رہنماؤں کے بارے مثبت رویہ

Naseer Ahmed
نصیر احمد

رہنماؤں کے بارے مثبت رویہ

از، نصیر احمد

جو رویہ میرزا رفیع سودا اور میرزا غالب کا خضر کے بارے میں ہے، وہی ہمارا ہمارے رہنماؤں کے بارے میں ہونا چاہیے کہ رہنمائی کا ریکارڈ کیسا ہے؟ پھر دیکھیں گے، ورنہ تم ہم سے زیادہ کہاں کے سیانے؟

ایک تو اس رویے سے کچھ خود اعتمادی کا اظہار ہوتا ہے، کچھ خود پسندی کا بھی کہ خود اعتمادی کے لیے بہت ضروری ہے، کچھ رائے ترتیب دینے کی آرزو کا بھی، جو فیصلے کے لیے ضروری ہےکچھ فیصلے کی خواہش کا بھی، جو کہ جمہوریت کی اساس ہے اور کچھ نئی راہیں دریافت کرنے کی تمنا کا بھی اظہار ہوتا ہے جو کہ انسانیت کی سب سے بہترین شکل ہے۔

رہنماؤں یا کسی کے بارے میں سگ لیلا اور عاجز عاشق جیسا رویہ جمہوریت کے لیے مہلک ہے اور کمپنیوں نے لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان کے بارے میں ایسا ہی رویہ رکھیں کیونکہ حکومتوں نے کمپنیوں کے بارے میں سگ لیلا اور عاجز عاشق جیسا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اور کمپنیاں، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح، اچھائی کی تصنع کرتی ہوئی، آمریت اور بدی کی دوسری اقسام کو فروغ دیتی رہیں۔

حکومتوں نے عوامی مفاد کا خیال رکھنا ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ کمپنیوں کی غلام بن جائیں یا کمپنیوں سے ایسا رشتہ قائم کر لیں کہ ‘ نہ تو تو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی’ تو عوامی مفاد کا ہی نقصان ہو گا۔  کمپنیاں بھی عوامی مفاد کے لیے ضروری ہوتی ہیں، روزگار فراہم کرتی ہیں، کاروبار بڑھاتی ہیں، ملک میں سرمایہ لاتی ہیں لیکن اگر حکومتیں نگرانی معطل کر دیں گی، کمپنیوں سے انسانی جمہوری حقوق کے بارے میں قانون سازی اور عوامی مفاد کے تحفظ کے قوانین پر اصرار نہیں کریں گی، تو کاروبار، روزگار اور سرمایہ کمپنیوں کی آمریت کے اوزار بن جائیں گے۔

مقابلے کا کمپنیاں بڑا پر چار کرتی ہیں مگران کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کی اجارہ داری قائم ہو جائے اور مقابلہ ختم ہی ہو جائے۔ اور جب گٹھ جوڑ کر لیتی ہیں تو حکومتیں بھی ان سے مقابلہ نہیں کر پاتیں۔ بلکہ حکومت کمپنی کی شاخ ہی بن جاتی ہے۔

حکومتوں نے انسانی حقوق اور عوامی مفاد کے اور مجموعی طور پر قوانین پر اصرار کرنا ہوتا ہے اور کمپنیوں سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ کمپنیوں کے مالکان اور کمپنیوں کے کارکنوں کو مسلسل یاد کرانا ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر وہ انسان ہی ہیں اور ان کی انسانی اور شہری ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن ایسے ہوتا نہیں۔ کمپنیاں اگر معاشرے کا مجموعی طور پر بھی استحصال کریں، تب بھی حکومتیں ان کا ساتھ دیتی ہیں اور اگر کمپنیاں اپنے کارکنوں کا استحصال کریں تب بھی حکومتیں ان کا ساتھ دیتی ہیں اور جب احتساب نہیں ہو پاتا تو آمریت ایک ثقافتی مقصد بن جاتی ہے۔

صدر ریگن بڑے گلے کیا کرتے تھے کہ عالمی حکومتی رویے سرمایہ کاری اور سرمایہ داری کے خلاف ہیں لیکن سرمایہ کاروں کا فلسفہ یہی ہوتا ہے کہ منافع، قبضے اور اجارے کے لیے سب کچھ اور حکومتوں نے پوری کوشش کرنی ہوتی ہے کہ منافع بھی قوانین کی حدود میں رہے اور قبضہ اور اجارہ تو بالکل ہی بن نہ پائے۔

انسان اپنی عزت کرنا چھوڑ دیں (دوسروں کے احترام کی بنیاد دراصل اپنا احترام ہے) اور حکومتیں اپنی حکومت کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں در اصل دو بڑے المیے ہوتے ہیں۔ اور ایک ساتھ رونما ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے دولت اور طاقت کا استحصال ہی ہوتا ہے اور کمپنیوں نے جب سے حکومتی نگرانی کے قوانین ہٹائے گئے ہیں یہی ڈگر آباد کی ہے اور جس کے نتیجے میں انسانیت کی ایک بہت بڑی تعداد سگِ لیلا اور عاجز عاشق کو بطور اوزار استعمال کرتے ہوئے جابر اور قاہر بننے کو زندگی کے معانی سمجھتی ہے۔ حکومت اور سرمائے کی آپس میں کشاکش اور تنا تنی ضروری ہے۔ کمپنیوں نے معاہدات کے دوران منافع، اجارے اور قبضے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے اور حکومتوں نے جمہوری حقوق، جمہوری نظام اور عوامی مفاد کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔

لیکن حکومتیں تو یہ مقابلہ کرنے کی ہمت کھو بیٹھی ہیں۔ اگر کچھ ہمت جاگے تو میڈیا اسے سلا دیتا ہے۔ اگر کوئی فرد جسے عوامی مفاد عزیز ہو اور عوامی نمائندگی کا خواہاں ہو، ادھر نمائندگی کی آرزو کرے، ادھر اس کی کردار کشی شروع ہو جاتی ہے، اس کی ذاتی زندگی پر تنقید کی جاتی ہے اور اس کے خلاف ایک عوامی فضا قائم کر دی جاتی ہے۔ برطانیہ عظیم کی لیبر پارٹی کے پچھلے لیڈر کے ساتھ یہ سب کیا گیا۔ لیبر پارٹی کے موجودہ لیڈر کے ساتھ بھی یہی کیا جا رہا ہے کیونکہ ان رہنماؤں کی عوامی مفاد کے تحفظ کی خواہش کمپنیوں کو پسند نہیں۔

اس کا بنیادی حل تو شہری ہیں، اگر کمپنیاں، میڈیا اور آمریتیوں کے ذریعے آپ کی شخصیت کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہیں۔ یعنی کمپنیوں کو رہنمائی کے طور پر ایسے آمر چاہیے ہوتے ہیں جن کے ارد گرد دانائی کی پارسائی کا ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ ان کے احتساب کے بارے میں اشارہ کنایہ بھی ممکن نہیں ہوتا۔ رہ نما ظلم و زیادتی کرتا رہتا ہے اور پیرو ظلم و زیادتی دیکھتے رہتے ہیں کہ کہیں ہم سفری سے محروم نہ ہو جائیں اور کبھی ہولے سے بھی کچھ پوچھ بیٹھیں تو مصلحت کے افسانے پھیلا دیے جاتے ہیں۔ اب غالب چاہے اپنی رسوائی پر اپنی ہی ملامت کرتا رہے لیکن اس میں اتنی ہمت تو تھی کہ کچھ خود سے سوچ سکے۔ اس لیے اس نے رہنمائی پر اعتراض کرنے شروع کر دیے اور سودا کا تو طنطنہ ہی اور تھا، وہ بھی رہنمائی کی حقیقت جان گئے۔

اس آمر کی خدمت کے لیے کمپنیوں کو کارندے چاہیے ہوتے ہیں جن کی ترقی کا دارومدار سگ لیلا اور عاجز عاشق کا کردار کمپنیوں کے متعین کردہ آمروں کی رضا کے مطابق نبھانے پر ہوتا ہے۔ اگر لوگ یہ سب بننے سے انکار کر دیں تو حکومتوں کو کچھ توانائی ملے اور وہ کمپنیوں سے بہتر طریقے سے معاملات طے کر سکیں۔ لوگوں کو شہریت کی طرف لوٹنا چاہیے کہ اگر وہ اچھے شہری ہوں تو وہ کمپنیوں، حکومت اور عوامی مفاد کے درمیان ایک انصاف پسندانہ سمجھوتا قائم کر سکتے ہیں۔

شہری یہ سب کچھ عوامی نمائندوں کے ذریعے کرتے ہیں اس لیے عوامی نمائندوں سے عقیدت اور غلامی کا رشتہ نہ رکھیں کیونکہ اگر انھیں آپ پر ایسی طاقت حاصل ہے تو وہ طاقت کا غلط استعمال کریں گے اور آپ کی عقیدت اور غلامی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کریں گے اور کمپنیوں سے بھی اتحاد کر لیں گے جس کے نتیجے میں آپ دونوں کا احتساب نہیں کر پائیں گے اور احتساب کی عدم موجودی میں وہ حکومت اور نمائندگی کی ذمہ داریاں نہیں ادا کریں گے۔