غیرت اور محبت : ایک کہانی

غیرت اور محبت

غیرت اور محبت : ایک کہانی

(نصیر احمد)

جانتی تھی، اب گھر گھر نہیں رہے گا۔ پتا جی دشٹ درندے کا روپ دھار لیں گے۔میا لرزتے کانپتے فریادوں کا گلا گھونٹ دے گی۔بھائی جرائم کی دنیا کے ہرکاروں کی مانند ہو جائیں گے جو اپنی بات منوانے کا ہنر خون بہانے کی قابلیت سے ماپتے ہیں۔یہ بھی جانتی تھی کہ ان وحشیوں اور جنگلیوں کو اس کی بتیاں بجھانے کا ذرا بھی ملال نہ ہو گا بلکہ ایک کمزور لڑکی کو چیرنے پھا ڑنے کو ثواب جانیں گے۔اس کی بے بسی کو تمغے کی طرح پہنیں گے۔مذہب کا پاک، دھرم کو پوتر رکھنے کے لیے اس کی سانسوں کی ڈوریاں کاٹ دیں گے۔دوسروں کی تالی بجاتی نگاہوں کا نشہ پینے کے لیے قصائی بن جائیں گے۔منتر پڑھتے، تعویذ دہراتے پھانسی چڑھ جائیں گے، یا جیل میں جوانیاں بھوگ دیں گے، بڑھاپے جیل میں کاٹ لیں گے مگر اس خوش رہنے کی کوشش کا سب سے جائز حق نہیں جینے دیں گے۔ یہی کچھ سوچتی رہی کہ دیہاتی اتنے جدید شہروں میں آکر بھی اپنا آپ نہیں بھلا سکے۔گدھا زرق برق کپڑے پہن کر بھی گدھا ہی رہا۔ان کسانوں کے پاس پیسہ تو آگیا مگر عقل نہیں آسکی۔زیادتی کر کے پچھتانے کی صلاحیت بھی جاتی رہی۔وہی ذہنیت کہ بیل ہل نہ چلائے تو چابک کھائے، بیٹا بات نہ مانے تو پیٹا جائے، پیسہ نہ کمائے تو بھوکا رہے۔نفع نقصان کا درست سبق تو ڈھور ڈنگر ہی سکھلاتے ہیں۔اچھا منافع ملے تب بھی قصائی کی چھری اور نقصان ہو تب جانور کو تو قصائی ہی کے پاس جانا پڑتا ہے۔

جمیلہ نے یہ بھی سوچا کہ سچ کہنا اتنا ضروری بھی نہیں۔جھوٹ اس کے لیے اتنا آسان تھا کہ وہ تالی بجنے سے پہلے شور مچائے، چہچائے بغیر بھی اڑ سکتی تھی اور اپنے باپ کی چھری تلے آنے سے بچ سکتی تھی۔مگر وہی مسلمانوں کا سا جہاد،جان دے دو مگر سچ کہنے سے باز نہ آؤ۔تب ہی تم نجات پاؤ گے۔ اسی طرح آدمیوں میں افضل ٹھہرائے جاؤ گے۔ وہی برطانیہ کے لوگوں کا اپنی مرضی کی بات کہنے پر اصرار کیونکہ اس اصرار نے لطف کے وہ در کھولے ہیں جن تک پہلے صرف ملاؤں اور پادریوں کے پسندیدہ لوگوں کی رسائی تھی۔وہی قافلے لوٹنے والے پہاڑیوں کی سی ضد کہ دشمن حیران ہو جائے اور آپ اس کی بے بسی اور حیرانی پر قہقہے لگاؤ۔ لیکن اس سب سے زیادہ اہم جمیلہ کے لیے ڈیوڈ کو جھوٹ سے آلود نہ کرنے کی آرزو تھی۔ڈیوڈ جس کا جمیلہ کو چھونا اس کا دھرم بھرشٹ کر گیا تھا۔ جمیلہ اس ڈیوڈ کو جھوٹ کی غلاظتوں سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ جمیلہ کی برادری والے جمیلہ کو بیسواؤں سے بھی کمتر جانتے تھے کہ اس نے گھر سے خدا سے اور اپنی سہیلیوں سے ناتا توڑ لیا تھا کہ اسے وہ آدمی پسند آگیا تھا جس کے وجود کو ہی وہ ناپاک جانتے تھے۔خبر عام ہوئی تو اپنی زندگیوں سے ناراض لوگ، دنیا جہان کی نفرتوں کو عبادتوں کا درجہ دینے والے افراد جمیلہ کی شخصیت کو الٹا لٹکا کر ادھیڑنے لگے۔ اس کاٹ پیٹ میں کہیں بھی معالج کی نزاکت نہ تھی بلکہ قصائی کی بربریت تھی۔رچمنڈ سٹریٹ والے انکل جمیلہ کی بے حیائی کے سلسلے جمیلہ کی ماں کی آزادہ روی میں ڈھونڈتے تھے کیونکہ جمیلہ کی ماں نے برسوں پہلے ان سے شادی سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اسے ان کی آنکھوں میں شکاری نظر آتے تھے جبکہ وہ پالتو جانوروں کی شائق تھیں۔ بینٹلی روڈ کی آنٹی نے جمیلہ کی رسوائی میں اپنی بیٹی کے ایک مالدار سکھ کے ساتھ فرار کی اذیت کی تلافی ڈھونڈ لی تھی۔یہ آنٹی جمیلہ کے قصے پر دکھ اور لاج سے مر جانے کے دعوے تو کرتیں مگر دل ہی دل میں اس کی بربادی پر خفیہ جشن منانے پر اپنے آپ کو دل کھول کر داد بھی دیتیں۔ آنٹی دل کی

بری نہیں تھیں مگر اگر چابک کھانے سے فرصت مل جائے تو کون خوش نہیں ہو تا۔جسے پڑتی ہیں اسے مارنے کا لطف بھی بہت آتا ہے۔اور پھر جمیلہ کی ماں نے بھی تو آنٹی کی بیٹی کے فرار کے ڈانڈے اس کی ارائیں دادی کے لچھنوں سے جا ملائے تھے۔ جمیلہ کی سہیلی جو اس کی اداسیوں پر بہت مسرور ہوتی تھی، اس کے ڈیوڈ کے پیار کی خوشی پانے پر بہت

مغموم ہو گئی تھی۔اس نے یہ غم کم کرنے کے لیے جمیلہ کو دنیا بھر میں بدنام کرنا شروع کر دیا۔ ذکر برائے خواتین کی محافل میں جہاں نام خدا تو دوسروں کی عیوب کشی اتہام اور الزام کا صرف ایک بہانہ ہو تا ہے۔ان محافل میں جمیلہ کی یہ سہیلی جمیلہ کی یہ سہیلی جھوٹ بوتی، جھوٹ کاٹتی، جھوٹ پکاتی اور جھوٹ تولتی اور جھوٹ بولتی تھی۔جمیلہ کے ڈیوڈ کے ساتھ بتائے ہوئے لمحات جن کی وہ چشم دیدہ گواہ نہیں تھی ، ان لمحات کی جنسی تصویر کشی کرتی کی سب کو سواد سا آجاتا اور سواد تو سچ سے اہم ہی ہوتا ہے، بہت سارے لوگوں کے لیے۔عمر رسیدہ عورتیں بھی مزے لے لے کر سوال پوچھے جاتیں کہ شاید گلے لگانے اور چومنے چاٹنے کا کوئی نیا طریقہ ہی دریافت ہو جائے جس کو آزما کر وہ اپنے مجازی خداؤں کی غلامی کا بوجھ بڑھا سکیں۔کوئی ایسے بھی پکار اٹھتیں کہ ان کے زمانے میں تو ایسے نہیں ہوتا تھا جیسے ان کے زمانے میں سارے کامل ولی اور شرافت کے پتلے ہوتے تھے۔ساتھ والیوں کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی رینگ آتی تھی اور سب کو ان موصوفہ کا مکئی کے کھیتوں میں ضرورت بلا ضرورت جانا یاد آجاتا تھا۔

جن دیہاتوں سے یہ لوگ آئے تھے، وہاں معاف کرنے کا کم ہی رواج ہوتا تھا۔جو معاف کردے اسے اتنے طعنے سننے پڑتے تھے کہ اس کی رحمدلی اس کے لیے پھانسی کا پھندہ بن جاتی تھی۔ پھر ویکسیم سٹریٹ پر ملاؤں کا ایک گھرانا تھا۔ یہ لوگ پرائی عورتوں کی فحاشی کے تذکروں سے اپنی پارسائی کے لیے عزت و افتخار کشید کیا کرتے تھے۔جمیلہ کا قصہ تو ان کے لیے حلوے کی ایک دعوت کی طرح تھا۔ سب نے پلیٹیں بھر بھر کر اس کی بدکاری تناول فرمائی۔ مسجد کے منتظم اعلی نے فرمایا۔ ایسی عورتوں کا سنگسار کرنا تو عین انصاف ہے۔ پیغمبر نوح نے اپنا بیٹا کھو دیا مگر دین نہیں کھویا۔ اور جمیلہ کا باپ اسے قتل نہیں کرے گا تو ہم بہترین امت ہونے کا جواز کھو دیں گے۔ عرش کانپ جائے گا، فرش لرز جائے گا، دنیا ملیا میٹ ہو جائے گی اور ہم سب شرمندہ و خستہ آگ کا نوالہ بن جائیں گے۔ایک اور صاحب چلائے۔ اگر جمیلہ بچ جاتی ہے تو ساری بہو بیٹیاں شرم و حیا کو اتار

پھینکیں گی۔ نفرت کے اظہار کے لیے اگر کوئی نشانہ مل جائے تو سب ماہر تیر انداز بن جاتے ہیں۔اپنی جگہ سے ہٹنے کے غم نے ان لوگوں کو بہت زیادہ بے اطمینان کر دیا تھا۔ایک کھوئی ہوئی دنیا کو یہ لوگ کسی نہ کسی صورت قائم رکھنا چاہتے تھے۔اور ایک ایسی دنیا تخلیق کر رہے تھے جس میں دونوں جہانوں کی بدترین چیزیں رائج تھیں۔پھر جانے کیوں ان مردوں کو جمیلہ کی ڈیوڈ سے وابستگی اپنی نامردی کا احساس دلانے لگتی تھی۔ یہ عجیب دنیا تھی جس میں جمیلہ کے باپ کے دوست، جاننے والے عزیزو اقارب ان کے جھکے سرکو اپنی استہزا آمیز نظروں سے کچلنا چاہتے تھے۔کیونکہ انھوں نے ان لوگوں کی بددیانتیوں کو مجبوریوں کا مرتبہ دینے سے انکار کردیا تھا۔

جمیلہ کے بھائیوں کے سنگی ساتھی ان کے تمتماتے چہروں میں اپنی بہنوں کی ان لڑکوں کی طرف مٹ جانے والی نظروں کا کفارہ دیکھنا چاہتے تھے۔ جمیلہ کی ماں کی پڑوسنیں، برادری والیاں اس کے آنسوؤں دیکھ کر ان قالینوں، ان کاروں اور ان فانوسوں کا غم کم کرنا چاہتی تھیں جو ان کے خاوند بوجوہ ان کے لیے خرید نہیں سکے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ اتنی شدید نفرتوں کے باوجود یہ لوگ ایک دوسرے میں اس قدر رچے ہوئے تھے کہ ایک دوسرے کی زندگیوں کے اہم فیصلے بھی کر گذرتے تھے۔اپنے تصور زندگی کے سارے تضادات کی ستم کاریوں کے گواہ ہونے کے باوجود اس پر جمے رہنے پر اڑے ہوئے تھے کیونکہ نیا ان سے معمر خانوں کی تنہائیوں کے وعدے کرتا تھا اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں اذیتیں سہہ سہہ کر مر جانے کو ترجیح دیتے تھے۔ گوریوں کی ننگی رانوں کو للچائی نگاہوں سے دیکھنے والوں کی اگر کسی گندمی، کالی یا سانولی ران پر نظر پڑ جاتی تو ان کے دل اندیشوں کے مسکن بن جاتے۔

اس امت، اس غول نے جمیلہ کا شکار کھیلنے کی پوری تیاری کر لی تھی۔جمیلہ بھی یہ جانتی تھی مگر جب اپنے ہی بابا، اپنی ہی ماں اور اپنے ہی بھیا شکاریوں کے سردار بن جائیں تو جینے کی امنگ ہی مر جاتی ہے۔ چوروں کی طرح بھاگ کر وہ عاشقی میں سرفرازی چاہتی بھی نہیں تھی۔ پھر ڈیوڈ پر اسے کامل یقین تھا کہ وہ مسئلوں کے حل جانتا ہے۔ اس کی زندگی سے کھلواڑ بلاد کار نہیں ہونے دے گا۔محبت کی فراوانی نے جمیلہ کو ایسا غازی بنا دیا تھا کہ شوق شہادت نے مذہبی جنونیوں کی طرح اسے عقل و خرد سے عاری کر دیا تھا۔محبت کی سچائی پر قائم جمیلہ سمجھوتے کرنے والے عقلمندوں سے دور بھاگتی تھی۔ناٹک کی جولیٹ نے زندگی میں اپنا کردار نبھانے کی ٹھان لی تھی۔ پھر سارے میں اندھیرا بھی نہیں تھا۔ملٹن سٹریٹ پر اس کے ڈیڈی کے ایک عزیزصمد صاحب رہتے تھے۔ آدمی کی بڑائی اور مساوات کا درس دینے کے جرم میں ملک بدر ہوئے تھے۔اس کیچڑ میں ایک کنول کی طرح تھے۔

جمیلہ کوڈیوڈ میں ان کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ وہ دھیمے سے، دھیرے سے، آہستہ سے بات کرتے تھے مگر اپنی بات کہنے سے کبھی بھی باز نہیں آتے۔مسجد کا منتظم اعلی چنگھاڑتا رہتا، اس کے چیلے چانٹے غراتے رہتے مگر صمد صاحب اپنی انسانیت دوست باتوں کا جادو جگائے رہتے۔ ایک غریب ملک کے دیہاتوں سے آئے ہوئے لوگ عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے ذرا ہی بہتر جانتے تھے۔یہی ان کی مردانہ برتری کا دلیل تھی اور یہی ان کی عورتوں سے بہتری کا ثبوت تھا جو صمد صاحب کی ذہانت و بذلہ سنجی کے سامنے نہیں ٹھہر پاتا تھا مگر یہ لوگ آسمانی صحیفوں کو درمیان میں لے آتے جن کی تفسیر بھی انھی جیسے مردوں نے کی تھی یا زمانہ جدید کی ان عورتوں نے جن کو دولت اور شہرت کے شوق نے انسانیت کش رسوم و رواج کا حامی بنا ڈالا تھا۔مگر پروفیسر صمد کے منطقی شعور، ذکاوت و ذہانت کے سامنے ان کا زور نہیں چلتا تھا اور بحث بھنھوڑنے اور کاٹ کھانے کے مرحلوں تک آ پہنچتی۔

پھر صائمہ کے بابا، روشن چہرے والے جو جن کے لیے مذہب کا مطلب ہی محبت فاتح عالم تھا۔جسے بھی جہاں کہیں ملتے، کچھ نہ کچھ عطا ہی کرتے۔جب سے جمیلہ اور ڈیوڈ کی کتھا سنی تھی ان کے جمیلہ کے ساتھ رویے میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا ۔ ان کی سخاوت میں ذرا بھی کمی نہیں آئی تھی، ہاں

جمیلہ کو دیکھ کر کچھ سوچ کر اداس سے ہو جاتے تھے۔جمیلہ کے بس میں ہوتا تو وہ ان کو اپنے لوگوں کی انسان دوستی کے ثبوت کے طور پر اپنے ساتھ ہی لیے پھرتی کیونکہ ان کا موجود ہونا ہی انسانی ہمدردی کے جذبے کو فزوں کر دیتا تھا۔ مگر جمیلہ ان سے شرماتی ہی بہت تھی۔ پھر وہ شرابی، وہ نشہ فروش،ہر وقت پولیس کو مطلوب مگر اپنی ہزار خامیوں کے باوجود دوستوں کا دوست تھا۔جمیلہ بھی اس کی بہت مدد کرتی تھی۔کبھی پولیس چھڑوا لاتی، کبھی بحالی صحت کے مراکز میں داخل کروا دیتی۔ پیسے نہ ہوتے تو پیسے بھی دیتے، کھانا نہ ملتا، تو کھانا بھی کھلاتی۔ جمیلہ بہت ہی اچھی تھی۔یہ سارے جو جمیلہ کو مارنے پر تلے تھے، ان کی زندگیوں بہتری لانے کے لیے جمیلہ نے بڑی کاوشیں کی تھیں۔بیٹوں سے ان کی بیگمات نہیں ملنے دیتیں۔ جمیلہ کو فون کرو۔ سرکار گذارے کے لیے پیسے نہیں دیتی۔ جمیلہ کو فون کرو۔بیٹا حوالات میں قید ہے۔جمیلہ کو فون کرو۔ ہسپتال کوئی نہیں لے جاتا۔ جمیلہ کو فون کرو۔ اور سب کے کام ہو جاتے تھے ۔جمیلہ اپنے بابا کے آشیر واد کے ساتھ یہ سارے کام کر دیتی تھی کیونکہ وہ جانتی سب سے زیادہ تھی۔مگر آج یہی جاننے والی عہد جاہلیت کی عورتوں کی صف میں کھڑی کردی گئی تھی کیونکہ جمیلہ کو محبت ہو گئی تھی اور یہ تو ایک ناقابل معافی جرم ہوتا ہے۔ پھر ڈیوڈ بھی تو تھا۔ جمیلہ کا محبوب، جمیلہ کا دلدار، جمیلہ کا پیارا۔ڈیوڈ جسے سوال پوچھنے کی بہت عادت تھی۔ ایک دن پالیٹکس کی کلاس کے بعد پوچھنے لگا کہ تمھاری آنکھوں میں کھوج تلاش بہت ہے۔ آنکھیں کیا ڈھونڈ رہی ہیں۔

پھر خود ہی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے لگا اور ایک دن جمیلہ کی آنکھوں میں تلاش کی بجائے تکمیل کی آرزو دیکھی تو اسے سارے جواب مل گئے۔ڈیوڈ جس نے جمیلہ کی زندگی کے گیت کی دھن بدل ڈالی تھی ایک بہت زیادہ پڑھا لکھا اور حیرت انگیز طور پر خوش طبع آدمی تھا۔جمیلہ کو تو جیسے اس نے مسکراہٹوں اور ہنسی میں پرو دیا تھا۔زندگی کی ہر بات پر ہنسنے والا یہ ڈیوڈ اپنی ماں کی بے وفائی کا غم کم کر رہا تھا جو ایک گائیک کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور ڈیوڈ اور مسٹر فرینک کو زندگی کی جنگ لڑنے کے لیے اکیلے چھوڑ دیا تھا۔ مسٹر فرینک وسکی کی بوتلیں خالی کر کے زندگی کے ضیاع کا ماتم کرتے اور ڈیوڈ زندگی کے ساتھ ہنس ہنس کر جدائی کے دکھ کا مقابلہ کرتا۔ ڈیوڈ نے جمیلہ کو بتایا تھا کہ رواجوں کو قہقہے لگا کر بھی شکست دی جا سکتی ہے، جہادی بننا اتنا ضروری نہیں ہے۔جمیلہ نے ڈرے سہمے بچے کوْ زندگی سے دوستی کا سبق سکھلایا تھا۔یہ بے تعلقی کی سزا سہتا آدمی زندگی کا دوست تو جمیلہ نے ہی بنا یا تھا۔ اسے خفت کی دنیا سے لے کر عزت کی دنیا میں جمیلہ ہی تو لے آئی تھی۔

ڈیوڈ سے جمیلہ کا پیار عجیب ہی سوداگری تھی۔ جتنا مال لٹاتے جاؤ، اتنا ہی بڑھتا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ جمیلہ کو کبھی بھی تہی دامنی کا احساس نہیں ہؤا۔ لیکن اب آزمائشیں آ پڑی تھیں۔ اور جمیلہ ڈولنے لگی تھی۔بابا کا دھیان آتا کہ ساری زندگی سچ کی علم برداری کے دھوکے میں لوگوں کی ملامت کی تھی، اب اپنی طرف اٹھی ہوئی انگلیوں کی تضحیک کیسے سہیں گے۔ماں کی طرف دیکھتی تو ایسا لگتا تھا جیسے بکرے کو کوئی وقت ذبح ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کے اشارے کر رہا ہو۔بھائیوں کی طرف دیکھتی کہ دین داری کا درس دینے جانے والے یہ نوجوان اپنے سمیت کتنے لوگوں کو گمراہ کر چکے تھے، اپنے گھر کفر کیسے برداشت کریں گے۔یہ امر نہی، جہنت جہنم، سفید سیاہ، ثواب اور عذاب کے تضادات کے اسیر اس کے تیسرے راستے کے کب قائل ہوں گے۔کیوں نہ انھیں بے خبر اور لاعلم چھوڑ کر اپنی زندگی سنوار لے کہ انھیں بے خبری ہی راس آتی ہے۔

مگر اسی گھر سے جمیلہ نے بھی حق پر اصرار کرنے کی ضد پائی تھی۔ ڈیوڈ کی وجہ سے اس کا سچ بدل گیا تھا مگر اس کا مزاج تو نہیں بدل پایا تھا۔جمیلہ نے اپنے گھر والوں سے سچی بات کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کسی مناسب موقعے کا انتظار کرنے لگی۔ پھر ایک دن اچانک ہی گھمسان کا رن پڑگیا۔جمیلہ ڈیوڈ سے بات چیت میں گم تھی۔کہ اس کے بڑے بھائی قیصر نے دوسرا فون اٹھا لیا۔جمیلہ کی باتیں کیا تھیں،سارے معاملات فون پر طے کرنے کی کوششیں تھیں۔قیصر نے سنیں تو اس کے کان غصے اور شرم سے سرخ ہونے لگے۔وہ دھاڑ چنگھاڑ کر جمیلہ کے کردار کے سلسلے شاہراہ پر کھڑی جسم کا سودا کرنے والی لڑکیوں سے جوڑنے لگا کہ مذہب کے جنون سے پہلے وہ انھی خواتین کا سودائی تھا۔لیکن اب اس کو بہت گہری ندامت تھی اورجب بھی جنسی بے راہ روی کاذکر آتا قیصر کے ذہن میں وہی سر راہ منتظر محبوبائیں ہی آتی۔خدا ،غیرت، قتل کی دھمکیاں اور بے شرمی کے طعنے اس کے گلدستے کے ترو تازہ پھول تھے۔جمیلہ نے اپنا دفاع، آزادی، خود مختاری اور مرضی پر اصرار سے کیا۔ ماں نے شور سنا۔ وجہ معلوم ہوئی تو ایسے لگا جیسے خانقاہ میں بھیڑیے گھس آئے ہوں۔شام کو جمیلہ کے بابا کام سے لوٹے تو تفصیلات ان کے گوش گذار کردی گئیں۔جمیلہ کی پیشی ہوئی۔

بابا۔ کیا جو میں سن رہا ہوں ،وہ سچ ہے؟ جمیلہ۔ جی ہاں بابا۔ مگر ایسے نہیں جیسے یہ لوگ بتا رہے ہیں۔ بابا۔ پھر کیسے؟ جمیلہ۔ایسے ہے کہ ڈیوڈ کے بغیر جینا بے معنی ہے۔پتا ہے رسمیں ٹوٹیں گی۔ بہت کچھ بگڑ جائے گا۔آپ کو طعنے سننے پڑیں گے۔مجھے ذلت کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑے گا۔آپ بھی معافی نہیں دیں گے۔لیکن ڈیوڈ کے بغیر رہا نہیں جاتا۔ بابا۔ لیکن تم تو بندھ چکی ہو۔ وچن کا پالن تو کرنا پڑے گا۔ جمیلہ۔ ایک بے شکل نام کے ساتھ آپ کے سلسلے اتنے گہرے ہیں کہ جو مجھے دکھائی دیتا ہے، میرے سامنے ہے، اسے آپ دیکھنے نہیں دیتے۔اس کے سامنے آنے نہیں دیتے۔ بابا۔ ہمارے وعدے اسی طرح ہی ہوتے ہیں۔بس پتا ہونا چاہیے کہ کون ہے۔ دیکھا نہ دیکھا ،اس بات کی کیا اہمیت ہے۔ پھر یہ تو غیر مذہب اور گورا ہے۔کھانا پینا، رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا، کہیں بھی تو کوئی چیز نہیں ملتی۔ جمیلہ۔ آپ ایک بات بھول رہے ہیں کہ میں آپ کے وعدوں کی پابند نہیں ہوں۔اور فرق مٹ ہی جاتے ہیں اگر دھڑکنیں جڑی ہوں۔ بابا۔ بے غیرتی کو دلائل کے ساتھ نہیں چھپایا جا سکتا۔ جمیلہ۔ آزادی کو ریت رواج کے نام پر نہیں قتل کیا جا سکتا۔ جمیلہ کے باپ سمجھ گئے۔کہ کلام بے سود ہے اور جمیلہ بھی سمجھ گئی کہ اب گھر چھوڑنا ہی ہو گا۔ٹیکسی بھی منگوا لی۔ٹکٹ بھی بک کروا لیا۔ڈیوڈ کو ٹرین سٹیشن پر آنے کو کہہ دیا۔سامان بھی تیار ہو چکا تھا۔ رخصتی کے سارے بندوبست ہو چکے تھے۔ماضی سے تعلق توڑنے کا جمیلہ کو صدمہ تھا مگر ایک اچھا مستقبل اپنی بانہوں میں پناہ گاہوں میں سنبھالنے کے لیے تیار تھا۔رنگ و نسل، تہذیب و تمدن، مذہب و ملت کے سارے تعصبات کو شکست دیکر جمیلہ یار منانے ،پیا کو رجھانے چلی تھی۔جیسے پہاڑ سے چھلانگ کر اڑنے کی مشق کرے۔اور وہ مرادوں والی رات بھیانک بن گئی۔بس سانس لینے کی ایک مسلسل کوشش جو ناکام ہو گئی۔

مہینوں جمیلہ کا پتا نہ چلا۔ کسی نے کبھی کوئی بات ہی نہیں کی۔ جیسے جمیلہ کبھی تھی ہی نہیں۔بس ایک استاذی المکرم کا مسٹر فرینک کو فون آیا۔ مسٹر فرینک نے شراب پینے سے تو بہ کر لی اور روتے چلاتے ڈیوڈ کو لے کر کسی اور ملک چلے گئے۔ ان کا ابھی تک پتا نہیں چلا۔صمد صاحب کو برادری نے خاموشی کے بدلے وہ رعائتیں دیں کہ انھیں جمیلہ ایک بھولی ہوئی یاد لگنے لگی۔ شرابی کی وہ مار پیٹ ہوئی لیکن وہ جمیلہ کو ڈھونڈتا رہا اور در کھٹکھٹاتا رہا۔ صائمہ کے بابا بھی کسی سے نہیں ڈرے اور مظلوم لڑکی کی حمایت میں شور مچاتے رہے۔ کسی ذہین پولیس آفیسر نے یہ شور سن لیا۔ اور ایک دن دریا میں اس نے جمیلہ کی لاش تلاش کر لی۔ جیسے حاٖفظ کی کوئی غزل کسی کوڑے دان میں پڑی مل جائے۔ جمیلہ کے بابا نے جرم قبول کر لیا۔

اب وہ زندان میں سنگ دلی اور ندامت کے درمیان لٹکے رہتے ہیں۔ جب ان کی برادری کا کوئی ان سے ملنے آتا ہے، ان کا سینہ تن جاتا ہے اور جب کبھی اپنے آپ سے ملاقات ہوتی ہے تو داڑھی آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا ہے، وہ اپنے آپ سے بہت کم ملنے لگے ہیں۔