افسانہ پہچان از ماہ وش طالب

ماہ وَش طالب
ماہ وش طالب

افسانہ پہچان

از، ماہ وش طالب

گرمی کی تپش سے تارکول کی سڑک جلتا انگارہ بنی ہوئی تھی۔ گاڑی کا اے سی بند کیا ذرا دیر کو تو یوں لگا جیسے سورج بابا نے زُوم کر کے مجھے ہی فوکس کیا ہوا ہے۔ آج پُھپّو کی ساہی وال سے واپسی تھی۔ لہٰذا میں آفس سے جلدی اٹھ گئی، ضروری رپورٹ تیار کر کے میں نے کمپوزنگ کا کام شائستہ کو سونپ دیا۔

گھر پہنچ کر پھپّو کا کمرہ بھی صاف کروانا تھا، کھانا بنانا تھا۔ وہ ہفتہ پہلے اپنی خالہ زاد کے یہاں گئی تھیں، شام تک انھوں نے پہنچ جانا تھا اور ان کے آنے سے پہلے مجھے گھر کو نک سک سے تیار… میرا مطلب ہے صاف ستھرا کرنا تھا۔

ویسے تو پھپھّو کی موجودگی میں مجیدہ آ کر کام کرتی تھی لیکن ان کی غیر موجودگی میں، مَیں نے اسے چھٹّی دی ہوئی تھی اور آج کے دن ہی وقت پر آنے کا کہا تھا۔

گاڑی پوش علاقے میں داخل ہوئی۔ یہاں سب ہی بنگلوں کا طرزِ تعمیر تقریباً ایک جیسا تھا، مگر رقبے کے اعتبار سے ہمارا گھر نسبتاً چھوٹا تھا۔ لیکن دو افراد کے لیے تو یہ بھی بڑا لگتا۔ تپتی دوپہر میں سب ہی اپنے گھروں میں پڑے اونگھ رہے تھے۔

میں نے جونھی مطلوبہ بلاک کی طرف گاڑی موڑی، کوئی تیزی اور بے دھیانی سے بھاگتا میری گاڑی سے ٹکرا کر نیچے گر گیا۔ اگر میں بر وقت بریک نہ لگاتی تو اس کا کام تمام ہو جاتا۔ گاڑی سے باہر نکل کر میں نے گرنے والی لڑکی کو اور اس کے پاؤں پر آئی خراشوں کو دیکھ کر سوچا، وہ درد سے کراہ رہی تھی… جانے کیوں مجھے لگا کہ لڑکی کے ٹکرانے سے پہلے کوئی اور بھی کالونی میں داخل ہوا تھا اور پل بھر میں ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

خیر میں سر جھٹک کر دوبارہ لڑکی کی طرف متوجُّہ ہوئی جس کے ٹخنے سے اب خون بہہ رہا تھا کیوں کہ خراشیں گہری تھیں۔

میں نے سہارا دےکر اسے کھڑا کیا اور گاڑی میں بٹھایا۔ لڑکی کو فوری طور پر ابتدائی طبی امداد کی ضرورت تھی۔ میں اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی… وہ سولہ ستّرہ برس کی لڑکی نجانے کیوں مجھے اتنی معصوم اور پیاری لگی۔


مرہم پٹی او ر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں نے اس سے کچھ رسمی اور ضروری سوالات کیے اور میں جو یہ سوچ رہی تھی کہ اس لڑکی جس کا نام ثمن تھا نے ایک بار بھی مجھے اپنے گھر جانے کا نہیں کہا تو مجھے اپنے سوال کا جواب اس کے انٹرویو کے دوران مل گیا۔

اس میں اور مجھ میں پہلی اور سب سے اہم چیز مشترک نکلی، بس فرق اتنا تھا کہ ثمن کے ماں باپ دنیا چھوڑ جانے کے بعد ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے اور میرے والدین نے ہجر کی فصل کاٹنے کے بعد جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ یعنی میں ایک بروکن فیملی کا بکھرا ہوا ٹکرا تھی۔ تب ہی ثمن مجھے پہلی نظر میں اپنی اپنی سی لگی۔ اس نے اپنی نم ناک آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے جن رشتے داروں کے ہاں عرصے سے رہ رہی تھی ان کے بیٹے نے اس کے ساتھ بد تمیزی کرنے کی کوشش کی… ’’اب کیا ہو گا اس کا‘‘… میں نے سوچا، شام کے پانچ بج رہےتھے، پھپّو بھی بس آنے ہی والی تھیں۔

میں نے ایک نظر اس کے حلیے پر ڈالی، گندمی رنگت اور غزالی چہرہ، صاف ستھرے کپڑے پہنے وہ نظریں جھکائے، دودھ کے خالی گلاس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا۔ بس پھپّو کی ناراضی کا خوف تھا… مگر انھیں بھی کسی نہ کسی طرح میں نے منا ہی لینا تھا۔ میں نے اس لڑکی کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

’’لڑکی تم ہوش میں ہو، میں چار دن گھر سے کیا گئی تم نے تو اسے سرائے ہی بنا ڈالا۔‘‘ جس غیظ و غضب کا مجھے امکان تھا، پھپّو کے منھ سے وہی اُمڈ رہا تھا۔ جانان پھپّو! آہستہ، وہ ساتھ والے کمرے میں ہے سن لے گی،‘‘ میں ملتجی ہوئی ’’مجھے پروا نہیں… حد ہے، تم تو بالکل ہی ننھی بچی ہو ابھی تک، میں نہ ہوں تمھیں سمجھانے کے لیے تو یہ دنیا چار دنوں میں پیروں میں مسل کر رکھ دے۔

دو دن رکھنا اور بات ہے، ساری زندگی کے لیے رکھنا اور بات، نہ بچی کا آگا پیچھا، کیا سچ، کیا جھوٹ، کچھ بھی تو نہیں معلوم۔‘‘ غصے میں ان کی بڑی آنکھیں اور بھی کُھل جاتیں، رات کے کھانے کے بعد وہ کچھ دیر واک کرنے کی عادی تھیں، مگر اس ہنگامے میں انھوں نے اپنی روٹین کو بھی پسِ پشت ڈال دیا اور ویٹنگ روم میں میری شامت آئی ہوئی تھی۔

’’پیاری پھپّو ! پلیز سوچیں آپ کا بھی تو فائدہ ہے، سارا دن آپ گھر میں تنہا رہتی ہیں۔ اچھا ہے کمپنی ہو جائے گی،‘‘ میں نے مکھن لگانا چاہا، لیکن وہ نہ مانیں، جانے انھیں کس چیز پر زیادہ اعتراض تھا، ثمن کو گھر لانے پر، میری بے وقوفیوں پر یا ثمن کے ہاتھوں بدھو بننے پر؟ غرض کہ انھوں نے سینکڑوں اعتراض کیے اور میں نے ہزاروں دلائل دیے اور آخر میں فیصلہ میرے حق میں ہی ہوا۔

پھر آنے والے دنوں نے بتایا کہ میرا یہ فیصلہ کچھ زیادہ غلط بھی نہ تھا۔ پھپّو نے زبانی تو نہیں… لیکن اپنے انداز سے اس کا اظہار ضرور کیا تھا۔ اب میں گھر جاتی تو گھر کا گیٹ لاکڈ ملتا، کال کرتی تو معلوم ہوتا کہ محترمائیں بازار کی دھول چاٹنے گئی ہیں، چار ماہ تو گذر گئے تھے، ثمن کی پہلی والی ہچکچاہٹ بھی جاتی رہی… یوں بھی اس گھر میں کوئی مرد تو تھا نہیں جس سے زیادہ مسئلہ ہوتا۔

بے اولادی کے غم نے پھپّو کو مجرم ٹھہرادیا تھا، شادی کے محض چار سال بعد وہ طلاق لے کر اپنے بھائی کے ہاں آ گئیں… وہ بھائی جو اپنے ہی چکروں میں پڑے تھے بہن کی کیا پروا کرتے، بس یہ احسان کیا کہ گھر امی اور پھپّو کے نام لگا کر اپنی امیر ترین بیوی کے ہم راہ رخصت ہو گئے اور امی بے چاری اس جھٹکے کو سہار نہ پائیں… بس پھر اس کے بعد سے میں اور جانان پھپّو ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔

’’مدحت باجی! ایک بات پوچھوں؟‘‘ میں اپنے پلنگ پر نیم دراز کتاب پڑھ رہی تھی، جب دوسرے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا… ’’ جی… ضرور‘‘ میں نے کتاب میں غرق جواب دیا… ’’خلیل صاحب کون ہیں؟‘‘ اس کے انتہائی غیر متوقع سوال پر میں نے چونک کر سر اٹھایا، ’’آئی ایم سوری! میں نے اس دن آپ کی اور پھپّو کی باتیں سن لی تھیں… مجھے لگا آپ مجھے بھی اس بارے میں ضرور بتائیں گی مگر‘‘ وہ شرمندہ شرمندہ سی تھی۔

’’سوری تو تمھیں کرنا چاہیے… لیکن اب آئندہ ایسی حرکت مت کرنا… میں تمھیں بتا دیتی… اگر خلیل کے آنے کا کنفرم ہوتا… خیر… وہ اگلے جمعے کی فلائٹ سے آ رہےہیں اور میں موصوف کی منکوحہ ہوں… یعنی وہ میرے شوہر‘‘ میں نے تحمل سے اسے جواب دیا۔ ’’کیا سچ؟ تو پھر آپ یہاں… ‘‘ وہ ہچکچائی’’ ابھی صرف نکاح ہوا ہے، وہ اپنی پڑھائی مکمل کر لیں اگلے سال پھر ہماری شادی ہو جائے گی۔

خلیل میرے خالہ زاد تھے اور میں میٹرک میں تھی جب ان سے میرا نکاح ہوا، بڑوں کی پسند میں آہستہ آہستہ فریقین کی پسند بھی گھل گئی۔ خلیل کیمیا میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ امید تھی کہ رواں سال انھیں ڈگری مل جائے گی۔ میرے تفصیلات بتانے پر وہ پہلے شرمائی پھر مطمئن ہوئی اور بعد میں مجھے گلے لگا کر ڈھیروں مبارک باد دی تھی.

ہم دونوں ٹیرس پر بیٹھے شام کی چائے اور سہانے موسم کا لطف لے رہے تھے، خلیل کو مہینہ ہو چلا تھا پاکستان آئے مگر چار دن قبل ہی لاہور آئے تھے اور ہمیں آج موقع ملا تھا بیٹھ کر بات کرنے کا۔ ہجر، وصل، پڑھائی، سیاست، فنکشن، جرمنی کے احوال، شوبز پر بات کرنے کے بعد جب سارے موضوع ختم ہو گئے تو انھوں نے ایک غیر معمولی بات کہہ دی: ’’اس لڑکی کو بھیج دو یہاں سے!‘‘

کپ میرے ہاتھ سے پرچ میں لڑھک سا گیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

’’کیا تم کچھ ہونے کا انتظار کر رہی ہو؟‘‘ وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہے تھے اور میں کچھ نہ کہہ سکی۔ ’’تم کیسے کسی کی ذمے داری لے سکتی ہو؟‘‘

 ’’آپ بھی پھپّو کی طرح بات کر رہے ہیں، ٹھیک ہے لیکن دیکھیے گا بعد میں آپ ہی میرے فیصلے کو سراہیں گے‘‘ میں نے تیز لہجے میں دفاع کیا۔ ’’پھپّو تمھاری طرح بے وقوف ہو سکتی ہیں مگر میں نہیں۔‘‘ ’’خلیل!‘‘ مجھے پھپو کے لیے ان کا اس طرح بات کرنا اچھا نہ لگا۔

’’دیکھو مدحت… تم مجھے انسانیت کے لیکچرز مت دینا شروع کر دینا… ‘‘

’’اب تم یہی سوچ رہی ہو نا کہ میں بہت خود غرض ہوں اور تمھیں مجھ سے یہ امید نہ تھی۔‘‘ میرے سپاٹ انداز کو دیکھ کر وہ پھر سے گویا ہوئے اور صحیح اندازے لگا رہے تھے۔

سفید نظر کا چشمہ لگائے، تراشے ہوئے کالے بال، خاکی جینز اور نیلی ٹی شرٹ پہنے وہ پروفیسر لگ رہے تھے۔ ان کا بات کرنے کا انداز بھی افسرانہ ہوتا تھا، وقفے وقفے سے ہاتھوں کو ضرورت کے مطابق دائیں بائیں حرکت دیتے ‘‘وہ پیاری سی بچی ہے، تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے اس نے!‘‘ میں نے چڑ کر پوچھا۔

’’بچی؟ مانا کہ تمھاری اور اس کی عمر میں کافی فرق ہے اور حالات نے تمھاری سوچ کو بہت پختہ کر دیا ہے مگر اسے بھی کم از کم بچی نہ کہو۔‘‘

’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں کہ کیا ہو سکتی ہے وہ… کوئی چور، کوئی غلط حرکت کی ہو گی اس نے؟ اگر فرض کریں اس نے ایسا کیا بھی ہو تو… اب تو وہ بدل گئی ہے نا… نارمل لڑکی بن گئی ہے… ہم نے اسے جو پیار دیا ہے، تحفظ فراہم کیا ہے… وہ اس کا regard (مان) رکھتے ہوئے کم از کم دوبارہ تو کوئی بری حرکت نہیں کرے گی نا‘‘ میں نے اس گفتگو سے جان چھڑانی چاہی۔ ’’یعنی تم مانتی ہو کہ وہ غلط بھی ہو سکتی ہے‘‘ وہ جیسے مجھے چیلنج کر رہے تھے۔

’’اُف؟‘‘

’مدحت عادتیں بدلی جا سکتی ہیں مگر فطرت نہیں۔ جو بھی ہو انسان دوبارہ اپنی فطرت پر ضرور پلٹتا ہے… زہریلا انسان ڈسنے سے باز نہیں رہ سکتا۔‘‘ خلیل کیا کہنا چاہتے تھے میں سمجھ نہیں پا رہی تھی مگر ان کے لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ میرا دل ڈر گیا۔

’’میں ایک جنرل بات کر رہا ہوں، تم جیسی بُدھو کے کام آئے گی‘‘ مجھے گُم صُم دیکھ کر انھوں نے اگلی بات کہی…

میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہی تھی کہ ثمن اب پہلے کی طرح ایکٹو نہیں رہتی تھی؛ خاموش، کہیں خیالوں میں گم… پھپّو اسے مشکوک نظروں سے دیکھے جاتیں… میں نے آفس سے بھی کچھ چھٹیاں لے لی تھیں… پہلے مجھے خیال آیا کہ شاید خلیل کی وجہ سے کتراتی ہے… مگر دو دنوں بعد جب میں نے اس سے بَہ راہِ راست بات کی تو اس نے مجھے چونکا دیا:

’’باجی میں اپنی چاچی کے گھر واپس جانا چاہتی ہوں‘‘ وہ دھیمے لب و لہجے میں بولی۔

’’مگر کیوں… ایسے اچانک؟‘‘ مجھے گمان گذرا کہ کہیں خلیل نے کوئی برا رویہ نہ اپنایا ہو اس کے ساتھ۔

’’اپنے گھر تو جانا ہے نا… وہ جیسے بھی لوگ ہیں مگر میرے باپ کا حصہ بھی ان کے پاس ہے… ‘‘ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی میں شاید سمجھ چکی تھی… میں نے اسے کئی طرح سے روکنے کی کوشش کی مگر پھپّو اور خلیل کی وجہ سے اس کوشش میں کام یاب نہ ہو سکی اور وہ بھی جیسے ٹھان چکی تھی…

ثمن نے بتایا کہ گھر کے لینڈلائن سے اس نے اپنے چچّا کو فون کر کے اپنے بارے میں بتایا تھا اور اب وہ کل پرسوں تک یہاں آ جائیں گے۔

مجھے نہ جانے کیوں اس وقت خلیل کی باتیں درست لگیں… حالاں کہ اس بات سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہ بنتا تھا کہ آخر کو اپنا گھر تو اپنی جنت ہی لگتا ہے… اور پھر دو دن بعد سب کچھ بھلا کر اس وعدے پر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو الوداع کہا کہ ہم رابطے میں رہیں گے، ایک دوسرے کو بھولیں گے نہیں… پھپّو بھی کچھ اداس، کچھ مطمئن سی تھیں۔

جاتے ہوئے اس نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا مگر اس کی نظروں کا نشانہ میں نہ تھی… میں نے حیرانی سے پیچھے مڑ کر دیکھا… خلیل بھنویں چڑھائے سامنے دیکھ رہے تھے۔ میں کچھ سمجھ نہ سکی۔

اگلے پانچ سالوں میں زندگی بہت بدلی تھی… مگر شگفتگی بھی قائم تھی… میں خلیل کے ساتھ اس کے گھر میں تھی… خالہ اور مینا لڑاکی نہیں تھیں… گھر کی فضا پُر سکون تھی… کراچی جا کر بھی میں نے جاب جاری رکھی… خلیل کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ تھی… یوں بھی وہ یونی ورسٹی میں پڑھاتے کھپتے رہتے… سو اس طرح وقت اچھا گزر جاتا تھا… اس دن میں نے مجتبیٰ کا اسکول میں ایڈمیشن کروانا تھا لہٰذا خالہ کو ساتھ لے کر نکل گئی…

گاڑی اشارے پر رکی تو مارے کوفت کے نظریں سڑک پر دوڑانا شروع کر دیں، ویسے بھی کراچی آ کر ٹریفک کے قانون کی پابندی کی عادت ختم ہو گئی تھی… میری دوڑتی نظریں کسی شناسا کو دیکھ رہی تھیں۔ میں نے یقین کرنا چاہا کہ یہ ثمن ہی ہے: بڑی سی گاڑی میں کسی بڑے سے مرد کے ساتھ بیٹھی وہ ’’ثمن‘‘ ہی تھی… وہ ترچھے رخ سے مجھے نظر آ رہی تھی… مگر پھر… اشارہ کھل گیا اور سڑک پر گاڑیوں کا سیل رواں ہو گیا…

میں حیران تھی مگر پُر جوش بھی: حیران اس لیے کہ وہ کراچی کیسے پہنچ گئی اور پر جوش اس وجہ سے کہ یقیناً اس کی شادی ہو گئی تھی… میں نے رات کو خلیل سے ذکر کیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ میری طرح سے ہر گز رد عمل ظاہر نہیں کریں گے… ’’اب پلیز تم اس کو ڈھونڈنے مت لگ جانا دیکھ لیا نا وہ خوش ہے… اس نے تمھیں بھی نہیں بتایا کہ وہ کراچی آئی ہوئی ہے۔‘‘

خلیل صحیح کہہ رہے تھے ان پانچ برسوں میں میرا اس سے کوئی بھی رابطہ نہیں ہو سکا تھا… وہ اپنے ساتھ شاید تعلق کے سارے دھاگے بھی اکٹھے کر کے لے گئی تھی۔ میں نے خاموشی سے رخ پھیر لیا… آنے والے دنوں میں تقریباً اس بات کو بھول چکی تھی۔ یوں بھی مصروفیت کہتی تھی کہ حال میں زندہ رہو۔

میں مجتبیٰ کو لے کر مال کے لیے نکلی تھی، کافی مہینوں سے شاپنگ کا پلان بنایا ہوا تھا جو ہر بار ملتوی ہو جاتا… گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر کے میں دوسری طرف سے مجتبیٰ کو نکال کر مڑی تو ایک بار پھر ساکت رہ گئی… وہ ثمن تھی… پہلے سے بھی زیادہ بڑی گاڑی میں پہلے سے بھی زیادہ بڑی عمر کے آدمی کے ساتھ۔

مجھے اچنبھا ہوا… اور ایک منٹ کی بھی تاخیر کیے بغیر اس کی جانب لپکی… اور وہ مجھے دیکھ کر… میں جو سوچ رہی تھی، خوشی سے مجھ سے لپٹ جائے گی… وہ مجھے دیکھ کر پل کے پل ساکت ہوئی، آنکھوں میں شناسائی کی رمق ابھری اور اگلے ہی پل… اس کی آنکھوں کا رنگ بدل گیا… ’’ثمن‘‘ پہچانا نہیں… میں تمھاری مدحت باجی!‘‘ میں ڈھیٹ بن گئی… ساتھ کھڑا آدمی کبھی مجھے اور کبھی ثمن کو دیکھتا۔

“کون مدحت باجی؟… معذرت… میں نے پہچانا نہیں‘‘ اس نے کب کی جھکی نظریں اٹھائیں اور سپاٹ لہجے میں کہا… میں نے غور سے اسے دیکھا تھا… وہ پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت ہو گئی تھی… مگر وہ معصومیت جس کی خاطر… جس پر ریجھ کر میں نے پھپّو اور خلیل کے سب اندازوں کو غلط ثابت کرنا چاہا، وہ پیاری ادا کا شائبہ دور دور تک نہ تھا… اور اس کی آنکھیں… جو ہمیشہ جھکی رہتی تھیں آج پہلی بار میں نے ان آنکھوں میں جھانکا… اور مجھے افسوس ہوا کہ کاش یہ آج بھی یہ جھکی رہتیں یا میں ہی اپنی آنکھیں بند کر لیتی… وہ غلاظت اور مکاری اور جو میں کبھی دیکھ نہ پائی تھی… آج ثمن کی آنکھوں سے صاف جھلک رہی تھی۔

میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔

’’اوہ کوئی بات نہیں… مگر میں نے آپ کو اچھی طرح ’’پہچان لیا ہے۔‘‘ میں کہہ کر رکی نہیں تھی مجتبیٰ کا ہاتھ پکڑ کرمیں اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔

گھر پہنچنے تک میرا دماغ بالکل ماؤف ہو چکا تھا، جو اس وقت مختلف خیالات کا جنگل بن چُکا تھا۔ مجھے اپنی سماعت و بصارت پر یقین نہ آ رہا تھا، میں جسے اس کی شادی سمجھی تھی وہ اس کا ’’پیشہ‘‘ تھا… اور اس سب کا ذمے دار کون تھا… ؟

میرے ذہن میں پرانی باتیں اور واقعات چکر پھیریاں کھانے لگے۔ ثمن کے آنے کے ایک ماہ بعد ہی میں نے اس سے تعلیم حاصل کرنے کا کہا تھا… مگر وہ جیسے خاموش ہو گئی تھی… اس نے نظریں چرا لی تھیں… مجھے محسوس ہوا کہ اسے میری یہ تجویز پسند نہیں آئی…

اور پھر جب خلیل لاہور آئے ہوئے تھے، ایک شام جب میں آفس سے لوٹی تھی… گیٹ کی ڈپلیکیٹ چابی میرے پاس ہی ہوتی تھی۔ لاؤنج میں پہنچی تو خلیل صوفے پر بیٹھ کر پانی پی رہے تھے، مجھے دیکھ کر چونکے، ’’کیا ہوا‘‘ میں حیران ہوئی ’’ارے کچھ نہیں… میں تمھیں پک کرنے کے لیے نکلنے والا تھا… تم آ ہی گئیں‘‘ انھوں نے جواب دیا۔

میں نے خلیل کے گلاس پکڑے ہاتھ میں ذرا کی ذرا لرزش دیکھی تھی… وہ عام طور پر اس وقت گھر نہیں ہوتے تھے… جتنے دن وہ یہاں رہے پڑوس کے مجاہد بھائی کے ساتھ کلب چلے جاتے، پھپّو حسبِ معمول اونگھ رہی تھیں۔

’’مجاہد اپنی بیگم کے ساتھ گیا ہوا ہے… سو… ‘‘ میرے سوالیہ انداز سے دیکھنے پر انھوں نے اپنے اس وقت یہاں ہونے کی وضاحت دی… یہ سب نارمل تھا… میں نے اس لیے غور نہیں کیا… تب بھی نہیں جب میرے کمرے میں پلنگ پر ثمن مُنھ سر لپیٹے پڑی تھی… آہٹ پر اس نے چونک کر دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر لیں… میں نے کندھے اچکائے اور چینج کرنے چلی گئی۔

واپس آئی تو وہ اٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی… اس کی آنکھیں لال تھیں، میں نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا جلدی سے قریب آئی، اس کا ماتھا چھوا جو تیز حرارت سے تپ رہا تھا… ’’صبح سے ہی بخار ہے ہلکا ہلکا… دو ا لے لی ہے آپ فکر نہ کریں،‘‘ اس نے کھوئے سے انداز میں وضاحت دی تھی۔ اور اب مجھے ہر بات دُہری گہرائی کے ساتھ یاد آ رہی تھی۔ جب اتنے برسوں بعد وہ اس روپ میں میرے سامنے آئی کہ مجھے اپنا آپ مجرم سا محسوس ہونے لگا۔

وہ اپنوں کی جن درندگیوں سے بھاگتے بھاگتے مجھ سے ٹکرائی تھی، میرے گھر میں بھی وہ اسی کا نشانہ بنے والی تھی، جہاں میں اپنے تئیں سمجھ رہی تھی کہ  وہ بالکل محفوظ ہے۔ یہ میری مردوں کے حوالے سے “ادھوری پہچان تھی”… اور خلیل… جو ہے تو ایک مرد… اور مرد کی عادتیں بدلی جا سکتی ہیں… مگر فطرت نہیں…

اسی مرد نے ایک مظلوم اور کم زور عورت کو تنہا پا کر اپنی اصلیت دکھانے میں جھجک نہ دکھائی، اور وہ کم زور عورت، ثمن جو ایک پناہ گاہ میں خود کو محفوظ اور با عزت سمجھنے ہی لگی تھی، خلیل جیسے مرد نے اپنی “ادھوری پہچان” مکمل کروا کے اس سے اس کی ذات کا وقار بھی چھین لیا… اور نتیجتاً ثمن نے معاشرے کو وہی لوٹانے کا سوچا جو  معاشرے نے اسے تحفتاً دیا تھا… نسلیں یوں بھی تو برباد ہوتی ہیں  جب ایک مرد کا “گناہ” عورت کو “مجرم” بنا دیتا ہے۔