نیا سال

Asif Ali Lashari
آصف علی لاشاری

نیا سال

از، آصف گل لاشاری

تہوار سنسکرت زبان کے لفظ ” تیوہار” سے نکلا ہے جس کے معنی ایسی تقریب کے ہیں جو اجتماعی طور پر مقررہ تاریخ میں غم یا خوشی کے طور پر منائی جائے۔ امیدیں اور خواہشات کسی بھی تہوار کے انعقاد کا باعث بن سکتی ہیں؟ اگر ہاں تو نیا سال بھی مذہب سے بالاتر ہو کر منانا ہر کسی کا حق ہے۔ ہم آج بھی اس بات پر لڑتے ہیں کہ یہاں سے ہمارا سال نہیں، کسی اور کا سال شروع ہوتا ہے۔ مختلف ادوار میں سال اور مہینوں کا تعین اسلام یا کسی اور مذیب کی بنیاد پر نہیں کیا گیا۔

مہیںے اور دن نام کی طرح شناخت کیلئے ہوتے ہیں۔ اگر عقلی دلیل کو مدنظر رکھا جائے تو دن، رات، مہینے، سال بذات خود مسلمان، عیسائی یا کافر نہیں ہو سکتے۔ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی دن کہے کہ میں کسی غیر مذہب کے دیس کا باسی نہیں بنوں گا؟ کہیں رات اپنا سکون مذہب کی بنیاد پر تقیسم کر دے؟ اگر نہیں تو اپنی عقل کو اس طرف مت الجھائیں۔ جب بھی خوش ہونے کا موقع ملے، اس سے لظف اندوز ہوں۔


مزید دیکھیے:  وقت گَر آگے پیچھے ہو جائے از، خضر حیات


ہر نیا سال اس احساس کو جنم دیتا ہے کہ کچھ نیا ہو گا اس برس۔ گزرے ہوئے سالوں میں جو اقدامات نقصان دہ ہوئے ان سے پرہیز کیا جائے گا۔ وہ جو دکھ ماضی کا حصہ تھے وہ دکھ اور وقت کٹ گیا، اب نئے تقاضے ہمارے منتظر ہیں۔ نئی منزل اور نئے راستوں کا تعین ہماری چوکھٹ پر امیدوں اور امنگوں کا سورج لاتا ہے جو ناصرف ذاتی طور پر ہمیں منور کرنے کیلئے مشعل راہ بنتا ہے بلکہ اس سے پورا گھر (ریاست) منور ہو سکتا ہے۔

گزشتہ کئ سالوں سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے۔

ہر سال نیا سال ہے ہر سال گیا سال

ہم اُڑتے ہوئے لمحوں کی چوکھٹ پہ پڑے ہیں

اختر ہوشیارپوری

مسائل کا حل تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب اس کی نشان دہی ہو جائے۔ سب سے پہلے معلوم کرنا لازم ہے کہ اس ملک کا مسئلہ تعلیم ہے یا معلم، وسائل یا تقیسم وسائل، اقتدار یا حصول اقتدار، انصاف یا منصف، احترام یا خوشامد، روزگار یا حصول روزگار۔ ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ مسئلہ حال میں ہے یا ماضی میں۔

ہمیں تہیہ کرنا ہوگا کہ ماضی میں حاصل کامیابیوں کے سرور سے نکلنا ہو گا۔ دنیا تلواروں کے سائے سے کاغذوں میں سمٹ آئی ہے۔ فتوئوں کی جگہ ایجادات نے لے لی ہے۔ دنیا آگے سے آگے جا رہی ھے۔ بدلتے وقت کے تقاضوں کو اپنانا ہو گا۔

اور اگر سالِ نو کے آغاز سے ہی فیصلہ کر لیا جائے کہ منزل کا حصول ہی مقصد ہے تو ہر قدم منزل بن جائے گا۔ ایسے ہر منزل خود بخود اپنے راستوں کی طرف بڑھتی ہے اور ترقی کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔

اس سال کا سورج کئ سالوں کا درد سمیٹ سکتا ہے اگر تمام ارباب اختیار تہیہ کر لیں کہ اب اور مذاق نہیں کرنا اس ملک کے ساتھ، افواج پاکستان ایوانوں میں مداخلت ختم کر کے سرحدوں تک محدود ہو جائے، عدلیہ صرف توہین عدالت کی بجائے توہین انسانیت کو مد ںظر رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ صحافی سیاست چھوڑ کر خود کو صحافت تک ٘محدود کر لیں۔ ملاّ گردی بند کردی جائے۔ علما تشدد کے بجائے تدریس کریں۔

ہر شخص مدار میں رہ کر کام کرے تو ہم صرف راستوں میں بھٹکنے کی بجائے منزل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

اسی طرح بین الاقوامی سطح پہ جو اکھاڑ پچھاڑ چل رہی ہے اگر اس طوفان میں کچھ نرمی لائی جا سکے اور اجڑنے والے مزید دیاروں کی مٹی کو بچایا جا سکے تو دنیا کی شکل مختلف ہو جائے گی۔ جنگوں سے پاس مستقبل کا خواب اگر اسی سال اپنی تعبیر دکھانا شروع کر دے تو دنیا سے نفرتیں رخصت ہو جائیں گی اور رہنے کیلئے یہ سیارہ بہترین جگہ میں بدل جائے گا۔

اب کے بار مل کے یوں سال نَو منائیں گے

رنجشیں بھلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے