پانامہ لیکس فیصلے کی کوکھ سے ٹوٹتے ادارہ جاتی بندوبست

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

پانامہ لیکس فیصلے کی کوکھ سے ٹوٹتے ادارہ جاتی بندوبست

(ملک تنویر احمد)

آپ نے غالباً ’’ اربعہ جوں کا توں اور کنبہ ڈوبا کیوں‘‘ کا لطیفہ سن رکھا ہوگا۔نہیں سنا تو پہلے سن لیجئے ۔کہتے ہیں کہ ایک کنبہ کسی دریا کو عبور کرنے کی غرض سے اس کے کنارے پر کھڑا تھا۔ اس کنبے میں ایک حساب دان بھی تھا۔کنبے کے سربراہ نے حساب دان سے کہا کہ اپنا اربعہ لگا کر دریا کی گہرائی معلوم کرو۔حساب دان نے حساب لگا کر بتایا کہ دریا کی گہرائی اوسطاً تین فٹ ہے اس پر کنبہ دریا میں اتر گیا اور اسے عبور کرنا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے کچھ فاصلہ طے کر لیا تو کنبہ ڈوبنے لگا۔سربراہ نے حساب دان سے پوچھا کہ تونے کیسا حساب لگایا ہے ،کنبہ ڈوب رہا ہے ۔

حساب دان نے جواب دیا کنبہ ڈوبتا ہے تو ڈو بے لیکن میر احساب غلط نہیں ہو سکتا۔ پانامہ کیس فیصلے میں فی الوقت میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم نا اہلی سے بچ نکلے جن پر مسلم لیگی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جو ان کے حساب سے ان کی جیت ٹھہری لیکن یہ فیصلہ اداروں کی تباہی و بربادی پر جس طرح ماتم کناں ہے وہ درج بالا سطور میں رقم کئے گئے لطیفے کے مصداق ٹھہراتا ہے۔اس فیصلے نے قومی و ریاستی اداروں کے ضعف، ناپائیداری ، تنرلی اور تباہی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔ ابھی دل ناتواں کو مزید ستم شاید سہنے تھے کہ ڈان لیکس نے ادارہ جاتی ضعف کو مزید طشت ازبام کر دیا جب حکومتی ادارے سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

پاکستان میں ادارے کی تعمیر و ترقی ہماری قومی تاریخ کا ایسا کربناک المیہ ہے جس میں فوجی آمرتیوں کے ساتھ ساتھ جمہوری حکومتوں کو بھی بڑی حد تک دخل رہا۔اپنے اقتدار کو دوام اور طوالت دینے کے لئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے بروئے کار لانے میں قومی ادارے کس طرح تباہی و بربادی کا شکار ہوئے پانامہ کیس نے اس بدبودار حقیقت پر سے پردے سرکا دیے ہیں۔پانامہ کیس کے فیصلے میں قومی احتساب بیورو (نیب)، ایف آئی اے ، ایف بی آر اور دوسرے اداروں کی پانامہ کیس میں کارکردگی پر عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے جو مشاہدات قلمبند کرائے وہ چشم کشا ہیں۔

فیصلے کے مطابق چیئرمین نیب اور ڈی جی ایف آئی اے پانامہ تحقیقات میں ناکام رہے ہیں۔ایف آئی اے وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہی ہے جب کہ نیب چےئر مین نے تو صریحاً کام کرنے سے معذوری کا اظہار کر دیا ۔عدالت نے ایف بی آر کی کارکردگی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا ۔ تفصیلی فیصلے میں معزز عدالت کے مختلف اداروں کی کارکردگی پر مشاہدات در اصل ہمارے ہاں قومی اداروں کی تباہی و بربادی کا داستان ہے جس پر کوئی آنکھ شرمسار ہے اور نا ہی کسی کے اندر اخلاقی جرات نے انگڑائی بھری ہے کہ وہ اس پر پشیمانی کا اظہار کرے۔ملک میں اداروں کے اس اضمحلال اور ضعف کو اگر ڈان لیکس میں آئی ایس پی آر کی اس ٹویٹ سے جوڑا جائے جس میں انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کے ایگزیکٹو آرڈر کے پرخچے اڑا دیے ہیں،اداروں کے درمیان اس نوع کی چپقلش کوئی عجب نہیں کہ دنیا بھر میں اداروں کے مابین اختلافات ابھرتے رہتے ہیں لیکن مہذب ممالک نے نزاعی امور کو احسن طریقے سے حل کرنے کے لئے ادارہ جاتی میکنزم کو پروان چڑھایا کہ جس کے ذریعے ان اختلافی امور کو میڈیا کی نظروں سے دور باہمی مشاورت اور رابطے سے حل کر لیا جاتا ہے۔ڈان لیکس پر آئی ایس پی آر کو ٹویٹ بقول چوہدری نثار علی خان زہر قاتل ہے۔

چوہدری صاحب کا ارشاد بجا ٹھہرا کہ کسی حکومتی ادارے کے میڈیا سیل کو سوشل میڈیا پر اس طرح ملک کے چیف ایگزیکٹو کے آرڈر کی بھد نہیں اڑانی چاہئے تھی لیکن چوہدری صاحب اس حقیقت سے کیونکر صرف نظر کر رہے ہیں کہ جس ملک میں اداروں کی تشکیل، تعمیر اور ترقی کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ ہو وہاں ایسے ہی مضحکہ خیز صورت حال ابھرتی ہے۔سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں جہاں میا ں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات کو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سپرد کیا وہیں پر ان کے خلاف اداروں کی تباہی و بربادی کی چارج شیٹ بھی ان کے خلاف جاری کر دی ہے۔میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں جہاں وہ اقتدار و اختیار کی گنگا میں اشنان کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان اداروں کی تباہی و بربادی کا سارا ملبہ بھی ان پر گرے گا جو وہ فرائض انجام دینے میں ناکام و نا مراد ٹھہرے ہیں جو آئین اور قانون نے انہیں تفویض کئے ہیں۔

میاں صاحب بصد شوق حزب اختلاف کی ان جماعتوں کا مذاق اڑائیں جو ان سے اخلاقی طور پر استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ حزب اختلاف کا استعفے کا مطالبہ خالصتاً ایک سیاسی مسئلہ ہے کہ وہ اگر اخلاقی طور پر وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں تو انہیں بھی بعد امور پر اخلاقی جوابدہی کے وار سہنے پڑ سکتے ہیں لیکن پانامہ کیس میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ان سے اخلاقی طور پر یہ سوال کر رہا ہے کہ آپ نے پچھلے چار سالوں میں اداروں کی تعمیر و ترقی کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ ان اداروں کو غیر جانبدار رکھنے کے لئے آپ کے نخل فکر پر اصلاحات کے کون سی کونپلیں پھوٹیں؟ اور ان سے کونپلوں کی آبیاری اور دیکھ بھال کر کے آپ نے اداروں کو کس طرح مضبوطی اور دوام بخشا؟

ان اداروں کو آپ نے کس طرح سیاسی مصلحت کی آلائشوں سے محفوظ رکھا کہ وہ ملک و قوم کی ترقی و تعمیر میں کسی سیاسی دباؤ اور جبر کے بغیر اپنا کام کر تے رہیں۔ میاں صاحب! آپ سے اخلاقی طو ر پر استعفیٰ ان اداروں کی تباہی و بربادی پر لیا جانا چاہئے جو آپ کے زیر تحت تھے اور آپ ان کی تعمیر و ترقی کے لئے خشت اول بھی نہ رکھ سکے۔پانامہ کیس میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی بیرون ملک جائیدادوں کی تحقیقات تو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سپرد کر کے عدالت نے اسے مزید چھان بین کا حکم دیا ہے لیکن قومی اداروں کی تباہی و بربادی کی چارج شیٹ تو واضح طور پر میاں نواز شریف کے خلاف اس فیصلے میں آچکی ہے۔تین بار وزارت متمکن رہنے کے بعد بھی آپ اگر ایک ادارہ بھی تشکیل و تعمیر نہ کر سکے تو اس وزارت عظمیٰ پر ٹکے رہنے کو کوئی باضمیر شخص تو افورڈ نہیں کر سکتا ۔ خد ا جانے آپ کیسے اس بوجھ کو برداشت کر کے فرحاں و شاداں ہیں؟