شدت پسندی، ریاستی بیانیہ اور حضرت عمر کا خط

شدت پسندی، ریاستی بیانیہ اور حضرت عمر کا خط

از، اورنگ زیب نیازی

میں جس حضرت عمر کے خط کا ذکر کرنے چلا ہوں وہ مسلمانوں کے خلیفہ دوم حضرت عمر نہیں،جن کو تاریخ فاروق اعظم کے نام سے جانتی ہے اور جنھوں نے دریائے نیل کو خط لکھ کر روانی کا حکم دیا تھا بل کہ یہ وادی سوات کے ایک خوبصورت گاؤں سے تعلق رکھنے والے حضرت عمر کا خط ہے۔اگر آپ مینگورہ شہر سے کالام کی طرف دریائے سوات کے کنارے کنارے بل کھاتی ہوئی سڑک پر سفر کریں تو راستے میں آپ گلی باغ نام کے ایک گاؤں سے گزرتے ہیں،جہاں پہاڑکے دامن میں ایک نجی کالج واقع تھا جو بعد ازاں طالبان کی پناہ گاہ بنا اور اب آرمی کی تحویل میں ہے۔حضرت عمر اس کالج کا طالب علم تھا۔جن دنوں سوات میں مذہبی شدت پسندوں کی شورش کا آغاز ہوا ،میں اس کالج میں نوجوان لڑکوں کو میر و غالب کی غزلیں اور منٹو کا افسانہ’تماشا‘ پڑھا رہا تھا۔کالج میں میرا واسطہ دو طرح کے طالب علموں سے تھا۔جوانی کی ندی میں بہتے ہوئے جدت پسند نوجوان بھی تھے اور راسخ العقیدہ اور کسی قدر شدید مذہبی نقطہء نظر رکھنے والے طالب علم بھی۔اساتذہ میں بھی یہی دو صورتیں نمایاں تھیں۔جب طالبان کی شورش نے زور پکڑنا شروع کیا تو شناسا آنکھوں میں بیگانگی دکھائی دینے لگی۔سو میں نے نوکری چھوڑ کر جان بچانے میں عافیت جانی اور لوٹ آیا۔پھر اس کے بعد رابطہ ممکن نہیں رہا۔اب جو فیس بک کا دور دورہ ہوا تو حضرت عمر نے مجھے ڈھونڈ نکالا۔میں نے اس سے یارانِ وطن کا حال پوچھا ہے،جواب میں اس نے مجھے ایک برقی خط بھیجا ہے،اس نے بتایا ہے کہ دریائے سوات کا شفاف پانی پہلے کی طرح سے گنگنا تا ہے،بلبلیں گیت گاتی ہیں،رات کو رباب بجتا ہے اور خوبانی کے درختوں پر اجلے پھول کھلتے ہیں،سب کچھ پھر سے پہلے جیساہو چکا ہے،آگ بجھ چکی ہے لیکن کہیں کہیں راکھ میں دبی ہوئی چنگاریاں اب بھی سلگتی ہیں۔اس کے خط نے بظاہر اطمینان بخش لیکن اندر ہی اندر ایک پریشان کن صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔اگر سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا مذہبی شدت پسندوں کی شورش سے پہلے تھا تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اب وہ کچھ کبھی نہیں ہو گا جو ہو چکا ہے؟راکھ میں دبی چنگاریاں اگر مکمل طور نہیں بجھ سکیں انھیں دوبارہ شعلہ بننے سے کب تک روکا جا سکتا ہے؟یہ سوال بھی بار بار پریشان کرتا ہے کہ ۱۱؍۹ کے بعد دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ریاستی بیانیے تشکیل دیے گئے وہ کہاں تک کار آمد ہو سکے؟اگر کار آمد ہوئے ہیں تو سوات کے بعد وزیرستان میں آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کراچی یونیورسٹی،جنوبی پنجاب کے مدرسوں اور جامعہ پنجاب کے ہاسٹلز میں القاعدہ سے وابستگیوں کا انکشاف کیوں ہوا؟گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی۔وی چینل پر مولوی حمداللہ اور ماروی سرمد کی گالم گلوچ کا واقعہ در حقیقت مذہبی شدت پسندی کے خلاف تشکیل دیے گئے ریاستی بیانیوں کی ناکامی کا اعلامیہ بن کر اُبھرا ہے۔مولوی حمداللہ کا چہرہ واضح ہے،وہ جس نقطہء نظر کی ترجمانی کرتا ہے اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ماروی سرمد کا چہرہ لبرل ازم کے اس ریاستی بیانیے کا آئینہ ہے جو ۱۱؍۹ کے بعد،بالخصوص مشرف دور میں مذہبی شدت پسندی کے خلاف تشکیل دیا گیا تھالیکن بارور نہیں ہو سکا،یہ لبرل ازم کے تقاضے پورے نہیں کرتا بل کہ اس رویے کو جنم دیتا ہے جسے مذہب بیزار شدت پسندی کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ایک طرح کی شدت پسندی کو ایک دوسری طرح کی شدت پسندی سے مات دینے کی خواہش کسی دیواصنے کے خواب سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے؟ بالفرض اس میں کامیابی مل بھی جائے تو اس کے نتائج کو سمجھنے کے لیے افلاطون کا دماغ نہیں چاہیے۔آپ کسی کے غلط نقطہء نظر کو دلیل کی طاقت سے تو رد کر سکتے ہیں لیکن نفرت اور تضحیک سے نہیں۔نفرت اور تضحیک اشتعال کو جنم دیتے ہیں جس کا رد عمل زیادہ شدید ہو سکتا ہے اور مخالف کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہٹ دھرمی اور ضد پر آمادہ کرتا ہے۔یہ بھی نشان خاطر رہے کہ پاکستان ایک اکائی نہیں ہے،بہت سی اکائیوں کا مجموعہ ہے۔جن میں سے ہر اکائی کی ایک الگ ثقافتی شناخت بھی ہے۔کسی انفرادی شناخت کو مٹانے کی کوشش کا نتیجہ بہتر نہیں ہو سکتا ۔دوسری طرف ان اکایؤں کے مابین مذہب ایک قدر مشترک یا Bindig force کے طور پر موجود ہے۔ہم پاکستان کی اجتماعی زندگی سے مذہب کو جبراََ بے دخل نہیں کر سکتے نہ ہی اس کی اصل شکل کو تبدیل کر سکتے ہیں،ایسا کرنے کی صورت میں اکائیوں کی وحدت کو قائم رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ہمیں مذہب کو بے دخل کرنے کی نہیں،مذہب کے روشن پہلوؤں کو اُجاگر کرنے اور مذہبی شدت پسندی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ایک ایسے ریاستی بیانیے کی ضرورت ہے جس کا مرکز تعلیم اورنصابات ہوں۔جو نئے اذہان کو نئے رنگ میں ڈھال کر تشدد، دہشت گردی اورشدت پسندی کے زہر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکے،اس کے علاوہ کوئی دوسری تدبیر اب تک کارگر ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔

1 Comment

  1. Bittter realty hy zarorat hy islam ki asal tasweer dikhany
    Hmara islam kb shidat pasandi sikhatahy
    Ye to aman wala mazhab hy fatha makkahvki trf nazer doraein kya islam shidat pasand tha nhiaman ka dosra nam islam hy
    Zarorat hy logon ko islam ko smjhny ki

Comments are closed.