روئیت ہلال کا مسئلہ — سوال در سوال

روئیت ہلال کا مسئلہ

روئیت ہلال کا مسئلہ — سوال در سوال

(جواد الرحمن)

پاکستان میں ہرسال کی طرح اس دفعہ بھی رمضان المبارک اور عیدالفطر کے چاند نظر آنے کے اعلانات پر اتفاق نہیں ہوسکا اور خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں باقی ملک سے ایک دن پہلے رمضان اور عید کا اعلان ہوا ۔ اس بلاگ میں علماء کرام کی جانب سے اس نااتفاقی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ اگرچہ راقم نے اپنی طرف سے ان غیر علمی سوالات کے جوابات تحریر کئے ہیں مگر آپ موازنہ کریں کہ آپ خود ان سوالات کے جوابات کن الفاظ میں دینگے ۔
س ۔ روئیت ہلال کمیٹی کب قائم کی گئی ہے ؟

ج ۔ انگریزوں سے آزادی کے اگلے سال 1948 میں مرکزی روئیت ہلال کمیٹی قائم کی گئی (یاد رہے کہ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے صرف تین دن بعد عیدالفطر تھی ) ۔ یہ کمیٹی ضلعی کمیٹیوں سے شہادتیں اور محکمہ موسمیات سے ماہرانہ رائے لیتی ۔ 1958 میں پہلی مرتبہ ا ہل پشاور نے باقی ملک سے پہلے ایک روز پہلے روزہ رکھ کر عید بھی پہلے منائی ۔ فوجی آمر ایوب خان نے 1961 ، 1966 اور 1967 میں مرکزی کمیٹی کے اعلانات کے برعکس ایک دن پہلے عید کا اعلان کیا ۔ حکومت کے ان بے بنیاد فیصلوں سے عوام (خاص کر کراچی کے شہریوں ) نے اتفاق نہیں کیا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ 1971 تک مشرقی پاکستان کی شہادت پورے ملک کے لیے تسلیم کی جاتی تھی لیکن اب بنگلہ دیش میں عید کا اعلان ہمارے لیے معتبر نہیں ہے ۔

مسئلے کے پائیدار حل کے لیے بھٹو حکومت نے جنوری 1974 میں قومی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت 9 ارکان (بمع ایک خاتوں رکن ) پر مشتمل مرکزی کمیٹی قائم کی ۔ چاروں صوبوں میں بھی مقامی کمیٹیاں قائم ہوئیں ۔ قانون میں مزید کہا گیا کہ کمیٹی کے ممبران اور چئرمین کی مدت عرصہ تین سال ہوگی اور وہ بھی صرف ایک بار کے لیے ۔ لیکن مفتی منیب صاحب پچھلے 18 سال سے کمیٹی میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ کمیٹی کے ممبران کی تعداد بھی غیر قانونی طریقے سے بڑھا کر 15 کردی گئی ہے ۔
مفتی منیب الرحمان صاحب 1997 میں کمیٹی کے رکن بنے ۔ 1999 میں خیبر پختونخوا سے کمیٹی کے رکن نے اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے مفتی منیب اور اُس وقت کے چئیرمین پر الزام لگایا کہ یہ دونوں خیبر پختونخوا کی شہادتوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔
پرویز مشرف نے قانون کو روندتے ہوئے 2001 میں مفتی منیب کو کمیٹی کا چئیرمین بنایا ۔ کمیٹی کے ارکان کے آپس میں مسلکی اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے موصولہ شہادتوں پر اتفاق قائم کرنا ایک مشکل عمل بن چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمیٹی کا اجلاس ایک رسمی کاروائی بن گئی ہے کیونکہ چاند کی روئیت کے اعلان کے لیے کمیٹی شہادت کی بجائے محمکہ موسمیات کے اعداد و شمار پر انحصار کرتی ہے ۔ واضح رہے کہ پچھلے 15 سال میں صرف دو دفعہ پورے ملک میں ایک ساتھ عید منائی گئی ہے ۔
غیر مؤثر کردار کی وجہ ملک کے بیشتر علماء ، سیاسی رہنما اور دانشور و صحافی مرکزی کمیٹی کو ایک سیاسی رشوت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ دوسری طرف مسجد قاسم علی خان ( پشاور ) کا دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگ و اکابر 1825 سے چاند کی روئیت کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں ۔
س ۔ کیا پورے ملک میں ایک دن عید منایا جاسکتا ہے ؟
رمضان ، محرم اور عیدین کے مواقع پر چاند کی روئیت عوام کے لیے اہمیت اختیار کر جاتی ہے ۔ بدقسمتی سے مرکزی رویئت ہلال کمیٹی قمری مہینے کا اعلان پورے ملک کے لیے اتفاق سے کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے اور پشاور میں قائم مقامی روئیت ہلال کمیٹی عموماً ایک دن پہلے ہی چاند نظر آنے کا اعلان کردیتی ہے ۔ اگر مرکزی کمیٹی اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں سالہاسال سے ناکام رہی ہے تو پھر ایسی کمیٹی کو برقرار رکھنا اور ملکی خزانے پر بوجھ ڈالنے کا کیا فائدہ ہے ؟

س ۔ کمیٹی کے چئیرمین کون ہیں ؟
ج ۔ کمیٹی کے چئیرمین جناب مفتی منیب الرحمان صاحب ہیں ۔ موصوف کو فوجی آمر پرویز

مشرف نے اس عہدے پر 2001 میں تعینات کیا تھا ۔ اس دوران ملک کے چار صدور اور پروزیز مشرف کے علاوہ سات وزرائے اعظم حکمران بنے ہیں ۔ مشرف کے بعد دو مکمل جمہوری حکومتیں بھی آئیں لیکن آپ کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا ۔ پانچ سال پہلے اٹھارویں ترمیم منظور کرتے ہوئے مشرف کے تمام احکامات غیر آئینی قرار دئے گئے مگر مفتی منیب ( اور گورنر سندھ عشرت العباد ) اپنے عہدے پر تاحال براجمان ہیں ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب ایک شخص مسلسل کسی عہدے پر فرائض سرانجام دیتا رہے تو اس سے اس شخص کی اور ادارے کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے ۔

س ۔ کیا کبھی کمیٹی کے ارکان نے خود چاند دیکھا ہے ؟
ج ۔ نہیں ۔ تو پھر کیوں کثیر تعداد میں عمر رسیدہ کمیٹی کے ممبران کو ہر بار ملک کے مختلف حصوں میں کسی اونچی عمارت کے اوپر دوربین لگا کر ٹی وی کیمرے کے سامنے چاند دیکھنے کی لا حاصل سعی کرائی جاتی ہے ۔ اجلاس میں موجود صحافی بتاتے ہیں کہ ارکان صرف تصویر بنانے کی حد تک چاند دیکھنے کے لئے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں ۔ کیا یہ قوم سے ایک مذاق نہیں ہے ؟

س ۔ کیا پشاور میں بغیر شہادت کے رمضان / عیدین کا اعلان ہوتا ہے ؟
ج ۔ ںہیں ۔ بلکہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سے شہادتیں موصول ہونے کے بعد اعلان

ہوتا ہے ۔ تو پھر مرکزی کمیٹی کو یہ شہادتیں کیوں منظور نہیں ہوتیں ؟ مرکزی کمیٹی ایک گھنٹے کے اندر کیوں اجلاس ختم کرنے کا اعلان کردیتی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ شہادت دینے کے کئی وقت طلب احکامات ہیں اور دور دراز پہاڑی علاقوں سے شہادت پہنچنے پر وقت لگتا ہے ؟ مزید یہ کہ پچھلے کئی سالوں سے مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد نہیں ہوسکا ہے ۔ اس نااتفاقی نے پہلے سے بکھری ہوئی قوم کو ایک نئے اور اضافی نقطہ نظر سے تقسیم کردیا ہے ۔

س ۔ چاند کب نظر آتا ہے ؟
ج ۔ پہلے دن کا چاند جسے ہلال کہا جاتا ہے ، بہت باریک ہوتا ہے اس لیے ہر کسی کو (نظر کی کمزوری کی بنا پر ) نظر نہیں آتا ہے ۔ اس طرح یہ چاند ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر جگہ سے بھی نظر نہیں آسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چاند دیکھنے کی گواہی دینے والے اور گواہی لینے والے کے لئے کڑی شرائظ رکھی گئیں ہیں ۔ مگر مرکزی رویئت ہلال کمیٹی جس دن چاند نظر آنے کا اعلان کرتی ہے اس دن چاند اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ہر کسی کو ہر جگہ سے نظر آتا ہے (بلکہ ٹی وی کیمرے پر بھی دکھایا جاتا ہے ) ۔ اگر اسی چاند کو پہلے دن کا چاند مان لیا جائے تو پھر شہادت کے سلسلے میں اتنے سخت احکامات کیوں ہیں اور پھر ہر کسی کو نظر آنے والے چاند کے لیے خصوصی کمیٹی کی کیا ضرورت ہے ؟

س ۔ پشاور کا اعلان کیوں مشکوک ہے ؟
ج ۔ محکمہ موسمیات کی واضح پیشن گوئی اور اعلانات کے باوجود پشاور کی کیمٹی چاند نظر آنے کا اعلان کردیتی ہے ۔ اس جدید سائنسی دور میں ماہرین فلکیات کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مرکزی کمیٹی محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کو بہت اہمیت دیتی ہے ۔ اگر چاند نظر آنے کے لیے سائنس پر انحصار کرنا ہے ( اور کرنا بھی چاہئیے ) تو پھر قمری مہینے کے اعلان کا کام محکمہ موسمیات کے سپرد کرکے مرکزی کمیٹی کو ختم کرنا چاہئے ۔ قومی یک جہتی بھی قائم رہے گی اور قومی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا ۔
س ۔ کیا حکومت نے دوسرے مذہبی معاملات کے لیے بھی علماء پر مشتمل کمیٹیاں قائم کیں ہیں ؟
ج ۔ نہیں ۔ حکومت دوسرے مذہبی امور ( جیسے حج اور زکواۃ کی وصولی اور تقسیم وغیرہ ) اپنے قوانین اور طور طریقے سے کراتی ہے ۔ تو پھر یہ معاملہ بھی کسی سرکاری افسر کے سپرد کرنا چاہئے جو ماہرین فلکیات کی تجاویز کی روشنی میں سرکاری حکم نامے کی صورت میں رمضان / عید کا اعلان کیا کرے ۔

س ۔ کیا پشاور کی کمیٹی عیدالاضحیٰ کا اعلان بھی باقی ملک سے ایک روز پہلے کرتی ہے؟
ج ۔ نہیں ۔ پچھلے چند سال سے سارا تنازعہ رمضان اور شوال (عیدالفطر) کے اعلان پر ہے ۔ جبکہ مفتی شہاب الدین پوپلزئ صاحب ذوالحج ( عیدالاضحیٰ ) کا اعلان مرکزی کمیٹی کے ساتھ کرتے ہیں۔ شاید مفتی صاحب کم از کم اسلامی سال کا آغاز اتفاق سے کرنا چاہتے ہیں جس کا آغاز محرم سے ہوتا ہے ۔
س ۔ اتنے بڑے عوامی مسئلے پر حکومت کیوں خاموش ہے ؟
ج ۔ شاید مختلف حکومتیں نااہلی کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں کرسکیں ہیں یا حکمران چاہتے ہیں کہ عوام کسی معاشرتی مسئلے میں اُلجھی رہے اور حکمران بلا کسی تعطل کے لوٹ مار جاری رکھ سکیں ۔

تجاویز :
مرکزی اور پشاور میں موجود مقامی روئیت ہلال کمیٹیوں کے علماء کرام کو چاہئے کہ آپس

کے اختلافات ایک طرف رکھ کر اس مسئلے پر یک جہتی قائم کریں اور پہلے سے فرقہ ورانہ اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم مسلمانوں کو مزید علاقائی سطح پر تقسیم نہ کیا جائے ۔ اگر یہ علماء خود سے آپس میں اتفاق نہیں کرتے تو پھر حکومت یا کوئی دوسرا پریشر گروپ یا عوام ان پر دباؤ ڈالیں کہ یہ لوگ اختلافات ختم کردیں ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر قمری مہینے کے آغاز کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرایا جاسکتا ہے ۔

1 ۔ مرکزی روئیت ہلال کمیٹی پورے ملک سے بلا کسی امتیاز کے شہادتیں وصول کرے اور اعلان کرتے ہٓوئے کمیٹی کسی سیاسی یا فرقہ ورانہ دباؤ یا مصالحت کا شکار نہ ہو ۔

2۔ چاند نظر آنے کا کام محکمہ موسمیات کے سپرد کیا جائے ۔ محکمہ موسمیات سائنسی آلات اور علم فلکیات کی روشنی میں قمری مہینے کے آغاز کا مستند فیصلہ کرسکتی ہے ۔ اس سے نہ صرف روئیت ہلال کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ ملکی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوگا ۔

3۔ قمری سال اور مہینوں کا حساب کتاب سعودی عرب سے منسلک کیا جائے ۔ چونکہ سعودی عرب میں امور ریاست کے لیے بھی قمری سال استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ چاند کی روئیت کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ قمری مہینے کا اعلان سعودی عرب سے منسلک کرکے ہم ہجری سال سے متعلق نہ صرف قومی سطح پر بلکہ دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ یکجا ہوسکتے ہیں ۔

4 ۔ اگر مندرجہ بالا تجاویز میں کسی پر بھی عمال کرنا کسی بھی وجہ سے ناقابل عمل ہو تو پھر مرکزی کمیٹی کو تھوڑا جائے اور یہ کام مقامی کمٹیوں کے سپرد کیا جائے تو ہر علاقہ اپنی کمیٹی کے اعلان سے عید منائے گا ۔ ویسے بھی حکومت نے اس دفعہ عید پر پانچ چھٹیوں کا اعلان کیا ہے اور مختلف علاقوں کے عوام کے پاس کئی عیدوں سے لطف اندوذ ہونے کا بہت سارا وقت دستیاب ہے ۔