ایملی ڈکنسن کی نظمیں (3)

ایمیلی ڈکنسن کی نظمیں
Emily Dickinson, base illustration Saatchi Art

ایملی ڈکنسن کی نظمیں (3)

ترجمہ از، عرشی یاسین

1

اس سے پہلے کہ تالابوں میں برف جمے

اس سے پہلے کہ برف پر اٹھکیلیاں کرنے والے نکل پڑیں

یا کوئی چیک پوسٹ شام ڈھلتے ہی برف سے گدلی نظر آئے

اس سے پہلے کہ سب کھیت معدوم ہو جائیں

اور اس کرسمس کا درخت سجے

کاش کوئی کرشمہ حیرت دکھائے

اور رُو نما ہو جائے

کہ کسی دن اسی موسم گرما میں

ہم خداوند کے لباس کا پلو چھو لیں

یہ منظر

بس پُل کی دوری پر ہے

یہ گنگناتا ہے

ہم کلام ہوتا ہے

جب میرے پاس کوئی نہیں ہوتا

کر لوں میں زیبِ تن وہ لباس

جو میرے آنسوؤں میں تر رہتا ہے

2

میں نے اپنے گلشن تک کے گوش نہ گزارا

ایسا نہ ہو کہ یہ میرا ارادہ پسپا کر دے

نہ ہمت ہوئی کہ اُس شہد کی مکھی کو ہی خبر کر دوں

نہ ہی راستوں میں اُس کا نام لوں

کہ دکانیں مجھے گھورنے لگیں گی

کہ اتنی شرمیلی اور سادہ لوح لڑکی

رواں ہو گی جانبِ موت

پہاڑوں کے دامن کو بھی علم نہ ہو

جہاں میں ٹہلا کرتی تھی

نہ ہی محبت کرنے والے درختوں کو

 کہ کسی روز جب میں چل بسوں گی

نہ ہی کھانے کی میز پر ذِکر کروں

کسی صورت بے پروائی نہ ہو

 اشارہ پہیلی میں ہی رہ جائے گا

 کہ آج کوئی گزر جائے گا

3

اگر نہ لا پائی گلاب

کسی تہوار پر

سمجھ لینا

 گلاب کِھلنے سے پہلے

میرا بُلاوا آ گیا ہے

 نہ لے پائی وہ سب نام

 جنھیں ادھ کھلی کلیاں یاد کرتی ہیں

تو سمجھ لینا

میرے سَرسَراتے لبوں کو

موت کے ہاتھوں نے جکڑ لیا ہے