سب رنگ کے ادیبوں کے جدت و جمہوریت سے فاصلے 

Naseer Ahmed, the writer

سب رنگ کے ادیبوں کے جدت و جمہوریت سے فاصلے 

از، نصیر احمد 

سب رنگ کافی بہتر ڈائجسٹ تھا۔ لیکن ادھر پنجاب میں بہت ہی کم لوگ اسے پڑھتے تھے۔ یہ تو صدی کے آغاز میں صحافیوں کی بَہ دولت اس کی اردو پڑھنے والوں میں اس کی شہرت ہوئی۔ آج کل تو یہ لگتا ہے کہ سب صحافی سب رنگ ہی پڑھتے رہے ہیں۔ صحافیوں کا آپ کو پتا ہی ہے، ایک کوئی اچھا سا شعر لکھ دے تو اسے سالوں دُہرانا صحافی برادری کا فریضہ بن جاتا ہے۔ لیکن اسّی نوے کی دھائیوں میں اخباروں میں سب رنگ کا ذکر ہی نہیں ہوتا تھا۔

ہمارا اندازہ ہے جب یہ رسالہ بند ہو چکا تھا تو کسی پڑھے لکھے آدمی نے کسی صحافی کو اسے پڑھنے کا مشورہ دے دیا ہو گا، اس کے بعد سب رنگ کے مدیر شکیل عادل زادہ لگتا ہے کہ ان صحافیوں کی پیدائش سے پہلے بھی اس رسالے کو ان کے ہی مشوروں سے ترتیب دیتے تھے۔

ہمیں بھی سکول، کالج اور یونی ورسٹی  میں اس کو اور بازی گر پڑھنے والے بہت کم لوگ ملے، بل کہ  صرف اپنے ملک صاحب تھے جو یہ رسالہ اور داستان پڑھتے رہتے تھے۔ لیکن وہ قدیم بزرگ ہیں۔ سنا ہے افلاطون کے مکالموں کی ادارت بھی کرتے تھے۔

ویسے بھی چکوال اور تلہ گنگ میں گانوٹی دِکھنے والوں میں بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ مل جاتے ہیں جو آپ کو اپنے علم و فضل اور آپ کی سطحی سوچ کے حوالے سے حیرت اور شرمندگی  میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

ہم آپ کیا ایک دفعہ تو ایک امریکی سفیر دنگ رہ گئی تھیں۔ سنا ہے وہ کتابوں کی کسی دکان سے بشریات پر کوئی کتاب الٹ پلٹ رہی تھیں کہ ان کے پاس کھڑے پگڑی اور تہمد میں ملبوس تلہ گنگ کے ناریل پانی والا صاحب نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ پچھلی دو جلدیں پڑھے بَہ غیر تیسری جلد پڑھنے کا کشٹ کیوں اٹھاتی ہو، ایسے کچھ پَلّے نہیں پڑھے گا۔ وہ کچھ ایسی متاثر ہوئیں کہ ناریل پانی والا صاحب کی شان میں امریکی ایمبیسی میں تقریب منعقد کر ڈالی۔

ہم بھی کچھ کنبے کٹم والوں کے دوستوں اور کچھ ذاتی دوستوں کے حوالے سے گانوٹی دِکھنے والوں سکالروں سے ملتے رہے ہیں، کچھ ان کے قصے بھی سنتے رہے ہیں۔ ہمیں لگا ہے یہ گانوٹی دِکھنے والے سکالر شدھی شرتی، پرش پراکرتی، چین پراچین، ریتی رواج اور پرم پرا کے پالن کا کچھ اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اور اس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ جدت اور جمہوریت  کے ان کی ذاتی زندگی اور معاشرے پر کسی قسم کے اثرات نہ مرتب ہوں۔

اگر ایسے کسی سکالر کو اگر آپ جمہوریت پر کوئی اچھی سی کتاب دے دیں تو وہ اس کتاب کو دماغ دھوتی میں لپیٹ کر پڑھیں گے کہ اگر کسی جمہوری بات سے قائل ہو گئے تو سنسار کا سنتولن بگڑ جائے گا۔ اور اگر اگر برٹرینڈ رسل کی کچھ بات ہو جائے تو دماغ بھبھوت مل کر پھنکارنے لگتا تھا اور دافِع بَلّیات کے منتر پڑھنے لگتا تھا۔ اور اگر جلوس کے بَہ جائے شہریت کی بات کریں تو دماغ مست الست ہو جاتا تھا کہ شہریت ریچھ راخس بنے بھینکر دماغ کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائے۔

سب رنگ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اس میں ترجمے تو چلیں ٹھیک ہی ہوتے تھے، لیکن جو اپنے ادیبوں کی کاوشیں ہوتی تھیں ان میں جمہوریت، قانون، حقوق اور شہریت پر اتنا ارتکازِ فکری نہیں ہوتا تھا۔ شدھی شرتی، پرش پراکرتی، چین پراچین، ریتی رواج اور پرم پرا کی ہی عظمت سازی کی جاتی تھی۔

مثال کے طور پر جمیلہ ہاشمی کی دو کہانیاں دو شماروں میں چھپی تھیں۔ ایک میں انتقام کی عظمت سازی، اور دوسری میں زبر دستی کی شادی کی عظمت سازی کی ہوئی تھی۔ منشی پریم چند چَھپتے تھے، اور ان کا گاندھی وادی پروجیکٹ تھا، اس میں بھی شدھی، شرتی، پرش پراکرتی، چین پراچین ریتی رواج اور پرم پرا کا بہت پالن کیا جاتا تھا۔

بلونت سنگھ اور اسد محمد خان کے بھی اسی قسم کے افسانے ہوتے تھے۔ افسانے اچھے ہوتے تھے لیکن جدت اور جمہوریت کے حوالے سے ماحول مدافعانہ ہی تھا۔ وہ ماحول اب بھی موجود ہے، اس لیے جدت اور جمہوریت کی کچھ خاص ترویج نہیں ہو پاتی۔

شکیل صاحب کی اپنی داستان تو نثر نگاری کا بہت اعلیٰ نمونہ تھی، لیکن بد معاشی کی ہی عظمت سازی کرتی رہتی تھی۔

اور شوکت صدیقی صاحب کی جانگلوس بھی غریب بد معاشوں کی ہم درد تھی اور امیر بد معاشوں سے نفرت میں مبتلا تھی۔

ایک اور کہانی بھی ہوتی تھی، امبر بیل اس میں کوئی کنہیا تھے جو گوپیوں کے ساتھ راس بھی رچاتے تھے اور آزادی کا یُدھ بھی لڑتے تھے اور اس سلسلے میں دیویاں اور اپسرائیں ان کی مدد گار ہوتی تھیں۔

ثقافت کے حوالے سے رومانویت کی عظمت سازی اور جدت اور جمہوریت سے گریز کے حوالے سے بہت سارا مواد سب رنگ میں چھپتا تھا۔

لیکن  ترقی یافتہ جمہوریتوں کے فکشن کے ترجمے کچھ توازن بنا دیتے تھے۔ بَہ حیثیت مجموعی رسالے کا معیار کافی بہتر تھا اور معاصروں کے مقابلے میں تو بہت ہی زیادہ بہتر تھا۔