یو آن فلائیپ ہریرا Juan Felipe Herrera اجتماعی اور نسلی حیثیتوں والا امریکی شاعر

Juan Felipe Herrera یو آن فلائیپ ہریرا اجتماعی اور نسلی حیثیتوں والا امریکی شاعر

تعارف و ترجمہ، منیر فیاض

برطانیہ میں پوئیٹ لاری ایٹ (Poet Laureate) کے عہدے کی روایت بہت پرانی ہے۔ برطانیہ کی طرز پر امریکا میں بھی کافی عرصے سے پوئیٹ لاری ایٹ کی نشست بنائی گئی ہے جس کے لئے نیشنل کانگریس لائیبریری کے اراکین ہرسال کسی اہم شاعر کا انتخاب کرتے ہیں۔ تعیناتی کی مدت کے دوران شاعر کو معقول وظیفہ دیا جاتا ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کی انتظامی مصروفیات کم از کم ہوں اور وہ زیادہ وقت اپنے تخلیقی عمل کو دے سکے۔ اس کے علاوہ شاعر کو تخلیق نگاری کے طالب علموں کی رہنمائی کا کام دیا جاتا ہے۔ رابرٹ فراسٹ بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

حال ہی میں امریکہ کے مشہور شاعر’ یوآن فلائیپ ہریرا‘( Juan Felipe Herrera) اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کیلی فورنیا کے پوئیٹ لاری ایٹ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق میکسیکو سے ہجرت کر کے امریکا آنے والے ایک کسان گھرانے سے ہے۔ درجن بھر سے زیادہ شعری مجموعوں کے خالق ہریرا نے کہانیاں بھی لکھی ہیں اور بڑی عمر کے بچوں کے لئے منظوم ناول بھی تصنیف کیا ہے۔

ہریرا کا بچپن سین جیکوئین، سین ڈیگو اور سان فرانسسکو میں گزرا اور وہ ان شہروں کے اپنی شاعری پر بہت اثرات بتاتے ہیں۔ وہ بیٹ نسل (Beat Generation) کے عمدہ شاعر ایلن گنزبرگ (Allen Ginnsberg) سے بہت متاثر ہیں۔گنز برگ کی طرح انھیں بھی نئے مرکبات بنانا بہت پسند ہے۔ ان کی نظم بے ساختہ اور جیتی جاگتی لگتی ہے۔ ان کی نظم پردیوار پر بنی ہوئی بڑی سی تصویر کا گمان ہوتا ہے جس میں بہت سے رنگ اور شکلیں اکٹھی کر دی گئی ہوں یعنی وہ اپنی نظم کو بیانیہ کی بجائے منظرہ (scenic) بناتے ہیں۔ بیٹ شاعروں کی طرح ان کے موضوعات بھی ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی اور اس میں موجود taboos کے آپس میں موجود تفاوت سے پیدا ہونے والا گھٹن کا ماحول ہے۔

ہریرا اوپیرا اور رقص کے تھیٹر سے بھی وابستہ ہیں۔ وہ امریکا میں مہاجرین اور مقامی افراد کے حقوق کی تحفظ کی تنظیموں کے بھی فعال رکن ہیں۔ ان کی شاعری اور بچوں کے لئے تحریروں کو بہت سے انعامات مل چکے ہیں۔ نقاد سٹیفن برٹ کا کہنا ہے کہ ان کی شاعری ایک نئی نوع کا متحرک فن ہے جس کاکچھ حصہ زبانی ہے، کچھ تحریری ہے ، کچھ انگریزی اور کچھ علاوہ ازیں۔وہ اجتماعی ، نسلی اور انفرادی حیثیتوں میں بھر پور شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں ہمیں جابجا نئے تجربات نظر آتے ہیں جو ان کو مختلف اور منفرد بناتے ہیں۔ یہی تجربے کی جرات وہ تخلیق نگاری کے طالب علموں کے لیے لازم سمجھتے ہیں۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے کاغذ پر نظم کی پیشکش کو بجلی کے تاروں کے ٹکڑوں سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ شاعر میں نظم کے ہر مرکب اور سطر کو نئے طریقے سے توڑنے اور جوڑنے کا حوصلہ ہونا چاہئے ، اس طرح کہ خیال اور جذبات کی شدت قاری تک پہنچتے ہوئے کم نہ ہو۔ ذیل میں اُن کی کچھ منتخب نظمیں اُردو ترجمے کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں:

میں صرف ایک تصویر کے لیے پوز کر رہا ہوں

میں صرف ایک تصویر کے لئے پوز کر رہا ہوں
یاد رکھو،جب فرہنگِ اسما تمہیں روکے
تو انہیں بتا دینا کہ ’’ جناب بات اتنی سی ہے کہ
وہ محض میرے کیمرے کے لئے پوز کر رہا تھا‘‘۔۔۔۔ہاں، اس سے بات بن جائے گی

میری آنکھیں

میرے باپ کی طرح صاف اور بادامی، سمندر کے پار گھورتی ہیں، میرے ہاتھ میرے دائیں بائیں، میری ٹانگیں
گیلی ریت میں ایک دوسرے سے جدا پھیلی ہوئی ہیں، میری پینٹ شکن آلود، پھٹی پرانی اور مرجھائی ہوئی ہے، میری شرٹ چیتھڑوں میں بدل چکی ہے، اس سے جا بجا آر پار نظر آتا ہے،

بٹن نہیں ہیں، بٹن، کیا عیاشی ہیں،
میں ذرا ہنستا ہوں، میری زبان پھسل کر اپنے آپ کو چاٹتی ہے، تقریباً، میں ہنستا ہوں،
اپنے آپ کو دائیں بائیں چاٹتی ہے، دہانے کے کناروں کو چاٹتی ہے،
اگر میں ویسے بات کر سکتا جیسے میری عادت تھی، میں چاندنی میں اپنے آپ پر دبی دبی ہنسی ہنستا ہوں،
میں نے غور نہیں کیا،

میرے بازو کنگال اور سکڑے ہوئے ہیں، برسوں کھردرے ستاروں کو چھاننے کے بعد،
کھردرے کھلونے، کھردری صلیبیں، کئی سال کھردری چھاتیوں کی منت سماجت کرنے کے بعد۔۔۔ میں ایسا ظاہر کرتا ہوں
کہ جیسے میں یہاں تیرنے آیا ہوں، میں اتفاقیہ یہاں آ گیا ہوں
تمہاری طرح۔
میرا چہرہ ایک طرف کو ہے
کھردرے پن کی سرمئی سفید گھنٹی کو سنو
یہ فہرست ایسے ہی چل رہی ہے، استخواں، دل، دھوانکی ہوئی آنتیں
پتھریلے اعضائے تناسل، دانت، میں پھر بھول جاتا ہوں
کہ اس کباڑ کو اکٹھا کیسے رکھنا ہے
خطوں اور دائروں والے عظیم کباڑ کو۔

سفید اور سرمئی کھردری روشنی مجھے نابینا کر دیتی ہے
رکو، مجھے ابھی یہ خیال آیا ہے کہ ۔۔۔ کیا ہو اگر یہ دکھائی نہ دے
اگر یہ سب کچھ دکھائی نہ دے

ذرا قریب سے سنو:
میں پیلی رانوں سے مخاطب ہوں
جو ابھی تک اپنا عرق غزہ کی گرد آلود چادر پر گرا رہی ہیں
پہاڑیاں، جو شام اور اسرائیل کے رحموں کو ملا رہی ہیں۔

پیلے عرقوں نے سب حدوں کو کاٹ دیا ہے
وہ لوبان، روٹی اور شہد سونگھتے ہیں،
میری ماں کے ہاتھوں کا رنگ، گوشت
بم کا گولہ بھی اسی رنگ کا ہے
جو جھنجوڑ کے آگے کی طرف دھکا دیتا ہے۔

ادھر ادھر

میں مراقبہ میں بیٹھا ہوا ہوں۔۔۔ میری کتیا
سرخ بھورے صوفے پر
اپنے پنجے کو چاٹتی ہے
کسی طرح بہت ساری چیزیں
خفیف ہو کر اعداد حروف شکلوں میں بدل گئی ہیں
بغیر ناموں اور چہروں کے صرف غیر متوازی نا ہموار خطوط ہیں
میلوں پر محیط آدھے سائے
جو سائے سے سائے میں ضم ہو کے تباہ ہو جاتے ہیں
ادھر اُدھر لا متناہی خط
تسخیر نہیں کیا جا سکا
یہ صرف سیاہی کا پہلا قطرہ ہے۔

میرے گھر کو جانے کے پانچ راستے

۱۔ ریزہ ریزہ زرد پہاڑ کی طرف واپس جاؤ جس کی شکستگی بھی پر شکوہ
۲۔ کپڑے کے دروازے تک جاؤ، بادلوں کے مقابل چھوٹا سا بستر بچھا ہوا ہے
۳۔ زمین کے نیچے ایک چیونٹی گورنر جیسے رعب سے حکم چلاتی ہے
۴۔ سرخ دُم والے پرندے، اڑتے رہو، تمہاری پوشیدہ آستین میں صحرا کے راز
۵۔ تم تقریباً وہاں پہنچ چکے ہو، بغیر نام کے، بغیر جسم کے، اب جاؤ
۶۔ میں نے کہا تھا پانچ،کہا تھا پانچ، جیسے گٹار چھے کہتا ہے۔

3 Comments

  1. منیر فیاض “خطوں اور دائروں والے عظیم کباڑ کو” آپ نے کیسی خوبی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ بہت داد

Comments are closed.