میں سےکسی ایک مسئلے کے حل کی ہے، اگر سب مسائل کے لئے این جی اوز بنا بھی لی جائیں تو ایک طرف سسٹم مسائل پیدا کرتا رہے گا اور دوسری طرف فلاحی تنظیمیں اپنا کام کرتی رہیں گی۔

مثال کے طور پر انسانی جسم پر  جب پھوڑے نکلتے ہیں تو ڈاکٹر ہر پھوڑے کی الگ الگ تشخیص کر کے الگ الگ دوا تجویز نہیں کرتا بلکہ وہ پھوڑے نکلنے کی بنیادی وجہ کی تشخیص کرتا ہے اور اسی کے لیے دوا تجویز کرتا ہے۔ اگر الگ الگ پھوڑے کا علاج کیا جائے گا تو وسائل اور توانائیاں مسلسل خرچ ہوتی رہیں گی اور بیماری پیدا کرنے کی بنیادی وجہ مستقل طور پر اپنی جگہ موجود رہے گی۔ معاشرہ  بھی ایک جسم کی مانند ہوتا ہے تو اس کے پھوڑوں( مسائل)کی بھی بنیادی وجہ تلاش کرنی چاہیے نہ کہ ہر مسئلے کا الگ سے حل تلاش کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ سسٹم جس رفتار سے سوسائٹی میں مسائل پیدا کرتا ہے فلاحی تنظیمیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور جن معاشروں میں سماجی تبدیلی کی ضرورت ہو وہاں اجتماعی سوچ، اجتماعی عمل اور تبدیلی کے لیے اجتماعی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ فلاحی تنظیموں کی۔ اس فلاحی سوچ سے معاشرے کی با صلاحیت افرادی قوت سسٹم سے پیدا شدہ  مختلف مسائل کے حل کے لئے متعدد گروپس میں تقسیم ہو جاتی ہے، اس عمل سے وسائل اور توانائیاں مسلسل استعمال میں آتی رہتی ہیں اور مسائل کی بنیادی  وجہ سسٹم پر کوئی ضرب نہیں پڑتی جس سے وہ خود کو بچانے میں کامیاب رہتا ہے۔

معاشرے میں پائی جانے والی پہلی دو قوتیں تو اپنی استحصالی سوچ اور بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور معاشرے میں موجودہ  منفی تبدیلیوں کی ذمہ دار ہیں، لیکن موجودہ حالات کی ذمہ داری تیسری قوت پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ انہتر سال سے عوام قومی سطح پر ایسی جدوجہد سے محروم ہے جس سے وہ اپنی منتشر قوتوں کو کسی انسان دوست  نظریےکے تحت اکٹھا کر سکتے، اس نظریے کو مسلسل جینے کے لیے خود کو تیار کر سکے اور  مطلوبہ قیمت ادا کر کے  قومی سطح پر کوئی  تبدیلی پیدا کر سکے۔

موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سوسائٹی کا باصلاحیت طبقہ اپنے اردگرد  رونما ہونے والی تبدیلیوں کی سائنس کو سمجھےکہ کس طرح ایک تبدیلی کے لیے ایک مرکزی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے، اس مرکزی سوچ کو رو بہ عمل ہونے کے لئے کس طرح منظم قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور منظم قوتیں   کس طرح اس سوچ کو جی کر مطلوبہ نتائج حاصل کرتی ہیں۔

جب اس ہدف کو حاصل کر لیا جائے تو فرسودہ سسٹم سے پیدا شدہ مسائل کے مجموعی حل کے لیے  ڈیبیٹس، ڈسکشنز اور ڈائیلاگز کے ذریعے بنیادی وجہ تلاش کی جائے۔ اپنی ایک اجتماعی سوچ بنائی جائے، خود کو اس تبدیلی کی قیمت ادا کرنے کے لیےتیار کیا جائے اور اس سوچ کو مسلسل جی کر اپنے مطلوبہ ہدف کی طرف بڑھا جائے کیونکہ اسی صورت  مثبت تبدیلی کے ذریعےوطن عزیز کو جہالت، غربت اور انتہا پسندی کے گرداب سے نکالا جا سکتا ہے۔

10 Comments

  1. “وقتی سوچ کا پیدا ہونا اور اسکے فیس بک سٹیٹس اور ٹو ئیٹس میں تبدیل ہونے سے سوسائٹی میں تبدیلی کا خواہش مند ہونا اوراپنی زمہ داری بس یہیں تک سمجھنا، ذہنی عیاشی تو ہو سکتی ہے لیکن اس طرح کبھی بھی معاشروں میں تبدیلیاں نہیں آیا کرتیں-“

  2. تبدیلی کی ضرورت کے حوالے سے بہت اچھا دلائل دیے ہیں۔ آپکی مزید تحریروں کا انتظار رہے گا

  3. intahai umda tehreer or sab say eham cheez is par amal kr k is ko practical mode may tabdeel kiya jiay,vese bohat umda tehreer irfan sb

  4. بہت عمدہ بات کی آپ نے۔ یہ بھی فرما دیجیے کہ کیا آپ مسائل کی کسی سائنس کو سمجھ پائین ہیں؟ جڑ کیا ہے؟

    • محترم ہم نام
      سراہنے کا شکریہ- شاید میں سمجھا نہیں پایا کہ مسائل کی سائنس سمجھنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ تبدیلی کی سائنس سمجھنے کی بات کی گئی ہے- اور جہاں تک مسائل کے جڑ کی بات ہے تو اسی چیز کی دعوت ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے سوچنے والے طبقے کو اپنی توانائیاں اس طرف صرف کرنی چاہیئے- آپ بھی کوشش کیجیئے اور ہم بھی کرتے ہیں-
      انشااللہ موقع ملا توجو ہم نے سمجھا ہے، بیان کریں گے

  5. تیسرا طبقہ عوام ہے جس کی کوئی اجتماعی سوچ بننے نہیں دی جاتی تاکہ وہ بحیثیت قوم اپنے مجموعی مسائل کو حل کرنے کے شعور سے محروم رہےاور حکمران طبقہ اپنے اور عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفط کرتا رہے-

  6. زبردست تحریر ھے جودرست سمت میں سوچنےاور عمل کی دعوت دیتی ھے اور سوچ اور عمل ھی انسان کو مایوسی سے نکال سکتے ھیں۔

Comments are closed.