اندرانی سین کی کتاب Woman and Empire پر تبصرہ

اندرانی سین کی کتاب Woman and Empire پر تبصرہ

اندرانی سین کی کتاب Woman and Empire پر تبصرہ

تبصرۂِ کتاب از، معراج رعنا

ویدی عہد سے لے کر نو آبادیاتی ہندوستان نیز تا حال، عورت ایک ایسا موضوع رہا ہے جس پر ہر زمانے میں بحث و مباحث ہوتے رہے ہیں۔ سماجی علوم کے ہر شعبے میں عورت کی حیثیت اور مرتبے کے تعین کی کوشش کی گئی ہے۔ یوں تو بنی نوعِ انسان کی تہذیبی اور تمدنی تاریخ کا ایک طویل ترین دور مردانہ نقل و حرکت سے عبارت رہا ہے، یعنی مرد حاوی سماج میں مردوں کو ہی معمارِ تہذیب و تمدن سمجھا گیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت صرف ایک صارفی چیز بن کر رہ گئی تھی۔

جنوبی ہندوستان کی قدیم تاریخ میں ایک عہد ایسا بھی ملتا ہے جہاں عورت کے تقدس، عظمت اور اُن کی قوتِ تخلیق کو حکومت و سیاست کا نشانِ امتیاز تسلیم کیا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں کے حکمراں اپنے نام کے پہلے اپنی ماں کے نام کا مستزاد نا گزیر سمجھتے تھے۔

گوتمی پتر شتکرنی کی مثال سامنے کی ہے۔ خود ویدی تہذیب میں کچھ ایسی عورتوں کا ذکر ملتا ہے، جنہیں نہ صرف یہ کہ مردوں کے شانہ بہ شانہ ہر نوع کے سماجی اور سیاسی حقوق حاصل تھے بل کہ مذہبی امور پر بھی اپن کی گرفت پنڈتوں سے کہیں زیادہ تھی۔ اشوا میگھ یگیا ہو یا واجپئی یگیا، وہ اپنی علمی استعداد کے مطابق انجام دے سکتی تھیں۔ جہاں اس حقیقت کو قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا وہیں اس بات سے انکار کی گنجائش بھی نہیں نکلتی کہ ہر عہد میں عورتوں کو حصولِ حق میں بہت ساری بندشوں کا سامنا تھا۔

اندرانی سین Indrani Sen کی کتاب عورت اور استعمار میں عورتوں کی صورتِ حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ چوں کہ محترمہ سین کوئی مؤرخ نہیں بل کہ انگریزی ادب کی استاد اور نقاد ہیں، اس لیے انھوں نے ۸۵۸ا۔۱۹۰۰کے درمیان لکھے گئے انگریزی فکشن میں عورت ک اندازِ پیش کش کو دریافت کر کے یہ دکھانے کی مساعی کی ہے کہ برطانوی ہندوستان کے مردانہ سماج میں عورت کس حیثیت سے دیکھی اور سمجھی گئی ہے۔

کتاب میں اس بات کا التزام بھی رکھا گیا ہے کہ انیسویں صدی کے برطانوی ہندوستان میں سیاہ فام عورتوں کی بابت مردانہ نقطۂ نگاہ کس قسم کا تھا۔ یہاں نہ صرف یہ کہ غلام ہندوستان کی مقامی عورتوں کی سماجی صورتِ حال پر روشنی ڈالی گئی ہے بل کہ سفید فام عورتوں کے متعدد طبقوں کے مسائل کو بھی موضوعِ مطالعہ بنایا گیا ہے۔

ہندوستان کی پہلی جنگِ آزادی کے بعد کی یہ بات سب جانتے ہیں کہ نو آبادیاتی ہندوستان کے تہذیبی پسِ منظر پر انگریزی عورتوں کا ظہور ممکن ہوا۔ نصف آخر کی انیسویں صدی انگریز عورتوں کی ایک بڑی تعداد کی آمد سے عبارت ہے۔ اس سے قبل وکٹوریائی برطانوی سماج ڈاروینائی فکر کے زیرِ اثر تھا اور عورت کی حیثیت ایک استفسار کی سی تھی۔

خانگی امور میں اُن کی مصروفیات کو جائز تسلیم کرتے ہوئے انہیں اعلٰی تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ طبی تعلیم کی تو حد درجہ ممانعت تھی اور اسے سماجی اخلاقیات کے منافی سمجھا گیا تھا۔ اور اس کی دلیل یہ دی گئی تھی کہ طبی تعلیم سے اُن کے فطری حیاتیاتی نظام میں رخنہ پڑ سکتا ہے، اور اس سے ان کی ماں بننے کی صلاحیت ضائع ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا کہ سو لڑکیوں میں ایک بھی لڑکی ایسی نہیں ہوتی جو ان موضوعات کے لیے مناسب ثابت ہو سکے جو اعلٰی شہری نظام کے امتحان کے لیے مطلوب ہوتے ہیں۔ جب کہ ہر ایک لڑکے کے اندر یہ خوبی بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔

چوں کہ برطانوی ہندوستان میں عوامی انتظام کے اعلیٰ امتحان کا بنیادی مقصد ایسے مرد افسران کو پیدا کرنا تھا جو ہندوستان میں انگریزی حکومت کے استحکام میں اپنی خدمات انجام دے سکیں، لہٰذا جب اس امتحان کے وسیلے سے شہری حکام کی ایک بڑی تعداد برطانیہ سے ہندوستان آنے لگی تو اُن کے ساتھ عورتوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہو گیا۔ جن میں بیشتر افسران کی بیویاں یا بہنیں تھیں۔

برطانیہ سے آنے والی گوری عورتوں میں ایسی عورتیں بھی شامل تھیں جن کا مقصد اپنی پسند کا شوہر تلاش کرنا تھا۔ ان عورتوں میں ایسا نہیں کہ سب کی سب اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں بل کہ اُن میں بھی امیر و غریب کی تخصیص نمایاں تھی۔ ان گوری عورتوں میں بھی ہر طرح کی ہر طرح کی سماجی برائی مثلاً شوہروں کے ذریعے ان کا زد و کوب، شراب نوشی اور غربت وغیرہ موجود تھی۔

محترمہ سین نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے اور اس زمانے کے برطانوی ہندوستان میں انگریز عورتوں کے اخلاقی مرتبے کی گرتی ہوئی صورتِ حال کو بے نقاب بھی کیا ہے۔ اور اُن میں پائی جانے والی سماجی برائیوں پر سخت تنقید بھی کی ہے۔ جس میں ایک بڑی برائی یہ تھی کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی ان مردوں سے کر دی جاتی تھی جو، ان سے کافی بڑے ہوتے تھے۔ نتیجتاً وہ لڑکیاں یا تو قبل از وقت ماں بن جاتی تھیں یا پھر بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی تھیں۔ اس ایک حقیقت کا ایک روپ اور بھی تھا جو مقامی یا کالی عورتوں سے متعلق ہے۔

جہاں انگریز گوری عورتوں کو حد درجہ مہذب، مرتب اور جنسی اعتبار سے خالص تصور کرتے تھے وہیں مقامی اور کالی عورتوں کو ان تمام صِفات سے عاری تسلیم کرتے تھے۔ گویا دیکھا جائے تو شروع ہی سے ان کے یہاں دیگر امور کی طرح عورتوں کے درمیان بھی فرق و امتیاز نمایاں رہا ہے۔


مزید دیکھیے: ہمارا معاشرہ اور دہرے معیارات


اس زمانے کے ادب و آرٹ میں اس رجحان کی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ آرٹ کا تو یہ غالب رجحان بن گیا تھا کی سفید فام طوائف کی مُصاحَبَت میں ہمیشہ کالی عورت کو دکھایا گیا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک سفید فام طوائف تمام کالی عورتوں کے برابر ہے۔ لہٰذا یہیں سے نسلی، طبقاتی اور جنسی تفریق کی ابتدا ہوتی ہے۔ جس کی کشا کش موجودہ عہد میں بھی جاری و ساری ہے۔ تانیثیت کی تحریک اس کی زندہ مثال ہے۔

عورتوں کی آزادی، سماجی، سیاسی اور مذہبی تناظر میں مردانہ معاشرے میں ردِ عمل کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جس کی جڑ نو آبادیاتی ہندوستان میں پیوست ہے۔ ورجینیا وولف کی A Room of One’s Own سے لے کر اسرا نعمانی کی Standing Alone in Mecca تک کے سفر میں وہی نسائی آواز سنائی دیتی ہے جسے مردانہ سماعت نے کبھی قبول نہیں کیا۔

انکار کی یہ روش نو آبادیاتی ہندوستان نیز تمام دنیا میں عام رہی ہے۔ جس کی بابت عورتوں کا احتجاج لازم ہے لیکن احتجاج بغیر شائستگی کے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اندرانی سین نے انگریزی فکشن میں نو آبادیاتی ہندوستان میں عورتوں کی گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کو نشان زد کیا ہے۔ لیکن ایسے فکشن پر گفتگو نہیں کی ہے جہاں مردانہ معاشرے میں عورت کے باغیانہ رویے ظاہر ہوئے ہیں، اور جہاں نسائی احتجاج اپنی شائستگی کی صفت سے منہا ہو گیا ہے۔

کم و بیش یہی صورتِ حال ما بعدِ جدید ادبی تناظر میں نسائی تحریک کے زیرِ اثر لکھے جانے والے فکشن کی ہے۔ جہاں عورت کا احتجاج شائستگی سے محروم ہو کر محض غم و غصے کا اظہار بن گیا ہے۔ غصے کی یہ لہر نہ صرف یہ کہ مردانہ سماج سے متصادم ہوتی نظر آتی ہے بل کہ مذہب بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں۔ اگر یہ بات سچ نہ ہوتی تو اسرا نعمانی جیسی خاتون کو کنواری ماں کی حمایت میں مذہبی حوالہ دینے کی کبھی جرات نہ ہوتی اور نہ ہی انہیں مردوں کے شانہ بہ شانہ نماز ادا کرنے کی وکالت کرنی پڑتی۔

یہ ایک نوع کی ایسی نام نہاد آزادیِ خیال ہے جس سے، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مردانہ معاشرے کی ساخت متاثر ہوتی ہے کہ نہیں لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس سے عورت کا فطری تقدس ضرور مضروب ہوتا ہے۔ بہر حال یہ کتاب انگریزی فکشن کے حوالے سے وسط انیسویں صدی کی عورت اور اس کی سماجی تاریخ لکھنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔