کیا ستم ہے کہ ہم رکشے سے اتر جائیں گے

علی ارقم
علی ارقم

کیا ستم ہے کہ ہم رکشے سے اتر جائیں گے

از، علی ارقم

ایک بھولا بھالا آدمی زندگی میں پہلی بار کہیں میوے دار گُڑ مزے مزے لے لے کر کھا رہا تھا۔ ایسے میں اس نے بے ساختہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، یا اللہ تیرا نام بھی بہت میٹھا ہے، بہت ہی شیریں ہے، لیکن (تیری یہ نعمت) گڑ بھی بڑی خاصے کی چیز ہے۔

تو ویسے میں یہی سوچ رہا تھا کہ انقلاب اور مبارزہ (جد و جہد) بھی صحیح ہے، لیکن اکاؤنٹ میں پس انداز کی ہوئی مناسب رقم  بھی خاصے کی چیز ہے، تھوڑا پَیٹی بورژوا ہونا بھی کیا برا ہے۔

رات ساڑھے سات بجے کوئٹہ ہوٹل میں آ کر بیٹھا، شولڈر بیگ میں کچھ ٹٹولتے ہوئے گھر میں دو تین قبل تھمایا گیا بجلی کا بل ہاتھ آیا۔ چیک کیا تو مبلغ آٹھ ہزار روپے کے بل کی آخری تاریخ تھی، اور تاخیر سے ادائیگی پر کوئی چار سو بارہ روپے جرمانہ یعنی دس انڈے پر اٹھوں کی قیمت۔

ماتھا ٹھنکا، خیال کے گھوڑے دوڑائے تو جنگ پریس سے کوئی سو دو سو گز آگے جی پی او دھیان میں آیا۔

جا کر اے ٹی ایم سے بیلنس چیک کیا تو مبلغ چھ ہزار نو سو بیاسی روپے، یعنی کوئی بارہ سو کے لگ بھگ کا گیپ۔ یا اللہ

ایک دوست سے پوچھا تو اس کی جیب میں چار سو دس روپے، دوسرا دوست ابھی دفتر نہیں پہنچا تھا۔ جی پی او بند ہونے میں تیرہ منٹ کا وقت بچا ہے۔ خیر چھوٹے بھائی کو فون کر کے رقم ٹرانسفر کروائی، لیکن جی پی او میں بل بھرنے کا وقت گزر چکا تھا۔

ایک دوست کے ساتھ کوئی سوا دو کلو میٹر کی کُتّا خواری کر کے بالآخر ایک یو بی ایل اومنی شاپ میں بل بھرا اور دوست کو بر وقت آئیڈیا دینے کے انعام کے طور پر تیس روپے والی کون آئس کریم کِھلائی، کُتّا کمینہ!

اس نے مواچھ گوٹھ میں ڈراپ کیا، تو سامنے کھڑے نوسیٹر رکشا سے آواز آئی، فقیر فقیر! سو آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً سوار ہو گیا۔

وہاں دو پشتون نو جوان بھی آ گئے، ایک میری بائیں طرف بیٹھ گیا۔ دوسرا سامنے کی سیٹ پر دُو بَہ دُو، ساتھ والے کے گلے کے گرد بلیُو ٹوتھ ہینڈ فری حمائل تھی اور اِیئر پِیسِز کانوں میں لگے تھے وہ سامنے والے سے ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا جب کہ وہ چپ چاپ یوں مسکراتا کہ اس کی آنکھوں کی حرکات اور ہلکی ہلکی داڑھی اور گھنی مونچھوں میں چھپے دہانے اور گالوں کی جنبش اور گولائی کے گھٹنے بڑھنے سے ہی پتا چلتا کہ وہ مسکرا، یا ہنس رہا ہے کیوں کہ اس دوران اس کا مُنھ بند ہی رہتا۔ وہ اچھا خاصا وجیہ نوجوان تھا، داڑھی اور گھنی مونچھیں اس کے چہرے پر بھلی لگ رہیں تھیں۔

رکشا چلا تو میرے ساتھ بیٹھے نو جوان نے نو جوان ڈرائیور کی عدم مہارت اور رکشے کے کلچ کی کم زوری پر بات کرنا شروع کی اور ڈرائیور پر فقرے بھی کَسّے، ہلکی نوک جھونک چلی تو میں جو چپ چاپ سامنے براجمان نو جوان کو اس نوک جھونک سے محظوظ ہوتے ہوئے مشاہدہ کر رہا تھا اور حیران تھا کہ یہ کس کمال مہارت سے دانتوں کی نمائش کیے بَہ غیر ہنس رہا ہے۔

ایسے میں رکشا ایک جمپ پر آہستہ ہوا تو اس نے گٹکے کی پچکار باہر پھینکی، اور اب کے کھل کر ہنسا، اب کی بار اس کے دانت بھی نظر آئے، لیکن وہ عام پان گٹکا کھانے والوں کی طرح مَیلے اور کریہہ نہیں تھے، اس بات پر وہ اور بھی دل چسپ لگا۔

میں نے بھی نوک جھونک کے اس سلسلے میں اپنا کھاتہ کھولا، اور جب رکشے والے نے ایک کھڈے میں گاڑی زور سے ماری، تو میں نے آواز دی، رو هلکه! څه راپکې مات نه کې. چاینا طلاق لا زمونږ پرزې نه دي راویستي (دھیرے سے بھئی! ہمارا کوئی پرزہ نہ توڑ دینا، چائنا بی سی نے ابھی ہمارے پرزے مارکیٹ میں نہیں پھینکے۔)

دونوں نو جوانوں نے توقع کے بر خلاف کتھئی کرتہ اور وائٹ جینز پہنے اور کندھے پر کپڑے کا برانڈڈ بیگ لٹکائے (کیا ہوا جو لنڈے کا تھا) بَہ ظاہر متین سے بندے کو پشتو سلینگ میں بات کرتے سن کر خوش گوار حیرت کا اظہار کیا، اور ہنس دیے، ڈرائیور نے بھی پیچھے مڑ کر اس لقمہ دینے والے نئے شریک کا جائزہ لیا، اور میں ان سب سے قطعِ نظر سامنے بیٹھے نو جوان کی طرف توجہ کیے ہوئے تھا۔

اپنے جملے سے اسے محظوظ ہوتا دیکھ کر میں نے سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

آگے گاڑی ایک اسٹاپ پر رکی تو دو اور آدمی چڑھ آئے، ایک سواری کی جگہ باقی تھی، ڈرائیور پکارتا رہا: فقیر فقیر!

دو اور بندے آئے، تو میں نے کہا، “بھئی ایک فقیر کی جگہ بچی ہے، اور آپ دو ہو، اس بات پر پھر قہقہہ پڑ گیا۔

ڈرائیور نے پھر رکشا ایک کھڈے میں دے مارا تو میں نے پھر سے کہا، بھیا گاڑی کے پچھلے دو ٹائرز کو بھی اپنا سمجھ لے۔ او نا داں فرنٹ کے پہیے کو ہی رکشا سمجھ بیٹھا ہے، تو سارے سوار ہنس دیے۔

مشقِ سخن بھی جاری تھی اور کھڈوں کی مشقت بھی چل رہی تھی، ایسے میں اسٹاپ قریب آنے لگا اور تو میں نے اس نو جوان کو مخاطب کیے بَہ غیر ہی کہا:

کتنے (ی) دل کش ہو تم کتنا (؟) دل جُو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ (چنگچی سے) اتر جائیں گے

پس نوشت: په ګپ به پوهېږئ کنه

مذاق تو سمجھتے ہیں نا۔