پنڈی کے رال ٹپکاتے مجرم سیاست دان

Waris Raza

پنڈی کے رال ٹپکاتے مجرم سیاست دان

از، وارث رضا 

تاریخ کے عجب رنگ ڈھنگ اور انداز ہوتے ہیں، اب دیکھیے جو ملک “پاکستان” جمہوری جد و جہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا، اس میں تاجِ برطانیہ کے نمک خوار نوابین، جاگیر نواز غلام جاگیرداروں، سرداروں اور خانوں کی حکومتی سطح پرایسی آمیزش کی گئی کہ قائد اعظم کو ابدی نیند سلانے کی سازش کے بعد”بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے”کے مصداق برطانیہ کے نوازے نواب لیاقت علی خان کی لاٹری نکل آئی اور انہیں محمد علی جناح کے بعد بَہ ظاہر بہت ہی جمہوری انداز سے عنانِ حکومت تھما دی گئی تا کہ لیاقت علی خان آگے چل کے برطانوی سند یافتہ نوکرِ شاہی اور برطانوی غلام فوج کے ہاتھوں کھلونا بنیں اور برطانیہ نواز نوکرِ شاہی اور غلام فوج آخرِ کار ملکی امور میں قومی سلامتی کے فرسودہ نعروں تلے مداخلت کار ہو کر نظامِ حکومت اپنے ہاتھوں میں لے کر عوام پر قومی سلامتی کا جنون شامل کر کے حکومت کرتے رہیں۔

جو ہوا بھی اور اب تک چلتا چلا جا رہا ہے اور ہم عوام برطانیہ نواز غلام فوج اور نوکرِ شاہی کے اَردلی بنا دیے گئے ہیں بَل کہ فوجی اشرافیہ عوام کو 72سالوں سے بے وقوف بنا رہی ہے اور اپنی پسند کے فَرموں کے سیاست دان بھی بنا لیے گئے ہیں جو مختلف بھیس بدل کر عوامی نعروں کی گھن گرج کے ساتھ فوجی اشرافیہ کے مفتوح و قابض عوام کو جھانسا دینے کے ماہرانہ طریقوں سے واقف بھی کر دیے گئے ہیں اور ان فوجی اشرافیہ غلام سیاست دانوں کو عوام کی امید کا نقلی پوپ دینے میں لومڑی مانند چالاک بھی بنا دیا گیا ہے۔

مذکورہ تاریخی حقائق کی بنیاد آج کا تھوپا ہوا “فوجی جمہری اندازِ حکومت” ہے جس کو ” توسیع دینے کوشش میں تمام “فوجی برانڈ” سیاسی جماعتیں عوام کی جمہوری آزادی کے ساتھ ایک جرم اور کھلواڑ کرنے جا رہی ہیں۔

فوجی جنرل اکبر سے جمہوری نظام میں مداخلت کی اس کوشش کو با ضابطہ کرنے میں جنرل ایوب خان کے ڈیڈی بولتے جاگیر دار بچے ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے اہم کردار ہے جس نے فوجی اشرافیہ کی ایماء پر ملک کے مشرقی حصے کو جدا کروانے میں اپنا سیاسی حصہ ڈالا جس کے طفیل جنرل ایوب کے ڈیڈی بولتے بچے بھٹو کو اقتدار دلوایا گیا۔

فوجی جنرل کے اس ڈیڈی بول بچے نے فوجی اشرافیہ کی ایماء پر تمام روش خیال سیاسی ورکروں کو خود سے جدا کر کے فوجی اشرافیائی غلام مذہبی سیاست دانوں کو خوش کرنے اور فوجی اشرافیائی ہدایت پر چلتے ہوئے، سب سے ہہلے 1973 کے آئین سے جمہوری پاکستان کے قائد اعظم کے خواب کو فوجی اشرافیائی خواہش پر قربان کر کے اس ملک کو “اسلامی جمہوری ریاست” بنایا اور عوام کے مستقبل میں اندھیرے داخل کرنے کی غض سے “ریاست کا مذہب” طے کر دیا۔ پھر ہتھیار ڈالنے والے جنرلوں کو سزا دینے کے بَہ جائے ان کو واپس لائے اور انہیں نوازا، جس کی عملی شکل آج کی حکومت میں جنل عمر کے بیٹے اسد عمر موجود ہیں۔

پھر بھٹو ہی نے جاگیرداری کو تحفظ دینے کی غرض سے آئین کی شق نمبر دو رکھی جو ہنوز ہے جس کی وجہ سے مذہبی طور سے جاگیر داری کو اب تک تحفظ دیا جا رہا ہے۔

تاریخ کا پہیہ اپنے انداز سے چلتا ہے لہٰذا جو فوجی اشرافیہ بھٹو عالمی سوشلزم کی لہر کو روکنے کے لیے لائی اسی فوجی اشرافیہ نے عالمی دلال امریکہ کی آشیرباد سے بھٹو کو پھانسی دلوائی جس میں فوجی اشرافیہ کی معاون و مدد گار اعلیٰ عدالتی جج بھی ہوئے۔

فوجی آمر جنرل ضیاء نے بھٹو کی پھانسی بعد کراچی کے “جمہوری کردار” کو ختم کرنے جو “جنرل ایوب کے اقتدار کے خاتمے کا جواز بنا تھا”، کراچی کے جمہوری کردار کے خاتمے خاطر کراچی سے لسانیت کی رال ٹپکاتے الطاف حسین اور ساتھیوں ذریعے ایم کیو ایم بنوائی اور سندھ کے خریدے ہوئے فوجی قوم پرست طوطوں کی ملی بھگت سے پُر امن اور آشتی کی سر زمین “سندھ” میں لسانیت کا بیج بویا جو ہنوز کسی نہ کسی شکل میں فوجی اشرافیہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

اسی طرح فوجی جنرل ضیاء نے پنجاب سے نواز شریف کے سرمایہ دار خاندان کو پنجاب میں جاگ پنجابی کا نعرہ لگوا کر بھٹو کی مقبولیت کو ختم کرنے کا ٹھیکا دیا اور نواز شریف کو ہر ممکن فوجی اشرافیائی مدد فراہم کی گئی۔

جنرل ضیاء کے خاتمے میں امریکی مدد کرنے والے جنرل کو فوج کی کمان دی گئی اور جنرل اسلم بیگ مرزا نے پی پی کے خلاف نواز شریف کی مدد سے آئی جے آئی بنوائی جس میں فوجی غلام تمام مذہبی، لسانی اور سیاسی اکائیوں کو جمع کر کے “عوام کی رائے” کو روندا گیا۔

سیاسی چپقلش اس وقت کسی حد تک کم ہوئی جب فوجی اشرافیائی نا راض بچے نواز شریف کے اقتدار پر جنرل مشرف کو زبر دستی چند جنرلوں نے حکومت پر قابض کروایا۔

میثاقِ جمہوریت میں پی پی اور ن لیگ نے سیاسی نظام کو مشترکہ چلانے پر جب حامی بھری تو فوجی اشرافیہ کے جنرل پرویز مشرف نے آصف علی زرداری کو اقتدار کا لالچ دے کر بے نظیر بھٹو کا قتل کروایا۔ جس کا تحفہ پی پی کو 2008 کے انتخابات کی صورت میں حکومت دے کر ادا کیا گیا۔ اور آصف زرداری اس وقت سے اب تک فوجی اشرافیہ کی مدد کسی نہ کسی صورت میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس اثناء نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی اور فوجی اشرافیہ کی خَر مستیوں کے مقابل سامنے آنے کے بَہ ظاہر قدم کو عوام میں بھر پُور پذیرائی ملی اور عوام میں نواز شریف “فوجی اشرافیہ” کی عوام دشمن پالیسیوں سے نجات دلانے کا نشان قرار پائے، جس کے لیے فوجی اشرافیہ نے عمران خان کو تیار کیا اور نواز شریف کو کرپشن کے مختلف مقدمات میں سزا اور نا اہل کروا کر نواز شریف سے اپنی مخالفت کا بدلہ لیا۔

مگر اس کے با وُجُود نواز شریف ڈٹے رہنے کی ادا کاری کرتے رہے اور عوام ان پر اعتماد بھی کرتے رہے۔ لیکن جب موجودہ فوجی جنرل کی ملازمت میں توسیع کا مسئلہ اعلیٰ عدالتی حکم سے وقتی طور پر روک دیا گیا تو نواز شریف کی مسلسل خاموشی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی تھی۔

مگر فوجی جنرل کی توسیع کے قانون کو پارلیمان میں لے جانے کے معاملے پر ن لیگ کی غیر مشروط حمایت اور پی پی کے تعاون سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ پنڈی کے گملوں میں پلنے والے یہ جاگیردار، سرمایہ دار، سردار، مذہبی جماعتیں اورخان اب بھی اقتدار کی رال ٹپکاتے پنڈی کی کمین گاہوں میں دبک بیٹھے ہیں اور عوام کو یک و تنہا کر کے تاریخ کے مجرم بن چکے ہیں۔

اس مرحلے پر پاکستان کی امید بھری عوام جو نواز شریف کے فوجی اشرافیائی مخالف بیانیے کو اپنے حقوق کی سمت ایک بہتر آغاز کے طور پر دیکھ رہی تھی اب کیا ن لیگ کے اکابرین اس فیصلے پر عوام کو مطمئن کر پائیں گے یا کہ  عوام دو بارہ ن لیگ کے مؤقف پر یقین کر لے گی؟

کیا آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی میں ن لیگ کی غیر مشروط حمایت کے فیصلے کو عوام آسانی سے قبول کرلیں گے۔

اس سوال کے جواب نہ ملنے سے ن لیگ کو سیاسی طور سے نقصانات کا سامنا رہے گا، جس کے لیے ن لیگ تیار رہے وگرنہ سیاسی طور سے ن لیگ کی سیاست ایک بڑے بحران کا پھر سے شکار ہونے جا رہی ہے۔

اس صورت حال کے سبب اب عوام بھی سیاسی شعور کے ساتھ لال پھریرا لہرانے کے لیے تگ و دو میں مصروف عمل ہو گی تا کہ فوجی نرسری کی ان تمام جماعتوں سے چھٹکارا پا سکیں اور سوشلزم کے نظام تحت اپنے بچوں کے مستقبل کو ان فوجی غلام سیاست دانوں سے بچا سکیں۔

اب فیصلہ نہتی اور معاشی چکی میں پستی عوام ہی کرے گی۔ جو روک سکو تو روک لو کے مصداق، عوام کے الاؤ کو روکنا توسیع پسند فوجی اشرافیہ اور ان کی غلام سیاسی جماعتوں کے لیے اب نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔

سب ٹوٹ پڑیں گی زنجیریں

اب زندانوں کی خیر نہیں

About وارث رضا 36 Articles
وارث رضا کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ ملک میں چلنے والی مختلف زمینی سیاسی و صحافتی تحریکوں میں توانا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا ان کی جد وجہد کا مِحور رہا ہے۔