اتنے سارے مفروضے ؟ یہ فیصلہ نیا الجبرا ہے کیا

یاسر چٹھہ

اتنے سارے مفروضے ؟ یہ فیصلہ نیا الجبرا ہے کیا

از، یاسر چٹھہ

جب ہم سکُولیے عہد میں تھے تو ہمارے سرکاری سکولوں میں ساتویں یا آٹھویں جماعت سے الجبرا شروع ہو جاتا تھا۔ اس الجبرا میں یوں تو جبر کا لفظ داخل ہوتا ہی تھا، لیکن ہمیں اس کی مشقیں کرنے کی اور کرتے جانے کی جلد ہی عادت پڑ گئی۔ جیسے کہتے ہیں نا کِہ کام بالکل آسان ہی ہو گیا تھا۔

اس الجبرا کی وضعی کو الخوارزمی سے موسُوم کیا جاتا تھا اور ہم اس وقت خوشی سے جُھوم جاتے تھے کہ مسلمان معزز تھے زمانے میں کبھی صاحبِ علوم ہو کر، اور ہم خوار ہیں اب محض صارف و مصروف ہو کر۔

ہمیں اس وقت بھی یہی بتایا جاتا تھا کہ ہم اس دھرتی کی، جس کا دیا ہم صدیوں سے کھاتے رہے تھے، اولاد نہیں تھے۔

بل کِہ جب وادیِ سندھ کا پہلا بندہ یا بندی کلمہ گو ہو گئے تھے تو ہمارے اجداد کا تاریخی آنول مقامی دھرتی سے کٹ گیا تھا۔ جڑت رفتہ ہو گئی۔

ہم اِسی لیے اپنے روحانی ننھیال یعنی عربستان سے ہر ہویے گزرے چمتکاری کی شبیہ چاند میں سے ڈُھونڈتے۔ اگر چِہ وہ اہلِ عرب ہمیں گونگے اور جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں۔ ہم بہ ہر حال ان کی بابت شُبھ شُبھ ہی سوچتے۔

اوپر جو باتیں ہماری مرکزی بات کے بیچ آ گئی تھیں وہ صرف اس لیے آ گئی تھیں کہ ساتویں آٹھویں جماعت میں ہماری الجبرا سے محبت کا محض کوئی ایک حوالہ نہیں تھا۔ یعنی بیچ میں ننھیالی رشتے کی راہِ شیریں بھی پڑتی تھی۔

مزید جو بولیں تو کہیں کہ زیادہ دل لگی تو اس کارن بھی تھی کہ یہ والا الجبرامحض نام کا ہی الجبرا لگتا تھا۔ ہم انشاء جی کے الجبرے بارے قول کے بر عکس کم از کم اپنے زمانہِ سلوکِ سکولیہ میں اس کے ہاتھوں فیل ہونے سے بچتے رہے۔

وجہ کیا تھی؟

بنیادی مسئلہ تو اس الجبرے میں بھی معلوم قدروں اور قیمتوں کی مدد سے نا معلوم نِگوڑے کی دریافت تھی۔ لیکن آسانی یہ تھی کہ ہمیں دو قدریں، جنہیں ہم اس وقت قیمتیں کہتے تھے، معلوم ہوتی تھیں۔ یعنی x, y اور z میں سے y اور z کی قیمتیں معلوم ہوتیں تھیں اور x کی قیمت با آسانی خود یا ساتھ بیٹھے ہم جماعتیے سے مِل مَلا کر معلوم کر لیتے تھے۔

لیکن بہ شکرِ باری تعالیٰ اس وقت ہم صرف نا معلوم کو x مان کر فرض کر لیتے۔ کچھ لوگ اس x کو “لا” سے بھی موسوم کر کرا لیتے تھے۔ فائدہ یہ تھا کہ ان دنوں کچھ خاص توہین وغیرہ کا موسم نہیں تھا۔ اب جو ہر چیز کے حالات اور سپیڈیں ہوتی جا رہی ہیں، جو دن بھی گزر جائیں، وہی بھلے لگتے ہیں۔

لیکن ان دنوں جب کہ ہم سکولیے عہد میں نہیں رہے بَل کِہ سُوقیانہ عہد میں پھینک دیے گئے ہیں، اب سننے میں آ رہا ہے کہ الجبرا میں وقت کا جبر بڑھ گیا ہے؛ اب صرف “لا” یا x کی قدرہی نا معلوم اور پس قابلِ فرض ہی نہیں رہ گئی۔ اب سوالات حل کرنے کے لیے جتنے مرضی فرض کر لیے جائیں اجازت ہے، بشرط یہ کہ آپ جواب وہی بر آمد کر لائیں جو جواب لانا چاہیے تھا۔ کوئی نا بولے کہ مفروضے پر مفروضہ، مفروضے پر مفروضہ کیوں؟ تجرید جمع تجرید برابر فیصلہ۔


مزید دیکھیے: 1۔ مارک ٹوین کی کچھ ان مِٹ شگفتہ باتیں

2۔ چھوٹا منھ بڑی بات، یا بڑا منھ چھوٹی بات


کل بھی شہر میں لوگ کہہ رہے تھے کہ کوئی تاریخی فیصلہ ہوا ہے، جس میں کتنے سارے مفروضوں کی کھال پہنا کر جواب ڈھونڈے گئے ہیں۔

بس جواب لانا فرض ہے، سوال جو مرضی ہو۔ جواب کوئی اور بناتا ہے، جو ہم عوام سے زیادہ بہتر جاننے اور اپنی جان پہچان باور کرانے کا روا دار ہے۔ جسے کبھی ہمارے حقِ انتخاب اور ترکیبِ جواب سازی کی قابلیت و صلاحیت پر یقین نہیں آتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس کی لاٹھی ہوتی ہے، وہی ہر بھینس کو اپنے ڈیرے پر لگے کِلّے پر باندھنے کا حق دار ہوتا ہے۔

اب معلوم نہیں کہ ہم شاید کسی بھول میں تھے۔ ہم باور کرتے پھرتے تھے کہ تہذیب کی ترقی سے حق طاقت بن گیا ہے! کیا ہم بہت غلط ہیں؟ شاید ہم بہت غلط ہیں۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔