سری لنکا میں کم عمری کی شادیوں کی متاثرہ مسلمان لڑکیاں

سری لنکا میں کم عمری کی شادیوں کی متاثرہ مسلمان لڑکیاں

سری لنکا میں کم عمری کی شادیوں کی متاثرہ مسلمان لڑکیاں

(بی بی سی اردو)

سری لنکا میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن ملک میں نافذ اس قانون کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جس کے تحت نوجوان مسلمان لڑکیوں کی شادی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

سری لنکا میں شادی کرنے کی قانونی عمر 18 برس ہے لیکن دہائیوں پرانے کمیونٹی قانون کے تحت نوجوان مسلمان لڑکیوں کی شادی کی جا سکتی ہے۔ ملک میں اس قانون کو ختم کرنے کے مطالبات میں شدت آ رہی ہے تو بی بی سی کی سنہالی سروس کی سروج پتھرین نے ایک نوجوان سری لنکن مسلمان لڑکی سے ملاقات کی جس کی رضامندی کے بغیر زبردستی شادی کر دی گئی تھی۔

شفا( فرضی نام) 15 برس کی تھی تو زبردستی اسے شادی پر مجبور کیا گیا۔ شفا کے مطابق جب وہ امتحانات کی تیاری کی رہی تھیں تو ایک لڑکے سے محبت ہو گئی۔ ان کے والدین نے اسے ناپسند کیا اور مجھے میرے انکل کے پاس بھیج دیا۔

‘وہاں جب میں پڑھائی کر رہی تھی تو ان کے ہاں اکثر اوقات آنے والے ایک شخص نے میرے انکل اور آنٹی کو بتایا کہ وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔‘

سری لنکا کے ایک دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی مسلمان شفا نے اس رشتے سے انکار کر دیا اور وہ چاہتی تھیں کہ سکینڈری سکول کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اس لڑکے سے شادی کریں جس سے وہ محبت کرتی تھیں۔

شفا کے اعتراضات کے باوجود ان کے انکل اور آنٹی نے اپنے دوست کے ساتھ شادی کا انتظام کر دیا۔

شفا کے مطابق جب بھی وہ شادی سے انکار کرتی تھیں تو ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور ان کے انکل آنٹی نے یہاں تک دھمکی دی تھی کہ وہ خود کو مار دیں گے اگر ان کی بات نہ سنی۔

شفا نے اپنے بازوؤں پر زخموں کے نشانات دکھاتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے اپنے بازو زخمی کر لیے کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ‘

شفا کا کہنا تھا کہ جب ان کا ہسپتال میں علاج کیا جا رہا تو ڈاکٹروں کو رشوت دے کر انھیں نجی ہسپتال میں منتقل کر دیا اور چند دن بعد دوبارہ مجبور کیا کہ میں اس شخص سے شادی کر لوں۔

شادی کے بعد شفا نے اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کا طے کر لیا کیونکہ وہ وہاں سے فرار نہیں ہو سکتی تھیں لیکن ان کے خاوند نے شک کرنا شروع کر دیا کہ میرا تعلق اب بھی اپنے بوائے فرینڈ سے قائم ہے۔

‘جب میں نے اسے بتایا کہ حاملہ ہوں تو وہ مجھے باقاعدگی سے تشدد کا نشانہ بناتا تھا اور اس نے مجھے اٹھا کر فرش پر پھینک دیا۔ اور مجھے بتایا کہ وہ مجھے صرف ایک رات کے لیے چاہتا تھا اور وہ حاصل کر لیا اور اسے میری مزید ضرورت نہیں ہے۔ ہسپتال میں مجھے معلوم ہوا کہ تشدد کی وجہ سے حمل ضائع ہو گیا ہے۔’

اسے بھی ملاحظہ کیجئے: دولت اسلامیہ اور نوجوان لڑکیاں

شفا پولیس کے پاس گئیں لیکن پولیس نے ان کی شکایت کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ایک دن انھیں گاؤں کی مسجد سے پیغام آیا۔ وہاں ان کے شوہر نے شادی کو قائم رکھنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن میں نے انکار کر دیا۔

اس کے چند دن بعد انھیں اجنبی افراد کی جانب سے فون کالز اور ٹیکسٹ پیغامات آنے لگے کہ ایک رات کی ہم بستری کا کتنا معاوضہ لیں گی۔

شفا کو پتہ چلا کہ ان کے شوہر نے ان کی تصاویر اور ٹیلی فون نمبر کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری کیا ہے۔

فون کرنے والے شفا کو دھمکی دیتے اور گندی زبان میں انھیں بتاتے کہ ان کے شوہر نے فون نمبر دیا ہے۔

شفا نے روتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے ان تمام فون کالز کو ریکارڈ کر رکھا اور ٹیکسٹ پیغام اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔’

شفا کے والد اس سارے معاملے میں ملوث نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن ان کی والدہ اب اپنی بیٹی کو خدمات کے ایک مرکز میں لے کر جاتی ہیں تاکہ ان کی بیٹی شادی کے نتیجے میں ہونے والے صدمے سے نکل سکیں اور ان نفسیاتی مدد ہو سکے۔

 

وہ اس مرکز میں خفیہ طور پر جاتی ہیں کیونکہ سری لنکا میں کھلے عام نفسیاتی امراض کا علاج صحیح نہیں سمجھا جاتا۔

شفا کی والدہ گاؤں میں محنت مزدوری کر کے اپنے پانچ بچوں کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ انھیں اپنے آبائی گاؤں سے 1990 میں تمل ٹائیگرز نے بے دخل کر دیا تھا۔

شفا کی والدہ کے مطابق ‘میں نے ایک حادثے کی وجہ سے اپنی بیٹی کو اپنے بھائی کے پاس بھیجا تھا اور میں نے بالکل نہیں سوچا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہو گا۔ میں نے اپنی بیٹی کی زبردستی شادی پر اعتراض کیا تھا لیکن ان کے بھائی نے اسے بالکل نہیں سنا۔ یہ زبردستی کی شادی تھی۔ مجھے اس کی سلامتی کی فکر ہے اور اس کے شوہر کی جانب سے پھیلائے گئے جھوٹوں کی وجہ سے اس کی پڑھائی کی فکر ہے کیونکہ اب یہ کلاس میں نہیں جا سکتی اور یہاں تک کہ بس میں سفر نہیں کر سکتی۔ اس کا سارا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔’

کم عمری کی شادیاں 

سری لنکا کی مسلمان برادری میں شفا جسی سنکڑوں لڑکیاں ہیں جن کی ان کے والدین یا رشتہ دار زبردستی شادی کر دیتے ہیں۔

سری لنکا میں حقوق انسانی کی وکیل ایرزما ٹیگل کا کہنا ہے کہ ‘مشرقی صوبے میں مسلمان بچوں کی شادیوں کی شرح ایک برس میں 14 فیصد سے بڑھ کر 22 فیصد ہو گئی ہے اور وجہ کا تعلق وہاں قدامت پسندی میں اضافہ ہے۔’

سری لنکا نے اپنے آئین میں اصلاحات کا منصوبہ بنایا ہے جس کی وجہ سے حقوق انسانی کے کارکنوں کو یقین ہے کہ یہ ہی وقت ہے جب مسلم لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے بھی سری لنکن حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی شادی اور طلاق سے متعلق ایم ایم ڈی اے ایکٹ سمیت دیگر امتیازی قوانین میں اصلاحات کرے۔

تاہم ایم ایم ڈی اے ایکٹ میں ترمیم کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی کیونکہ حکومت نے دس برس پہلے اس ضمن میں ایک کمیٹی قائم کی تھی اور ابھی تک اس کی جانب سے کوئی ٹھوس تجاویز سامنے نہیں آئی ہیں۔ 

اس ایکٹ میں ترمیم کے خلاف عرصے سے مسلمان گروپ جیسا کہ جمعیت علما اور توحید جماعت مزاحمت کرتی آ رہی ہیں۔

حقوق خواتین کے لیے کام کرنے والی تنظیم ویمن ایکشن نیٹ ورک کی شرین عبدالسرور ان چند مسلمان خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی شناخت کر ساتھ اس معاملے پر بات کرنے کی جرات کی۔

‘کم عمری میں شادی قانونی ریپ ہے۔ سری لنکا میں شہریت اور مذہب کو ایک جانب رکھتے ہوئے تمام برادریوں کے لیے شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 برس ہونی چاہیے۔ ایک بچہ ذہنی طور پر اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ ایک اور بچے کو جنم دے اور اپنی پڑھائی سے محروم رہ جائے۔ جب ہم ان بچوں کی شادی ہوتی دیکھتے ہیں تو اس سے تمام برادری متاثر ہوتی ہے اور یہ ساری مزید پسماندگی کی جانب چلی جاتی ہے۔ ‘