نسائیت کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا

Dr Ayesha Siddiqa
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، لکھاری

نسائیت کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا: مردوں کی دنیا میں نسائیت کی گنجائش

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ
ایک خاتون سول سرونٹ نے، جسے کچھ عرصہ پہلے پہلے پی ایس پی (پولیس سروس آف پاکستان) میں تعینات کیا گیا، ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ ڈیوٹی پر ہوتی ہے تو خود کو ایک عورت سے زیادہ ایک مرد پولیس افسر محسوس کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی مرد پولیس افسر کی طرح اپنے فرائض سرانجام دے سکتی ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ دوران تربیت بھی اُس نے کوئی امتیاز محسوس نہیں کیا۔ یقینا وہ ایک دلیر عورت ہیں‘ جو ایک مشکل شعبے میں درپیش چیلنجز کا سامنے کرنے کے لیے تیار تھیں۔

میری خواہش ہے کہ میں اُنہیں اور اُن جیسی پوزیشن رکھنے والی بہت سی دوسری عورتوں کو بتا سکوں کہ مردوں کی اس دنیا میں ”مرد‘‘ بننے کا خیال دل سے نکال دیں۔ اعلیٰ عہدے رکھنے والی عورتوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی اور آخرکار وہ اپنی نسائیت (feminism) کو قتل کر بیٹھیں۔ سخت کام کرتے ہوئے مرد کی طرح کارکردگی دکھانے کی کوشش میں عورتیں پہلے قدم پر ہی ناکام ہو جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میری بات کا غلط مطلب لیا جائے؛ چنانچہ وضاحت کرتی چلوں کہ میں کام میں سستی دکھانے یا بطور ایک عورت سخت کام کرنے سے استثنا کی وکالت نہیں کر رہی۔

میں یہ بھی محسوس کرتی ہوں کہ آج کے پاکستان میں نسوانیت کے اظہار کو لبرل ازم کی طرح برا سمجھا جاتا ہے، اس لیے مجھے مطلق حیرت نہیں ہو گی اگر یہ مضمون پڑھنے کے بعد کچھ نام نہاد تجزیہ کاروں کو یک لخت خیال آئے کہ نسوانیت کا اظہار دراصل لبرل ازم کی ہی توسیع شدہ شکل ہے۔ کیا اسے اقدارکی پامالی یا مادر پدر آزادی سمجھا جاتا ہے؟ نہیں‘ بلکہ اس کا مطلب خواتین کا اپنی نسائیت کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی میں اپنے لیے وسیع تر جگہ تلاش کرنا ہے۔ نسائیت کسی اختیار کے حاصل کرنے یا ڈیل کرنے کی طاقت کے راستے میں رکاوٹ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کا زندگی کے بارے میں تصور مردوں سے مختلف اور وسیع تر ہونا چاہیے۔

آدمیوں کو عام طور پر اپنی طاقت کا زعم ہوتا ہے۔ دوسری طرف خواتین زندگی کی تخلیق کا بوجھ اٹھانے اور اس کا خیال رکھنے کی مشکل ذمہ داری سنبھالتی ہیں۔ وہ اپنی جبلت کے اعتبار سے بھی آدمی سے مختلف ہوتی ہیں۔ یقینا تمام عورتیں اپنی نسوانیت کے اظہار پر قادر نہیں ہوتیں، بلکہ بہت سی اپنے رہن سہن اور سماجی حالات کی وجہ سے اسے کھو بھی دیتی ہیں۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ عورتیں اُس راستے پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں‘جس کے خدوخال آدمی نے طے کیے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایسی خواتین کی فہرست ملاحظہ کریں‘ جنہیں اختیار حاصل ہوتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح اُن کا اختیار مایوسی میں بدل جاتا ہے‘ جب وہ یہ بھول کر کہ وہ عورتیں ہیں، آدمیوں سے مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی نسائیت کو قربان کر دیتی ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے نظام میں جدوجہد کر رہی ہوتی ہیں جس کے اصول، قواعد و ضوابط آدمیوں نے وضع کیے ہوتے ہیں۔

میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس نوجوان پولیس افسر کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ وہ اس خیال کو ذہن سے جھٹک دے کہ اس کے ساتھ آدمیوں کے مساوی سلوک ہو گا یا وہ آدمیوں کی برابری کر سکتی ہے۔ ایک تربیتی نظام یا پروگرام کی یکسانیت کا مطلب مواقع کا یکساں حصول نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جونیئر پوزیشن پر اُس کو احساس نہ ہوا ہو لیکن یہ نظام یقینی طور پر امتیازی سلوک کی روایت رکھتا ہے۔ میں خود بھی ایک سول سرونٹ رہی ہوں، میں جانتی ہوں کہ خواتین کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے اُنہیں اپنی نسائیت سے دستبردار ہوتے ہوئے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ پروفیشنل ہیں نہ کہ عورتیں… جیسے عورت ہونا کوئی بری بات ہو۔ مرد کولیگز اکثر سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اپنی ساتھی خاتون کی کامیابی کو مشتبہ رنگ دینے کی کوشش کریں گے، جیسے اسے ملنے والی کامیابی اُس کی شکل و صورت یا سٹائل یا کسی اور خصوصیت کی مرہون منت ہو، اُس کے کام کی بمشکل ہی تعریف کی جائے گی۔ اُس کے کام کو بھی مشکوک انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ یا اگر ایسا نہ ہو تو پھر اُسے کہا جاتا ہے کہ وہ مردوں کی طرح کام کرتی ہے۔

اس طرح اُسے خواتین (جنہیں کم تر سمجھا جاتا ہے) کے مرتبے سے بلند کرتے ہوئے آدمیوں (جو شرف رکھتے ہیں) کی صف میں شامل کیا جاتا ہے۔ مذکورہ پولیس افسر سے بھی توقع کی جائے گی کہ وہ بہت سخت محنت کرتے ہوئے اپنی اہلیت کا بھرم قائم رکھے۔ جس گھڑی وہ ایسا نہیں کر سکے گی، اُسے یاد دلانے میں ایک دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا کہ وہ بہرحال ایک عورت ہے اور اُس سے کسی بہتری کی توقع کرنا عبث ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اُس کے ارد گرد کام کرنے والے آدمی جاہل یا گنوار نہیں بلکہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں‘ لیکن پھر وہ بھی تو تعلیم یافتہ تھے جو کہتے تھے کہ مختاراں مائی کے بارے میں تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ کیونکہ اُسے پہنچنے والے نقصان کا کافی حد تک ازالہ ہو چکا۔

ان معروضات کا مطلب یہ نہیں کہ اس ضمن میں صرف مرد ہی قصوروار ہیں۔ جب عورتیں پروفیشنل زندگی میں ہوتی ہیں تو وہ بھی خود سے بہت بے رحمانہ سلوک کرتی ہیں۔ سول سروس میں بہت سی خواتین ایسی ہوں گی جو چاہتی ہیں کہ اُنہیں کام میں کچھ سہولت دی جائے۔ یہ عورتیں نسائیت کی چمپیئن نہیں۔ کسی بھی کام کرنے کی جگہ پر گپ شپ کا محبوب موضوع ساتھی خواتین ہی ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خواتین مل کر کام نہیں کر سکتیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آدمی بدترین افواہ ساز ہوتے ہیں اور جب بھی اُنہیں مسابقت کا سامنا کرنا پڑے تو وہ کچھ کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

گزشتہ چند عشروں سے پاکستان میں اس تاثر کو پھیلانے میں بہت محنت کی گئی ہے کہ یہاں خواتین کو حاصل مواقع دنیا کے بہت سے ممالک سے بہتر ہیں۔ اب ہمارے ہاں خواتین پولیس افسر، پائلٹ، لڑاکا طیاروں کی پائلٹ اور فوج اور نیوی میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کے بارے میں شائع ہونے والے مواد میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان خواتین سے مردوں کے مساوی سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ ان لڑاکا پائلٹوں میں کتنی خواتین کو ڈیوٹی پر تعین کیا جاتا ہے؟ آپ ان کی تعداد انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔

بہت سی لڑاکا پائلٹ دفاتر میں کام کرتے ہوئے اپنی مدت ملازمت پوری کر دیتی ہیں۔ جب میں نیول ہیڈکوارٹرز میں تھی تو مجھے یاد ہے کہ وائس چیف نے میرے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا اور مناسب ٹوائلٹ کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ بہت سے مواقع پر مرد افسران خواتین افسران کا صرف اتنا فرض ہی تسلیم کرتے تھے کہ وہ عمدہ سی ساڑھیاں پہنیں اور وہ اُنہیں کہہ سکیں… ”آپ کتنی اچھی لگ رہی ہیں‘‘۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے کلمات کا مطلب کیا ہے؟

گویا یہ احساس دلانا مقصود ہوتا ہے کہ آپ سے آدمیوں جیسے فرائض کی توقع نہیں۔ یقینا آج کل خواتین کے لیے معاشرے میں نسبتاً زیادہ جگہ موجود ہے لیکن بنیادی حقائق کا تبدیل ہونا ابھی باقی ہے۔

دراصل دنیا کے ہمارے حصے میں خواتین کی صلاحیتوں کو دل پر پتھر رکھ کر، بادل ناخواستہ، تسلیم کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بھی مجھے ویسا ہی احساس ہوا‘ جو میرے ملک میں ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک خاتون پی ایچ ڈی بہت مشکل سے لوگوں کو احساس دلا رہی تھی کہ وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے عورتوں کی نسبت آدمیوں کو زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ خاتون پولیس افسر یاد رکھے گی کہ اس ماحول میں اصل عظمت آدمیوں کی طرح کام کرنا نہیں، بلکہ اپنی نسائیت کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔

بشکریہ: روزنامہ دنیا