جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں

Atif Aleem
محمد عاطف علیم

جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں

از، محمد عاطف علیم

میں ایک پاکستانی ہوں__ ایک جذباتی پاکستانی__ اور اپنی اس شناخت کو تمام تر تحفظات کے ساتھ بَہ سر و چشم تسلیم کرتا ہوں۔

لیکن اس کے ساتھ ہی میں ایک پنجابی بھی تو ہوں اور یہی میری اوّلین شناخت ہے کیوں کہ پنجابیت کی قوت میرے تلووں تلے مٹی کے لمس کا احساس جگائے رکھتی ہے۔

میری پنجابی شناخت میرے لیے بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ یہ میری یہ شناخت مجھے forgetfulness کے عذاب کا مقابلہ  کرنے کے قابل بناتی ہے، اور اس کی وجہ سے شناخت کا کوئی بحران میرے شعور کو تہ و بالا کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکتا۔

اسی شناخت کی مدد سے میں حُب الوطنی کے غیر ارضی معیارات کو مسترد کر کے تاریخ کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے رکھنے میں کام یاب رہتا ہوں۔

میری یہی شناخت مجھے یاد دلائے رکھتی ہے کہ سات دھائیاں پہلے یہاں اور وہاں کے سیاست کاروں نے میرے ہرے بھرے پنجاب کو کُند چھری سے ذبح کیا تھا اور بہت سوچ اور سمجھ کر ایک جنون پرور ماحول تخلیق کیا تھا، جس کے نتیجے میں سرحد کے آر بھی اور پار بھی دس سے بیس لاکھ انسانوں کو ان کے اپنے ہی دیکھے بھالے بھائی بندوں نے سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

پھر نئے دیس میں یک رنگی کو یقینی بنانے کے لیے یہاں سے اور اس کے ردِ عمل میں وہاں سے لاکھوں خاندانوں کو اپنی مٹی سے اور اپنے اجداد کی قبروں سے جدا کر کے اجنبی سر زمینوں میں جا بسنے پر مجبور کر دیا گیا۔

میری شناخت مجھے یاد دلائے رکھتی ہے اس کل یگ کی جب ہری بھری زمینوں میں وحشت کاشت کر کے درندگی کی فصل کاٹی گئی اور مجھے یاد دلاتی ہے اس ہول ناکی کی جب صدیوں کی بقائے باہمی کی روایت پل کی پل میں دھجیوں میں بٹ گئی۔

جب بھی کیلنڈر کا صفحہ پلٹتا ہے تو اگست کا مہینہ میرے سامنے ان گنت تصویریں بکھیر دیتا ہے جنھیں موت کی سیاہی اور خون کی لالی سے پینٹ کیا گیا تھا۔ میں ان تصویروں سے نظریں چرانا چاہتا ہوں، لیکن لا حاصل کہ اب یہ البم میرے اجتماعی شعور کی امانت بن چکی ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہے گی۔

میرا جتماعی شعور اب گاہے گاہے ماضی کے سایے، میرے حال پر دراز کرتا رہے گا اور مجھے کہ میں اس پار بھی ہوں اور اس پار بھی، اپنے کل کے سجنوں اور آج کے  دشمنوں کو نیست و نا بُود کرنے کے لیے اسلحے کے انبار اکٹھا کرنے پر مجبور کرتا رہے گا۔ اس دورِ وحشت میں اپنی اپنی زندگی جیتے سیدھے سادے لوگوں کو دین اور دھرم کا واسطہ اور مالِ غنیمت کا لالچ دے کر جس طرح ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا گیا اس کی اتنے بڑے پیمانے پر کوئی اور مثال ہے تو میرے علم میں نہیں۔

جذبات کی تند آندھیوں کی زَد میں آئے ہوئے ان لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ  اور ایک دوسرے کی عورتوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا تصور کرتے ہوئے بھی کلیجہ مُنھ کو آتا ہے۔

ماجرا یہ ہوا کہ اِس طرف بھی اور اُس پار بھی ان گنت عورتوں کو بھیڑیوں کے غول سے بچانے کے لیے خود ان کے باپوں نے اور بھائیوں نے اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ان میں جانے کیسی کیسی ست بھرائیاں اور کیسی کیسی لاڈو رانیاں ہوں گی_ ایسی کہ ایک اشارے پر جان حاضر!

یہ سب کسی نہ کسی کی عزت تھیں، کسی نہ کسی کا مان تھیں اور کسی نہ کسی کا خواب تھیں کہ اگر انگلی پر لہو کی ایک بوند بھی پھوٹے تو کلیجے کٹ جائیں، لیکن جب اگیا بیتالوں کا سامنا ہوا تو انھی پیاروں نے لرزتے ہاتھوں سے ان کے پیٹ میں خنجر اور بلم کی انیاں اتار دیں۔

اور پھر جانے کتنی ایسی ہوں گی جنھوں نے اپنی آبرو بچانے کے لیے قطار در قطار کنووں میں چھلانگیں لگا دیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وہ کیسا ماحول ہو گا جب سَنت سنگھ نے محمد علی کو، اور کمال دین نے رام دین کو اور رام بابو نے معراج دین کو زمین پر لٹا کر ذبح کیا ہو گا۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مُروّت کو نوچ کر انھیں آہن پوش کر لیا ہو گا۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب کرم الٰہی نے اپنی مُنھ بولی بہن رام دلائی کو، دیال سنگھ نے اپنی مُنھ بولی ماں کنیزِ فاطمہ کو اور رام پال نے مُنھ بولی بیٹی نور بانو کو ریپ کر کے ان کی چھاتیاں کاٹ دیں۔

اسی پر بس نہیں، بَل کہ خون کے پیاسوں نے ان کے پیٹ کاٹ کر رحمِ مادر میں موجود بچوں کو بھی سنگینوں میں پرو دیا۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب ہمسایَوں نے اپنے ہاتھوں میں مٹی کے تیل کے کنِستر اور جلتی مشعلیں تھام لی ہوں گی۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب لوگ اپنی گھروں سے اٹھتے شعلوں کی لَو میں بھاگ نکلنے کا راستہ تلاشتے ہوں گے۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب لوگوں نے اپنے جنم جنم کے ہمسایَوں کو محض عقیدے کے اختلاف اور جائیداد پر قبضے کے لالچ میں ان کے وطن سے کاٹ کر بے وطن کر دیا ہو گا۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب اپنے گھروں سے نکالے جانے والے مہاجر اور شرنارتھی  کیمپوں کی پناہ میں پتا کھڑکنے پر بھی دہشت زدہ ہو جاتے ہوں گے۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب لُوٹ مار کے بعد محلے کے محلے جلا کر راکھ کر دیے گئے۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب لُٹے پٹے قافلوں اور ٹرینوں پر دھاوے بولے گئے اور یقینی بنایا گیا کہ کوئی مائی کا لال بچ کر جانے نہ پائے۔

وہ کیسا ماحول ہو گا جب لٹی پٹی کسی سکینہ کو والٹن کیمپ میں خوفِ خدا رکھنے والے رضا کاروں نے اس حال تک پہنچا دیا کہ اس کا نیم جان وجود کھول دو کے الفاظ کا ایک ہی مطلب سمجھنے پر مجبور ہو گیا اور دوسری طرف لخت لخت  بملا کور کو اس کے اپنوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو گا، یا کوئی لاجونتی اپنے دکھ سینے میں چھپائے مرجھا گئی ہو گی۔

اور وہ کیسا ماحول ہو گا کہ جب وحشت اور درندگی اس طرح بال کھول کر ناچی کہ اس خطۂِ ارض میں ہمیشہ کے لیے انسان کا انسان پر سے اعتبار اٹھ گیا۔

میں سوچتا ہوں کہ پاؤں میں چبھا کانٹا تو نکل جائے دل میں پیوست تیر کون نکالے، کسی کا جھونپڑا برباد ہو جائے تو پھر سے بن جائے، دل ڈھ جائیں تو انھیں کون اسارے؟

اور پھر محبتوں کے نقش تو وقت کے ساتھ دھندلے پڑ جاتے ہیں نفرتوں کے داغ تو پکے ہوتے ہیں، انھیں کون مٹائے؟

میں اکثر یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر جے آئی ٹی بیٹھ جاتی ہے، لیکن انسانیت کے خلاف اتنے بھیانک جرم ہوئے ان کے لیے کوئی جے آئی ٹی، کوئی انکوائری کیوں نہیں بیٹھی؟

اور میں اکثر یہ بھی سوچتا ہوں کہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون اور لاکھوں ہی عِصمتوں کا کوئی دین دار نہیں؟ سب کے سب پاک صاف اور دھلے دھالے ہیں تو ان وحشت ناک منظروں میں لال زبانیں لٹکائے، آنکھوں میں شرارے بھرے کیا کوئی اگیا بیتال تھے؟

دونوں ملکوں کی حکومتوں نے کیوں صرف اغوا شدہ عورتوں کا تبادلہ کرنے پر ہی اکتفا کیا؟ ہر بات میں لڑائی، ہر بات میں لعن طعن لیکن اس باب میں مٹی پاؤ کا رویہ کیوں؟

کیا کچھ نہیں ہو گیا لیکن دونوں طرف کسی ایک کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا، کسی کو ایک دن کی جیل نہیں کاٹنا پڑی۔ اور تو اور کسی نے کسی سے معافی تک مانگنا ضروری نہیں سمجھا اور نہ یہ معلوم کرنے کی زحمت کی گئی کہ کتنے انسان تھے جو دھرم اور عقیدے کے اختلاف پر جینے کے حق سے محروم کر دیے گئے، کتنی عِصمتیں تھیں جو عقیدے کی مقدس قربان گاہ میں بھینٹ چڑھا دی گئیں۔

انفرمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں میرے پاس دنیا جہان کا ڈیٹا موجود ہے لیکن صرف سات دھائیاں پہلے کی جانے والی پنجابیوں کی نسل کشی کے حوالے سے میرے پاس کوئی ایک بھی قابلِ اعتبار ہندسہ موجود نہیں ہے۔

میں ایک پنجابی ہوں اور زخم زخم ہوں، میرے مَن میں تھوہر کے کانٹوں کی فصل لہرا رہی ہے، میرے عقب میں ایک دہشت ناک ماضی اور میرے آگے کوئی مستقبل نہیں۔

جو خوش وقت لوگ سوختہ لاشوں اور جلے ہوئے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر جشن منانا چاہتے ہیں ضرور منائیں، لیکن انسان اور پنجابی ہونے کی حیثیت سے مجھے اتنا سا حق تو پہنچتا ہے کہ میں اپنے قتل پر کچھ دیر کے لیے آزردہ ہو لُوں۔

ویسے by the way، کوئی سوجھوان مجھے یہ تو بتائے … خیر، چھوڑو مٹی پاؤ، کون کس سے کیا پوچھے کہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا، یعنی اللہ اللہ اور خیر سلا۔

About محمد عاطف علیم 26 Articles
محمد عاطف علیم شاعر، افسانہ اور ناول نگار ہیں۔ مشک پوری کی ملکہ اور گرد باد ان کے اب تک آنے والے ناول ہیں، جنہیں قارئین اور نقادوں میں بہت پذیرائی ملی ہے۔