شناخت، حب الوطنی اور آزمائشِ ایمان : اداریہ ایک روزن

حب الوطنی

شناخت، حب الوطنی اور آزمائشِ ایمان : اداریہ ایک روزن

کیپٹن صفدر صاحب بولے، اور بھی تو کئی آئے روز بولتے ہیں۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کہاں اور کس جگہ بولے۔ پارلیمان! پھر بات کرتے ہیں، کچھ سیاق کا ذکر کرتے ہیں۔

بھارت جب ہندوستان تھا۔ اس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی وجود کو تاریخ کے سمندر کی لہریں تر و تازہ کرتی رہیں۔ اسے بناتی رہیں، سنوارتی رہیں۔ تاریخ اپنے سفر میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت لانے کی دھائیوں، برسوں اور سالوں میں لے آئی۔ مسلمان حکومت میں رہے تو درست، وہاں کی رعایا کو بھلے اس وقت کے حکمرانوں نے اورنگ زیب زدہ کیا، کوئی مسئلہ نہیں، اپنے تھے۔

تاج برطانیہ والے آئے۔ اپنی حکومت اور اپنی صنعت چلاتے رہے۔ سفید چمڑی والوں پر بقول ان کے سرکاری دانشوروں کے اپنی تہذیب و رنگت کے بھاری بھرکم بوجھ تھے۔ رڈیارڈ کپلنگ نے نظم کیے ہوئے ہیں، دہرانے کی چندان ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

وقت نے پلٹا کھایا، تاج والوں کے نائیبین کا جانا مجبوری بننے لگی۔ اب وقت کا چلن بتا رہا تھا کہ حکومت و انصرام اورنگزیب کے وارثوں کو ملنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔

ہم نے اور حالات نے دو قومی نظریہ تراشا۔ حیرانی ہو سکتی ہے کہ صرف دو ہی کیوں؟ اسی دو قومی نظریہ کی تعریف کی منطقی بنیادوں کی رو سے تو زیادہ قومیں بنتی تھیں۔ لیکن حالات کی قبریں کھودتے رہنے کا کچھ خاص فائدہ نہیں۔

شناخت، حقیقت، بہ معنی مادی وجود، کی حامل تو نہیں ہوتی، پر ایک سراب ضرور ہوتی ہے۔ شناخت چونکہ سراب ہوتی ہے، اس لیے اسے ایک ننگے ذہنی خلل کی تجریدیت کی حیثیت سے  کم از کم کسی قابل احساس صورت میں سامنے آنے کے لیے کچھ  تگ و دو  ضرور کرنا پڑتی ہے۔ ہاں اس کے تشکیل دینے والوں کو جن کی نظر میں حالات کی اور صورتیں ہوتی ہیں، وہ اسے اپنے تسلسل و رواں بیانی سے لباس مجاز سے حقیقت منتظر بناتے ہیں۔ جو سرابوں کو حقیقت پر محمول کر لینے کی سخاوتی رومانویت کا شکار ہوتے ہیں، ان کے لیے نئی سحر بھی شب گزیدہ ہی رہتے ہیں۔ داغ داغ اجالے کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔

آئینہ کیسے بنتا ہے؟ آئینہ ایک شفاف کانچ کے پیچھے مٹی ملنے سے بنتا ہے۔ ہم ایک بچے کی طرح اپنی شناخت سے کسی حد تک ہمکنار ہوتے ہیں۔ لیکن وہی شناخت چونکہ حقیقت نہیں ہوتی، اس لیے آئینے کے چہرے پر مٹی ملنا پڑتی ہے۔ تب کہیں جا کر چہرہ واضح ہونے لگتا ہے۔

برصغیر میں ہم مسلمان اقلیتی تعداد میں تھے۔ جمہوریت جس سے ہمارے آج کے سرکاری دانشور، مقتدرہ، سیاستدان اور خود متوسط شہری طبقات خائف ہیں، اس برصغیر کے بدلتے اور نئے اترتے سورجوں کے وقتوں میں بھی خائف ہی تھے۔ ہمیں بطور اقلیت کے اس ماضی کی عدم تحفظ کی نفسیات کی اسیری سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں اپنی عدم شمولیت exclusivity کی کچھ نظم و ترتیب کرنا ہوگی۔ یہ exclusivity ہمارے کٹے ہوئے برصغیر کے ہمارے حصے میں آئے ہوئے موجودہ گھر میں مزید اقلیتیں بنانے پر تلی ہوئی ہے۔

ہم بطور معاشرہ اپنی سیاسی جماعتوں ایسے ہی ہیں کہ جو سب اقتدار میں ہونے کے باوجود حزب اقتدار کے کردار ادا کرنے پر بھی مجبور بھی ہیں اور شوقین بھی۔ اسی طرح ہم مسلمان آج اکثریت میں ہونے کے باوجود اقلیتی نفسیات کے عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔ کردار بدل گیا خصائص نہیں بدلے۔

کچھ دھائیاں قبل پارلیمان نے دنیا جہان سے خرق عادت کارنامہ انجام دیا۔ روحوں کے منطقوں کا فیصلہ آئینی ترمیم سے دیا۔ اس وقت کہا گیا کہ چلیے مسئلہ حل ہوگیا۔ اب دھرتی آئینی قربانی سے اپنی زرخیزی کی بازیافت کر لے گی۔

آج کل کے دنوں میں پھر اسی پارلیمان میں شور ہوا۔ توقعات کی دیواریں اور پھلانگنوں کی حدیں مزید بلند کی گئیں۔ ایمان و کفر کے نئے حلف مانگے گئے۔ کسی اقلیت کے ایمان و ایقان کو گالی بنایا گیا۔ طعنہ کے جملے کی زمین کاشت ہوئی۔

لیکن کیا یہ کوئی بالکل نیا ہتھیار نکلا ہے؟ نہیں! اس ہتھیار کو ہمارے قومی بحث و تمحیص، مکالمہ و مجادلہ کے مراکز اور ان کے مضافات میں اس وقت کی حکومت کے خلاف ایک انتخاب میں بطور ہتھیار آزمایا گیا۔  ایک بار تو پاکستان کی قومی فوج کے اعلی ترین ذمے دار کے رستے میں بارودی سرنگ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہوئی۔ کاروباری معاملات اور پیشہ ورانہ رقابتوں میں کب کا اہم ہتھیار ہے۔

ہمیں اپنی نرگسیت یا دوسرے زاویہ سے اپنے عدم تحفظ اور احساس کمتری سے پُراعتماد انداز سے رو برو ہونے کے لیے اپنے قومی و معاشرتی آئینے کی پشت میں مٹی ملنے سے گریز کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی شناخت اور اپنا ایمان و ایقان مجموعہ اضداد کی قید سے آزاد کرنا ہوگا۔ ہم اپنی شناخت کی سرابی تجریدیت کے لیے آئینوں کے پیچھے مٹی لگانے کی مدد سے بالاتر ہونا ہوگا۔ خدا ناخواستہ، بصورت دیگراں، مسلمانوں کے لیے بنائے گئے اس ملک میں ہم سارے کے سارے ایک دوسرے کے لیے کافر اور ناقابل گزارہ ہی نا بن جائیں۔ افسوس تو یہ  ہے کہ ہم اس طرف گامزن ہیں۔ ہمیں رکنا ہوگا۔

ہمیں دوسرے کے ہاتھ صرف سازش کے رنگ کی عینک سے دیکھنے سے دیگراں تصورحقیقت  و کائنات worldview کی صورت گری کرنا ہوگی۔ ہمیں خدا کی مخلوق کو اس کے عقیدے، رنگ، نسل اور زبان کی قیود سے باہر دیکھنے کی کوشش کرکے اپنے اندر کے انسان کو انسانی بلند اخلاقی کے آب حیات زم زم سے سینچنا ہوگا۔

انسان آخرکار ایک خوبصورت و لطیف خدا کی مکرم و محترم تخلیقات میں سے ہے۔ ہمیں اسے خاک آلودہ آئینوں سے دیکھنے کی روش بدلنا ہوگی۔ معاشرے میں ایسا ماحول بنانا ہوگا کہ حلقہ این اے 120 ہو، یا کسی پلاٹ اور کاروباری مخاصمت، یا کسی کیپٹن صفدر کو حساب برابر کرنے، یا اپنی طرف سے تیر پھینکنے کے لیے کسی خاص انسانی گروہ کے سینے پر ضرب لگانے کی مشق کرنے کی ضرورت محسوس نا ہو۔

ہم ایسے نتیجوں کی راہ مسدود کرنا ہوگی جو کسی آنے والے کل کو مزید داغدار کرسکتے ہیں، ہم پاکستانی نہیں جان پائیں گے تو اور کون بہتر جان سکتا ہے۔ ہم کٹنے، مرنے، گلنے، سڑنے، جنگلی جانوروں کی خوراک بننے اور بے گور و کفن دنیا سے رخصت ہونے کی تقسیم ہند اور حالیہ دہشت گردانہ واقعات کی بھٹی سے آگے مزید  کسی اسی طرح کے منظر کے لیے رشک کرنے کی عیاشی کا نہیں سوچ سکتے۔