کالا باغ ڈیم مہم جوئی کا سٹیج ہے

ڈاکٹر محمود حسن

کالا باغ ڈیم مہم جوئی کا سٹیج ہے

از، ڈاکٹر محمود حسن

زندگی  اور پانی ایک دوسرے کے لیے  لازم و ملزوم ہیں۔ پانی زندگی کے لیے اس قدر ضروری ہے کہ دنیا کے گرم ترین صحراؤں میں رہنے والے جانوروں کی زندگی بھی پانی سے ہی مشروط ہے۔ ایسے  حالات میں یہ سوچنا کہ پاکستان جیسا زرعی ملک پانی کے بغیر زندہ رہ پائے گا بعید از قیاس ہے۔ پاکستان میں پانی کے ذخائرمیں کمی کی موجودہ صورت حال  تشویش کی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں اجتماعی عوامی شعور اب اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ لوگ پانی کے ذخائر میں کمی کو انتہائی سنجیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی مہربانی سے پانی اب ایک عوامی مسئلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور سوشل میڈیا پر ہر سمت نئے ڈیم بالخصوص کالا باغ  ڈیم بنوانے کا غلغلہ بلند ہے۔ جسے دیکھو کالا باغ ڈیم بنوانے کے لیے بے چین ہے۔ بعض لوگ تو اس معاملے میں ڈیپریشن کی آخری انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔

جذباتی انداز میں کبھی چیف جسٹس صاحب کو التجائیں کرتے ہیں  کہ اقتدار پر قابض ہو کر ڈیم بنوائیں، تو کبھی چیف آف آرمی سٹاف کا خون گرماتے ہیں کہ ان تمام سیاست دانوں کو گولی مار دو جو ڈیم کے مخالف ہیں۔ گویا انہیں اس بات سے کوئی سر و کار نہیں کہ ملک بھلے ٹوٹ جائے لیکن ڈیم ضرور بن جائے۔

“ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں ” کے مصداق  میں بھی آج اپنا نقطۂِ نظر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کا ہر سَمِت  سے احاطہ کروں۔ میری درخواست ہے کہ ہر وہ صاحبِ علم وعقل جو اپنے گروہی، لسانی، علاقائی اور ذاتی تعصبات کو بالائے طاق رکھ  کر اس مضمون کا مطالعہ کرے وہ اس پر ضرور بحث اور تنقید کرے۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے تاریخ سے واقفیت ہونا بھی از حد ضروری ہے۔

سندھ اور پنجاب میں پانی کی تقسیم کوئی نیا مسئلہ نہیں، بل کہ اس کی جڑیں دو صدیوں تک پہنچتی ہیں۔ برطانوی حکومت نے 1843ء میں سندھ اور 1847ء میں  پنجاب کو فتح کیا۔ اس وقت سندھ اور پنجاب کا قابلِ کاشت رقبہ با لترتیب 7 لاکھ 50 ہزار اور 10 لاکھ ایکڑز تھا۔

تاہم 1920ء تک سندھ اور پنجاب  میں زیرِ کاشت اراضی کا رقبہ با لترتیب 9 لاکھ اور 34 لاکھ تک ہوچکا تھا۔ پنجاب میں زیرِ کاشت رقبہ میں تقریباً چار گنا اضافہ کی وجہ پنجاب سے برطانوی فوج میں ہونے والی اضافی بھرتی  تھی۔ برطانوی فوج میں بھرتی کے عوض پنجابیوں کو نیلی، گنجی اور ساندل بار جیسے غیر آباد علاقوں میں جاگیریں ملی جس سے نہ صرف برطانوی حکومت کو زرعی اجناس میں خود کفالت ملی بل کِہ رائے احمد خان کھرل جیسے بہادر اور جنگ جُو لوگوں سے خلاصی بھی مل گئی۔ بار کے یہ علاقے مانچسٹر اور انڈیا کی کپاس کی ضروریات پوری کرنے لگے۔

زیرِ کاشت رقبہ میں مزید اضافہ کے لیے 1847ء سے 1915ء کے درمیان نہروں کا جال بچھا دیا گیا۔ سینٹرل باری دو آب، لوئر باری دو آب، اپر چناب، لوئرچناب، اپرجہلم، لوئر جہلم، پہاڑ پور اوراپر سوات  کینال اسی عرصہ کے دوران تعمیر کی گئیں۔ نہروں اور ہیڈ ورکس کی تعمیر اس تیزی سے جاری تھی کہ 1934ء تک دریائے ستلج سے 11 انہارنکالی جا چکی تھیں جب کہ اس پر 4 ہیڈ ورکس بھی تعمیر ہو چکے تھے۔ پانی کے ان تمام منصوبہ جات سے صرف اور صرف پنجاب بہرہ مند ہو رہا تھا جب کہ سندھ میں اس تمام عرصہ میں صرف سکھر بیراج پروجیکٹ ہی مکمل کیا گیا۔

ان حالات میں سندھ میں موجود برطانوی حکومت نے پنجاب میں اپنی ہی حکومت سے احتجاج کیا اور یوں پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کا پہلا معاہدہ 1919ء میں منظور ہوا جس کے مطابق پنجاب کو دریائے سندھ کے پانی کو اس وقت تک استعمال کرنے سے روک دیا گیا جب تک کہ سکھر بیراج کی تعمیر مکمل نہ ہو جائے۔ لیکن پنجاب نے 1925ء میں تھل کینال پروجیکٹ  منظوری کے لیے پیش کر دیا جسے اس وقت کے وائسرائے ھند لارڈ ریڈنگ نے یہ کہتے ہوے نا منظور کر دیا کہ اس پروجیکٹ کی منظوری سندھ سے صریح نا انصافی ہوگی۔ ستلج پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد پنجاب کے نہ صرف سندھ بل کہ ریاست بہاول پور کے ساتھ پانی کی تقسیم کے مسائل بھی بڑھ گئے۔


مزید دیکھیے: پاکستان میں آبی وسائل کا ضیاع : مسئلہ اور اس کا حل


برطانوی حکومتِ سندھ  نے پنجاب میں اپنی ہی حکومت کے معاندانہ رویہ سے تنگ آ کربا لآخرمرکزی حکومت کو شکایت داخل کر دی۔ اس شکایت  کا فیصلہ 1941ء میں ہوا جس کے نتیجہ میں پنجاب کو دو کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ یہ رقم سندھ میں دوعدد بیراج  تعمیرکرنے کے لیے استعمال کی گئی جن کی کل لاگت 16 کروڑ تھی۔

اسے ہماری بد قسمتی کہیں یا کچھ اور کہ برطانوی حکومت سے آزادی کے دوران حکومت پاکستان کے اربابِ بست و کشاد نے  پانی کے مسئلہ کو اس قدر سنجیدگی سے نہ لیا جس کا یہ حق دار تھا۔ ہمیں ضرور اس بات کی کھوج کرنی چاہیے کہ جن اصحاب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی انہوں نے کن وجوہات کی بنیاد پر پاکستان کے حقوق پر سمجھوتا کیا؟ ان کی اس کُوتاہ بینی کی وجہ سے دریائے ستلج  پر فیروز پور اور دریائے راوی پرمادھو پور کے مقامات پر موجود ہیڈ ورکس بھارت کے ہاتھ آ گئے۔

قیامِ پاکستان کے بعد بی آر بی دریائے سندھ سے  نکالی جانے والی پہلی نہر تھی جس پر صوبہ سندھ نے ایک مرتبہ پھراعتراض اٹھایا اور مرکزی حکومت  نے اپنے مراسلہ نمبرپی (19)67 مورخہ 26 مارچ 1953ء میں اسے پنجاب کی ایک غلطی تسلیم کیا۔ 14 اکتوبر1955ء سے 30 جون 1970ء تک ملک میں ون یونٹ کا قانون نافذ رہا اور اسی دوران  پاکستان نے انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ طے کیا جس کا تفصیلی جائزہ اگلے مضمون میں لیا جائے گا۔

کالا باغ ڈیم 1953ء میں تجویز ہوا اور اس کی پہلی فیزیبیلیٹی رپورٹ 1975 میں پیش کی گئی جس پر1982ء میں ہونے والی تنقیدی جائزہ رپورٹ میں کے پی کے (سرحد) حکومت کی جانب سے ڈیم کی بلندی پر اعتراض اٹھایا گیا۔ اِن اعتراضات کی بنیاد پر ڈیم کی ڈرائنگز میں کچھ تبدیلیوں کے بعد ڈیم کی متجوزہ اونچائی کی حد 925 فٹ سے کم کر کے 914 فٹ کردی  گئی۔ نئی رپورٹ 1988 میں پیش ہوئی لیکن جون 1990ء میں سندھ اسمبلی میں اس کے خلاف قرارداد منظور کر لی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈیم اس قدر متنازع حیثیت اختیار کر چکا تھا کہ اکتوبر 1991ء تک سرحد اسمبلی سے اس کے خلاف چوتھی مرتبہ قرار داد منظور ہو چکی تھی۔

دونوں صوبوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات اس قدر معقول ہیں کہ ان سے یکسرصرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔ سرحد اسمبلی کی قراردادوں  کے مطابق دریائے کابل میں پانی کے بیک فلو ایفیکٹ سے پشاور، نوشہرہ اور مردان کے بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ ڈیم کی تعمیر سے ان تینوں شہروں کا بڑا رقبہ یا تو زیرِ آب آ جائے گا یا سیم تھور کا شکار ہو کرنا قابلِ کاشت ہو جائے گا۔ مزید برآں واپڈا کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ڈیم کی تعمیر کے لیے کم از کم 16 گاؤں خالی کروانے ہوں گے جس سے مجموعی طور پر ایک لاکھ  خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔ سیلاب کی روک تھام کے لیے واپڈا کی جانب سےدریائے کابل کے دونوں اطراف 25 فٹ بلند بند بنائے جانے کی تجویز پیش کی گئی۔

اعتراض دور کرنے اور کاغذی کار روائی کے لیے تو یہ قدم قابل قبول ہے لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ 25 فٹ بلند بند میں شگاف کی صورت میں کس قدر مالی اور جانی  تباھی کا اندیشہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ صوبے میں بہت سا قیمتی انفراسٹرکچر اور ذرائع رسل و رسائل تباہ ہوکر رہ جائیں گے۔

نجانے کالا باغ ڈیم  کی تعمیر کے لیے بے چین  محبِ وطن پاکستانیوں کے ذہنِ رسا میں یہ سوالات کیوں نہیں اٹھتے کہ اگر کالا باغ ڈیم پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کی بنیاد صرف صوبائی تعصبات ہیں تو ضیا الحق اور مشرف جیسے ڈکٹیٹر اس ڈیم کو کیوں تعمیر نہ کروا سکے؟ اور تو اور پچھلے پانچ سالوں میں تحریک انصاف کی محب وطن قیادت کو کس نے اپنی اسمبلی سے اس ڈیم کے حق میں قرارداد منظور تو دور کی بات پیش کرنے سے بھی مانع رکھا۔ چیئرمین تحریکِ انصاف  350 ڈیموں کی بات تو کرتے ہیں لیکن کالا باغ ڈیم پر موصوف نے اپنی زبان کو تالا کیوں لگا رکھا ہے؟

سوال تو  یہ بھی ہے کہ اگر کے پی کے میں تین سو پچاس ڈیم  بننے کے بعد بھی ملک خشک سالی کا شکار ہے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے پانی کی قلت  کس طرح ختم ہو جائے گی؟

صوبہ سندھ کی جانب سے اٹھنے والا سب سے بڑا اعتراض، سند ھ کے لیے منطور شدہ پانی  کے کوٹے میں کمی ہے۔ اگرچہ پنجاب حکومت بار ہا یقین دہانی کروا چکی ہے کہ اس ڈیم سے مزید کوئی نہر نہیں نکالی جائے گی، لیکن پنجاب کے ماضی کے رویے کی وجہ سے سندھ  ان وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اور حقیقت اس کے کچھ برعکس بھی نہیں۔

واپڈا کے  اپنے کاغذات کے مطابق ڈیم کے بائیں جانب سے 170 میل لمبی نہر بنانے کا منصوبہ تیار ہے۔ اس نہر کی گنجائش  15 ہزار کیوسک ہے اور جو ہرسال ڈیم سے خارج شدہ 6 اعشاریہ 65 ملین ایکڑ فٹ پانی سے پنجاب میں میانوالی، خوشاب اور جہلم کے اضلاع میں 3 لاکھ 70 ہزار ایکڑ زرعی اراضی سیراب کرے گی۔

سندھیوں کے لیے کالا باغ ڈیم گویا سندھ کو صحرا میں تبدیل کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی رنجشوں کے با وجود تمام سندھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف متحد ہیں۔

لیکن بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ در اصل سندھ میں کوئی اضافی پانی موجود ہی نہیں۔ جس  کا ثبوت یہ ہے کہ اگر پانی ہے تو اس وقت پانی کی فراوانی کیوں نہیں۔ منگلا، تربیلا اور راول ڈیم خشک کیوں ہیں؟ اور اگر اب پانی موجود نہیں تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد کہاں سے پانی مل جائے گا۔

بعض  افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ صوبہ سندھ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سالانہ کئی ہزار کیوسک پانی  سمندر میں گِر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ لیکن شاید وہ دریاؤں سے سمندر میں گرنے والے پانی کے پریشر میں  کمی سے ہونے والے نقصانات کا ادراک نہیں رکھتے۔

1991ء میں دست خط شدہ پانی کے معاہدہ کے مطابق 10 ملین ایکڑ فٹ پانی ڈاؤن سٹریم کوٹری سے اخراج کے بعد سمندر میں گرائے جانے  پر اتفاق کیا گیا تھا۔ لیکن پچھلے 25 سالوں میں ایسا صرف شدید بارشوں میں ہی ممکن ہوسکا جس سے انڈس ڈیلٹا اور کچے کے علاقے بری طرح  متاثر ہوئے۔

سمندر کے پانی کی سطح میں مسلسل اضافے کے باعث کراچی، کیٹی  بندر اور ٹھٹھہ کی وسیع ساحلی پٹی سمندر کی نظر ہوگئی اور زیر زمیں پانی پینے اور فصلیں کاشت کرنے کے قابل نہ رہا۔ سمندر میں گرنے والی 17 کرِیکس میں سمندر کا پانی داخل ہوگیا جس سے مینگروو کے جنگلات تباہ ہو کر رہ گئے۔ چھوٹی کشتیوں سے مچھلی کا شکار کرنے والے مچھیرے بے گھر اور بے روز گار ہو گئے۔ یاد رہے کہ  مینگروو کے جنگلات نہ صرف مچھلیوں کے لیے نرسری کا کام کرتے ہیں بل کِہ یہ سونامی جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے قدرتی انشورنس بھی ہیں۔

شاید بہت کم پاکستانی جانتے ہوں کہ پاکستان میں ممالیہ جانوروں کی ایک ہی نایاب نسل  “انڈس ڈالفن ” بھی دریائے سندھ کے اسی علاقے میں پائی جاتی ہے۔ یہ نایاب جان دار جسے مقامی زبان میں “بلہن ” بھی پکارا جاتا ہے، معدومی کے شدید خدشات کا شکار ہے اور آئی یو سی این کی سرخ فہرست میں شامل ہے۔ یہ جان دار دریائے سندھ کے علاوہ دنیا کے کسی حصے میں موجود نہیں۔ دریائے سندھ کے پانی  میں مزید کمی سے اس جان دار کی نسل دنیا سے معدوم ہو جائے گی۔

کالا باغ ڈیم کے ناقابل عمل ہونے کی ایک اور وجہ ڈیم  کی کھیوڑہ سالٹ مائینز سےنزدیکی ہے۔ یہ ڈیم ایک ایسے علاقے میں تعمیر کیا جائے گا جو زلزلوں والی فالٹ لائن پر موجود ہے اس لیے نا گہانی آفت کے خطرات پنجاب کے سر پر بھی ہر وقت منڈلاتے رہیں گے۔ ڈیم کا ذخیرہ شدہ پانی زمین میں رِسنے کی وجہ سے سارا نمک اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔

نمک کی چٹانیں گھلنے کی رفتار میں اضافے کے باعث سطح  مرتفع پوٹھو ہار میں زلزلوں کے خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔ مزید یہ کہ ڈیم بہت جلد سِلٹ سے بھر جائے گا اور صرف دس سال کے قلیل عرصہ میں اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تقریباً نصف رہ جائے گی۔

ایسے حالات میں سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کی تحریک سے متاثر ہو کر”ارباب اختیار” کا ڈیم کے حق میں کوئی فیصلہ میری نظر میں مہم جوئی  کے ما سوا اقدام نہ ہوگا۔ اگر کوئی شخصیت یہ سمجھتی ہے کہ اس خالصتاً سیاسی اور فنی مسئلہ کو کسی جادو کی چھڑی گھمانے سے حل کیا جا سکتا ہے تو اس سے نہ صرف ملکی یک جہتی  پارہ پارہ ہونے کا احتمال ہے بل کہ شدید معاشی اور جانی المیے کا اندیشہ بھی ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ بار بار کالا باغ ڈیم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی بجائے اس کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے اور دوسرے آپشنز پرعمل کرتے ہوئے پانی کے ذخائر میں اِضافہ کیا جائے۔ کالا باغ ڈیم کی بجائے اگر ہم اپنے ریسورسز کاٹزارا ڈیم سکردو، داسو ڈیم  اور بھاشا ڈیم پر پر صرف کریں تو نہ صرف پانی بل کہ بجلی کی پیداوار میں بھی خود کفالت کی منزل حاصل کرسکتے ہیں۔ با لخصوص کاٹزارا ڈیم سکردو کالا باغ ڈیم کی نسبت پانچ گنا زیادہ پانی سٹور کرنے اور تین گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔