“بھگوان کی کرِپّا اور فضلِ ربّی سے جلنے لگے ہو…” 

Naseer Ahmed, the writer

“بھگوان کی کرِپّا اور فضلِ ربّی سے جلنے لگے ہو…” 

اپنے تجربات اور خیالات کو محدود رکھنے کے لیے جنوبی ایشیا میں بہت محنت کی جاتی ہے۔

ایک وجہ خود احتسابی بھی ہے کہ اگر نیا اچھا ہے، بہتر ہے، مفید ہے، شان دار ہے تو اس پر عمل کرنا پڑ جائے گا۔

اس لیے دنیا میں کچھ نیا نہیں ہے؛ اچھائی انسان سے ممکن نہیں ہے، یہ سرائے جو دنیا ہے، اس میں افادہ کیا ڈھونڈنا، اور شان دار داتا صاحب اور تکا رام کے بعد کیسے ہو سکتا ہے؟

ہمیں جہاز بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ جب ساری دنیا تاریکی میں گُم تھی، ہمارے رِشی اور صوفی زُحَل و زُہرَہ کے ارد گرد اڑتے تھے۔

بچوں کے حقوق کی صورتِ حال بہتر بنانے کی کیا حاجت ہے؟ حقوق کے بغیر ہی یہ دُشٹانڈ اتنے شریر ہیں، حقوق مل گئے تو ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اس لیے اس گفتگو کی کوئی ضرورت نہیں۔

صحت و سلامتی کے قوانین اور طریقوں سے کار کردگی بہتر ہو جاتی ہے؟ کار کردگی بہتر ہو گی تو میری نوکری کا کیا بنے گا؟

تم ہی کچھ نیا سیکھ لو، فائدہ ہو ہی گا۔ تم مجھے سکھانے آئے ہو؟ تم نے تو اتنا پڑھا بھی نہ ہو گا جتنا میں بھول گیا ہوں۔

شان دار؟

گستاخ، بد تمیز، شان دار تو صرف پَرکھے ہی تھے، آج کل کے لوگ اور آنے والے کہاں شان دار ہو سکتے ہیں۔ بڑے سائنس دان بنتے ہو؟ ذرا مصرعے میں لف و نشر تو بَرتَو؟

یہ کیا بلا ہے؟

بس نکل گئی ہیکڑی۔

اتنی سی بات پر وہ داد و تحسین کی جاتی ہے۔

عالی جناب نے دین کا ایسا تحفظ کیا ہے کہ کفار کے دانت کھٹے ہو گئے ہیں۔

مہا راج ، دھرم کے رکھوالے ہیں، یہ ناستک مہا راج کے سامنے کہاں ٹِکنے والے ہیں۔

رِشی جی کا سِیماؤں اور دِشاؤں پر ایسا پہرہ ہے کہ بادِ صبا نہیں آ سکتی۔ یہ چلے ہیں سنسار بدلنے۔

او بے وُقُوفو! اس میں دین دھرم کی کیا بات ہے۔ لوگ لائق ہوں گے تو زندگی ہی اچھی ہو گی ناں۔

وہ ہو چکی، اس سے بہتر زندگی اب نہیں ہو سکتی۔

تو یہ جدید مصنوعات کیوں استعمال کرتے ہو۔

اب بھگوان کی کرِپّا اور فضلِ ربی سے جلنے لگے ہو۔ تم حکمت نہیں جان پاؤ گے۔

بی ایم ڈبلیو کی سیٹ تمھیں آرام  دِہ لگتی ہے، ہمارے لیے کانٹوں کا بچھونا ہے۔ نرم بستروں کے گداز پر جو اذیت مجھے ہوتی ہے، تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور کام دیو کی آگیا کا پالن کرتے ہوئے جو ازلی اور ابدی دکھ مجھے ہوتا ہے، اس کا تو تم تصور ہی نہیں کر سکتے۔

اچھا تو اس قدر تکلیف اٹھانے کی کیا ضرورت ہے، بھبُوت رَما کر خاک میں ہی لوٹتے پلٹتے رہو۔

وہ نہیں کر سکتے کہ سیوا ہی راجا کا دھرم ہے۔

تو پھر میں بتاؤں اعداد و شمار؟ سیوا کا مِعیار دکھانے کے لیے؟

وہ سب مایا ہے۔ سالک کا کام بس کرنا ہے۔

کام کا کچھ نتیجہ بھی ہوتا ہے؟

اب یہ یہ کفر اور ادھرم ہے، بھگوان کی دانائی پر اعتراض ہے۔ نَرَکھ ہی تمھارا ٹھکانا ہے، فراڈیے۔

از، نصیر احمد