مبارک ہو، مبارک ہو آئی ایم ایف اور امریکہ آ گئے ہمارے نیچے 

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

مبارک ہو، مبارک ہو آئی ایم ایف اور امریکہ آ گئے ہمارے نیچے 

از، یاسر چٹھہ 

ہمارا وطنِ عزیز پاکستان اس وقت معاشی stress میں ہے۔ سیلابوں نے بھی بُھرکس نکال دی ہے۔ پہلے ہمارے با اختیار افراد کی عیاشیوں نے ہمارا آٹا مَیدہ بنا دیا ہوا تھا۔ 

ریاستِ مدینہ بنانے والے ٹھیکے دار کی حسبِ ذائقہ اندھیرے والی شاموں، زیتون کے تیل کے چراغوں تلے حسبِ منشاء اندھیرے والی راتوں کے رازوں کا بھی اُمّت کوئی خاص پردہ رکھنے کے مُوڈ میں نظر نہیں آتی۔ 

ٹھیکے دار عمران خان علیہِ ٹیلی تھانے دار ہی تھا جو دعا اور دارُو سے ڈالروں کی چہل پہل کرا دیتا۔ 

ریشنلٹی پسند لبرل کہتے ہیں کہ خدا مدد نہیں کرتا، اپنی مدد خود آپ کرنا پڑتی ہے۔ 

ہم یعنی ادارہ لبرلوں کی اس نیچر پرستی کو اپنے جوتے کی نوک اور پاپوش کے تسموں پر لکھتے ہیں۔

اے لبرلانِ اُمتِ مرحوم، اے منافقانِ در آمد، دیکھا ناں، کیسے مِلا  خزانہ چھپّر پھاڑ کے؛ کیا وہم و گماں میں بھی تھا کسی کے؟ 

نہیں ناں۔ بس ایسے ہی ہوتا ہے حاسدو، ایسے ہی ہوتا ہے۔

تو اب تمھارا اپنا حقِ انتخاب ہے: خوش ہو جاؤ، خرم ہو جاؤ، یا پھر حسد کی آگ میں جلنا ہی تمھارا نصیبا ہے تو بھلے جلتے رہو۔

بزنس پلان ہے کیا جس پر ہم اس قدر شاداں و فرحاں ہیں؟

بتاتے ہیں۔

یہ بات اب کوئی سر بستہ راز نہیں رہا کہ امریکہ دریافت کرنے کے پیچھے فارمولا کہاں سے مِلا۔ سو، ان اطلاعات کو ذہن میں رکھتے ہیں۔

ان حالات میں #ادارہ کی نظر میں سرمایے داروں کے سُرخیل امریکہ سے نہجُ البلاغہ کے سبب دریافت کا جِزیہ لینا ہمارا حق بھی بنتا ہے، اور تقاضۂِ عصر بھی۔ 

کولمبُو نے اپنا نام بدل کر بے شک کولمبس رکھ لیا ہو گا، مگر مؤمن کی نظر سے کہاں بچتا تھا۔ جلوۂِ فرنگ ہمارے حکیموں کے آگے کیا بیچتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔

کچھ شکوک و شبہات اور دوسرے دعوے داروں کو ذرا چُٹکی مار کر سائیڈ پر کر لیتے ہیں۔

 تو واضِح رہے کہ ایران نہجُ البلاغہ کے انٹلیکچُوئل پراپرٹی رائٹس میں حصہ نہیں مانگ سکتا۔

کیوں؟

 پہلی بات: اس دانائے راز ذاکر ذات  کا گوندل جٹ ہے، کوئی گیلانی، اصفہانی، مشہدی وغیرہ نہیں؛ مطلب نعوذ باللہ مِن ذالِک راز کو طَشت اَز بام کرنے والا ذاکر کوئی سید زادہ نہیں۔ 

جٹ قوم، ملک، سلطنتِ پنجابیان، یعنی پاکستان کے اصلی دیسی گھی پر پَلے وارث ہیں۔ اسلام کا قَلعہ پاکستان ہے، کوئی ایران یا سعودی عرب نہیں کہ جو ہمارے انٹلیکچُوئل کاپی رائٹس پر آڑی تِرچھی نظر کرے، یا مُنھ سے لُعاب گرائے؛ لا رَیب کہ قلعۂِ اسلامی کے patents وطنِ عزیز پاکستان کے پاس ہیں۔ 

اگر کوئی قَلعۂِ اسلامی ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے تو ہمارے سوال کا جواب دے: وہ بتائے کہ اس ضابطۂِ حیات کی خاطر ہم نے کتنے بچے پیدا کیے اور ان کے ختنے کروانے کے بعد راہِ حق میں ان کے سر کَٹوائے اور اس دوران کچھ کاٹے بھی۔ تو کسی ایرانی یا حجازی نے کوئی دعویٰ وغیرہ کیا تو آیا جے فیر یوتھ-غوری! 

 ہم نے تو سرمایہ داروں سے ابھی کلائمیٹ چینج کا تاوان بھی ابھی نہیں  لیا۔ لیکن امریکہ آیا نہ اب ہمارے نیچے۔ اسے چلو تھوڑا ری شیڈیُول کر لیتے ہیں۔ کہیں سارا یورپ اور امریکہ ڈیفالٹ نہ کر جائے۔ رحم دل میں کُوٹ کُوٹ کر  بھرا ہے؛ دل پسیج جاتا ہے۔ 

حاصلِ کلام اور ختم شدے کلمات:

اب امریکہ اپنے گماشتے آئی ایم ایف کو منوائے گا یا پھر اسے اپنی دریافت کے کاپی رائٹس ہمیں فوری طور پر دینے پڑیں گے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔