کیری لوگر بل پر اختلافی پریس ریلیز سے انکاری ٹویٹ تک

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

کیری لوگر بل پر اختلافی پریس ریلیز سے انکاری ٹویٹ تک : خوگرِ حمد سے …. !

(ڈاکٹر عاصم اللہ بخش)

عام آدمی کے لیے اور دوسرے سر درد کم ہوتے ہیں جو اسے اب آئے روز اس کٹہرے میں بھی کھڑا ہونا پڑے کہ اسے فوج کا ساتھ دینا ہے یا سول حکومت کا؟ وہی بچوں سے پوچھا جانے والا سوال …. امی یا ابو ؟ بچے بھی اس سوال کو درست ہینڈل کر لیتے ہیں کہ دونوں۔ انہیں معلوم ہے کہ گھر کے لیے دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ میرے جیسا عام آدمی بھی یہی کہتا ہے کہ دونوں … تو پھر میرا یہ جواب قابل قبول کیوں نہیں ؟ شاید اس لیے کہ یہ جواب وہیں درست بیٹھتا ہے جہاں نظام اور قانون فائق ہیں۔ جہاں صورتحال نظم  کی ہوتی ہے۔، Turf War کی نہیں

میرے لیے فوج ایک رومانس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق اس ازلی سچائی سے بھی ہو سکتا ہے کہ باقی سب باتیں اپنی جگہ لیکن قوموں کے مابین حقیقی فتح و شکست کا آخری فیصلہ میدان جنگ ہوتا ہے اور اس معرکہ سے ہی عروج کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ اس محبت کا کچھ تعلق اس بات سے بھی ہو سکتا ہے کہ شعور کی آنکھ کھلی تو جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر پاکستان تھے۔ قومی مفاد سب سے اہم بتایا جاتا اور اس مفاد کا اہم ترین رکھوالا، افواج پاکستان۔ اس بات نے گویا دل میں گھر کر لیا۔ بہت مرتبہ اپنے ذہن میں برپا ہونے والے خیالی معرکوں میں پاک فوج کو دیکھا کہ ہندوستان کی فوج کو ایک فیصلہ کن شکست دے رہی ہے اور بنگلہ دیش ایک بار پھر مشرقی پاکستان بن چکا ہے۔ کوئی صدیق سالک اب قلم تھامے ” میں نے ڈھاکا ابھرتے دیکھا” لکھ رہا ہے۔ پاکستان کا پرچم سربلند ہے، دو قومی۔ نظریہ خلیج بنگال کی سطح پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ مجھے اپنی فوج سے محبت ہے، ہمیشہ رہے گی…. کہ یہ پاکستان کا ناقابل شکست دفاعی حصار ہے۔

اس لیے آج میرا مخاطب بھی میری فوج ہی ہے۔

کیری لوگر بل پر اختلافی پریس ریلیز سے شروع ہونے والا سلسلہ آج یہاں تک آن پہنچا کہ اختلاف کے ساتھ انکار بھی شامل ہو گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ میں آخری سطر کے تین الفاظ Notification is Rejected اپنے اندر بہت سے مضمرات لیے ہوئے ہیں۔ اس سے سول ملٹری تال میل کا بھرم ٹوٹا سو ایک طرف، یہ براہ راست ڈسپلن اور چین آف کمانڈ کی خلاف ورزی ہے۔

قطع نظر اس بات سے کہ اس معاملہ پر حکومت اور فوج کی کیا انڈرسٹینڈنگ تھی اور نوٹیفیکیشن میں اس کی کس طرح خلاف ورزی ہوئی، اس طرح عوامی سطح پر ردعمل کی کوئی بھی توجیہ کفایت نہیں کرے گی۔ اس طرح کا انکار جنرل گریسی سے تو متوقع ہو سکتا ہے جو سامراجی طاقت کا مقرر کردہ تھا اور اسے پاکستان کے گورنر جنرل کے حکم کا کچھ پاس نہیں تھا۔ لیکن یہ رویہ پاکستان کی قومی فوج سے ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ وہ وزیر اعظم کے حکم کو اس طرح رد کر دے۔

جس ادارے کے لوگ ارض وطن کے لیے اپنی جانیں ارزاں کیے ہوں وہ اس کے قانونی تقاضوں سے کیونکر خود کو الگ کر سکتے ہیں ؟ ایک ڈسپلنڈ فورس ایسا کرے گی تو عام عوام سے کیا گلہ ؟ اور ان سے بھی جو ملکی سالمیت کے خلاف ہتھیار بند ہیں۔ حکومتی رٹ تو کسی بھی حالت میں قائم رہنی چاہیے، اپنی ہر صورت میں …. نہیں ؟ اس کے لیے جانیں دی جا سکتی ہیں تو انا کی وقتی قربانی تو کچھ بڑی بات نہیں۔

کسی بھی ریاست میں کامیاب گورننس کے لیے انتظامی طاقت کا ایک ہی مرکز ہو سکتا ہے۔ باقی تمام اسی کو تقویت پہنچاتے، توانا کرتے اور ثقہ بناتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے ایک سے زیادہ مراکز خواہ وہ باقاعدہ ہوں، جیسا کہ افغانستان میں اس وقت موجود ہیں، یا پھر انفارمل ہوں جیسا کہ ہمارے ہاں، ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔ پالیسی میں کنفیوژن اور نتائج میں ناکامی اس کا کم از کم شاخسانہ ہوتا ہے۔ اس کا ایک اور بڑا نقصان کامیابی کا کریڈٹ لینے کی دوڑ اور ناکامی دوسرے کے ذمہ ڈالنے کا رجحان کی صورت سامنے آتا ہے جس سے ملکی معاملات اتفاق کے بجائے اتفاقیہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو حادثاتی بھی۔ اس صورت حال کا فائدہ دوست نما دشمن قوتیں اٹھاتی ہیں جو اپنے عمل سے اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ یہ دو رخی قائم رہے۔ وہ بیک وقت دونوں کو ہلا شیری بھی دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے محتاط رہنے کے “مخلصانہ” مشورے بھی اور بدگمانی کی اس فضا کو اپنا الو سیدھا کرنے کا سامان بناتے ہیں۔

قانون کے بھی اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ کبھی غیر محسوس انداز میں بھی اپنی اہمیت عیاں کر دیتا ہے۔ اسی کی ایک مثال یہ کلیہ ہے کہ وزیراعظم ہی افواج کا حقیقی باس ہوتا ہے۔ اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ وہی چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر کرتا ہے۔ اس کی غیر موجودگی میں یہ کام نہیں ہو سکتا۔ آپ خود دیکھ لیجیے کہ جب جب مارشل لاء رہے، کسی نئے آرمی چیف کا تقرر ہؤا کبھی؟ نیز، اگر سول حکومت کا اختیار ہے تو اس کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔ اگر ہم اپنے حالات پر نظر ڈالیں تو وہ ایک حفاظتی ڈھال ہوتی ہے جو فوج کے ایکشن کا جواز بھی دنیا کو دیتی ہے، ان کا دفاع بھی کرتی ہے اور کہیں کچھ اونچ نیچ ہو جائے تو مخالفانہ پروپیگنڈہ کا توڑ بھی کرتی ہے اور اپنی افواج کا دفاع بھی۔ اس ضمن میں 1971 کے آپریشن سرچ لائٹ کا تقابل پچھلے پانچ سال سے جاری آپریشنز سے کر لیجیے۔

دور نہیں، مصر ہی میں دیکھ لیجیے۔ جب فوج ایک منتخب حکومت کے تحت کام کر رہی تھی تو ساری تنقید حکومت پر تھی۔ آج جب فوج براہ راست عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہے تو عوامی غیض و غضب کا نشانہ بھی وہی ہے۔ کسی وقت مصر میں التحریر اسکوائر پر لہرایا جانے والا بینر بہت مشہور ہوا تھا:

“مصر کبھی پاکستان نہیں بنے گا”

اس کا مفہوم ہم سب بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہاں تو جو ہوا سو ہوا، لیکن آج بال ہماری کورٹ میں ہے۔ ہمیں پاکستان کو مصر نہیں بننے دینا۔

پاکستان کی اپنی ایک الگ سیاسی تاریخ ہے جس میں فوج کا بھی حصہ ہے۔ اس کی موجودہ حالت کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن صرف انہی کو نہیں۔ پہلا مارشل لاء دیکھ لیجیے …. تحریک پاکستان کے قائدین کو بدعنوان کہہ کر ایبڈو کے تحت نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر ویسے ہی سیاستدانوں کی ایک کھیپ سے نیا سیاسی نظام تشکیل پا جاتا ہے۔

فرق صرف وفاداری کا ہے…. جس نے شخصی وفاداری کی حامی بھر لی، سو کامیاب ہوا۔ کم و بیش یہی مشق ہر مارشل لاء میں دہرائی گئی۔ اگر سیاستدان انتخابی بے ضابطگیوں کے مرتکب ہوئے تو 1964 کے صدارتی انتخابات میں کیا ہوا؟ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف صاحب کے ریفرنڈم کو کیا کہیں گے؟ اور “مثبت نتائج” والے انتخابات؟

خود دیکھ لیجیے کہ ایوب خان صاحب کے دس سال میں امریکہ کی کاسہ لیسی زیادہ ہوئی یا بھٹو صاحب کے پانچ سال میں؟ اور پھر سیاستدانوں کو اسلام آباد براستہ واشنگٹن کی راہ کس نے دکھائی؟ جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں محترمہ بینظیر و نصرت بھٹو کس کی مداخلت پر ملک سے باہر جا سکیں۔ پھر بینظیر بھٹو کو کس کے کہنے پر واپس آنے دیا گیا؟ جنرل مشرف صاحب میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر کو کرپٹ اور نجانے کیا کچھ کہتے رہے …. پھر کس کے کہنے پر محترمہ سے مذاکرات کیے، ڈیل ہوئی اور این آر او جاری ہوا؟ امریکہ پاکستان کی داخلی سیاست میں کیونکر اتنا دخیل ہوا….. اس کا جواب تلاش کرنا نہایت اہم ہے لیکن مشکل ہرگز نہیں۔

بھارت کے ساتھ تعلقات بھی ایک اہم حوالہ ہے۔ 1971 کی جنگ جنرل یحی کے دور میں ہوئی۔ جنگی قیدیوں کو بھٹو صاحب چھڑا کر لائے۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ بھارت نے سیاچن پر قبضہ کر لیا تو جنرل ضیاء نے فرمایا کہ وہاں تو گھاس کا تنکا تک بھی نہیں اگتا …. وہی کام جب کارگل میں ہم نے کرنے کی کوشش ہوئی تو بھارت نے نہیں دیکھا کہ وہاں کچھ اگتا ہے یا نہیں۔ اس نے پورا توپ خانہ وہاں جھونک دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم کو اچانک واشنگٹن جا کر سیز فائر کی بات کرنا پڑی۔ انہیں غیر محب وطن قرار دے دیا گیا۔ اور اس کے چند سال بعد جنرل مشرف صاحب وزیراعظم واجپائی کے ساتھ پاکستان کے خلاف یک طرفہ قیود پر مبنی “امن” معاہدہ کر کے امن کے سفیر کہلائے۔

سیاستدان ہر ملک کے بس ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ٹونی بلیر اور بش جیسوں کی اصلیت بھی ہمارے سامنے ہے اور صدر ٹرمپ نے تو ہر بھرم ہی توڑدیا۔  تاہم، اس سب کے با وصف ان کے پاس دو کمال ایسے ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر ان کی ایک مسلمہ اہمیت قائم رہتی ہے : عوامی حمایت اور مذاکرات و معاہدہ کرنے کی صلاحیت۔

لیکن ان کو بروئے کار آنے کا اعتماد دینا اسٹیبلشمنٹ کا کام ہوتا ہے۔ انہیں یہ یکسوئی دینا کہ ان کی بین الاقوامی کمٹمنٹ کا احترام کیا جائے گا، اس کے متوازی کوئی اور پروگرام نہیں چلایا جائے گا؛ یا ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی بات رد کر کے بعد میں اس سے بھی کمتر پر مفاہمت کر لی جائے گی۔ یہ بہرحال اسٹیبلشمنٹ کا حق ہوتا ہے کہ اس سے بامعنی مشاورت بھی ہو اور اس کے تحفظات اور سفارشات دونوں کو ہر حال مدنظر رکھا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ اس پر زور بھی دے سکتی ہے، لیکن پس پردہ …. باآواز بلند نہیں۔ ایک بار جو طے ہو جائے وہ پھر سب کے لیے یکساں لائق احترام و عمل ہے۔

ڈان لیکس اہم ہیں …. ملکی سلامتی کے حوالہ سے رازداری کی متقاضی میٹنگز کی روداد کسی صورت پریس یا عوامی فورم پر نہیں آنا چاہیے۔ اس کی تحقیقات بھی اہم ہیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو اور ایسی حرکت کا اعادہ نہ ہو۔ لیکن یہاں بھی ہمیں دو باتیں ضرور سامنے رکھنا ہوں گی …… کیا تحقیقات ہمیشہ صرف سول مس ایڈونچرز تک محدود رہیں گی ؟ دوسرا یہ کہ ڈان لیکس پر تو مرتے بھرتے کچھ نہ کچھ اقدامات حکومت نے لیے ہیں ….. کیا اس ٹویٹ کے حوالے سے بھی کچھ ہوگا؟