مقامی لبرل تحریروں کا فارمولا بارڈ (ولیم شکیسپئیر) کی زبانی

Naseer Ahmed
نصیر احمد

مقامی لبرل تحریروں کا فارمولا بارڈ (ولیم شکیسپئیر) کی زبانی

از،  نصیر احمد

بی بی سی اردو میں لکھنے والے بھی سکھانے پڑھانے کی بجائے قارئین کو زیادہ تر جلی کٹی سناتے رہتے ہیں۔ رنگ برنگی سڑی بسی پھینکتے رہتے ہیں۔ اب تبصرہ پڑھنا تو رشتہ داروں کی محفل جیسا ہو گیا ہے، ہر وقت زہر آلود سے طعنے اور دل جلا دینے والا دشنام۔ کوئی ایک آدھ ہو تو پھر بھی ٹھیک، سب ہی دل جلانے والے ہیں۔ اور پھر کبھی کبھی ہو تو پھر بھی کچھ سہارا ہو، جو بھی لکھتا ہے، شرمندہ کرنے کے لیے ہی لکھتا ہے۔

پھر چونکہ یہ متعفن سی کلبیت مقبول بھی ہے اور اچھے پیسوں کی ضمانت بھی ہے، اس لیے لبرل بلاگوں میں بھی اسی کا رواج ہے۔ پھر بھی شاید ٹھیک ہی ہے لیکن طعنہ زنی کے جوش میں یہ لوگ اپنا کیس ہی بھول جاتے ہیں۔

آج ثمینہ سندھو کی موت کے واقعے پر کسی نے کوئی کالم لکھا ہوا تھا۔ واقعے کی تفصیلات کے بارے میں مصنف کو اتنا یقین نہیں تھا کہ کیا واقعی ثمینہ اس لیے قتل ہوئیں کہ انھوں نے ایک تماشائی کی فرمائش پر کھڑے ہو کر ناچنے سے انکار کر دیا۔ لیکن یہ کہتے ہوئے واقعے کے حقائق اتنے اہم نہیں، انھوں نے معاشرے کو خوب جلی کٹی سنائیں۔ یہاں تک شاید پھر بھی ٹھیک ہے لیکن جب ثمینہ کی نذر یہ شعر کرنا شروع کیے تو ہمیں معلوم ہوا انھیں تو شعر میں ستم کا تاثر فزوں کرنے کی آرزو اس قدر ہے کہ اپنا کیس ہی بھلا دیا۔

وہ حبیب جالب کے شعر تھے۔ ایک ہمیں یاد رہ گیا ہے کہ زرقا فلم کا گانا ہے۔

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پہلے اس بات کو طے تو کریں کہ کیا ان کو واقعی کھڑے ہو کر ناچنے کا حکم دیا گیا تھا، جو انھوں نے نہیں مانا اور اتنی سی بات پر انھیں قتل کر دیا گیا۔ لیکن چند سطریں پہلے اس بات پر آپ خود ہی کوئی حتمی اور یقینی پوزیشن نہیں لے رہے،  تو صرف اپنے شعر کو فٹ کر نے کے لیے بات کی نوعیت کیوں تبدیل کر رہے ہیں؟

اب یہ سادہ سی بات بھی انھیں بتائیں تو ایک کوسنے دیتا کالم ہمارے خلاف بھی آ جائے گا۔

ان لوگوں نے کالم کا ایک فارمولا ترتیب دے لیا ہے جو بارڈ (ولیم شیکسپئیر) کے کھیل میکبیتھ میں ان تین کاہناؤں کی کڑاہی جیسا ہے جو وہ کھیل کے مرکزی کردار میکبیتھ کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اس میں سے یہودیوں،  ترکوں اور تاتاریوں کا ذکر نکال کر اسے رجعت پسندوں، انتہا پسندوں اور اوریا مقبول جان کے ذکر سے تبدیل کرتے ہوئے یہ لبرل کالمی کڑاہی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

اس کڑاہی میں یہ اشیا ڈالیں:

اژدہے کی کھال

بھیڑیے کا دانت

کسی کاہنہ کی حنوط شدہ میت

ایک خون آشام شارک کا نرخرا اور اوجھڑی

رات کی تاریکی میں اکھاڑی گئی زہریلی بوٹی کی جڑ

چاند گرہن کے دوران یو  (yew) درخت کی چھوٹی چھوٹی ڈنڈیاں

کسی رجعت پسند کا جگر

کسی انتہا پسند کی ناک

اوریا مقبول جان کے ہونٹ

کسی بچے کی انگلی جسے اس وقت بچے کے جسم سے کاٹا گیا جب کسی گڑھے میں کوئی رجعت پسند اسے جنم دے رہی تھی۔ اب کڑاہی میں ان اجزا کو اچھے طریقے سے گاڑھا اور گہرا کر دیں اور ان اجزا کا اضافہ کر دیں۔ اب اس میں چیتے کی انتڑیاں اور بندر کا خون ملا دیں۔ اب چمچے ہلاتے ہلاتے کڑاہی کے ارد گرد ناچنا شروع کر دیں۔

زور لگا کے ہیا

جلاؤ

کڑاہی دہکاؤ

اور دہکا کے

رجعتیوں کا

تا تھیا۔

اسی طرح کے ہوتے ہیں ان کے یہ کالم۔ شاید اچھے بھی ہوں لیکن، ہم تو جب پڑھتے ہیں اخلاقی برتری کے نام پر میکبیتھ کی اسی کڑاہی کی مانند ایک گھناؤنا آمیزہ ہی ملتا ہے۔ اسی لیے یہ ہر وقت منٹو منٹو کرتے رہتے ہیں کہ اس کا مقابلہ تو بارڈ کی یہ بے چاری کاہنائیں بھی نہیں کر پاتیں۔