علم و تحقیق کے میدان کی افسوسناک صورت حال

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

علم و تحقیق کے میدان کی افسوسناک صورت حال

(ڈاکٹر عرفان شہزاد)

گزشتہ دنوں ملک کی کی ایک معروف جامعہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جانے کا موقع ملا۔ کانفرنس کا موضوع نوجوانوں کے مسائل اور معاشرے کی اصلاح میں  ان کے کردارتھا۔ کانفرنس میں جا کر ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ ہماری جامعات جو اعلی تعلیم کے منتہی ادرے ہیں وہاں کم از کم سوشل سائنسز اور اسلامیات کے میدان میں کس قدر جمودِ فکر، سطحیت اور رسمیت پائی جاتی ہے۔

کانفرنس نوجوانوں سے متعلق تھی، لیکن ہال میں جبراً لائے گئے طلباء کے علاوہ نوجوان موجود نہیں تھے، ان طلباء کو یہ بتا کر لایا گیا تھا کہ ان کی حاضری ہال میں لگائی جائے گی۔  یہی حال سٹیج کا تھا، تمام کرسیوں پر سفید ریش حضرات براجمان تھے، نوجوانوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔

ایک سن رسیدہ معروف عالم دین نے اپنی فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ منتظمین کو چاہیے تھا کہ دیگر طلباء کو بھی ہال میں آنے کےلیے پابند کیا جاتا، اگر کوئی ہلہ گلہ والا فنکشن ہوتا تو ہال طلباء سے کھچا کھچ بھرا ہوتا۔ ان نوجوانوں کو دین کی قدر نہیں، اپنی اصلاح کی فکر نہیں اس لیے  ہمیں سننےنہیں آتے۔

موصوف کے اس فرمان عالی شان پر اگر اجازت ہوتی تو میں پوچھتا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اگر عدنان کاکاخیل جیسا روایتی مولوی، جاوید احمد غامدی جیسا غیر روایتی عالم دین، اور ذاکر نایئک جیسا مذھبی سکالر یہاں تشریف لائے ہوتے تو یہی ہال نوجوانون کے کھچا کھچ بھرا ہوا ہوتا؟ کیا وجہ ہے کہ لوگ ان کی محافل میں دور دراز کا سفر کر کے بھی پہنچتے ہیں اور آپ کو پابند کرکے لانا پڑتا ہے۔

سامعین کی قلت کا گلہ آپ کو کیوں رہتا ہے اور ان لوگوں کو کیوں نہیں ہوتا؟ وجہ کیا ہے۔ وجہ  یہ ہے کہ  جن  لوگوں کو نوجوانوں اور سماج  کے حقیقی مسائل کا احساس اور ادراک ہے، اور  اس کا عملی حل بھی ان کے پاس ہے ، نوجوان ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کر جاتے ہیں۔ پیاسا وہیں جاتا ہے جہاں اس کی پیاس بجھانے کا انتظام ہو۔

آپ کے پاس آج کے  نوجوان کو دینے کے لیے طعنوں و تشنیع، ڈانٹ ڈپٹ اور از کارِ رفتہ صیحتوں کے سوا اور کیا ہے۔ آپ کو نوجوانوں کے مسائل اور ان کی وجوہات کا علم ہے نہ ادراک۔ آپ تو ان کے سوالات تک ٹھیک سے سمجھ نہیں سکتے۔ سچ تو یہ ہےکہ آپ  اپنی نالائقی کا الزام  نوجوانوں کی عدم دلچسپی پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔

کانفرنس میں نوجوانوں کے مسائل اور کردار پر بات کرنے والے سینئر حضرات اور خواتین کی تقاریر میں مسائل کا ذکر تو تھا ان کا تجزیہ کہیں نظر نہ آیا۔ سماجی حرکیات کیا ہیں؟ سماج کیسے بدلتے ہیِں؟  گزشتہ دین دار نسل کی اولاد بے دین یا دین بے زار کیوں  ہوئی اور ہورہی ہے؟ اس بگاڑ میں گزشتہ نسل اور بزرگ علماء، سیاست دانوں، تعلیمی ادروں اور دیگر سماجی اداروں کا کتنا قصور ہے، اس کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں تھا، تو پھر بھلا محض ‘جمعے کا خطبہ’ سننے کے لیے نوجوان ہال میں کیوں بیٹھتے۔

95 فیصد مقررین نے نوجوانوں کے مسائل کو بالکل سطحیت سے بیان کیا اور سطحیت سے ہی اس کا حل پیش کیا۔ مثلاً آج کا نوجوان شھوات اور شبھات کا شکار ہے۔ دین سے دور ہوگیا ہے، الحاد کا شکار ہورہا ہے۔ اور وہی پرانی تھیوری کہ مغربی  تہذیب ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اور ان سب حل یہ ہے کہ نوجوان موبائل  فون کا استعمال کم کریں، حضرت حسن (رض)، حضرت حسین (رض)، محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کے نقش قدم پر چلیں۔ یہ سب باتیں آج کے نوجوان کو بغیر کسی تجزیے کے،  محض حتمی آراء کی صورت میں اتنے بے ربط انداز میں سنائی جا رہی تھیں کہ ان کے اطلاق اور تطبیق کا کوئی محل تلاش کرنا ممکن نہیں تھا۔

نوجوانوں کو تو سوال تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگر سوال کرنے کی اجازت ہوتی تو یقیناً ان کی خاطر خواہ تعداد ہال میں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ سوالوں کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ میرے علم و مشاہدہ کی بات ہے کہ ان جیسے بعض حضرات نے طرے میں آکر اپنی محافل میں نوجوانوں کو سوال کرنے کی اجازت دی بھی تو سوالات سن کران کا پتا پانی ہوگیا۔

یہ حضرات نوجونوں کے چھبتے ہوئے، تشکیکی، الحادی اور تنقیدی قسم کے سوالات کے پسِ منظر، سماجی اور سیاسی عوامل سے واقف نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کے پاس ایسے سوالوں کے یہ جوابات ہوتے ہیں:

آپ اپنے ایمان کی فکر کریں۔ شیطان آپ کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے، جب ایسے خیالات آئیں تو لا حول و لاقو ۃ الا باللہ پڑھ لیا کریں۔

آپ مودودی ہورہے ہیں، (اور آج کل آپ غامدی ہورہے ہیں۔)

ان شبھات کو چھوڑیں اور تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگائیں سب اشکالات خود حل ہو جائیں گے۔

اس سے کام نہ چلے تو وہی ڈانٹ ڈپٹ ،الحاد، کفر منافقت  اور گستاخی کے فتاوی ابل پڑتے ہیں۔ تو آج کا نوجوان کیوں آئے ان کے پاس۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے برزگ اساتذہ درس و تدریس کے مناصب پر اس وقت قابض ہو گئے تھے جب کوئی مسابقت نہیں تھی، پکی نوکری، عہدہ میں لازمی ترقی اور بے فکری کی وجہ سے ان کا حال اس شیر کی مانند ہو گیا جس کو اس کا راتب اس کے منہ کے سامنے پیش کیا جاتا رہے اور اسے خود سے تگ و دو کرنے کی عادت  نہ رہے۔

یہ حضرات اپنے معاشرے کی سماجی حرکیات سے قطعاََ نابلد ہیں۔ تجزیہ کی صلاحیت سے کلیتاََ محروم ہیں۔ ان کے پاس وعظ و نصیحت کے پرانے چلے ہوئے کارتوس ہیں جو ہر جگہ اور ہر دفعہ چلاتے رہتے ہیں۔ موضوع کوئی بھی ہو یہ اپنے کمفرٹ زون کے مطابق اس موضوع کو ڈھالنے کا فن جانتے ہیں۔

بالکل اس نالائق طالبِ علم کی طرح جسے صرف  ایک مضمون یاد تھا ‘میرا دوست غلام رسول’۔ اب اسے جو بھی مضمون لکھنے کو کہا جاتا وہ اس میں کہیں نہ کہیں سے اپنا دوست غلام رسول لے آتا اور پھر شروع ہوجاتا کہ میرا دوست غلام رسول یہ ہے وہ ہے اور مضمون مکمل ہوجاتا۔

کانفرنس میں ان سینئر اساتذہ اور ‘محققین’ کی یہ حالت تھی کہ  وقت کی شدید قلت اور انتظامیہ کی جانب سے بار بار مختصر خطاب کی تلقین کے باوجود مقررین تقریر شروع کرنے سے پہلے عربی کا خطبہ پڑھتے، سٹیج پر براجمان افراد کے اسمائے گرامی مع ان کے  لمبے چوڑےالقابات لے کر، باری باری ان کا شکریہ ادا کرتے، یہ سب کر لینے کے بعدجب اصل تقریر پر آتے تو آدھا وقت گزر چکا ہوتا، اور باقی  وقت میں انہیں یہ سمجھ نہ آتا کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔

یا پھر وہ اپنی عمر کا  ناجائز فائدہ اٹھاتے  ہوئے اپنے وقت سے زائد وقت لیتے اور سٹیج سیکرٹری کو ان کے سر پر کھڑے ہو کر ان کو جانے پر مجبور کرنا پڑتا۔ اس وجہ سے دیگر مقررین کا وقت کم رہ جاتا اور انہیں کم سے کم وقت میں اپنی بات ختم کرنے پر مجبور کیا جاتا۔

یہ کم وقت والے مقررین غیر اہم مقررین تھے۔ اور ان میں زیادہ تر جونیئر اساتذہ تھے۔ اوران میں سے بیشتر نے حقیقی مسائل پر کی۔ لیکن انہیں سب سے کم وقت دیا گیا۔ یہ ایک اور زیادتی تھی جو سینئرز کی طرف سے جونیئر پر کی گئی۔

پوری کانفرنس میں کوئی تین یا چار مقالہ جات تھے جو نوجوانوں کے حقیقی مسائل پر مبنی تھے اور ان کو پذیرائی بھی نوجوانون کی طرف سے ملی۔  اور وہ پیش بھی جوان  مقررین نے کیے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان کانفرنسوں میں جا کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کا مقصد کسی حقیقی مسئلے کوحل کرنے کی بجائے ایچ ای سی کو رسمی طور پر اپنی کارکردگی دکھانا مقصود ہوتا ہے تاکہ ان سے فنڈز بھی ملتے رہیں اور کانفرنسز کروانے پر دیگر فوائد بھی حاصل ہوتے رہیں۔

یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ علم وتحقیق کی مسند پر بیٹھے یہ لوگ جن کو تحقیق اور اس کے نئے رجحانات کا  کوئی ادراک نہیں، نوجوان محققین کو علم اور تحقیق سکھانے کے لیے مقررکیے گئے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اتنے فنڈ اور بجٹ ملنے کے باوجود، اور بظاہر اتنے بڑے بڑے ناموں اور لمبے چوڑے القابات والے علماء اور سکالرز  جن کی’ نظیر دنیا میں نہیں ملتی’ ،اور جن کے فوت ہونے کے بعد وفیات میں لکھا جاتا ہے کہ ان کا خلا پر نہیں ہو سکتا، ان کے سب کے ہوتے ہوئے، عالمی رینکنگ میں پاکستانی یونیورسٹیوں کا شمار اب تک کیوں نہیں ہے۔

کیوں پاکستانی طلباء کی ڈگریوں کو عالمی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملتی جو یورپ، ناروے بلکہ انڈیا کی یونیورسٹیوں کو حاصل ہے۔ بس یہ کہہ کر ختم کرتا ہوں:

اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم‌ناک

نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ نگاہ!