سیکرٹ سپراسٹار سے متعلق ایک متعصّب تجزیہ

سیکرٹ سپر سٹار

سیکرٹ سپراسٹار سے متعلق ایک متعصّب تجزیہ

خضرحیات

پتہ نہیں سب کو یہ بتانا کتنا ضروری ہے کہ میں عامرخان کی ہر آنے والی فلم کا اس دن سے انتظار کرنا شروع کر دیتا ہوں جس دن سے اس کے بارے میں پہلی خبر میرے کانوں میں پڑتی ہے اور پتہ نہیں یہ بتانا بھی ضروری ہے یا نہیں کہ عامر خان کی نئی فلم سیکرٹ سپراسٹار میں نے کل ایمپوریم میں اپنے دوست مُطہّر بخاری کے ساتھ سینما جا کر دیکھ لی ہے۔

میرا خیال ہے کہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ جب بھی معمول سے مختلف کچھ کرتا ہے یا اسے معمول سے مختلف کوئی تجربہ ہوتا ہے تو اس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اردگرد میں بسنے والے لوگوں کو اس کے متعلق بتائے۔ یہ منادی پہلے زبانی طور پر کی جاتی تھی مگر اب بدلے ہوئے دور میں یہی کچھ سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے لگا ہے۔ خواہش پرانی ہے بس ذریعہء اظہار بدل گیا ہے۔ اسی دلیل کا سہارا لیتے ہوئے میں آپ سب کو بتانے میں اب ایک معنویت محسوس کر رہا ہوں کہ کل یونیورسل سینما میں ہم نے یہ فلم دیکھ لی ہے اور یہ بھی بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مجھے یہ فلم بہت پسند آئی ہے۔

میں اس بات سے قطعی انکار نہیں کروں گا کہ میری رائے عامرخان اور اس کی فلم کے بارے میں یقیناً متعصّب ہوگی کیونکہ میں اسے پسند کرتا ہوں اور جسے بندہ پسند کرتا ہو پھر اس میں کب کوئی بات بُری نظر آتی ہے۔ خیر فلم کے متعلق کچھ بات کرتے ہیں۔ ڈھائی گھنٹے کی فلم ختم ہوتے ہی جو سب سے پہلی بات میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ ڈائریکٹر کو شروع میں اس طرح کا ایک ڈس کلیمر ضرور دینا چاہئیے تھا:

This film contains highly emotional content, please watch it on your own risk.

کیونکہ فلم کئی موقعوں پر بہت جذباتی کر دیتی ہے۔ بارہا صرف سیچوئشن ہی دل کو ایسے چُھو کے گزر جاتی ہے کہ دیر تک آنکھیں اس احساس کو چُھپانے میں ناکام ہو جاتی ہیں اور پھر کچھ جگہوں پہ بولے گئے ڈائیلاگز تو تمام بند ہی توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اسے واقعی سنبھل کے دیکھنا پڑے گا۔

کِرن راؤ اور عامرخان کی پروڈکشن میں بننے والی اس فلم کا ڈائریکٹر ادویت چندن اگرچہ نیا نام ہے مگر مجال ہے جو اس نے یہ بات فلم میں کہیں بھی محسوس ہونے دی ہو۔ فلم کو شروع سے آخر تک ایسا کَس کے رکھا ہے کہ اس کی مہارت پر شک کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ ایسی یا اس سے ملتی جلتی کہانی تو شاید ہم نے پہلے بھی سن رکھی ہو مگر کہانی کو بیان کرنے کا یہ انداز بہت ہی نرالا تھا اور جس طرح یہ بیان کی گئی ہے اس نے یقیناً سننے والوں پر ویسا ہی اثر چھوڑا ہے جس کی توقع فلم بنانے والوں نے باندھ رکھی تھی۔

فلم بنانے کے لیے کہانی جب ایک بار منتخب ہوجاتی ہے تو ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو جو اگلا اہم اور مشکل مرحلہ درپیش ہوتا ہے وہ کاسٹنگ یعنی کرداروں کے لیے اداکاروں کے چناؤ کا ہوتا ہے۔ اس فلم کا یہ شعبہ خاص طور پر داد کا مستحق ہے۔ کرن راؤ اور ادویت چندن نے اپنے کرداروں کے لیے جس بھی اداکار یا اداکارہ کو منتخب کیا ہے ایک لمحے کے لیے بھی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ دراصل اداکاری کر رہے ہیں۔ سبھی ایسے نظر آ رہے ہیں جیسے وہ اپنی حقیقی زندگی میں انتہائی نیچرل انداز میں کسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہوں۔

زائرہ وسیم کو مرکزی کردار میں کاسٹ کرنا یقیناً ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے فلم کو بہترین پیشکش بنا دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشمیری لڑکی تو پیدا ہی اسی  لیے ہوئی تھی کہ اداکاری کرسکے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ فلم عامر خان کی ہے ان کے لیے اطلاع ہے کہ یہ فلم عامرخان کی ہرگز نہیں ہے، یہ فلم تو زائرہ وسیم کی ہے۔ عامرخان تو تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اسکرین پر آتا ہے اور وہ مقصد پورا کرکے ایک طرف ہوجاتا ہے جس کے لیے اسے اس فلم کا حصہ بنایا گیا تھا یعنی مزاح پیدا کرکے، تھوڑا ہنسا کے وہ غائب ہو جاتا ہے۔

اصل مرکزی کردار تو زائرہ وسیم کا ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ سیکرٹ سپراسٹار کے آسمان پر اگر کوئی پورا چاند موجود ہے تو وہ زائرہ کی ہی صورت میں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ زائرہ وسیم کے بعد دو بہت ہی کمال کی پرمارمنسز اس کی والدہ (مہر وج) اور والد (راج ارجن) کی ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ایسے خوبصورت لگے ہیں کہ سوچ سوچ کر بھی میرے ذہن میں دونوں کا کوئی نعم البدل نہیں پیدا ہو سکا۔ ان کرداروں کے لیے یقیناً یہی دونوں ہی درست انتخاب تھے اور دونوں نے اپنی اداکاری سے اس درست انتخاب کو بہترین انتخاب میں بدل دیا ہے۔ کاسٹنگ کا کمال دیکھیں کہ بڑے تو خیر تجربہ کار اداکار تھے، زائرہ وسیم کا چھوٹا بھائی گڈو (کبیرساجد) جو تین چار سال کا ہے یہ بچہ بھی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ بچے کے انتخاب میں بھی کوئی چوُک نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ سکول میں زائرہ وسیم کا ہم جماعت (تِرتھ شرما) اپنی جگہ پر کوئی کثر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے اور آخر تک ثابت کرتا رہتا ہے کہ وہی اس کردار کے لیے بہترین انتخاب تھا۔ ذہانت سے کی گئی کاسٹنگ نے ہی فلم کو وہ معیار عطا کیا ہے جس کی بنیاد پر اسے بہترین فلم کہا جا رہا ہے۔

اب آتے ہیں اس کردار کی جانب جسے عامرخان نے نبھایا ہے۔ ایک میوزک ڈائریکٹر ہے شکتی کمار جو ظاہری طور پر ایسے حلیے میں نظر آتا ہے جسے دیکھتے ہی ہنسی آ جاتی ہے۔ یہ ایک ناکام میوزک ڈائریکٹر ہے جس کے لیے سب کچھ انڈین میوزک انڈسٹری ہے مگر اس نے بھی کبھی شکتی کمار کو ایوارڈ نہیں دیا اور جس کی ذاتی زندگی بھی مشکلات کا شکار ہے۔ اسے اپنے ناکام ہونے کا احساس بھی ہے اور دل میں اس کا دکھ بھی۔ یہ دکھ ایک دو بار جب ظاہر ہوتا ہے تو دیکھنے والے کو بھی اندر تک گھائل کرجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کردار کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر فلم میں یہ کردار نہ شامل کیا جاتا تو فلم اس قدر جذباتی ہو جاتی کہ شاید برداشت بھی نہ کی جاسکتی۔ اسی جذباتیت کی آنچ کو دھیما کرنے کے لیے شکتی کمار کے کردار کی ضرورت پیش آئی اور اسی وجہ سے اسے بہت ہی عجیب و غریب حلیہ دیا گیا۔ اس کردار سے کرن راؤ اور ادویت چندن کو جتنی امیدیں تھیں عامر خان نے اسے اس سے بھی بڑھ کر نبھایا ہے۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے اسکرین پر آتا ہے، اپنے حلیے، عجیب و غریب حرکات اور گھٹیا ڈائیلاگز سے لوگوں کو ہنسا کے سائیڈ پر جاکے بیٹھ جاتا ہے۔ اس کا کام بس یہی ہوتا ہے اور عامر اس کام کو بہت مہارت سے سرانجام دیتا ہے۔ عامرخان اس فلم کی ریسیپی میں فن مسالے کا کام کرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ سچ ہے کہ اس کردار کی مدد سے عامرخان نے اس فلم کو چارچاند لگا دیئے ہیں۔

فلم کی موسیقی امیت ترویدی نے ترتیب دی ہے اور اسی وقت دل کو چُھو جاتی ہے جب زائرہ وسیم ‘میں کون ہوں؟’ گاتی ہے۔ میرے مطابق اس فلم کی موسیقی اپنے انتہائی درجے پر اس وقت پہنچتی ہے جب انسیا میوزک ڈائریکٹر شکتی کمار کے اسٹوڈیو میں ‘میں نچدی پھراں’ ریکارڈ کرواتی ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس گیت کی اٹھان اور شکتی کمار کے جذبات مجھے دھاڑیں مارنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ فلم میں میوزک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کہانی کے ساتھ مربوط انداز میں مکالمہ کرتے ہوئے چلے اور کسی بھی گیت کو سنتے ہوئے یہ خیال نہ آئے کہ یہ گانا تو اچانک ہی یہاں نازل ہوگیا ہے یا زبردستی ڈال دیا گیا ہے۔ امیت ترویدی نے بھی اسی بات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے میوزک سے کہانی کو بہت خوبصورتی سے سنبھالا دیا ہے اور ہر گیت فلم کا اہم حصہ ہوتے ہوئے کہانی کا ہاتھ پکڑ پکڑ کے اسے اگلے موڑ تک پہنچاکر آتا رہا۔ مرکزی کردار زائرہ وسیم کے لیے پلے بیک سنگرکا انتخاب یوٹیوب سے ہی کیا گیا اور امیت ترویدی نے بھی میگھنا مشرا کی صورت میں انڈسٹری کو ایک سیکرٹ سپراسٹاد دے دیا ہے۔

چونکہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ میں عامرخان کا فین ہوں اور میرا یہ تجزیہ یقیناً تعصّب پر مبنی ہوگا تو ضرورت ہی کیا ہے کہ مجھ جیسے متعصّب انسان پر اعتبار کیا جائے۔ فلم سینما میں لگی ہوئی ہے خود جاکر دیکھیں اور یقین کرلیں۔ اس سے یہ تو پتہ چل ہی جائے گا کہ میں کتنا سچا ہوں اور کتنا جھوٹا۔ آنکھوں دیکھی بہرحال سُنی سنائی سے زیادہ معتیر ہوتی ہے۔