حمزہ علی عباسی  کا ایک سوال اور غور طلب امور

حمزہ علی عباسی کا ایک سوال اور غور طلب امور

از، عبداللہ غازی

پچھلے دنوں ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام  میں حمزہ علی عباسی نے قادیانیوں کے حوالے سے بات کی تھی۔ درحقیقت حمزہ نے اپنے مہمانوں سے یہ سوال پوچھا تھاکہ کیا  ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کے ایک گروہ کو کہے کہ وہ کافر ہے؟  پروگرام کے بعد ایک وضاحتی کلپ میں حمزہ  نے کہا کہ ان کے سوال کا مقصد قادیانیوں کے حقوق کی بات کرنا تھا کہ اگر وہ غیرمسلم ہیں تو کیا ان کے کچھ حقوق ہیں یا نہیں؟ اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمے ان کے کچھ حقوق ادا کرنا لازم ہے یا نہیں؟

حمزہ علی عباسی اپنی اداکاری کی وجہ سے پچھلے عرصے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ ان کے ٹویٹس اور فیس بک سٹیٹس بھی عوام میں بے حد مقبول ہیں۔  ان کی مقبولیت کو دیکھ کر رمضان المبارک کا ایک پروگرام ان کے سپرد کیا گیا۔ اسی پروگرام میں  حمزہ علی عباسی سے کہا گیا تھا کہ وہ قادیانیوں کے حوالے  بات کریں۔ حمزہ نے اپنے مہمانوں سے یہ سوال پوچھا اور  انہوں نے اپنے اپنے مطابق اس کا جواب بھی دیا۔
اس سوال و جواب پر عوامی ردِعمل سامنے آیا۔کچھ لوگوں نے حمزہ کو اس کی ہمت پر  داد دی ۔ دوسری طرف ایک بڑی تعداد میں عوام نے حمزہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پیمرا کو شکایات موصول ہوئیں اور نتیجتا ًحمزہ کے پروگرام پر پابندی عائد کردی گئی ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سوال وجواب میں آخر ایسا کیا تھا جس کی وجہ سے حمزہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا؟  اگر غور کیا جائے  تومعلوم ہوتا ہے کہ  حمزہ کا یہ سوال  موقع سے مناسبت نہیں رکھتا تھا ۔ اسی وجہ سے حمزہ کو سخت عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ رمضان المبارک  کے پروگرام اور اس سوال میں کوئی مناسبت  نہیں  تھی۔ رمضان المبارک کے پروگراموں کا مقصد عوام الناس کو رمضان کی اہمیت اور فضیلت سے آگاہ کرنا  ،اورروزے ، تراویح، زکوٰۃ، لیلۃ القدر اور  اعتکاف وغیرہ کے مسائل بتانا ہے۔ اس پروگرام میں قادیانیوں کے حوالے سے سوال کرنا، بے موقع اور غلط تھا۔
دوسری بات یہ کہ حمزہ نے سوال کے بعد مہمانوں سے یہ کہا کہ ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ اگر بالفرض اس معاملے کو زیرِ بحث لانا بھی تھا تو بھی یہ معاملہ کوئی ایسا سرسر ی نوعیت کا نہیں  تھا کہ دو منٹ میں علمائے کرام سے کہا جائے کہ ہاں یا ناں میں جواب دو، اور یہ معاملہ حل ہوجائے۔ یہ مسئلہ تو تفصیلی گفتگو کا مقتضی ہے جو ۱۹۷۴ میں اسمبلی کے فلور پر مسلمان علمائے کرام اور قادیانی مذہبی رہنما  کی موجودگی میں   ہوچکی تھی اور طرفین سے دلائل دینے اور سننے کے بعد قادیانیوں کو کافر قرار دیا ہے۔جب اس معاملے پر تفصیلی گفتگو ہونے اور طرفین کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ  کیا گیا تھا تو اب اس معاملے پر  مختصر دورانیے کے  سوال کا درست نہیں تھا۔
تیسری بات یہ کہ یہ علمی بحث ہے ۔ اور علمی بحث کو رمضان کے ایک عوامی پروگرام  میں چھیڑنا  درست نہیں تھا ۔یہ عوامی مسئلہ نہیں کہ ہر شخص اپنی رائے دے  کہ کون مسلمان  ہے اور کون کافر ہے؟اگرخالص علمی مباحث میں عوام الناس خود  ہی کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں تو اپنی لاعلمی کی وجہ سے معاملے کو سلجھانے کے بجائے الجھا دیں گے۔او ر    فتنہ فساد  برپا ہوگا۔

چوتھی با ت یہ  کہ حمزہ علی عباسی نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس معاملے میں جوانداز اختیار کیا، وہ بھی درست نہ تھا۔ (ان کے وضاحتی کلپ کے مطابق وہ قادیانیوں کے حقوق کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔) اگرا نہوں نے قادیانیوں یا اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بات کرنی تھی تو وہ واضح انداز میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرتے اور اس گفتگو کا دورانیہ بھی زیادہ رکھا جاتا۔جبکہ ہوا یہ کہ حمزہ نے(قادیانیوں کے حقوق کے متعلق  بظاہر)  ایک مبہم سا سوال کیا  اور پھر اس کا جواب بھی ہاں یا ناں میں دینے کا کہا ۔جس کی وجہ سے عوام کو  یہ لگا کہ اسمبلی نے  ۱۹۷۴ میں جو معاملہ سب کی موجودگی میں  طے کردیا تھا، اسے ایک  مختصر دورانیے کے سوال کے ذریعے مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حمزہ کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

پانچوں بات یہ کہ   حمزہ کو سوال کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا کہ کیا  اس موقع پر یہ سوال کرنے سے یہ معاملہ حل ہوجائے گا ؟ خصوصاً جب کہ یہ معاملہ اسمبلی نےبہت تفصیلی بحث کے بعد  طے کیا تھا۔یقیناً یہ معاملہ ایک عام پروگرام میں حل نہیں ہوسکتا۔ اور بعد کے حالات نے یہ بھی ثابت کیا کہ  اس سوال میں  قادیانیوں کے حقوق کی بات بھی مناسب طور پر  نہ ہوسکی۔بلکہ معاملہ  بھی مزید الجھ گیا۔

چھٹی بات یہ کہ جس  سوال کرنے سے عوام میں فتنے کا اندیشہ ہو تو ایسے سوالات  عوامی مجالس میں پوچھنے سے گریز کرنا چاہیے۔خصوصا ًجب کوئی سوال علمی نوعیت کا ہو۔ایسے سوالات کے لیے طرفین کی موجودگی میں کسی مناسب پلیٹ فارم کا انتخاب کرنا چاہیے۔

ساتویں بات یہ کہ اگر اس سوال کرنے سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ اسمبلی نے قادیانیوں کا ایک حق( کہ انہیں مسلمان سمجھا جائے) ضائع کردیا ہے  تو پھر بھی یہ سوال پوچھنے سے پہلے حمزہ کو اس معاملے کی ساری تفصیلات  کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا۔ مطالعہ کیے بغیر انہوں نے بھی لکھی ہوئی لائنز پڑھ دیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

باقی ریاست  کے کسی کو کافر قرار دینے  کا معاملہ تو  آج سے چودہ سو سال پہلے ہی حل ہوچکا   کہ سرکاری سطح پر کسی کو کافر قرار دیا جاسکتا ہے۔   حضورﷺ کے زمانے میں  ہی منکرینِ ختمِ نبوت کو خود نبی اکرم ﷺ نے کافر قرار دیا تھا ۔ اور یہی فیصلہ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی  ہوا تھا۔ تو جب  اس زمانے میں سرکاری سطح پر ان کے غیر مسلم ہونے کا تعین ہوسکتا ہے تو آج کے زمانے میں کیوں نہیں؟

مزید یہ کہ قادیانی خود کو مسلمان کہلوانا چاہتے ہیں تو اس کا فیصلہ کسی اور سے نہیں بلکہ  مسلمانوں ہی  کی الہامی کتاب قرآن مجید سے کروا یا جاسکتا ہے۔ سورت الاحزاب کی آیت نمبر ۴۰ میں واضح طور پر حضر ت محمد ﷺ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے ۔اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات اور احادیث سے عقیدہ ِ ختمِ نبوت ثابت ہوتا ہے۔قادیانی حضرات قرآن کی ان آیت  اور احادیث کے یا تو منکر ہیں،یا  ان کی ایسی باطل تاویلات کرتے ہیں جن کو حضرت محمدﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے اپنے طرزِ عمل سےاپنے زمانے میں ہی رد کر دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں، ختمِ نبوت پر ایمان رکھنا دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ اگر کوئی دین ِ اسلام کی کسی  بنیادی بات کا ہی منکر ہو تو پھر وہ کیسے مسلمان ہوسکتا ہے؟اس تفصیل کے بعد یہ عرض ہے کہ اسمبلی نے جو فیصلہ کیا وہ قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں کیا تھا۔ اور یہ فیصلہ بھی فریقِ مخالف کے رہنماؤں کی موجودگی میں بحث اور دلائل کے بعد دیا گیا تھا۔لہذا وہ فیصلہ غیرجانبدار اور مدلل تھا۔
اور ریاست علمائے کرام اور فریق مخالف کی موجودگی میں دلائل کی روشنی میں کسی کو کافر قرار دینے   کاحق بھی رکھتی ہے کیونکہ   بہت سے معاملات میں غیر مسلموں کے لیے الگ سے قوانین موجود ہیں، جن میں انہی کے لیے سہولت ہے۔ ان کے حقوق  مناسب اندا ز سے اد ا کرنے کے لیے ان کے حوالے سے  پہلے یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ مثلاً غیر مسلموں کے لیے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں۔ ان سے زکوٰۃ وصول نہیں  کی جاتی ۔ ان سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو ڈھائی فیصد سے کم بھی ہوسکتا ہے اور مکمل معاف بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کاالگ کوٹہ مقرر ہے۔ مذہبی رسومات کے دنوں میں انہیں تعطیلات دی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔اگر کفر اور اسلام کا تعین نہ ہو تو یہ معاملات غیر مسلموں کو بھی مشکل میں ڈال دیں گے اور ریاست کو بھی۔ لہذا اسمبلی اس بات کا تعین کرسکتی ہے کہ قانون کی نظر میں   کون مسلمان ہے اور کون نہیں؟

یہ تو سوال کے مختلف پہلو ہوگئے۔ دوسری بات جو سب سے اہم اور قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ کیا قادیانیوں کے بحیثیت غیر مسلم کوئی حقوق قرآن و حدیث میں مقرر ہیں یا نہیں؟  یاد رکھیے کہ قادیانی بھی اس ملک کی غیر مسلم اقلیت ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو واضح حقوق مقرر کیے ہیں اور ان میں کمی کرنے والے کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوسکتا۔اگر مسلمان ان کے وہ حقوق جو اسلام نے مقرر کیے ہیں ، انہیں نہیں دے رہے یا ان میں کوئی کوتاہی کر رہے ہیں تو یہ بات یقینا غلط ہے۔ ریاستی سطح پر تو یہ  کوشش کی جاتی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے حقوق دیے جائیں ۔ اور ان سے کوئی زیادتی نہ ہو، غیر مسلموں کا ملازمتوں میں الگ کوٹہ بھی رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ بہت سے غیر مسلم ہمارے ملک میں اہم عہدوں پر اپنی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ محنت کا میدا ن کھلا ہے۔ جو جتنی محنت کرتا ہے وہ اتنا آگے بڑھتا جاتا ہے۔لیکن انفرادی سطح پر  ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہیاں ضرور ہوتی ہیں۔سب سے پہلےتو ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سے ان کے حقوق میں کوتاہی ہوتی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ مسلمانوں نے جہاں جہاں صحیح انداز سے حکومت کی ہے ۔ وہاں کی غیر مسلم رعایا کو کبھی مسلمانوں کی طرف سے ظلم کی شکایت نہیں رہی۔بلکہ رعایا کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ مسلمان ہی ان پر حکومت کریں۔حضرت علیؓ اور یہودی کا ایک زرہ پر ہونے والا مقدمہ اٹھا کر دیکھیں تو انصاف کا پتا چلتا ہے۔ اسی انصاف کو دیکھ کر یہودی مسلمان ہوگیا تھا۔ یہ سب اسی وجہ سے تھا کہ ان کے حقوق مکمل طور پر ادا کیا جاتے تھے۔

دوسری بات یہ کہ مسلمان عوام بے چارے دین سے ناواقف ہیں۔ اہلِ علم حضرات کی  یہ ذمہ داری ہے کہ وہ درست انداز سے عوام کی رہنمائی کریں۔ انہیں ایجوکیٹ کریں کہ عقائد کے فرق کی وجہ سے بھلے وہ مسلمان نہ ہوں لیکن انسان ہونے کے ناطے ان غیر مسلموں کے بھی حقوق  ہیں اور یہ حقوق خود اسلام نے انہیں دیے ہیں۔مزید یہ کہ میڈیا  کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مثبت انداز میں لوگوں کی رہنمائی کرے۔ ایسے پروگرام نشر کیے جائیں جن میں قرآن و سنت کی روشنی میں رواداری اورغیر مسلموں کے حقوق واضح کیے جائیں۔

اختلافی معاملات کے بجائے اگر رمضان کے پروگراموں میں رواداری اور  غیر مسلموں کے حقوق پر معتدل اور مستند اسکالرز سے تفصیلی گفتگو کروائی جائے اورخصوصاً یہ گفتگو قرآ ن و حدیث کے حوالوں کے ساتھ ہو تو یہ زیادہ موثر ثابت ہوگی۔
خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں سمجھ سکیں۔

1 Comment

Comments are closed.