خدیجہ مستور کے ناولوں میں ہیرو کا تصور

Dr Rafique Sandelvi
ڈاکٹر رفیق سندیلوی

خدیجہ مستور کے ناولوں میں ہیرو کا تصور

از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی

خواتین کے تحریر کردہ ناولوں میں عام طور پر جہاں عورت کو آدرشی حیثیت دی جاتی ہے وہاں تقابل کی سطح پر مرد کو حاشیے کی طرف، یا حاشیے سے مرکز کی طرف دھکیلنے کی ایک کش مکش ضرور پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے خدیجہ مستور کا ناول آنگن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

اُن کا دوسرا ناول زمین فنی اعتبار سے کم زور سہی، مگر توسیعی سطح پر یہی حوالہ اسے نہ صرف یہ کہ آنگن سے مربوط کرتاہے، بَل کہ اُن کے ہیروانہ تصور کی تفہیم میں بھی کار آمد نظر آتا ہے۔

آنگن میں ہیرو کا تصور ایک ایسے فرد کا ہے جو فکر کی تفریط اور عمل کی پستی کے باعث بونا ہو کر رہ جاتا ہے، سو قد آور ہیروئن اسے کیسے قبول کرتی؟

لہٰذا کشتۂِ حالات صفدر ہو، یا کم کوش و کم نظر جمیل، کسی بھی مرد کی محبت رفعتِ کردار، برابرئِ وقُوف اور تقرب احساس کے اس درجے پر نہیں پہنچ پاتی کہ جہاں ناول کی ہیروئن عالیہ اُسے اپنے مقدر میں شریک کر لیتی، یا اُس کے مقدر میں شریک ہو جاتی۔

عالیہ کے شخصی اوصاف کے مقابلے میں جمیل کا وجود صفر کے برابر ہے۔ اُس کی بعض حرکتیں اتنی مجہولانہ ہیں کہ ان پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ فتح محمد ملک (۱) نے جوشِ قومیت میں اُسے اسلامیانِ ہند کی نئی حقیقت شناس اور ترقی پسند نسل کا نمائندہ قرار دیا ہے اور اِسی رَو میں عالیہ کے جذباتی رشتے کو جمیل کے خوابوں کے پاکستان سے اس طرح منسلک کر دیا ہے کہ تأثر ملتا ہے جیسے یہ رشتہ فی الواقع جمیل سے بھی استوار تھا۔

عالیہ کے ذہن میں جمیل کا ہیولا ضرور موجود تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ عالیہ جمیل کی طرف جذباتی مغلوبیت کے ساتھ کبھی ملتفت نہیں ہوتی۔ انتباہ و احتیاط کا ایک رویہ اُسے جمیل سے دور رکھتا ہے۔ البتہ جمیل اسے مائل بَہ محبت کرنے کے لیے کبھی رمز بھرے اور کبھی بے تُکّے انداز میں مردانہ تیر و تفنگ آزماتا رہتا ہے مگر عالیہ اس کے پھندے میں نہیں آتی۔

جہاں تک جمیل کے کردار کی سیاسی جِہت کا تعلق ہے تو قصہ یہ ہے کہ اُس نے مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی ہوئی ہے۔ قیامِ پاکستان کا پکا حامی اور دو قومی نظریے کا علم بردار ہونے کے با وجود وہ ہندوستان چھوڑنے کی بات نہیں کرتا۔

ہندو مسلم آویزش کا شعور ہونے کے با وجود وہ کہتا ہے کہ جب ملک دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا تو مسلمان اور ہندو جہاں جہاں رہتے ہیں، وہیں وہیں رہتے رہیں گے۔

جداگانہ تصورِ قومیت کی بنیاد ہی جب اس نکتے میں تھی کہ ایک خطے میں دو قومیں مل کر نہیں رہ سکتیں، تو تاریخی عمل کے تحت تقسیم کی اکھاڑ پچھاڑ اور ہجرت کی بد امنی سے کیسے بچا جا سکتا تھا!

جمیل کا ذہن اس نئی حقیقت کی تفہیم سے قاصر تھا۔ نظریے کی جو ترمیمی شکل اور آرزو مندانہ شبیہ اُس نے وضع کر رکھی تھی، وہ کسی طور بھی قابلِ اطلاق نہیں تھی۔

جمیل کے ذہن کی اِس جہت کا تجزیہ کیا جائے تو اُس نظریاتی فشار کا پتا چلتا ہے جس میں اُس زمانے کے لوگ تاریخی، سیاسی اور ذاتی و اجتماعی حوالوں سے الجھے ہوئے تھے، یا پھر وقت کی متلاطم کروَٹوں کے آگے بے دست و پا تھے اور آنے والے حالات کا پیشگی شعور نہیں رکھتے تھے۔

جمیل ہندوستان کی اسی نسل کا نمائندہ ہے جو وابستگی کی دُہری زنجیروں سے بندھی ہوئی تھی۔ عالیہ کو جمیل کے کردار کی اِس سیاسی جہت سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ویسے بھی سیاست میں اُس کی ہم دردی بڑے چچا کے ساتھ تھی۔ پاکستان جانے کا فیصلہ بھی اُس نے مجبوری کی بناء پر کیا تھا مگر اس فیصلے میں بھی جمیل کی دخل اندازی رائیگاں ثابت ہوئی تھی۔

اصل بات یہ ہے کہ جمیل کی محبت کو اُس نے ہمیشہ دامِ فریب سمجھا تھا اور اسی بناء پر اُسے اپنی رفاقت کے قابل نہیں جانا تھا۔

اگر عالیہ کے عدم التفات اور جمیل کے مطالبۂِ محبت ہی کو سامنے رکھیں تو جمیل کا کردار ناول کے محیط سے نکل کر مرکز میں آنے کا پورا پورا جواز رکھتا تھا اور مصنفہ کو اس کا احساس بھی تھا، مگر یہ کردار اپنے مُضحک سے متین تک کے سفر میں بے نمو ہو کر رہ جاتا ہے، یا پھر ناول نگار سے اس کی تعمیر و تشکیل ہی اسی طرح ہو سکی ہے۔

ڈاکٹر محمد اسلم آزاد نے لکھا ہے کہ جمیل کا کردار ادھورا رہ گیا ہے۔ وہ متأثر نہیں کرتا حالاں کہ ناول کے پلاٹ میں اس کا ایک اہم مقام ہے۔ (۲) اسی طرح ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کا کہنا ہے کہ جمیل کا ضرورت سے زیادہ معمولی پن اُسے اُبھرنے نہیں دیتا اور وہ ناول کا ہیرو نہیں بن پاتا۔ (۳)

اس کردار کے بے مزہ اور سپاٹ رہ جانے کی بات ڈاکٹر احسن فاروقی نے بھی کی ہے گو کہ فنی سطح پر سراہنے کے انداز میں کی ہے۔ (۴) اسی انداز میں ڈاکٹر اسلم فرخی نے بھی اس کی عام عادات و خصائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (۵) ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی اُس کی ذہنی سطح کو معمولی قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ ایک عام نو جوان کے مانند ہے جو ہر لڑکی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ (۶)

در اصل جمیل کے کردار کی وقوفی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے جو اُس میں قوت نہیں پیدا ہونے دیتی اور وہ عالیہ کے لیے بے کشش ہی رہتا ہے۔

البتہ عالیہ کو صفدر سے ہم دردی ہے__ اس حد تک کہ وہ اُس میں اپنے آئیڈئیل کی جھلک بھی دیکھتی ہے__ لیکن یہ آئیڈئیل ایک ستارے کے مانند عالیہ کے آسمان پر چمکتا ہے اور اگلے ہی لمحے بجھ کر رہ جا تا ہے۔ صفدر کا یہ بیان ملاحظہ کیجیے:

میں نے اپنی ڈگر کو بدل دیا ہے، دنیا تباہ ہوتی ہے تو ہو جائے۔ مجھے کوئی مطلب نہیں ہے۔ میں اب صرف دولت کماؤں گا، عیش کروں گا، میں اب کار کوٹھی کے خواب پورے کروں گا۔ میں اب جیل نہیں جا سکتا۔ میں اب امپورٹ ایکسپورٹ کا لائسنس لینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بہت جلد مل جائے گا۔ چچی اب میں بڑا آدمی بن جاؤں گا۔ آپ مجھے قبول کر لیجیے۔ (۷)

جمیل بھیا کی مجہول ذہنیت شاید عالیہ کے لیے اتنی تکلیف دِہ نہیں تھی، مگر اُس کا رشتہ مانگتے ہوئے صفدر کا متغیر اور واماندہ لہجہ اس کے لیے انتہائی کرب ناک ثابت ہوتا ہے اور اُسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیاس اور تھکن سے نڈھال بہت دور سے ریتلے میدانوں میں سے چل کر آ رہی ہے۔

اس تناظر میں صفدر کا کردار ہمارے عہد اور اِس کے فکشن کے بعض اشتراکی رہ نماؤں کے کرداروں کے منطقی انجام سے جڑ جاتا ہے جو منزلِ دار تک نہ پہنچ سکے تو مآلِ کار آسودگی کی تمنا اُن پر غالب آ گئی اور وہ اپنے مقصد کی شدت اور ضمیر کی رفعت کو قائم نہ رکھ سکے جو ابتدا میں اُن کی انقلابیت کا طرۂِ امتیاز تھی۔

آخرِ شب کے ہم سفر کے ریحان الدین کی شخصیت کے بلند و پست سے صفدر کا کیا موازنہ، مگر جس طرح یہ کردار نمونۂِ عبرت بن کر ہیرو کی مطلوبہ عظمت کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے، اس کا تأثر بڑا اندوہ ناک ہے، حالاں کہ یہ کردار جادو کی اُن سوئیوں کو نکالنے والا شہزادہ بن سکتا تھا جنھیں عالیہ اپنے بدن میں کھبا ہوا محسوس کرتی تھی۔

جمیل اور صفدر کے بر عکس بڑے چچا وہ عینیت پرست کردار ہیں جنھیں ڈاکٹر احسن فاروقی نے سچ مچ کا ہیرو کہا ہے۔ اُن کے نزدیک وہ اَیپک، epic، کے کردار ہیں (۸) جب کہ ڈاکٹر عبدُالسّلام انھیں ایک نا کام انسان کی مثال ہونے کے باعث ایپک کے بَہ جائے المیہ کا ہیرو مانتے ہیں۔ (۹)

واقعی نجی معاملات میں غنودہ اور قومی معاملات میں بیدار اس اچھوتے کردار میں ایک جاں بازانہ لپک پائی جاتی ہے، مگر یہ لپک افرادِ خانہ کے طعن و تمسخر اور سیاست کی کم نگاہی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور بالآخر ہندوستان کو متحدہ صورت میں خوش حال اور آزاد دیکھنے کا خمیازہ اسے دلی میں ایک ہندو کے ہاتھوں قتل ہو کر ادا کرنا پڑتا ہے۔

سو بڑے چچا کے لیے ترس اور احترام کے جذبات ہونے کے با وُجود عالیہ کی سمتِ راہ الگ ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ ایسے لوگ کسی سے محبت نہیں کرتے اور ان کا اپنا گھر دنیا کے کسی حصے میں نہیں ہوتا، لہٰذا عالیہ کی نظر میں بڑے چچا اپنے دائرۂِ کار کے ہیرو نہیں، بے بسی و درد مندی اور غفلت و امید کی آمیختہ کیفیت کے حامل المیہ کردار ہیں جن پر ایک آہِ سرد بھری جا سکتی ہے۔

سو عالیہ جس تناسبِ فکر اور توازنِ طبع کے ساتھ ناول کا مرکز بنتی ہے اور اپنے وجود کی تخصیصی و تعمیمی دونوں سطحوں سے جڑی رہتی ہے، اُس کے مقابل کسی ہیرو کا نمُو پانا، یا کسی مردانہ سیرت کا اُبھرنا مشکل بھی تھا۔ ممتاز حسین نے درست لکھا ہے:

عالیہ کسی مرد کی محبت کا اعتبار اس لیے نہیں کرتی کہ جس ماحول میں اُس نے آنکھ کھولی تھی، اِس میں عورت کا وجود مِن جُملہ سامانِ تعیش تھا، یا پھر ایک کنیز یا بچہ جَننے والی جورو کے۔ اس معاشرے میں عورت کا وجود مقصود بِالذّات نہ تھا، وہ ایک شے تھی جسے خریدا، بدلا اور پھینکا جا سکتا تھا۔ اس معاشرے میں وہ کوئی شخصیت، صاحبِ اختیار و ارادہ نہ تھی، وہ نہ تو اپنے شوہر کے انتخاب میں آزاد تھی، اور نہ اس بات میں کہ وہ کسی مرد سے محبت کرے یا نہ کرے۔ اسے تنہا رہنے کی مکمل آزادی نہ تھی، اس ماحول میں مرد کی بے وفائی کے قصے عام تھے۔ (١٠)

یقیناً ایسے ماحول میں عورت کی طرف مرد کے لطف و لذّت کا رویّہ کسی کشش و تعاون کے بَہ جائے نفسیاتی تفوّق پر قائم ہوتا ہے۔ اس تفوّق کی پیچیدگیوں پر عالیہ ایک طنزِ خفی کی کیفیت میں مضطرب بھی رہتی ہے اور نفسی ردِّ عمل کے باعثِ غم کا اظہار بھی کرتی ہے۔

شروع ہی سے مرد ذات پہ عالیہ کا اعتماد کسم دیدی اور تہمینہ کی الم ناک موت کے وقوعوں سے مجروح ہو گیا تھا۔

اس تناظر میں جمیل بھیّا اور پھر صفدر کی طرف اُس کی بے التفاتی جائز بھی تھی جس کے باعث وہ دھیرے دھیرے آدرشوں میں محصور ہوتی چلی گئی اور اُس کا دائرۂِ آرزو لا متعین رہا۔ اس دائرے میں والٹن کیمپ کے نو جوان اور امیر کبیر ڈاکٹر کی کیا اوقات تھی جس نے سارا روپیہ لٹے پٹے مہاجروں کے معالجے سے کمایا تھا۔

یہی وہ کرب تھا جو زمین کی ہیروئن ساجدہ، چوہدری صلاح الدین عرف صلّو جیسے موقع پرست کے لیے محسوس کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ صلّو کی محبت ہمیشہ ایک پرچھائیں بن کر اُس کے تعاقب میں لگی رہتی ہے۔

وہ اپنے صلّو کے کندھے پر سر رکھ کر رو دینا چاہتی ہے، بَل کہ اُس خشک کنویں کو یاد کر کے کئی بار اُس کی آنکھیں نم ناک بھی ہو جاتی ہیں۔ ہر چند کہ صلّو اُس سے دور جا چکا ہے اور سرا سر تبدیل ہو چکا ہے، لیکن علامتی طور پر وہ اپنے آئیڈئیل یا نوسٹلجیا کو ذہن سے نکال نہیں پاتی۔

آنگن کی ہیروئن عالیہ کی طرح اُسے بھی اپنا آئیڈئیل نہیں ملتا۔ البتہ یہاں خدیجہ نے صلّو کے مقابلے میں ناظم کو ہیروئن کے ازدواجی مقدر میں شرکت کا منصب ضرور عطا کیا ہے مگر ساتھ ہی مفاہمت و مصالحت کے زیرِ اثر دکھا کر اُس کا مرتبہ قدرے کم بھی کر دیا ہے جو اُسے محبت کی بنیاد پر نہ سہی، آدرش کی بنیاد پر ہیروئن کے بے لچک کردار کے برابر لے آتا ہے۔

بے شک یہ مصلحت اُس نے غیر انسانی سلوک سے بچنے کی غرض سے کی تھی اور اُس میں کسی ایسی گراوٹ کو دخل نہیں تھا جو صفدر کے کردار میں در آئی تھی اور نہ ہی ملکیت پرستی کی کسی رعونت کو جو صلّو جیسے نو دولتیے کے لیے انسانی تعارف کا پیمانہ تھی۔

مگر خانگی شب و روز میں ایک بار جب وہ ساجدہ کے استفسار پر اعتراف کرتا ہے کہ اُس نے قَلعے کی قید میں مسلسل تشدد سے بچنے کے لیے حکومتی اہل کاروں سے جھوٹ بولا تھا اور انھیں یقین دلا دیا تھا کہ وہ بھی اُن کی طرح پاکستان کو مَن و سلویٰ سمجھ کر کھا جائے گا تو جواب میں ساجدہ کا یہ کاٹ دار سوال: کیا واقعی ناظم! تمھاری بھوک اتنی جاگ سکتی ہے؟ (۱۱) جس پر وہ بعد میں اُسے سوتے میں کروٹیں بدلتا دیکھ کر شرمندہ بھی ہوتی ہے، اُس کی آدرشی حیثیت کا از سرِ نو تعین کرتا نظر آتا ہے۔

یہ حیثیت اپنے تعین میں جیسی بھی ہو بَہ ہر طور صفدر کے کردار پر فوقیت رکھتی ہے۔ ناظم بھی صفدر کی طرح اشتراکیت پسند تھا، مگر صفدر کے مقابلے میں اس کی شکستگی کا رنگ اپنے معنی و مآل میں مختلف نکلتا ہے۔

بہ ہر کیف، جواز دینے کے با وُجود آدرشی حیثیت کے ٹوٹنے کا احساس خود ناظم کو بھی ہے، اس لیے وہ اپنی بیوی سے آ کھیں  ہیں ملا پاتا۔ ساجدہ کو بھی اس امر کا احساس ہے کہ خیر خواہانہ کوششوں کے با وُجود وہ شوہر کو اپنے بچوں کے باپ کے سوا کوئی درجہ ہیں دے سکی۔

آخر تک اس کا ذہن اپنے خواب والے معصوم صلّو کے تعلق ہی سے تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ ناول کے اختتام پر خیال کی سُوئی بے کَسی اور اشک باری کے عالم میں ناظم کی طرف جھکتی بھی ہے تو یہ تناؤ میں کسی کمی یا تبدیلی کا عندیہ نہیں دیتی۔

واضح رہے کہ ناظم کی طرح صفدر بھی طرح اسیرئِ زنداں کا قائل نہیں رہا تھا، مگر ذہنی سطح پر اُس کا معاملہ آدرش شکنی کی انتہا کو پہنچ گیا تھا جہاں سے انحطاطِ ذات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ البتہ ناظم جان بخشی کی مشروطیت پر اکتفا کر کے بھی اُس آئیڈئیل انسان کے منصب پر بَہ حال رہتا ہے جو علیٰ الاعلان  بر سرِ پیکار بھی نہیں ہوتا، مگر عام زندگی کے اندر اصولِ حق کو تسلیم کر کے چلتا ہے۔

اس کردار کے حوالے سے یہ رائے بھی معنی خیز ہے کہ اس دنیا کا آدرشی انسان جبر کے آگے گھٹنے بھی ٹیک سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ مکمل طور پر منصور حلاج کی مثال پیش کر سکے۔ (١٢) بہتر دنیا کی تشکیل کے لیے مزاحمت، اذیت اور ہلاکت کارِ ثواب سہی مگر زوالِ عمر یا انتہائے جبر کی منزل پر انسان کی ارادی قوت اور جسمانی برداشت کے بیچ تفاوت کا پیدا ہونا یا حالات کے طلاطم کے سامنے انسان کا بے بس ہو جانا بھی ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

خود خدیجہ مستور نے اس حقیقت کو ہیرو کے حوالے سے تو قبول کیا ہے مگر ہیروئن  اس حقیقت کے سامنے سپر نہیں ڈالتی اور انسان اور زمین کی تبدیلی پر مُصر رہتی ہے۔ جیلانی کامران نے ناول کی آب و ہوا میں اس خوب صورت رویے کے بے حد کم زور ہونے، مگر برابر موجود ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس ناول کے ذریعے صرف ایک کہانی کہنے والی خاتون ہی ہم کلام نہیں ہوئی، بَل کہ وہ بے شمار مائیں اور بہنیں بھی ہم کلام ہوئی ہیں جو گھروں کے اندر ایک بہتر دنیا کا خواب دیکھتی ہیں۔ (١٣)

خیال رہے کہ اس طرح کی آدرشی عورتوں کے بر عکس آدرشی مرد کی دنیا محض گھروں کے اندر کی دُنیا ہی نہیں ہوتی، باہر کی دُنیا بھی ہوتی ہے جس میں اسے اپنے خواب کو تصور کی سطح پر ہی سلامت نہیں رکھنا ہوتا، سماج کی جابر قوتوں سے لڑنا بھی پڑتا ہے اور ہزیمت کی صورت میں اپنے وجود سے جڑی ہوئی آدرشی عورت کے سامنے جواب دہ بھی ہونا پڑتا ہے اور اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ بھی۔

اس اعتبار سے بَہ طور ہیرو کے ناظم کی آزمائش کڑی بھی ہو جاتی ہے اور دُہری بھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدیجہ مستور کی آدرشی عورتیں یعنی ہیروئن معاشرتی نظام میں کارِ فرما جدلیات کا فہم ہی نہیں رکھتیں۔ اُن عورتیں کی آزمائش اور احتجاج کا اپنا ایک دائرہ ہے جو انھیں اپنی خالقہ کی فکر اور آرزو سے وابستہ رکھتا ہے مگر یہی چیز انھیں dialogic interaction کی اُس منزل پر  نہیں پہنچنے دیتی جہاں مصنف اور کردار کی ذہنی دُنیا  ممزوج و منقلب ہو کر ایک ہو جاتی ہے یعنی جہاں مصنف کے سماجیاتی و جمالیاتی رد عمل سے کردار device کی سطح سے اوپر اٹھ کر I-THOU کے تشکیلی رابطے کو سمجھنے کی سعی کرتا ہے اور ناول میں معنی یابی کا عمل انجام دیتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ خدیجہ مستور کے دونوں ناولوں کی ہیروئنیں مکمل و مَثبت مرد کی تمنا پر قائم رہتی ہیں اور ایک مثالی و اُلوہی دنیا کا خواب آنکھوں میں بسائے رہتی ہیں۔ مسلسل استحصال اور بحران کی زَد پر رہنے کے با وُجود وہ اپنی ذات کے مقامِ احسن سے انحراف نہیں کرتیں اور تفریح یا استعمال کی چیز بننے پر راضی نہیں ہوتیں، مگر ہیرو ڈَگ مگا جاتے ہیں اور اس پایے کی عظمت تو در کنار، ہیروئنوں جیسے ضبطِ نفس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:

آنگن کی عالیہ اور زمین کی ساجدہ اپنے اپنے ماحول پر جس طرح dominate کرتی ہیں، کہیں خدیجہ کی اپنی شخصیت تو  ہیں؟ لیکن میرے خیال میں اپنی شخصیت سے بھی کہیں زیادہ یہ خدیجہ کی عورت کو آبرو مند دیکھنے کی لا شعوری خواہش ہے جو عالیہ اور ساجدہ میں مجسم ہو جاتی ہے۔ (١٤)

اس تجسیم میں خدیجہ مستور کی شخصیت یا خواہش شعوری طور پر کارِ فرما رہی ہو، یا غیر شعوری طور پر، اِس کا تعلق مصنف کی ذہنی دنیا سے ہے۔

کردار کی ذہنی دنیا کا مسئلہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے جو اصل مسئلہ ہے اور اِسے فطری انداز میں، یعنی dialogic relationship کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو خدیجہ مستور کی ہیروئنوں کا ذہنی قضیہ ہیروئنوں سے زیادہ اُن کا اپنا ذہنی قضیہ ہے جو عورت کے وجودی تحفظ اور انائے ہستی سے عبارت ہے جس کے تحت وہ مرد کی ذات میں محبت و تحرک، عُلُوِیّت و استقامت اور آدرش و اخلاق کی یک جائی چاہتی ہے۔

افسوس کہ یہ یک جائی دونوں ناولوں کے مرد کرداروں میں نا پید رہتی ہے جو عالیہ اور ساجدہ کی زندگی میں ہیرو کے طور پر آتے ہیں۔

حوالہ جات

(۱) بَہ حوالہ فتح محمد ملک، آنگن ایک سیاسی حوالہ: تحسین و تردید، اثبات پبلی کیشنز، راول پنڈی، فروری١٩٨٤ء ٤٧ تا ٤٩)

(۲) ڈاکٹر محمد اسلم آزاد، خدیجہ مستور، اردو ناول آزادی کے بعد سیمانت پرکاش، دریا گنج، نئی دہلی ١٩٩٠ء ص ٢٢١

(۳) ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی، ناول نگار خدیجہ مستور: بیسویں صدی میں اردو ادب، اردر اکیڈمی سندھ، کراچی۔ ١٩٨٨ء ص ١٠٧

(۴) ڈاکٹراحسن فاروقی، آنگن پر ایک نظر فنون، لاہور، خدیجہ مستور نمبر۔ جنوری-فروری ١٩٨٤ء ص ۸۸

(۵) ڈاکٹر اسلم فرخی، آنگن کی دنیا، فنون، لاہور، خدیجہ مستور نمبر، جنوری-فروری ١٩٨٤ء ص ١١٢